عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
”زمانہ
غیبت مین امام کے اعمال ووظائف“ پہلا عمل: امام
کے فراق اور آپ کی مظلومیت پہ غمگین رہنا، کتاب
کافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”نفس المہموم
لنا المغتم لظلمنا تسبیح“ ۱
(یعنی جو شخص ہمارے لئے رنجیدہ اور ہماری مظلومیت پہ غمگین ہو اس کی سانس
تسبیح کا ثواب رکھتی ہے
عصر غیبت میں ہماری ذمہ داریاں
”زمانہ غیبت مین امام کے اعمال ووظائف“
پہلا عمل: امام کے فراق اور آپ کی
مظلومیت پہ غمگین رہنا،
کتاب کافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”نفس
المہموم لنا المغتم لظلمنا تسبیح“ ۱ (یعنی جو شخص ہمارے لئے رنجیدہ اور
ہماری مظلومیت پہ غمگین ہو اس کی سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے)․
دوسرا عمل: امام کے ظہور اور فَرَج کا
انتظارکرتے رہنا،
کتاب ”کمال الدین“میں امام محمد تقی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے
فرمایا:
”قائم
آل محمد وہی مھدی ہیں کہ زمانہ غیبت میں جن کا انتظار اور ظہور کے وقت جن
کی اطاعت واجب ہے، وہ میرے فرزندوںمیںتیسرے فرزند ہوںگے، ۲ ․․․․․الخ“
اور امیر الموٴمنین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”افضل
العبادة الصبر و انتظار الفرج“ ۳
(سب سے افضل
عبادت ہے صبر اور ظہور کا انتظار کرتے رہنا)
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ الکافی: ج/۲ ،ص/۱۶۔
۲کمال الدین: ج/۲ ، ص/۳۷۷، حدیث/۱۔ اور
اسی کتاب سے بحار الاٴنوار میں ج/۵۱ ص/۱۵۶، حدیث/۱۔
۳ تحف العقول ص/۲۰۱۔
تیسرا عمل: امام کی جدائی اور مصیبت پہ
گریہ وزاری کرنا،
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص ظہور کا
انتظار کرتے کرتے مرجائے وہ اس شخص کی مانند ہوگا جو قائم آل محمد کے
ہمراہ ان کے خیمہ میں ہو“ ۱
(موٴلف
کتاب)میں نے اس موضوع کو بطور مفصل اپنی کتاب”مکیال المکارم “ میں دیگر
اعمال ووظائف کے اظافے کے ساتھ ذکر کیا ہے․ ۲
کتاب ”کمال الدین“میں امام صادق علیہ السلام کی حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:
خدا کی قسم تمہارا امام ایک طولانی مدت تک ضرور غیبت اختیار کرے گا، اور
تمہیں ضرور آزمائش میں مبتلا کیا جائے گا یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگے گاکہ
وہ تو مرگئے یا ہلاک ہوگئے(معاذاللہ)یا پھر کس وادی میں چلے گئے․
لیکن ان کے اوپر مومنین کی آنکھیں یقینا اشکبار رہیں گی ․ ۳
اور امام رضا علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا -:
”جو
شخص ہماری مصیبتوں کو یاد کرے اور ہمارے حق میں جو ظلم وستم روا رکھا گیا
اس پہ گریہ کرے تو وہ قیامت کے دن ہمارے درجے میں ہمارے ساتھ ہوگا ․ ۴
چوتھا عمل: سر تسلیم و رضا کو
خم کئے رہنا اور ظہور امام کے مسئلہ میں عجلت پسندی سے گریز
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۴ بحار ج/۲، ص۱۲۶، حدیث۱۸۔
۵ مکیال
المکارم ج/۲ ، ص/۱۴۱۔
۱ کمال
الدین ج/۲، ص/۳۴۷، حدیث/۳۵۔
۲ امالی
صدوق ص/۶۸، مجلس/۱۷، حدیث/۴۔اور اسی حوالے سے بحار میں ج/۴۴ ، ص۲۷۸، حدیث/۱۔
کرنا،یعنی ہم امام کے ظہور کے سلسلہ
میں ”کیوں“ اور کس لئے “وغیرہ کہنے سے پرہیز کریں اور امام علیہ السلام کی
جانب سے جو باتیں ہم تک پہنچتی ہیں ان کو عین حکمت سمجھتے ہوئے ان کی صحت
کو تسلیم کریں․
”کمال
الدین“ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے وارد ہواہے کہ آپ نے فرمایا:
میرے بعد میرے بیٹے” علی “امام ہوںگے،ان کا حکم میرا حکم ،ان کا قول میرا
قول اور ان کی اطاعت میری اطاعت ہے، ان کے ان کے فرزند”حسن “امام ہوںگے، ان
کا حکم ان کے پدر کا حکم، ان کا قول ان کے پدر کا قول اور ان کی اطاعت ان
کے پدر کی اطاعت ہے ،اتنا فرماکر آپ خاموش ہوگئے تو راوی کہتا ہے کہ میںنے
عرض کیا فرزند رسول ! حسن کے بعد کون امام ہوگا؟ یہ سن کر آپ نے شدید گریہ
کیا پھر فرمایا: حسن کے بعد ان کے فرزند قائم بالحق،منتظر،امام ہوںگے،میںنے
عرض کیا: فرزندرسول؛ انھیں”قائم“کیوں کہا گیا؟
فرمایا:اس لئے کہ اس وقت قیام کریں گے جب ان کا ذکر مردہ او ران کی امامت
کے اکثر قائل افراد ،مرتد ہوچکے․
میں نے پوچھا :اور انھین ”منتظر“ کانام کیوں دیاگیا؟جواب مین فرمایا :کیونکہ
ان کے لئے غیبت ہوگی جس کے ایام بے شمار اور اس کی مدت طولانی ہوگی ،چنانچہ
صاحبان اخلاص ان کے ذکر ویاد مذاق اڑائیں گے،وقت کی تعیین کرنے والے ان کی
غیبت کی تکذیب کریں گے ،غیبت کے مسئلہ میں عجلت پسندی سے کام لینے والے
ہلاک اور اس مسئلہ میں سر تسلیم ورضا خم کرنے والے نجات یافتہ ہوں گی․ ۱
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ کمال
الدین :ج/۲، ص/۳۷۸، حدیث/۳۔ کفایة الاثر :ص/۲۷۹، اور اسی کے حوالے سے
بحارمیں :ج/۵۱، ص/۱۵۷، حدیث /۵۔
پانچواں عمل: ہم اپنے اموال
کے ذریعہ امام علیہ السلام کے تئیں حسن سلوک کا اظہار کریں ،یعنی امام کی
خدمت میں اموال بطور ھدیہ ارسال کریں․
کافی میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
اللہ کے نزدیک امام کی خدمت میں دراہم ارسال کرنے سے زیادہ پسندیدہ کوئی شی
ء نہیں ،اللہ اس کے ہر درہم کا عوض جنت میں کوہ احد کے برابر قرار دے گا،
اللہ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتاہے ”مَنْ ذَاالَّذِی یُقْرِضُ اللّٰہَ
قَرْضاً حَسَناً فَیُضٰاعِفَہ٘ لَہ٘ اَضْعٰافاً کَثِیرَةً“ ۱
(یعنی
کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اسے کئی گنا زیادہ عطاکردے)
امام صادق فرماتے ہیں: خدا کی قسم اس سے مراد صرف امام کے تئیں حسن سلوک کا
اظہار کرنا ہے․ ۲
لیکن
عصر حاضر میں جب کہ امام پردہٴ غیب میں ہیں شخص مومن اس مال کو جسے امام کے
لئے اس نے صلہ اور ھدیہ قرار دیا ہے ایسے مقامات صرف کرے جہاں امام کی رضا
وخوشنودی ہو مثلاً ایسے نیک مومنین پہ خرچ کرے جو امام کے محب و موالی ہیں․
بحار الانوار میں کتاب ” کامل الزیارات “کے حوالے سے نقل ہے کہ امام موسی
کاظم علیہ السلام نے فرمایا :
جو
شخص ہماری زیارت پہ قدرت نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ ہمارے نیک دوستداروں کی
زیارتکرے تو اس کے لئے ہماری زیارت کا ثواب لکھاجائے گااور جو شخص ہمارے
ساتھ صلہ وسلوک کرنے
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ سورہٴ
بقرہ: آیت/۲۴۶ ۔
۲ کافی:ج/۱، ص/۴۱۵، حدیث/
۲
پر قادر نہ
ہو وہ ہمارے صالح دوستداروں کے ساتھ صلہ وسلوک کرے تو اس کے لئے ہمارے ساتھ
صلہ وسلوک کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ ۱
چھٹا عمل: امام کی طرف سے
آپ کی سلامتی کے قصد سے تصدق کرے،
جیسا کہ اس کا تذکرہ کتاب ”النجم الثاقب “میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے․ ۲
ساتواں عمل: امام کے صفات
وکمالات کی معرفت حاصل کرنا، ہرحال میں آپ کی نصرت کا عزم بالجزم رکھنا
اور آپ کے فراق پہ آہ وبکا کرنا،
جیسا کہ اس کا تذکرہ کتاب ”النجم الثاقب “میں تفصیل کے ساتھ واردہوا ہے․ ۳
آٹھواں
عمل: اللہ عزوجل سے امام کی معرفت کے حصول کی دعا کرنا،
چنانچہ اس سلسلہ میںدرج ذیل دعا پڑھتا رہے جو کتاب ”کافی“اور
”کمال الدین
“وغیرہ میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
اللّٰھم عرف-نی نفس-ک فان-ک ان لم ت-عرفنی
ن-فس-ک لم اع-رف نبی-ک
اللّٰھم عرفنی رسولک فانک ان لم
تعرفنی رسولک لم اعرف حجتک
اللّٰھم
عرفنی حجتک فانک ان لم ت-عرفنی حجت-ک ضللتعن دینی ۴
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ بحار: ج/۱۰۲، ص/۲۹۵۔کامل
الزیاراة : ص/۳۱۹کے حوالے سے۔
۲ النجم
الثاقب : ص/۴۴۲۔
۳ النجم
الثاقب : ص/۴۲۴۔
۴۔ کافی : ج/۱، ص/۲۷۲، حدیث/۵۔کمال الدین: ج/۲، ص/۳۴۲، حدیث/۲۴، اور اسی کے
حوالے سے بحار میں ج/۵۲ ص/۱۴۶ حدیث/۷۰۔
ترجمہ دعا:
بارالٰہا؛ تومجھے اپنی معرفت عطا کر اس لئے کہ اگر تونے
مجھے اپنی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے نبی کی معرفت حاصل نہ ہوگی․
بار خدایا ! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا کر اس لئے کہ اگر تونے مجھے
اپنے رسول کی معرفت نہیں عطا کی تو مجھے تیرے حجت کی معرفت حاصل نہ ہوگی․
میرے اللہ: تومجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تونے مجھے اپنی حجت
کی معرفت نہیں عطا کی تو میں اپنے دین ہی سے گمراہ ہوجاوٴوں گا․
