گناہوں سے توبہ،قلب و روح کی پاکیزگی اور اصلاح
نفس ضروری ہے۔
پہلی شرط:
حضرت
امام جعفر صادق (ع) کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی
اپنے رب سے دنیا وآخرت کی کوئی حاجت طلب کرے تو پہلے خدا کی حمد و
ثناء اور مدح کرے پیغمبر اور انکی آل (ع) پر درود بھجے،پھر گناہوں
کا اعتراف کرے اور پھر سوال کرے۔(سفینة البحار:ج۱ص۴۴۹)
دوسری شرط:
زندگی
کو ظاہری اور باطنی لحاظ سے پاکیزہ بنائے غصبی مال اور غذا سے
اجتناب کرے۔نیز پیغمبر نے فرمایا کہ جوچاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول
ہو وہ اپنی غذا اور کسب کو پاکیذہ بنائے۔(سفینة البحار:ج۱ص۴۴۸)
تیسری شرط: فتنہ اور فساد کا مقابلہ کرنے اور حق کی
دعوت دینے میں کوتاہی نہ کرے کیونکہ جو امربالمعروف و نہی عن
المنکر ترک کر دیتے ہیں ان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔نیز حضرت امیر
الموٴمنین (ع) کا فرمان ہے کہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کرتے
رہنا اگر ایسا نہ ہوا تو خدا تم پر برے لوگوں کو مسلط کرے گا اور
پھر تمہارے اچھے لوگ دعا بھی کریں گے تو وہ قبول نہ ہو گی۔
چوتھی شرط: خدا کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان
کو وفا کرنا بھی دعا کی قبولیت کی شرائط میں سے ہے۔جو خدا سے کیے
ہوئے عہد کو وفا نہیں کرتا اسے اپنی دعاوٴں کی قبولیت کی توقع نہیں
کرنی چاہیے۔کسی نے حضرت امیر الموٴمنین (ع) کی خدمت میں دعا قبول
نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے دل ودماغ نے ان چیزوں
میں خیانت کی ہے جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہو پاتی۔
۱۔
تم نے خدا کو پہچان کر اس کا حق ادا نہیں کیا اس لئے تمہاری معرفت
نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ۔
۲۔
اللہ کے فرستادہ رسول ﷺپر تمہارا ایمان ہے مگر اس کی سنت کے مخالف
ہو۔
۳۔
تم قرآن کو پڑھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے ،زبانی کہتے ہو ہم نے
سنا ،اطاعت کی مگر عملا مخالفت کرتے ہو۔
۴۔
تم کہتے ہو کہ ہم عذاب خدا سے ڈرتے ہیں اسکے باوجود اللہ کی
نافرمانی کی طرف قدم بڑھاتے ہو، تو پھر خوف کہاں؟۔
۵۔
تم کہتے ہو جنت کے شائق ہو لیکن کام ایسے کرتے ہو جو جنت سے دور لے
جاتے ہیں پھر رغبت و شوق کیسا؟۔
۶۔
خدا کی نعمتیں کھاتے ہو مگر شکر کا حق ادا نہیں کرتے۔
۷۔
اللہ نے تمہیں حکم دیا کہ شیطان سے دشمنی رکھو،فرمایاشیطان تمہارا
دشمن ہے اسے دشمن سمجھو(القرآن)اور تم اس سے دوستی کرتے ہو۔
۸۔
تم نے لوگوں کے عیوب کو نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب پس
پشت ڈالتے ہو ان حالات میں کس طرح امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا
قبول ہو جبکہ قبولیت کے دروازے خود ہی بند کر دیتے ہو۔
۹۔
تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرو۔ اپنے اعمال کی اصلاح کرو،
امربالمعروف و نہی عن المنکر کروتاکہ تمہاری دعا قبول ہوسکے۔(سفینة
البحار:ج۱ص۴۴۸،۴۴۹)
پانچویں شرط: عمل وکوشش ساتھ ساتھ ہو جیسا کہ معصوم (ع)
کا فرمان ہے۔
الداعی بلا عمل کالرامی بلا وتر۔
عمل کے بغیر دعا کرنے والا ایسا ہے جیسے کمان کے
بغیر تیر چلانے والا۔
دعا میں خلوص،دنیا سے دوری، اللہ کی طرف مخلصانہ
توجہ، قوت کے مطابق عمل اور رجوع الی اللہ ضروری ہے۔
دعا کے بارے میں حضرت امام زین العابدین کا فرمان
ہے :
یا اللہ اگر تیرا حکم نہ ہوتا کہ مجھ سے مانگو،دعا
کرو تو میں کبھی بھی دعا نہ کرت بلکہ اسے تیری مشیت کے خلاف
گردانتا۔میں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ یہ تیرے نزدیک پسندیدہ اور
محبوب امر ہے۔
روایت میں ہے کہ جب نمازی نماز کے فورا بعد دعا
مانگے بغیر چلا جاتا ہے تو اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ آپ نے
دیکھا ہے کہ میرا یہ بندہ مجھ سے بے نیاز ہے اور اس کو میری احتیاج
ہی نہیں۔
پیغمبر اکرم کا فرمان ہے:الدعاء سلاح الموٴمن
دعا موٴمن کا ہتھیار ہے۔
ادعیہ اور دعا کی مشہور کتاب مفاتیح الجنان،جناب
شیخ عباس قمی جیسی مقدس شخصیت کی مرتب کردہ ہے جس میں ہر کام،ہر
فرض،ہر تکلیف اور ہر مصیبت و مشکل کی خصوصی دعا موجود ہے۔جناب
الحاج صوفی محمد انور مرحوم کی دیرینہ خواہش تھی کہ مفاتیح الجنان
کی دعاوٴں کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔ دیگر شیدائیوں کا اصرار بھی
رہا ہے کہ ترجمہ ہونا چاہیے۔اس کام کی افادیت کے پیش نظر ذہنی اور
قلبی طور پر میری مکمل آمادگی بھی تھی مگر ہمہ وقت مختلف مصروفیات
کی بنا پر اس عملی جامہ پہنانے میں مسلسل تأخیر ہوتی رہی۔جناب
الحاج شیخ سعادت علی متصدی صاحب کے متواتر اصرار سے کام شروع
ہوا۔مواد کی ضخامت اور ترجمہ کی فنی باریکیوں کے تقاضے خاصے وقت
طلب تھے۔
بحمدللہ آج بروز ہفتہ
۱۸
ذی الحجہ۱۴۱۷،بمطابق۲۶
اپریل۱۹۹۷،یعنی
عید سعید(غدیر)کے مبارک دن یہ ترجمہ مکمل ہوا۔جناب حجة الاسلام
مولانا محمد علی فاضل صاحب اور جناب کاظم علی گجراتی صاحب کے خصوصی
شکریہ کے مستحق ہیں کہ جن کی سعی پیہم اور پر خلوص تعاون و ہمکاری
سے یہ اہم کام تکمیل کو پہنچا۔
دعاہے کہ خدا وند قدوس محرکین،معاونین اور ناشرین
کے اس عمل صالح کو قبول فرمائے اور ہم سب کو اس کتاب کے ،مطالب پر
تدبر اور تفکر کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام
حافظ سید ریاض حسین نجفی
حوزہ علمیہ جامعة المنتظر ماڈل ٹاوٴن لاہور
بوقت:
۱۵:۵
قبل از مغرب |