نواں عمل: درج ذیل دعا کی
پابندی سے تلاوت کرنا جو کتاب ”کمال الدین“میں امام جعفر صادق سے منقول ہو
کر وارد ہوئی ہے:
”یااللّٰہ یارحمٰن
یارحیم یامقلب القلوب ثبّت قلبی علی دینک“ ۱
ترجمہ :
اے اللہ ! اے رحمن؛ اے رحیم؛ اے دلوںکو دگرگوںکرنے والے؛ میرے دل کو اپنے
دین کے اوپر ثابت وپائدار رکھہ․
دسواں عمل: امام کی طرف سے
نیابت میں استطاعت کے بقدر قربانی کرنا
جیساکہ اس امر کا تذکرة ”النجم الثاقب “ میں آیا ہے․ ۲
گیارہواں عمل: امام کو اپ کے
نام سے یاد نہ کرنا، (آپ کا نام وہی رسول اللہ کا نام ہے ) بلکہ آپ کو
قائم ، منتظر، حجّت، مھدی،امام غائب وغیرہ جیسے القاب سے یاد کرنا․
کیونکہ بہت سی روایتوں میں وارد ہواہے کہ عصر غیبت میں آپ کو آپ کے نام
سے یاد کرنا․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ کمال
الدین : ج/۲، ص/۳۵۲، حدیث/۴۹۔
۲ النجم
الثاقب: ص/۴۴۴۔
حرام ہے․
۱
بارہواں عمل: آپ کے نام اور
خاص طور پر لقب ”قائم“کے تذکرہ کے وقت احترام میں کھڑے ہوجانا․
جیساکہ ”النجم الثاقب“ میں وارد ہوا ہے․ ۲
تیرہواں عمل: آپ کے روبرو
جہاد کی غرض سے اسلحہ تیار رکھنا․
”بحارالانوار
“میں کتاب ”غیبة النعمانی“کے حوالے سے وارد ہوا ہے کہ امام صادق نے فرمایا:
تم
میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ امام قائم (عج) کے ظہورکے موقع کے لئے اسلحہ
تیار رکھے چاہے وہ ایک تیر ہی کیو نہ ہو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب اس کی اس
نیت کو جان لے گا تو مجھے امید ہے کہ اس کی عمر میں اضافہ کرتا رہے گا
یہاںتک کہ وہ امام عصر(عج) کے زمانہ ظہور کو درک کرلے گا․ ۳
چودہواں عمل: مشکلات میں امام
سے توسل کرنا اور آپ کی خدمت میں استغاثہ (فریاد رسی ) کے عریضے روانہ
کرنا․
چنانہ ”بحارالانوار “ میں اس کی تصریح موجود ہے ․ ۱
پندرہواں عمل : ہر دعا میں
اللہ کو آپ کی قسم دینا اور حاجت بر آوری کے لئے آپ
کو شفیع(واسطہ)
قرار دینا․جیسا کہ ”کمال الدین “ میں وارد ہے․
۱ کافی: ج/۱، ص/۳۳۲۔
۲ النجم
الثاقب: ص/۴۴۴۔
۳ بحار: ج/۵۲، ص/۳۶۶، حدیث/۱۴۶۔غیبة
النعمانی: ص/۳۲۰، حدیث/۱۰،کے حوالے سے․
۴۔ بحار: ج/۹۴، ص/۲۹۔
سولہواں عمل : دین قویم کے اوپر
ثابت قدم رہنا اور باطل و مزَخرَف دعوتوں کی پیروی نہ کرنا ․وہ اس لئے کہ
امام کا ظہور خروج سیفانی اور نداء آسمانی سے پہلے وقع نہیں ہوگا،کثیر
روایات میں وارد ہوا ہے کہ تم خاموش رہو جب تک آسمان ندا سے اور زمین لشکر
سفیانی کو دہنسادینے سے خاموش ہے․ ۱
بحار الانوار میں کتاب ” غیبة الطوسی“کے حوالے سے نقل ہوا ہے کہ امام رضا
علیہ السلام نے فرمایا:
ماہ رجب میں آسمان سے تین آوازیں سنائی
دیں گی:
پہلی آواز ہوگی: ”الالعنة
اللہ علی القوم الظالمین“ آگاہ ہوجاوٴکہ
ظالموں کے اوپر اللہ کی لعنت ہے․
دوسری آواز ہوگی: ”ازفة
الازفة یا معش الموٴمنین“ اے گروہ موٴمنین
! قیامت قریب آپہونچی ہے․
تیسری آواز ہوگی: (اس حال میں
کہ لوگ قرص آفتاب کے برابر ایک نمایاںبدن کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے)․
”ھذا
امیر الموٴمنین قد کر فی ھلاک الظالمین“ یہ
امیر الموٴمنین ہیں جو ظالموںکو ہلاک کرنے کی فرض سے (دنیا میں)پلٹ آئیں
ہےں․ ۲
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ امالی
طوسی ومعانی الاخبار: ص/۲۶۶، اور ان دونوںکے حوالے سے بحار میں
ج/۵۲، ص/۱۸۹، حدیث/۱۶،۱۷۔
۱ غیبة
الطوسی :ص۲۶۸، اور اسی کے حوالے سے بحار میں ج۵۲،ص ۲۸۹،حدیث۲۸۔
ایک دوسری حدیث میں وارد ہو ہے کہ:
ماہ رمضان کی تئیسویں/۲۳ شب میں جبرئیل امین ایک آواز لگائیں گے جسے تمام
لوگ سنیںگے وہ آواز یہ ہوگی: ”ان الحق مع علی وشیعتہ“
(بیشک حق علی اور ان کے شیعوں کے ساتھ ہے)․
اور اسی روز دن کے خاتمہ پہ ابلیس ملعون ایک آواز لگائے گا : ”ان الحق مع
عثمان و شیعتہ“(یعنی حق عثمان اور ان کے شیعوں کے ہمراہ ہے)․
اس
کے فوراً بعد جبرئیل امین ایک دوسر ی آواز بلند کریں گے جسے تمام خلائق
سنے گی :
ان
المھدی قد ظھر فاتبعوہ ۱( حضرت مہدی کا ظہور ہوچکا ہے لہذا تم سب کے سب ان
کی پیروی کرو)
کتاب” کمال الدین “میں امام صادق سے مروی ہے کہسب سے پہلے جناب جبرئیل
امین قائم آل محمد کی بیعت کریں گے ،وہ آسمان سے ایک طائر سفید کی صورت
میں نازل ہوں گی اور امام کی بیعت کریں گے،پھر اپنا ایک قدم بیت الحرام (خانہ
کعبہ )پہ اوردوسرا قدم بیت المقدس پہ رکھ کر نہایت صاف اور بلند آواز میں
پکاریں گے جسے جملہ خلق خدا سنے گی:
”اَتیٰ
اَمْرُ اللہ ِ فَلا تَسْتَعْجِلُوہُ“ ۲ (امر الہی آن پہونچاہے لہٰذا اس
کے لئے عجلت طلبی نہ کرو)
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ بحار:ج۵۲
،ص۲۳۰۔
۳ کمال
الدین :ض۲،ص۶۷۱،حدیث۱۸،(آیت ۱،سورہٴ نحل)
ایک اور حدیث میں وارد ہواہے کہ
اس
کے بعد اللہ تبارک و تعالی ایک ہواکوروانہ کرے گا جو ہر وادیکوپکارکر یہ
بتادے گی کہ دیکھو یہ مہدی ہیں ،جو جناب داوود وسلیمان کے طریقہ پر فیصلہ
کریں گے اور فیصلہ کے لئے بیّنہ(دوشاہد عادل)کامطالبہ نہیں کریں گے ․ ۱
سترہواں عمل: عام لوگوں سے
کنارہ کشی اختیار کرنا ،
”کمال
الدین “ میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
لوگوں پہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا امام نگاہوں سے اوجھل رہے گا․
تو
خوشبخری ہو ان افراد کو جو اس زمانہ میں ہماری امامت وولایت پر ثابت قدم
ہوں گے ،ان کا جو کم سے کم اجر وصلہ ہوگاوہ یہ کہ اللہ جل جلالہ انھیں
پکارے گا اور فرمائے گا اے میرے بندوں!اے میرے کنیزو!تم میرے سرّپہ ایمان
لائے تم نے میرے غیب کی تصدیق کی لہٰذا تمھیں بشارت ہو میری طرف سے حسن
ثواب کی ،تم واقعاً میرے سچے بندے اور کنیز ہو میں صرف تمہارے عمل کو قبول
،تمہارے خطاوٴںمعاف ،اورتمہارے گناہوںکی بخشش کروںگا ، اگرتم نہ ہوتے تو
میں ان پر ضرور اپنا عذاب نازل کرتا․جابر کہتے ہیں : میںنے پوچھا فرزند
رسول! اس زمانہ میں موٴمن کے لئے سب سے افضل عمل کون سا ہے؟
فرمایا: زبان کو سلامت رکھنا اور خانہ نشینی اختیار کرنا․ ۲
یعنی عام لوگوں کی معاشرت اورت ہم نشینی سے دور رہے مگر بقدر ضرورتورنہ لوگ
اس کے امام کی یاد کو اس سے بھلادیں گے․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ کمال
الدین: ج/۲ ، ص/۶۷۱، حدیث/۱۹۔
۲ کمال
الدین: ج/۱، ص/۳۳۰، حدیث/۱۵۔
اٹھارواں عمل: امام پہ درود
وسلام بھیجتے رہنا، عَجَّلَ اللّٰہُ تَعٰالیٰ
فَرَجَہ٘
اور انشاء اللہ بعض مروی صلوات کا تذکرہ اسی کتاب میں آئے گا․
انیسواں عمل: آپ کے فضائل و
مناقب کا تذکرہ کرتے رہنا (سَلاٰمُ اللّٰہِ
عَلَیْہِ)
وہ
اس لئے کہ آپ ہی ولی ّنعمت اور ہم تک پہونچنے والی تمام الٰہی نعمتوںکا
سبب اور ذریعہ ہیں،(جیساکہ اس مطلب کو میںنے اپنی کتاب ”مکیال المکارم“ میں
واضح کیا ہے) ۱چنانچہ ولی ّنعمت کے تئیس شکر گذاری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ
اس کے فضائل وکمالات و احسانات کا تذکرة کیا جائے․
جیسا کہ کتاب”مکارم الاخلاق“ میںامام زین العابدین سے رسالہ حقوق کے حوالے
سے ”صاحب معروف کا حق ہم اہل بیت کے تئیس “کے عنوان سے وارد ہواہے․ ۲
بیسواں عمل: آپ کے جمال
مبارک کے دیدار کے شوق کا واقعاً اظہار کرنا،
جیسا کہ امیر الموٴمنین سے وارد ہوا ہے جس وقت آپ نے اپنے سینہ مبارک کی
طرف اشارہ کیا اور امام عصر (عج) کے دیدار وملاقات کے شوق میں حسرت وآہ کا
اظہار کیا․ ۳ (جبکہ ابھی آپ (عج) متولد نہیںہوئے تھے)
اکیسواں عمل: لوگوںکو آپ کی معرفت،خدمت،نیز آپ کی آباء طاہرین کی خدمت
کی دعوت دینا․
کتاب کافی میں سلیمان بن خالد سے نقل ہے کہ انہوںنے امام صادق علیہ السلام
سے
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ مکیال
المکارم: ج/۱ ص/۳۶۔
۲ مکارم
الاخلاق: ص/۴۵۹۔
۳ غیبة
النعمانی: ص/۲۱۴، اور اسی کے حوالے سے بحار میں ج/۵۱، ص/۱۱۵، حدیث/۱۴۔
عرض کیا کہ میرے گھر والے چند افراد
ہیں جو میری بات سنتے ہیں تو کیا میں ان کو ولایت وامامت کی جانب دعوت دوں؟
امام صادق نے فرمایا: ہاں ہاں،اللہ اپنی کتاب میں فرماتاہے:
”یٰا
اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیکُمْ نٰارَاً وَ
قُودُھَا النّٰاسُ وَالْحِجٰارَةُ “ ۱
اے
صاحبان ایمان! خود اور اپنے گھر والوںکو اس آگ سے بچاوٴ جس کا ایند ھن لوگ
ہوںگے اور پتھر․
بائیسواں عمل: آپ کے زمانہ
غیبت میں سختیوں ، اور دشمنوںکی توبیخ وملامت ، آزار واذیت وتکذیب پہ صبر
کرنا،
کتاب ”کمال الدین“ میں حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے
فرمایا : آگاہ ہوجاوٴ کہ قائم آل محمد کے عصر غیبت میں آزار وتکذیب
پہ صبر کرنا والا وہی منزلت رکھتا ہے جو رسول خدا کے سامنے شمشیر سے جہاد
کرنے والے کی منزلت ہے․ ۲
تئیسواں عمل: اعمال صالحہ جیسے
تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب آپ کی خدمت میں ہدیہ کرنا․
چوبیسواں عمل: آپ کی زیارت پڑھنا․
واضح رہے کہ یہ دونوں عمل،امام زمانہ سے مخصوص نہیںہےں بلکہ تمام ائمہ
معصومین علیہم السلام کے متعلق وارد ہونے میں․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ کافی
: ج/۲ ص/۲۱۱، حدیث/۱، (آیت/ ۶سورہ تحریم)
۲ کمال
الدین: ج/۱، ص/۳۱۷، حدیث/۳۔
پچیسواں عمل : آپ کے ظہور
میں تعجیل کی دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے فتح ونصرت طلب کرنا․
اس
عمل کے بیشمار فوائد و برکات ہیں، جن ہیںمیںنے ائمہ اطہار کے روایات واخبار
کے حوالے سے اکٹھاکر کے اپنی کتاب ”ابواب الجنات فی آداب الجمعات“(بزبان
فارسی )نیز کتاب ”مکیال المکارم فی فوائد الدعا للقائم(عج)“ (بزبان عربی )میں
ذکر کیا ہے ،اور کتاب ”الاحتجاج“میںآپ(عج)سے مروی ایک توقیع شریف میں وارد
ہوا ہے کہ ظہور میں تعجیل کے لئے زیادہ دعا کرو اس لئے کہ اسی میں تمہارے
لئے وسعت و فراخی ہے․ ۱
نیز امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
:
میرے فرزند کو خدا کی قسم ایک ایسی غیبت حاصل ہوگی جس میں ہلاکت سے نجاست
نہیں پائے گا مگر وہی شخص جسے اللہ ان کی امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم رکھے
اور تعجیل ظہور کے لئے دعا کی توفیق کرامت فرمائے․ ۲
چھبیسواں عمل : یہ ہے کہ
علماء اپنے علم کا اظہار کریں اور جاہل لوگوںکی ،مخالفین کے شبہات و
اقراضات کے جواب کی طرف رہنمائی کریں تا کہ وہ گمراہ نہ ہوں نیز ان کو حیرت
وظلالت سے نجات دیں اگر وہ اس کا شکار ہیں․
اوریہ کام اس زمانہ میں نہایت اہم اور علماء پر لازم وواجب ہے․
چنانچہ تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں وارد ہواہے کہ امام محمد تقی
علیہ السلام نے فرمایاکہ
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ احتجاج: ج/۲ ص/۲۸۴۔
۲ کمال
الدین : ج/۲ ص/۳۸۴، ضمن حدیث /۱۔
جو
شخص ان ایتام (یتیمان )آل محمد کی کفالت وحفاظت کرے جو اپنے امام سے دور
،جہالت میں سرگرداں اور شیاطین اور ہمارے دشمنوں اور ناصبیوں کے ہاتوںمیں
اسیر ہیں،اور پھر انھیں ان سے نجات دلائے،سرگردانی سے انھیں باہر لے آئے،
شیطانوں پہ ان کے وسوسوں کو دفع کر کے غالب آجائے ، اور ناصبیوں کو خود ان
کے آقاوٴں کی حجتوں اور انھیںکے پیشواوٴں کی دلیل سے مغلوب کردے،تو ایسا
شخص اللہ کے نزدیک عابد کے اوپر کئی گنا زیادہ فضیلت و مرتبہ کا حامل
ہے،حتی کہ زمین کے اوپر آسمان، عرش وکرسی اور حجابہای آسمانی کو جتنی
فضیلت حاصل ہے اس سے بھی زیادہ ، اور ایسے شخص (عالم) کی برتری عابد کے
اوپر ویسی ہی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی آسمان کے پوشیدہ ترین ستارہ پر
برتری ہے ․ ۱
اور امام علی نقی علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا :
اگر قائم آل محمد کی غیبت کے بعد ایسے علماء نہ ہوتے جو آپ کی طرف دعوت
دینے والے،آپ کی جانب راہنمائی کرنے والے، اللہ کی حجتوں سے آپ کے دین کا
دفاع کرنے والے اور اللہ کے ضعیف بندوں کو ابلیس کی چالوں نیز ابلیس والوں
اور ناصبیوں کے جالوں سے بچانے والے ہیں، تو کوئی شخص باقی نہ بچتا مگر یہ
کے دین خدا سے مرتد ہوجاتا ،لین وہی علماء ہیں جو کمزور شیعوں کے دلوں کی
زمام کو سنبھالے رہتے ہیں جس طرح کشتی کا ناخدا کشتی والوں کو سنبھالے
رہتاہے،وہی ہیں وہ علماء جو اللہ کے نزدیک سب سے افضل وبرتر ہیں․ ۲
اور ”اصول کافی“ میں معاویہ ابن عمار سے نقل ہواہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے
ابو عبد اللہ امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ ایک شخص ایسا ہے جو آپ
اہل بیت کی حدیثوںکی روایت کرتا ہے․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱ تفسیر
امام عسکری : ص/۱۱۶۔
۲
تفسیر امام عسکری : ص/۱۱۶۔
لوگوں کے درمیان انھیں نشر کرتا ہے
اور ان کے ذریعہ لوگوں اور آپ کے شیعوں کے دلوں میں استحکام بخشتا ہے․
اور ایک دوسرا شخص ہے جو آپ کے شیعوں سے تعلق رکھتا ہے اور عابد بھی ہے
لیکن شاید اس طرح سے وہ آپ کی حدیثوں روایت نہیں کرتا ،تو ان دونوں میں
کون زیادہ افضل ہے ؟
آپ نے فرمایا :ہماری حدیث کی روایت کرنے والا اور اس کے ذریعہ ہمارے شیعوں
کے قلوب کو پائداری عطا کرنے والا ہزار عابد سے افضل و برتر ہے ․ ۱
لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں ہر عالم کے اوپر واجب ہے کہ وہ بقدر امکان
اپنے علم کا اظہار کرے خاص طور پر اس موجودہ زمانہ میں جب کہ بدعتوں نے کچھ
زیادہ ہی سر اٹھا رکھا ہے․
”اصول
کافی “ میں رسول خدا سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
جب
میری امت میں بدعتیں ظاہر ہونے لگیں تو عالم کو چاہئے کہ اپنے علم کا اظہار
کرے اور جو ایسا نہ کرے اس پہ اللہ کی لعنت ہے ․ ۲
اور کتاب” الفین“میں بحار الانوار کے حوالے سے پیغمبر اسلام سے روایت ہے کہ
آنحضرت نے امیر المومنین سے فرمایا:
اے
علی !اگر اللہ نے تمھارے ذریعہ کسی ایک شخص کی بھی ہدایت کر دی تو وہ
تمھارے لئے اس ساری دنیا سے بہتر ہے جس کے اوپر سورج چمکتا ہے ․ ۳
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کافی : ج/۱، ص/۳۳
۲۔ کافی : ج/۱، ص/۵۴
۳۔بحار
: ج/۸ ، چاپ سنگی ص/۴۸۴
ستائیسواں عمل: امام عصر
علیہ السلام کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں حتیٰ المقدور اہتمام برتنا
اور آپ کی خدمت کی راہ میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرنا․
بحار الانوار میں امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ
کیا قائم آل محمد کی ولادت ہو چکی ہے ؟
آپ نے فرمایا : نہیںاگر میں انھیں درک کر لیتا تو ساری عمر ان کی خدمت میں
گزار دیتا․ ۱
میں (موٴلف ) کہتا ہوں : اے بندہ ٴمومن ی ! ذرا غور کرو ،دیکھو امام جعفر
صادق کس انداز سے امام عصر کی قدر و جلالت شان کا اظہار و اعلان فرمارہے
ہیں ،لہٰذا اگر تم ان کے خدم نہیں ہو تو کم سے کم اپنی برائیوں سے ان کے
قلب مطہر کو شب و روز رنجیدہ نہ کرو ، کہ اگر تم شہد نہیں دے سکتے ہو تو
پھر زہر تو نہ دو․
اٹھائیسواں عمل -----: ہر
دعا کرنے والا اپنے امام کے حق میں دعا کرنے سے اپنی دعا کا آغاز کرے اور
اللہ سے پہلے آپ کے ظہور میں تعجیل کی دعا کرے پھر اپنے لئے دعا کرے․
اور یہ بات صحیفہٴ سجادیہ سے روز عرفہ کی دعا میں روشن طور پر قابل ملاحظہ
ہے ․علاوہ بر این آپ سے محبت اور آپ کے حقوق کی ادائیگی کا یہی تقضا
بھی ہے ، نیز اس بات کا بعض احادیث سے بھی استفادہ ہوتا ہے․
اس
کے علاوہ آپ کے لئے تعجیل ظہور کی دعا کے اوپر اسی سے زیادہ دنیوی و اخروی
فوائد و آثار مرتب ہوتے ہیں ، جن کا تذکرہ میں نے کتاب ”ابواب الجنات “
اور کتاب ”مکیال المکارم“میںحوالوں اور دلیلوں کے ساتھ کیا ہے․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ بحار ،ج/۵۱،ص/۱۴۸،حدیث ۲۲(غیبة النعمانی ،ص/۲۴۵،حدیث ۴۶کے حوالے سے)
اور بعض کا تذکرہ اسی کتاب میں گزر
چکا ہے․
اور یہ فطری بات ہے کہ شخص عاقل ان فوائد و آثار کے حصول کو اس دعا پر
ترجیح دے گا جس کے متعلق کچھ معلوم نہیں کہ قبول ہوگی یا نہیں․
بلکہ آپ کے لئے دعا سے آغاز اس شخص کی دعا مستجاب ہونے کا سبب قرار پئے
گا (انشا ء اللہ)چنانچہ ہر دعا میں محمد و آل محمد پر پہلے درود بھیجنے کا
راز بھی یہی ہے کہ وہ اس کے بعد کی دعاؤں کی قبولیت کا سبب قرار پاتا ہے ․جیسا
کہ حدیث میں وارد ہواہے․ ۱
انتیسواں عمل: ”آپ کے تیئس
محبت و ولا کا اظہار کرنا“
کتاب ”غایة المرام “میں پیغمبر اسلام سے مروی ہے کہ آپ نے حدیث معراج میں
فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ نے مجھ سے خطاب کرکے فرمایا :اے محمد ! کیا آپ
چاہتے ہیں کہ انھیں دیکھیں میں نے عرض کیا :اے رب العزت! کیوں نہیں․
تو
فرمایا :اے محمد !قدم آگے بڑھائیں ․ چنانچہ میں نے قدم آگے بڑھایا تو
دیکھا کہ علی ابن ابی طالب ہیں حسن و حسین ہیں،علی ابن حسین ،محمدابن علی ،جعفر
ابن محمد ،موسیٰ ابن جعفر ، علی ابن موسیٰ ،محمد ابن علی ،علی ابن علی ،حسن
ابن علی اور حجت قائم ہیں ․حجت قائم ان کے بیچ کواکب دری (روشن ستارہ) می
مانند چمک رہے تھے․
مین عرض کیا بار خدایا !یہ حضرات کون ہیں ؟فرمایا:یہ امامان حق ہیں ،اور یہ
قائم ہیں ،جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام قرار دیں گے ․ ۲ اور
میرے دشمنوں سے انتقام لیں گے․
اے
محمد ! آپ قائم کو دوست رکھیں کیو ں کہ میں انھیں دوست رکھتا ہوں اور جو
بھی انھیں دوست․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کافی ، ج/۲،ص/ ۴۹۴
۲۔ یعنی دین کے تمام احکام کو اس طرح ظاہر کریں گے کہ ان پہ بلا تقیہ عمل
ہوگا (موٴلف )
رکھتا ہے
میں اسے بھی دوست رکھتا ہوں ․ ۱
میں (موٴلف )کہتا ہوں : خاص طور پر قائم آل محمد کی محبت کا حکم دینے سے
واضح ہے (جب کہ تمام ائمہ کی محبت واجب ہے )کہ آپ کی محبت میں ایک نمایاں
خصوصیت پائی جاتی ہے جو اللہ کے اس حکم میں مضمر ہے ․نیز یہ کہ آپ کے وجود
مبارک میں کچھ ایسے صفات و خصوصیات پائے جاتے ہیں جو خاص طور پر آپ کی
محبت کا حکم دینے کا موجب قرار پائے ہیں․
تیسواں عمل : آپ کے ناصروں اور خدمت گزاروں کے حق میں دعا کرنا․
جیسا کہ یونس ابن عبد الرحمٰن کی گزشتہ دعا میں وارد ہوا ہے․
اکتیسواں عمل : آپ کے دشمنوں پر لعنت بھیجنا․
جیسا کہ بہت سی روایتوں سے اور آپ سے منقول دعا سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے
․ ۲
بتیسواں عمل : اللہ تعالیٰ سے توسل کرنا کہ ہمیں آپ کے ناصروں میں
قرار دے․
جیسا کہ یہ بات دعائے عہد وغیرہ میں وارد ہوئی ہے․
تینتیسواں عمل : آپ کے حق میں دعا کے موقع پر آواز بلند کرنا خاص طور پر
عمومی مجالس و محافل میں․
چنانچہ یہ عمل شعائر الٰہی کی تعظیم ہونے کے علاوہ مستحب بھی ہے جیسا کہ
دعائے ندبہ کے بعض
فقرات سے ظاہر ہوتا ہے جو امام صادق
علیہ السلام سے مروی ہے ․ ۱
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔
غایة المرام ،ص/۱۸۹ ،حدیث ۱۰۵ ۔اور ص/۲۵۶ حدیث۲۴
۲۔
احتجاج ،ج/۲ ص/۲۱۶
۳۔ دعائے ندبہ کا وہ فقرہ یہ ہے (الیٰ متی اجار فیک یا مولای و الیٰ متی )
یعنی اے مولا کب تک اور کب تک آپ کے حق میں دعا کے لئے آواز بلند کرتا
رہوں ․ کتاب لغت ”قاموس “میں آیا ہے کہ جار کے معنی ہیں دعا اور استغاثہ
میں آواز کا بلندکرنا․(موٴلف)
چونتیسواں عمل : آپ کے اعوان و انصار پر درود بھیجنا․
واضح رہے کہ یہ درود بھیجنا ان کے حق میں ایک طرح کی دعا ہے ․اور اس کا
تذکرہ صحیفہ سجادیہ کی دعائے عرفہ میں نیز بعض دیگر دعاؤں میں وارد ہوا ہے․
پینتیسواں عمل : آپ کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف کرنا․
چنانچہ اس مطلب کی دلیل کو میں نے کتاب ”مکیال المکارم “ ۱میں ذکر کیا ہے
اور یہاں پہ اس سے صرف نظر کر رہا ہوں اختصار کی غرض سے․
چھتیسواں عمل : آپ کی نیابت میں حج انجام دینا․
سینتسواں عمل : آپ طرف سے حج کے لئے کسی کو نائب بنا کر بھیجنا․
اور اس عمل اور اس سے پہلے والے عمل کی دلیل ایک حدیث ہے جو کتاب ”الخرائج
“ ۲ میں مروی ہے․اور میں نے اس کو اپنی کتاب ”مکیال المکارم “ ۳میں ذکر کیا
ہے نیز وہ حدیث کتاب ”النجم الثاقب “ میں بھی مذکور ہے․
اڑتیسواں عمل : ہر روز یا جس وقت ممکن ہو سکے آپ کے لئے عہد و بیعت کی
تجدید کرنا․
معلوم رہے کہ اہل لغت کے قول کے مطابق بیعت کے معنی ہیں کسی بات کے اوپر
عہد و اتفاق کر لینا․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ مکیال المکارم ،ج/۲۔ص/۲۱۶
۲۔ الخرائج و الجرائح،ص/۷۳
۳۔ مکیال المکارم ،ج/۲،ص/۲۱۵
اور آپ کے ساتھ عہد بیعت کرنے سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنی زبان سے اقرار
اور اپنے قلب سے اس بات کا پختہ عزم کرے کہ امام کی ہر طرح اطاعت کرے گا
اور جس وقت بھی امام ظہور فرمائیں گے وہ آپ کی مدد کرے گا․
چنانچہ یہ عمل دعائے عہد صغیرو کبیر پڑھنے سے حاصل ہو جائے گا ․اور رہی یہ
بات کہ کسی شخص کے ہوتھ میں ہاتھ رکھے اس عنوان سے کہ یہ بیعت ،امام کے
ساتھ بیعت ہے ․ تو یہ ان گمراہ کن بدعتوں میں سے ایک ہے جس کا نہ قرآن میں
کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی روایات میں․
ہاں عربوں میں یہ بات متعارف تھی کہ نمایاں طور پر عہد و بیعت کے اظہار کے
لئے ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتا تھا․
اور بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا نے بیعت کی جگہ پہ مسلمانوں سے
مصافحہ انجام دیا پھر اپنا دست مبارک پانی سے بھرے ایک برتن میں قرار دیا
اور نکال لیا پھر مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ بیعت کی جگہ اپنے
ہاتھ اسی برتن میں قرار دیں․
لیکن یہ امر اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس شکل وعنوان کی بیعت ہر
زمانے حتی کہ غیبت کے زمانے میں بھی جائز ہے․
بلکہ بعض احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقرار لسانی اور عزم قلبی ہی پہ اکتفا
کرنا واجب ہے جب کہ خود امام یا نبی کی بیعت کا امکان نہ ہو․
یہ
حدیث اس مطلب کے ذکر کے سلسلہ میں مفصل ہے ،اور بعض علماء نے اپنی کتابوں
میں اس کا تذکرہ کیا ہے․
منجملہ
ان احادیث کے ایک حدیث تفسیر ”البرہان “ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے
وارد ہوئی ہے کہ رسول خدا نے جناب امیر المومنین کو اپناخلیفہ مقرر کرنے کے
بعد آپ کے بعض فضائل کا ذکر کیا پھر فرمایا -:
لوگو ! تمھاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ تم ایک ایک کرکے بیعت کے
عنوان سے میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھو اللہ عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو
میں نے علی کو اور ان کے بعد کے ان ائمہ کو جو میری اور علی کی ذریت سے ہوں
گے امیرالمومنین مقرر کیا ہے اس کا تم سے زبانی اقرار لوں ․جیسا کہ میں
پہلے تمھیں خبر دے چکا ہوں کہ میری ذریت علی کے صلب سے ہوگی․
لہٰذا تم سب کے سب کہو کہ اے اللہ کے رسول ! آپ نے علی امیر المومنین اور
ان کے صلب سے ہونے والے ائمہ کے سلسلہ میں ہمارے پرور دگار کا جو حکم
پہنچایا ہے ہم اس کو مانتے ہیں اس کی اطاعت کرنے والے ہیں ، اس پہ راضی اور
اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں (الی آخرہ) ۱
تو
اگر امام کے ساتھ بیعت کے عنوان سے غیر امام کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھنا جائز
ہوتا تو پیغمبر اسلام ضرور لوگوں کو حکم دیتے کہ ہر گروہ کسی بزرگ صحابی
جیسے سلمان ،ابوذر وغیرہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دے․
لہٰذا یہ عمل صحیح نہیں ہے مگر خود نبی یا امام کے ساتھ وہ بھی نبی یا امام
کی موجودگی میں جس طرح سے جہاد مخصوص ہے امام کی موجودگی کے زمانے سے․
علاوہ
بر ایںکسی حدیث کی کتاب میں کوئی ایسی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے جس میں بیان
ہوا ہو کہ کسی ایک مسلمان نے کسی ائمہ کے کسی بڑے صحابی کی اس حیثیت سے
بیعت کی ہو کہ خود ائمہ نے انھیں اس مسئلہ میں مرجع قرار دیا ہو تاکہ ہم ان
سے اس سلسلہ میں مدد حاصل کر سکیں․
انتالیسواں عمل : بعض فقہا نے ذکر کیا ہے جیسے محدث حر عاملی رحمة اللہ
علیہ نے وسائل
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔
البرہان ، ج/۱،ص/۴۴۲
الشیعہ میں
بیان کیا ہے کہ امام عصر کی نیابت میں ائمہ اطہار کی قبور کی زیارت کرنا
مستحب ہے ․ ۱
چالیسواں عمل : ”اصول کافی“ میں مفضل سے رویت ہے کہتے ہیں کہ امام نے
ابوعبداللہ امام صادق سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں :
قائم آل محمد کے لئے دو غیبت ہوگی ، ایک غیبت وہ ہوگی جس میں وہ اپنے اہل
واہالی کی طرف پلٹ کر آتے ہیں گے دوسری غیبت وہ ہوگی جس میں کہا جانے لگے
گا کہ وہ تو ہلاک ہوگئے (معاذاللہ )اور نہ جانے کس وادی میں چلے گئے․
مفضل کہتے ہیں :میں نے عرض کیا :جس وقت ایسا کچھ ہوجائے تو پھر ہمارا
طریقہٴ کا کیا ہونا چاہئے ؟
فرمایا:جب اس غیبت کاکوئی دعویٰ کرنے لگے تو اس سے ایسے ایسے سوالات کرو جن
کا صرف معصوم ہی جواب دے سکتا ہے ، ۲
میں (مولف)کہتا ہوں :یعنی اس سے ایسی باتوں کاسوال کرو جہاں تک لوگوں کے
علم رسائی نہیں ہوسکتی ،جیسے اس کا خبر دینا کہ رحم مادر میں جنین کا وجود
ہے یا نہیں ؟اور اگر ہے تو وہ نر ہے یا مادہ ؟ اور اس کی ولادت کس وقت ہوگی
؟یا اس بات کی خبر دینا کہ تم نے اپنے دلوں میں کیا پنہاں کررکھاہے ․کہ جسے
مولائے خدا اور خاصان خدا کے کوئی نہیں جانتا․
یا
پھر حیوانات وجمادات کے ساتھ گفتگو کرنا اورحیوانات وجمادات کا اس کے اس
ادعاء کی صداقت وحقانیت کی گواہی دینا ،جیسا کہ اس طرح کی باتیں ائمہ
اطہار کے ساتھ بار بار پیش آچکی
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ وسائل الشیعہ ،ج/۱۰ ،ص/۴۶۴ حدیث ۱
۲۔ کافی
:جلد /۱،ص/۳۴۰
ہیں،اور ان
کاتذکرہ کتابوں میں مفصل طور پر موجود ہے․
اکتالیسواں عمل: غیبت کبریٰ کے زمانے میں جو آپکی نیابت خاص کا دعویٰ کرے
اس کی تکذیب وتردید کرنا،جیسا کہ امام کی توقیع شریف میں جوکتاب - ”کمال
الدین“ ۱ اورکتاب ”الاحتجاج “۲ میں مذکور ہے یہ بات وارد ہو ئی ہے ۔
َ
بیا لیسواں عمل : آپ کے ظہور کے لئے کسی وقت تعےےن نہ کرنا ، اور جو شخص
اس کی تعیین کرے اس کی تردید وتکذیب کر نا نیز اسے کذّاب (جھوٹا) کا نام
دینا۔
حدیث صحیح میں امام صادق علیہ السلام سے وارد ہواہے کہ آپ نے محمد ابن
مسلم سے فرمایاکہ جو شخص بھی تمہارے لئے مسئلہ غیبت میں کسی وقت کی تعیین
کرے تو تم اس کی تکذیب و تردید کرنے میںکسی طرح کا خوف نہ کھاوٴ اس لئے کہ
ہم کسی کے لئے اس سلسلہ میں کسی وقت کی تعیین نہیںکرتے․ ۳
ایک دوسری حدیث میں فُضَیل سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر
امام باقر علیہ السلام سے سوٴال کیا کہ کیا اس غیبت کے لئے کسی وقت کی
تعیین ہے؟
تو
آپ نے تین مرتبہ فرمایا : جھوٹے ہیں وقت کی
تعیین کرنے والے․ ۴
کتاب ”کمال الدین “میں امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
کہ مجھ سے․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کمال الدین : ج/۲ : ص/۵۱۶،حدیث/۴۴
۲۔ احتجاج : ج/۲، ص/۴۷۸
۳۔ غیبة الشیخ طوسی : ص/۲۶۲، اور اسی کے حوالے سے بحار میں ج/۵۲، ص/۱۰۴، حدیث
/۸․
۴۔ غیبة الشیخ طوسی : ص/۲۶۲،۔
میرے پدر نے
اور ان سے ان کے پدر نے اور ان سے ان کے آباء واجداد طاہرین نے بیان کیا
ہے کہ رسول خدا سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! قائم آل محمد کا ظہور
وخروج کب ہوگا؟ آنحضرت نے فرمایا: اس کی مثال قیامت کی مثال ہے جس کے
متعلق خدا فرماتا ہے:
”لاٰ
یُجَلِّیھٰا لِوَقْتِھٰا اِلاّٰ ھُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰاوٰاتِ
وَالْاَرْضِ لاٰ تَاٴْتِیکُمْ اِلاّٰ بَغْتَةً“ ۱
(یعنی
اسے ظاہرین کرے گا اس کے وقت پر مگر وہی(خدا) وہ (قیامت ) آسمانوں اور
زمین میں سنگ ہے وہ نہیں آئے گی تمہارے پاس مگر اچانک․)
اور اس بات میں احادیث بے شمار ہیں․
تینتالیسواں عمل: دشمنوں سے تقیہ کرنا․
واجب تقیہ کے معنی یہ ہےں کہ موٴمن اظہار حق سے اجتناب کرے جب اسے اپنی جان
،مال اور عزت وآبرو کی بابت نقصان وضرر کا خوف عقلائی محسوس ہونے لگے ،تو
ایسے میں حق کا اظہار نہ کرے بلکہ اگر اپنی جان، مال اور عزت کے تحفظ کی
خاطر زبان مخالفین کی مخالفت کرنے پہ مجبور ہوجائے تو ایسا ہی کرے․
البتہ ضروری ہے کہ اس کا دل اس کی زبان کی مخالفت کرے ،کتاب ”کمال
الدین“میں امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
جس
کے یہاں ورع و پر ہیزگاری نہیں اس کے یہاں دین نہیں ،اور جس کے یہاں تقیہ
نہیں اس کے پاس ایمان نہیں، اور تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرّم
وہ ہے جو سب سے زیادہ تقیہ پہ عمل کرنے والاہے․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کمال الدین : ج/۲، ص/۳۷۳۔ (آیت۱۸۷ ،سورہ اعراف)
پھر آپ سے پوچھا گیا : فرزند رسول! کب تک؟ تو فرمایا: وقت معلوم کے روز تک
،کہ وہی قائم آل محمد کے خروج وظہور کا دن ہے،چنانچہ قائم آل محمد کے
خروج سے پہلے جو شخص تقیہ کو ترک کردے وہ ہم سے نہیںہے․ ۱
اور روایتیں وجوب تقیہ سے متعلق بے شمار میں، اور واجب تقیہ کے جو معنی
میںنے پیش کئے ہیں وہ اس حدیث کے معنی کے ساتھ کاملاً مطابقت رکھتے ہیں جو
اس باب میں امیر الموٴمنین علیہ السلام سے کتاب ”احتجاج “میں ذکر ہوئی ہے․
اس
حدیث میں امام نے تاٴکید کے ساتھ تین مرتبہ فرمایاہے کہ خبردار تقیہ کو ترک
نہ کرنا کیونکہ ترک تقیہ میں تمہاری ذلت ہے اور تمہاری اور موٴمنین کی
خونریزی ہے․․․․․․الخ
شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ کی کتاب ”خصال “ میں سند صحیح کے ساتھ امام محمد
باقر سے مروی ہے کہ امیر الموٴمنین نے فرمایا:
دین کا قوام (اساس) چار طرح کے لوگوں سے ہے: ۲
(۱)
ایسے عالم سے جو اپنے علم کو ظاہر کرنے والا اور اسے عمل کی منزل
میں قرار دینے والاہے․
(۲)
ایسے غنی (مالدار)سے جو اپنے مال کو دینداروں پر خرج کرنے میں بخل
سے کام نہیں لیتا ہے․
(۳) ایسے
فقیر سے جو دنیا کے عوض میں اپنی آخرت کو نہیں لیتا ہے․
(۴) ایسے
جاہل سے جو علم حاصل کرنے میںتکبر کو حائل نہیں ہونے دیتا ہے․
چنانچہ جب عالم اپنا علم چھپانے لگے ،غنی اپنے مال میں بخل کو راہ دینے لگے
،فقیر دنیا کے عوض
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کمال الدین : ج/۲، ص/۳۷۱۔
۲۔ یعنی دین اسلام کے احکام کا قیام انھیں چار/۴ طرح کے لوگوں کے وجود پر
موقوف ہے․
آخرت کا معاملہ کرنے لگے اور جاہل،
حصول علم میں تکبر سے کام لینے لگے تو دنیا اپنے پچھلے پاوٴںپلٹ آئے گی
پھر تمہیں مسجدوں کی کثرت فریب میں مبتلا کرےاور نہ ہی مسجدوں میں کثرت کے
ساتھ لوگوں کی آمد ورفت․
پوچھا گیا اے امیر الموٴمنین ! پھر اس زمانہ میں زندگی گذارنے کا طریقہ کیا
ہو نا چاہئے؟
فرمایا: ظاہر میں لوگوں کے ساتھ مل جل کے میل ملاپ کے ساتھ رہو لیکن باطن
میں اور اندر اندر ان کے مخالف رہو، اور ہر شخص کو وہی عمل عمل کام آئے گا
جو اس نے انجام دیا ہے اور ہر شخص اسی کے ساتھ گردانا جائے گا جس سے محبت
رکھتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ تم اللہ کی جانب سے فَرَج (وسعت وفراخی)کا
انتظار بھی کرتے رہو․ ۱
اور اخبار و روایات اس باب میں بہت زیادہ ہیں ،میں نے ان میں سے بعض کو
”مکیال المکارم“میں ذکر کیا ہے․ ۲
چوالیسواں عمل: تمام گناہوں سے حقیقی توبہ کرنا․
اگر چہ حرام کاموںسے توبہ کرنا ہر وقت اور ہر زمانہ میں واجب ہے، لیکن اس
زمانہ میں اس کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت
اور اس کے طولانی ہونے کا ایک سبب ہمارے عظیم وکثیرگناہ ہیں ،جو باعث ان
رہے ہیں کہ امام کو ظہور میں تاٴخیر کا سامنا منا کرنا پڑرہاہے․
جیسا کہ یہ مطلب ”بحار الانوار “ امیرالموٴمنین سے اور”احتجاج“ میں خود
امام عصر کی توقیع شریف میں وارد ہواہے کہ آپ فرماتے ہیں:
ہم
کو ہمارے شیعوں سے صرف ان کے وہ اعمال روکے ہوئے ہیں جو ہم تک پہونچنے
ہیںاور․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ الخِصَال : ص/۱۹۷، حدیث:۵․
۲۔ مکیال المکارم: ج/۲، ص/۲۸۴․
ہم انھیں نا پسند سمجھتے اور ان کے
حق میں بہتر نہیں جانتے ہیں․ ۱
اور توبہ کے معنی ہیں گذشتہ گناہوں پہ نادم وپشیمان ہونا اور آئندہ انھیں
ترک کرنے کا پختہ عزم رکھنا․
اور اس کی پہچان یہ ہے کہ جو واجبات ترک ہوگئے ہیں ان سے اپنے ذمہ کو بریٴ
کرے ،اس کی گردن پہ جو لوگوں کے حقوق ہیں انھیں ادا کرے، اس کے بدن میں
گناہوں سے جو گوشت بناہے اسے ختم کرے اوراس قدر طاعت وعبادت کی مشتقّوں کا
تحمل کرے کہ جو معصیت کی لذتیں حاصل کی ہےں وہ فراموشی ہوجائیں․
انھیں مذکورہ چھ باتوںسے توبہ کامل طور پر عملی ہوگا ، اور جیساکہ متعدد
کتابوں میں امیر الموٴمنین سے وارد ہواہے کہ اس کے بعد بندہ موٴمن ایسا
ہوجائے گا کہ بس اس سے یہ کہنے
کی ضرورت ہوگی کہ دیکھو اب تم اپنے
نفس کی طرف متوجہ رہو․
اور تم یہ نہ تصور کرو کہ بالفرض اگر میں توبہ کرلیتا ہوں تو اس سے کیا
ہوتا ہے سارے لوگ تو توبہ کریں گے نہیں،لہذا امام کی غیبت کا سلسلہ برقرار
رہے گا کیونکہ سارے لوگوں کے گناہ ہی تو آپ کی غیبت اور ظہور میں تاٴخیر
کا باعث بنے ہیں․
میں کہتا ہوں اگر ساری دنیا آپ کے ظہور میں تاٴخیر کا سبب بن رہی ہے تو کم
از کم تم تو اپنے نفس کی طرف متوجہ رہو، اور اس غلطی میں لوگوں کے شریک نہ
ہو ،ورنہ رفتہ رفتہ کہیں تمہارا حال ویساہی نہ ہوجائے جیسا امام موسی کاظم
علیہ السلام کو قید خانہ میں رکھنے کے متعلق ھارون رشید کا حال․”سرخس“میں
امام رضا علیہ السلام کو محبوس کرنے میں ماٴمون کا اور”سامرا“میں امام علی
نقی علیہ السلام کو زندان میں رکھنے کی بابت متوکل کا حال ہوا․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ احتجاج : ج/۲ ص/۳۲۵، اور اسی کے حوالے سے بحار میں: ج/۵۳ ص/۱۷۷․
پینتالیسواں عمل: وہ عمل جو کتاب ”روضہٴ کافی“میں امام صادق علیہ السلام
سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی قائم آل محمد کے دیدار
کی آرزو کرے کہ ان کا دیدار عافیت کے ماحول میں نصیب ہو․
کیونکہ اللہ نے محمد کو رحمت بناکر بھیجا اور قائم آل محمد کو نقمت
بنا کربھیجے گا․ ۱
میں کہتا ہوں کہ یعنی تم اللہ سے دعا کرو کہ تمہاری امام سے ملاقات اس
حالات میں ہو
کہ تمہارا ایمان سلامت ہو اور آخری
زمانہ کی گمراہیوں سے تم بخیر وعافیت ہوتاکہ تم امام کے انتقام کے زد میں
نہ آجاوٴو․
چھیالیسواں عمل: مومن ،لوگوں کو امام کی محبت کی دعوت دیتاہے ،اسطرح سے
کے لوگوں کے اوپر جو آپ کا فضل وکرم ہوتا رہتاہے اسے بیان کرے ،نیز آپ کے
وجود مقدس کے کیا آثار وبرکات لوگوں پر مرتب ہوتے ہیں انہیں اور ان کے
علاوہ اس قبیل کے دیگر امور کاتذکرہ کرتارہے․
اورامام کے تئیں اس طرح سے اظہار محبت کرے کہ امام بھی اسے اپنی محبت کے
شرف سے بہرہ مند فرمادیں․
سینتالیسواں عمل: مدت غیبت میں طول وتاٴخیر کے باعث دل مومن کو سخت نہیں
ہوجانا چاہئے بلکہ قلب مومن کو اپنے مولا وآقا کی یاد میں ہمیشہ تروتازہ
رہنا چاہئے․
اللہ رب العالمین قرآن مجید کے سورہٴ حدید میں ارشاد فرماتاہے
:
اَلَمْ یَاٴنِ لِلَّذیٖنَ آمَنُوا اٴَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُھُمْ لِذِکْرِ
اللّٰہِ وَمٰا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلاٰ یَکُونُوا کَالَّذیٖنَ اٴُوتُوا
الکَتٰابَ مِنْ قَبْلِ فَطٰالَ عَلَیْہِمُ الْاٴَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُھُمْ
وَکَثیٖرٌ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کافی : ج/۸، ص/۲۳۳، حدیث/۳۰۶․
مِنْھُمْ فٰاسِقُونَ ۱
ترجمہ: کیا صاحبان ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد
کے لئے اور اس حق کے لئے جو نازل ہواہے نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح
نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تو مدت طولانی ہوجانے کے بعد ان
کے دل سخت ہوگئے جب کہ ان میں اکثر فاسق تھے․
تفسیر”برہان “میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا
:
یہ
آیت (ولایکونو کالذین اتو الکتاب ․ ․ ․ ․ ․ ․وکثیر منھم فاسقون )زمان غیبت
والوں کے متعلق نازل ہوی ہے․
پھر آپ نے فرمایا : جان لو کہ اللہ زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد ضرور زندہ
کرے گا ۲
امام محمد باقر علیہ السلام سے زمین کے مردہ ہوجانے کے معنی کے متعلق وارد
ہواہے کہ آپ نے فرمایا :زمین کامردہ ہونا یعنی زمین والوں کاکفر اختیار
کرنا ،اور کافر مردہ ہے ،اللہ زمین کو قائم آل محمد کے ذریعہ زندہ کرے گا
آپ زمین پہ عدل قائم کریں گے تو زمین زندہ ہوجائے گی اور زمین والوں کوبھی
ان کے مردہ ہوجانے کے بعد حیات مل جائے گی․ ۳
اور کتاب ”کمال الدین “میں صحیح سند کے ساتھ امیر الموٴمنین سے مروی ہے کہ
آپ نے فرمایا :
قائم آل محمد کے لئے غیبت کی مدت طولانی ہوگی،گویامیں شیعوں کودیکھ رہاہوں
کہ ان کی غیبت کے زمانہ میں چوپایوں کی طرح مارے مارے پھررہے ہیں ،چراگاہ
کی تلاش میں ہیں لیکن وہاں تک پہونچ نہیں پارہے ہیں․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔سورہٴ
حدید:۱۶
۲۔برہان: ج/۴، ص/۲۹۱حدیث
/۱․
۳۔
برہان: ج/۴، ص/۲۹۱حدیث /۴․
آگاہ رہو کہ زمانہٴ غیبت میں جو شیعہ قائم آل محمد کے دین پر قائم رہے
اور اپنے امام کی مدت غیبت طولانی ہوجانے کے باعث سخت دل نہ ہو تو وہ قیامت
کے دن میرے ہمراہ میرے درجہ میں ہوگا․ ۱
میں (موٴلف )کہتاہوں :اے اپنے امام زمانہ کے منتظر موٴمنین !اس عظیم بشارت
سے آپ کے دل شاد اور آپ کی آنکھیں روشن ہوں،اور کوشش کریں کے آپ کے دل
نرم رہیں اور آپ کے دل امام زمانہ کے زمانہٴ غیبت میں سخت نہ ہونے پائیں․
اگر آپ کہیں کہ دل کانرم یاسخت ہونا ہمارے اختیار سے باہر ہے․
تومیں کہوں گا کہ آپ جو فرمارہے ہیں وہ صحیح ہے ،لیکن نرمیٴ وسختیٴ دل کے
مقدمات واسباب تو آپ ہی کے اختیار میں ہیں․
یعنی آپ ایسے اعمال انجام دے سکتے ہیں جو آپ کے دل کو نرم وپاکیزہ بنادیں
نیز ایسے اعمال انجام دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیں جوآہ کے قلب کو سخت
بنادیں․
تو
اگر آپ کو قساوت قلب (قلب کی سختی )کاخوف ہے تو ایسے اعمال ترک کردیں جو
سختیٴ قلب کا سبب بنتے ہیں ،اور ایسے اعمال کی پابندی اور مواظبت کریں جو
دل کو نرم وپاکیزہ بناتے ہیں ،جیسا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر کے متعلق ”مجمع
البیان “میں وارد ہواہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ:
(مدت
غیبت کی درازی کے باعث )ان کے دل سخت ہوگئے ،دل کاخشوع زائل ہوگیا اور وہ
معصیتوں کے عادی وخوگر ہوگئے ․ ۲
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی گناہ پر ویسی
نہیں دیتا ہے جیسی سزانہیں دیتا
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔کمال
الدین :ج/۱، ص/۳۰۳،حدیث/۱۴․
۲۔ مجمع البیان : ج/۹، ص/۲۳۸․
ہے جیسی سزا قساوت قلب کے اوپر دیتا
ہے․
چنانچہ
میں یہاں پہ ان اسباب و مقدمات میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جیساکہ
میں نے حدیث کی کتابوں میں دیکھا ہے، تا کہ خود میرے واسطے بھی یاد دہانی
ہوجائے اور میرے برادران دینی واسطے بھی،
وی امور جو قلب کو نرم اور پاکیزہ بناتے ہیں حسب ذیل ہے:
(۱) ان
مجلسوں میں حاضر ہونا جن میں بقیةاللہ (عج) کاتذکرہ ہوتا ہے اور ان کے صفات
و خصوصیات وکمالات بیان کئے جاتے ہیں،اور ایسی مجلسوں میں شرکت کرنا جہاں
اہل بیت علیھم السلام کی نصائح کی روشنی میں موعظہ بیان کیا جاتا ہے یا
جہاںپہ قرآن مجید کی تلاوت وقرائت کا سلسلہ قائم ہو بشرطیکہ آیات قرآنی
کے معانی میں تفکر وتاٴمّل سے بھی کام لیا جارہاہو․
(۲) علماء
عالمین (اپنے علم کے مطابق عمل کرنے والے علماء)اہل طاعت وبندگی ،اور ایسے
افراد واشخاص کی ہم نشینی اور صحبت اختیار کرنا جو ہمیشہ آخرت کی یاد میں
بسر کرتے ہیں․
کیونکہ ان کی باتوں کو سن کر انسان نصیحت حاصل کرتا ہے ،اس کے علم وبصیرت
میں اضافہ ہوتاہے، انھیں دیکھ کر وہ خدا کی یاد میں مصروف ہوجاتوہے،ان کے
اعمال صالحہ کی تاٴسّی (پیروی)کرتا ہے تو طاعت وبندگی کی طرف اس کی رغبت
بڑھ جاتی ہے، اور وہ دنیا والوں کی صحبت ومجالست سے نگاہیں موڑلیتا ہے․
(۳) قبروں
کی زیارت کرنا․
(۴)
کثرت سے موت کا یاد کرنا․
(۵)یتیموں
کے سر پہ دست شفقت پھیرنا ، اور ان کے ساتھ محبت اور حسن سلوک کا مظاہرہ
کرنا،
اب
رہے وہ امور جو قلب کو سخت بنا تے ہیںتو وہ بھی حسب ذیل ہیں:
(۱)
ذکر الٰہی کو ترک کردینا․
(۲)
حرام غذا کا استعمال کرنا․
(۳)
دنیا والوں کی صحبت و ہم نشینی اختیارکرنا اور زیادہ ان سے ملناچلنا․
(۴)
سیر ہونے کے باوجود کھانا․
(۵)
زیادہ ہنسنا․
(۶)
کھانے پینے کی زیادہ فکر کرنا․
(۷)
ایسی چیزوں کے متعلق زیادہ گفتگو کرنا جو آخرت میں کچھ کام آنے
والے ہیں․
(۸)
دور دراز کی امیدیںباندھنا․
(۹)
اول وقت پہ نماز کا ادا نہ کرنا․
(۱۰)
اہل معصیت اور ارباب فسق و فجور کی صحبت ومعاشرت اختیار کرنا․
(۱۱)
آخرت میں کام نہ آنے والی باتوںکا سننا․
(۱۲)
لہو ولعب کی غرض سے شکار پہ جانا․
(۱۳)
امور دنیا سے متعلق کسی منصب یا رئاست کا قبول کرنا․
(۱۴)
پست اور شرم آور مقامات پہ جانا․
(۱۵)
عورتوںکے ساتھ زیادہ نشت و برخواست رکھنا․
(۱۶)
مال دنیا کا زیادہ ہونا․
(۱۷)
توبہ کا ترک کرنا․
(۱۸)
موسیقی(میوزیک)کاسننا․
(۱۹)
نشہ آور چیز کا بلکہ ہر حرام مشروب کا استعمال کرنا․
(۲۰)
اہل علم کی بزم کا ترک کرنا․
یعنی ایسی بزموں میں حاضرنہ ہونا جو قلب کے لئے نرمی وپاکیزگی کا باعث بن
سکتی ہیںاور جو مجالس احکام دین ، احادیث ومواعظہ ائمہ معصومین ،امام زمان
کے حالات اور قرآن کریم کی آیات کے ذکر وبیان پر مشتمل ہوں،مخصوصاًاگر
بیان کرنے والے کا عمل اس کے علم کے مطابق ہو تو پھر سننے والے کے دل میںاس
کی بات کا خاص اثر ہوتاہے․
چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے وارد ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
جو
شخص ایسی بزم میں بیٹھے جس میں ہمارے تذکرہ کو زندہ کیا جاتا ہے تو اس دن
اس کا دل مردہ نہ ہوگا جس دن بہت سے دل مردہ ہوںگے․ ۱
خلاصہ کلام یہ کہ اے صاحبان ایمان ! اپنے دلوںکو نرم وپاکیزہ بنائیے اور
منتخبی قلب سے چولنا اور ہوشیاررہئیے کہ کہیں معاملہ اس حد کو نہ پہونچ
جائے کہ پھر دلوںمیں وعظ ونصیحت کا کوئی اثر ہی نہ ہو اور انسان اللہ کی
رحمت سے پورے طور پر محروم ہوجائے․
اڑتالیسواں عمل: امام زمان علیہ السلام کی نصرت و یاری پہ اتفاق و
اجتماع کرنا․
یعنی مومنین کے دل اس بات کے اوپر باہم متفق و متحد ہوں اور امام کی نصرت
کے متعلق نیز آپ کا ہماری گردنوں پہ جو عہدو پیمان ہے اس کی وفا کے متعلق
،قلوب مومنین ہم عہد و ہم پیمان ہوں․
شیخ مفید کے نام امام زمانہ کی آخری توقیع مبارک میں جسے شیخ جلیل احمد
ابن ابی طالب طبرسی
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔امالی
صدوق :ص/۶۸،مجلس/۱۷،حدیث/۴، اوراسی حوالے سے بحار میں:ج/۴۴،ص/۲۷۸،حدیث/۱․
نے کتاب ”احتجاج “ میں ذکر کی ہے
وارد ہوا ہے کہ :
اگر اللہ کی طرف سے ہمارے شیعوں کو اطا عت الٰہی کی توفیق حاصل ہو جائے اس
حال میں کہ ان کے دل اس عہد و پیمان کی وفا کے تئیں جو ان کی گردنوں پر ہے
متفق و ہم آہنگ ہو جائیں تو ہماری ملاقات کے شرف سے فیضیاب ہو نے میں
انھیں تاخیر نہ ہوگی اور ہمارے دیدار کی سعادت انھیں جلد نصیب ہو جائے گی․ ۱
انچاسواں عمل : ہمارے ذمہ جو مالی حقوق ہیں جیسے زکاة ،خمس ،اور سہم
امام علیہ السلام ان کی ادائیگی میں اہتمام برتنا․
یہ
عمل تو ہر زمانے میں واجب ہے مگر غیبت امام کے زمانے میں اس کی اہمیت اور
اس کا نمایاں اثر ہے لہذا اس کے تئیں اہتمام برتیں ،کیونکہ اس کے متعلق
سفارش بھی کی گئی ہے اور حکم بھی دیاگیاہے ،چنانچہ امام مذکورہ بالاتوقیع
شریف میں فرماتے ہیں کہ:
اے
شیخ مفید ہم آپ کے برادران دینی ہیں جو اپنے پروردگار کاتقویٰ اختیار کرے
اور جو اس کے ذمہ حقوق ہیں وہ صاحبان حق تک پہونچائے تو وہ باطل فتنہ اور
اس کے گمراہ کن وتاریک شدائد ومصائب سے محفوظ ومامون رہے گا․
اور جسے اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا ہے اگر وہ ان لوگوں کے حق میں جن کے
ساتھ اللہ نے حسن سلوک کاحکم دیاہے بخل سے کام لے گا تو وہ اپنے بخل کے
نتیجہ میں دنیا میں بھی نقصان اور خسارہ کا شکار ہوگا اور آخرت میں بھی
․ ۲
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔احتجاج
:ج/۲،ص/۳۲۵․
۲۔
ایضاً
ملاحظہ : معلوم ہو کہ منجملہ مالی حقوق کے جو انسان کے اوپر مرتب ہوتے ہیں
یہ بھی ہے کہ ہر
سال مال کا
ایک مبلغ اپنے امام زمانہ کی خدمت میں ارسال کرے ،اور یہ حقّ مالی اس سہم
امام کے علاوہ ہے جوواجب ہے،اس لئے کہ سہم امام کچھ خاص چیزوں میں اور خاص
حالت میں واجب قراردیاگیا ہے جوفقہ کی کتابوں میں مذکورہ ہے ،لیکن یہ عمل
یعنی سالانہ مال کی ایک مقدار کا امام کی خدمت میں اہداء کرنا ایسا عمل ہے
جس کے لئے کوئی خاص شرط مقرر نہیں ہے بلکہ یہ تمام افراد کی ذمہ داری ہے
خواہ وہ فقیر ہوں یامالدار ،تمام حالات میں واجب ہے کہ ہر شخص اپنے مال کا
ایک حصہ سالانہ الگ کرے اور اسے اپنے امام زمانہ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش
کرے․
”بحارالانوار“اور
تفسیر ”البرہان“ مفضل سے رویت ہے وہ کہتے ہیں :
میں ایک روز امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ،میرے پاس کچھ
مبلغ مال تھا میں نے اسے امام کے سامنے رکھ دیا ،آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟
میں نے عرض کیا یہ آپ کے چاہنے والوں اور غلاموں کانذرانہ ہے ،فرمایا :اے
مفضل !میں اسے قبول کرتاہوں اور دیکھو میں اسے اس لئے نہیں قبول کررہاہوں
کہ مجھے اس کی ضرورت ہے بلکہ اس لئے قبول کررہاہوں تا کہ میرے چاہنے والے
پاک وپاکیزہ ہوجائےں․
پھرفرمایاکہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس چاہنے والے
کا ایک سال گذر جائے اور وہ اپنے مال کا کچھ نذررانہ ہماری خاطر روانہ نہ
کرے (چاہے اس کی مقدار کم کم ہو یا زیادہ)تو اللہ قیامت کے دن اس کی طرف
رحمت کی نگاہ نہ کرے گا سوائے اس کے کہ اسے معاف کر دے․
اس
کے بعد فرمایا: اے مفضل !یہ عمل ایک فریضہ ہے جیسے اللہ نے اپنی کتاب میں
ہمارے شیعوں پہ فرض قراردیاہے چنانچہ فرماتا ہے : ”لَنْ تَنالو البرحَتّیٰ
تُنْفِقُوامِمّاتُحِبُونَ“ ۱
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔
بحار ،ج/۹۶، ص/۲۱۶ حدیث /۵۔ البرہان ،ج/۱ ص/۲۹۷، (آیت ۹۲ سورہ ٴ آل عمران
)
یعنی تم ہرگز نیکی تک نہیں پہونچ سکتے جب تک کہ اپنے محبوب دلپسندیدہ چیز
کوراہ خدامیں خرچ
نہ کرو․
ایک
دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے ہی آیت ذیل :
”وَالَّذِینَ
یَصِلُونَ مٰا اَمَرَ اللّٰہ اَنْ یُوصَلَ“ (اللہ نے جن ہاتوں کے وصل
کاحکم دیاہے وہ ان کے وصل کو برقرار رکھتے ہیں ) کی تفسیر میں وارد ہوا ہے
کہ اس وصل سے مراد ہر سال کم یا زیادہ مقدار میں امام کے لئے نذرانہ کا
ارسال کرناہے․
پھر فرمایا : اس عمل کے ذریعہ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ تم پاکیزہ ہو جاوٴ
․ ۱
ایک اور حدیث میں آپ ہی نے فرمایا :
آل محمد کے لئے اپنے اموال کا نذرانہ ترک نہ کرو ․ تم میں جو مالدار ہے وہ
اپنی حیثیت کے بقدر اور جو نادار ہے وہ بھی اپنی بساط کے مطابق․
اور تم میں سے جو چاہتاہے کہ اللہ اس کے حوائج کو بر لائے اسے چاہئے کہ آل
محمد اور ان کے شیعوںکیخدمت میں اپنے اس مال کانذرانہ پیش کرے جس کی اسے
کچھ زیادہ ہی احتیاج ہے․ ۲
کتاب ”فقیہ “میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
ایک درہم جو امام کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا جائے وہ ان ہزار
ہاہزار درہم سے بہتر ہے جو راہ خدا میں سہی مگر امام کے علاوہ کسی اور کی
خدمت میں ہدیہ کیا جائے ۳
میں (موٴلف)کہتاہوں:منجملہ روٴیائے صادقہ (سچے خواب )کے ایک خواب میں نے
دیکھا
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۲۔بحار
،ج/۹۶، ص/۲۱۶ حدیث /۵۔ البرہان ،ج/۲ص/۲۸۹ (آیت ۲۱ سورہٴ رعد)
۳۔بحار:
ج/۹۴ص/۲۱۶،حدیث /۶․
۴۔الفقیہ
:ج/۲،ص۷۲․
وہ
یہ کہ ایک شب عالم روٴیا میں ایک بزرگوار کو دیکھا کہ فرمارہے ہیں:
جوموٴمن اپنے مال کا کچھ مبلغ غیبت امام کے زمانہ میں نذرانہ کے عنوان سے
امام کی خدمت میں پیش کرے اس کا ثواب اس مبلغ مال سے لاکھوں گنا زیادہ ہے
جو امام کے خدمت ظہور وحضور کے زمانہ میں ان کی خدمت میں پیش کرے گا․
اور انشاء اللہ ۵۱ویں عمل کے ذیل میں ایک حدیث کاذکر ہوگا جو اس مطلب کی
تاٴیید کرتی ہے
اور مخفی نہ رہے کہ زمان حاضر میں جب کہ ہمارے امام زمانہ غیبت میں ہیں ،واجب
ہے کہ بندہٴ مومن جو مبلغ مال ،ھدیہ کے طور پر خدمت امام میں پیش کرنا
چاہتاہے اسے ایسے امور میں صرف کرے جو امام کی خوشنودی ورضا کا موجب قرار
پائےں مثلاً امام سے متعلق کتابوں کی طباعت اور نشر واشاعت میں صرف کرے یا
ان مجالس ومحافل میں جن میں امام کے فضائل وکمالات کاتذکرہ ہوتاہے ،یا امام
کے چاہنے والوں کو امام کی طرف سے ہدیہ کے طور پر عطا کرے ،اور پھر اسی طرح
کے دیگر امور میں اہم بعد از اہم کی رعایت کرتے ہوئے اس مال کو صرف کرے (واللہ
العالم)
اور منجملہ مالی حقوق کے صلہٴ رحم ہے اور پڑوسیوں کی مدد کرنا ہے،یہاں تک
کہ لوازمات منزل، جیسے برتن ،چراغ وغیرہ بطور عاریت دینے میں ہمسایوں کی
مدد کرے بلکہ اگر انھیں معمولی سے معمولی چیزوں کی ضرورت پڑجائے جیسے نمک
اور مسالہ وغیرہ تو وہ بھی دینے میں دریغ نہ کرے․
پچاسواں عمل : مرابطہ ہے (مرابطہ:لشکر کامقیم ہونا،پڑاوٴ ڈالنا)
معلوم رہے کہ مرابطہ کی دو قسمیں ہیں:
قسم (۱) وہ مرابطہ ہے جس کاتذکرہ ،فقہا ء کتاب الجہاد میں کرتے ہیں اس کے
معنی یہ ہیں کہ بندہٴ موٴمن کسی ایک سرحد پہ مقیم ہو اور اپنی سواری (گھوڑاوغیرہ)کافروں
کے ملک کے قریب اس غرض سے باندھ دے کہ اگر کفار مسلمانوں پہ حملہ کرنا
چاہیں تو وہ مسلمانوں کو جاکر خبر دے، یااگر لازم ہوا
تو کفار کی
زیادتیوں سے دوچار ہونے کی صورت میں مسلمانوں کا دفاع کرے․
مرابطہ کا یہ عمل ،مستحب موکّد ہے خواہ امام کے وجود وحضور کا زمانہ ہو
یاغیبت کازمانہ․
جیساکہ اس مطلب کاتذکرہ علامہ حلیۺ نے اپنی کتاب ”ارشاد الاذھان “اور شہید
ثانی ۺنے اپنی کتاب ”الروضة البہیة“ میں کیاہے۔
اور پیغمبر خدا سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
ہر
مرجانے والے کے عمل کا خاتمہ ہوجاتاہے بجز راہ خدا میں مرابطہ کرنے والے کے،
کہ اس کا عمل روز قیامت تک بڑھتا اور نشورنما کرتا رہتا ہے، اور وہ قبر کی
سختیوں سے محفوظ رہتا ہے ․ ۱
ایک دوسری حدیث میں کتاب ”المنتہی“کے حوالے سے کتاب ”الجواہر“ میں وارد ہوا
ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
راہ خدا میں ایک شب رِباطِ خَیْل (گھوڑے کا باندھ نا) ایک مہینے کے روزے
اور عبادت سے بہتر ہے․ ۲
واضح رہے کہ مرابطہ کی اس قسم کے لئے دو/۲ شرطیں ہیں:
پہلی شرط : یہ ہے کہ اغیار کی زیادیتوںسے بلاد اسلام اور شریعت خیر الانام
کی حفاظت کے لئے کسی سر حدی علاقہ میں مقیم ہو، اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ
اگر انسان اس جگہ پہ خود قیام نہیں کرسکتا ہے تو اسے چاہئے کی اپنی نیابت
میں کسی دوسرے شخص کو وہاں پہ رکھدے․
دوسری شرط: یہ ہے کہ سر حدی علاقہ پہ مرابطہ کم از کم مدت، تین روز ہونا
چاہئے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت، چالیس دن ہے، چنانچہ اگر چالیس دن
سے زیادہ قیام کرے تو اس کا شمار
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ المنتہی: ج/۲ ص/۹۰۲․
۱۔ جواہر الکلام ،ج/حج و جہاد
۔ص/۵۵۵،المنتہی ج/۲ ،ص/۹۰۲
مجاہدوں میں ہوگا، اور راہ خدا میں
جہاد کرنے والے کا ثواب اسے عطا کیا جائے گا ، جیسا کہ کتاب ”ارشاد الاذہان“ وغیرہ
میں مذکور ہے․
قسم (۲) مرابطہ کی دوسری قسم یہ ہے کہ بندہٴ مومن اپنے گھوڑے اور تلوار
وغیرہ کو امام کے ظہور کی آمادگی اور ان کے نصرت و حمایت کے لئے تیار رکھے․
مرابطہ کی اس قسم کے لئے نہ کوئی خاص وقت ہے اور نہ کوئی معین جگہ․
کتاب ”روضة الکافی “ میں ابوعبد اللہ جعفی کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ:مجھ
سے ابو جعفر محمد باقر علیہ السلام نے پوچھا ․ تمھارے نزدیک مرابطہ کی کیا
مدت ہے ؟میں نے کہا چالیس دن․
تو
آپ نے فرمایا:لیکن ہمارا مرابطہ پوری عمر کا مرابطہ ہے اور جو ہمارے سلسلہ
میں ایک گھوڑا باندھ رکھے تو اس کے لئے گھوڑے کا وزن ہوگا اور گھوڑے کے وزن
کا وزن ہوگا جب تک وہ گھوڑا اس کے پاس ہے․
اور جو ہمارے سلسلہ میں کوئی اسلحہ باندھ رکھے تو جب تک وہ اسلحہ اس کے پاس
ہے اس کے لئے اس اسلحے کا وزن ہوگا
ایک دفعہ یا دو دفعہ سے یاتین دفعہ یا چار دفعہ سے تم گھبرا نہیں جانا کیوں
کہ ہماری اور تمھاری مثال بنی اسرئیل کے اس نبی کی مثال ہے جن کی طرف اللہ
نے یہ وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کے لئے دعوت دو میں تمھاری مدد کروںگا․
چنانچہ اس نبی خدا نے قوم والوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں وغیرہ سے بلا کر اکٹھا
کیا ، پھر انھیں لے کر جنگ کے لئے نکل پڑے تو قوم والوں نے نہ کوئی تلوار
چلائی اور نہ ہی کوئی نیزہ مارا یہاں تک کہ شکست کھا گئے․
کچھ مدت کے بعد اللہ نے انھیں پھر وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کی دعوت دو
میں تمھاری نصرت
کروں گا وحی
کے مطابق انھوں نے قوم کو دعوت دی تو وہ کہنے لگے کہ آپ نے اس سے پہلے بھی
ہم سے نصرت کا وعدہ کیاتھا مگر اللہ نے ہمیں نصرت نہیں
عطا کی تو اللہ نے انھیں وحی کی کہ
قوم والوں سے کہہ دو کہ وہ یا جنگ کا انتخاب کریں یا آگ کا (آتش جہنم
کا)تو نبی نے عرض کیا پرور دگارا !مجھے آگ کی نسبت جنگ کہیں زیادہ محبوب
ہے․
چنانچہ انھوں نے دوبارہ قوم کو دعوت دی تو ان میں سے جنگ بدر والوں کی
تعداد کے برابر تین سو تیرہ افراد نے قبول کیا ، نبی ٴخدا انھیں لے کر نکلے
تو ان لوگوں نے نہ کوئی تلوار ماری اور نہ کوئی نیزہ مارا یہاں تک کہ اللہ
نے انھیں فتح عطا کی ․ ۱
علامہ مجلسی حدیث کے اس فقرہ ”ہمارا مرابطہ ساری عمر کا مرابطہ ہے “ کی
تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعوں پر واجب ہے کہ وہ ہمیشہ
امام بر حق کی اطاعت اور ظہور کے انتظار میں خود کو آمادہ رکھیں اور امام
کی نصرت کے لئے ہر وقت تیار رہیں․
نیز اس فقرہ ”تو اس کے لئے گھوڑے کا وزن ہوگا اور گھوڑے کے وزن کا وزن ہوگا
“کی تشریح میں فرماتے ہیں : یعنی اس کے لئے گھوڑے کے دو گنا وزن کے برابر
راہ خدا میں سونا چاندی تصدق کرنے کا ثواب حاصل ہوگا ․یا دو گھوڑے کے وزن
کے برابر اسے ثواب عطا ہوگا (واللہ تعالیٰ ہوالعالم)
اور اس سلسلہ میں اور بھی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جن کا تذکرہ میں نے اپنی
کتاب ”مکیال المکارم“جلد دوم کے آخر میں کیا ہے․
اکیاونواں عمل : پسندیدہ صفات اور اچھے اخلاق کسب کرنے ،طاعات و شرعی
عبادات کے ادا کرنے اور جن گناہوں اور معصیتوں سے شریعت مقدس میں روکا گیا
ہے ان سے اجتناب کرنے
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔روضة
الکافی ،ص/۳۸۱
میں سعی و
کوشش کرنا اور ان باتوں کو اہمیت دینا
کیوں کہ ان امور کا غیبت امام کے زمانہ میں خیال رکھنا امام کے ظہور کے
زمانہ میں خیال رکھنے سے زیادہ مشکل ہے اس اعتبارسے کہ غیبت کے زمانہ میں
فتنوں کی کثرت ہوگی اور ملحدوں ،شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں اور مومنین
کو گمراہ کرنے والوں کی فراوانی ہوگی․
اسی
لئے پیغمبر اسلام کی حدیث گرامی میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے امیر المومنین سے
فرمایا : اے علی !لوگوں میں سب سے اچھے اعمال اور سب سے عظیم یقین والے وہ
لوگ ہوں گے جو آخری زمانہ میں ہوں گے،نبی کے زمانہ کو انھوں نے درک نہ کیا
ہوگا ،نبی و وصی نبی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوںگے اس کے باوجود وہ تاریک
حالات میں دین کی روشن باتوں پہ ایمان رکھتے ہوںگے ․ ۱
”بحار
الانوار “میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
جو
شخص قائم آل محمد کے اصحاب میںہونے کی سعادت کا خواہاں ہے اسے چاہئے کہ
انتظار کرے اور حالت انتظار میں ورع و پرہیز گاری اور نیک اخلاق و صفات کے
ساتھ عمل انجام دے چنانچہ ایسے میںاگر اسے موت آجائے اور اس کے بعد قائم
آل محمد کا ظہور ہو جائے تو اس کو وہی اجر و ثواب ملے گا جو امام کے فیض
صحبت سے شرف ہونے والے کو اجر و ثواب ملے گا ․ ۲
”کافی
“ میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
:
تم
سے جو شخص نماز فریضہ دشمن سے چھپ کر وقت پر تنہا انجام دے اور نماز کو
تمام کرے اللہ اس کے لئے اس ایک نماز فریضہ کے عوض پچیس فرادی ٰ نماز فریضہ
لکھے گا اور تم میں سے جو شخص نماز نافلہ وقت
پہ انجام دے اور اسے تمام کرے تو
اللہ اس کے لئے ایک کے عوض میں دس نافلہ نمازیں تحریر کرے گا․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔کمال
الدین ،ج/۱۔ص/۲۸۸ ،حدیث ۸
۲۔ بحار ،ج/۵۲ ،ص/۱۴۰
اور
تم سے جو ایک نیکی انجام دے اللہ اس کے بدلے میں اس کے لئے بیس نیکیاں لکھے
گا اور تم میں سے جو بندہٴ مومن اپنے اعمال کو بہتر بنائے اپنے دین اپنے
امام اور اپنے نفس کی بابت تقیہ کی پابندی کرے اور اپنی زبان پہ قابو رکھے
تو اللہ اس کی نیکیوں میں کئی اور کئی گنا اضافہ فرمائے گا ،بلا شبہ اللہ
کریم ہے․ ۱
اگر آپ یہ کہیں کہ زمان حاضر میں جب کہ ہمارے امام پردہٴ غیب میں ہیں ہم
کس طرح امام کے تئیں تقیہ کی پابندی کر سکتے ہیں ؟!
میں کہوں گا کہ بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں جہاں تقیہ کرنا واجب ہوتا
ہے ․تو اگر اس کی پابندی نہ کی جائے تو دشمنان دین و امام آپ کی شان میں
گستاخی کرتے ہیں ․نہایت غیر مناسب الفاظ میں امام کو یاد کرتے اور وہ کچھ
کہہ دیتے ہیں جو انھیں نہیں کہنا چاہئے تو ایسے موقع پر اگر کوئی بندہٴ
مومن تقیہ کا مخالف ہے تو وہ سبب بنے گا کہ شان امام کا تحفظ نہ ہو․
جیسا کہ اللہ عزوجل قرآن میں فرماتا ہے :
”ولا
تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا
اللہ عددوا
بغیر علم“ ۲
(اور تم ان
لوگوں کو برا بھلا نہ کہو جو غیر خدا کی پکارتے ہیں ورنہ
وہ عداوت
میں از روئے جہالت خدا کو برا بھلا کہیں گے)
اور اس باب میں روایتیں بے شمار ہیں․
باونواں عمل : توجہ اور خشو ع کے ساتھ جمعہ ،عید غدیر، عید فطر، اور عید
ضحی کے دن دعائے․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ کافی ،ج/۱۔ص/۳۳۳
۲۔ سورہ انعام آیت ۱۰۸
ندبہ کا پڑھنا جو امام زمانہ علیہ
السلام سے ہی متعلق ہے ․ جیسا کہ کتاب ” زاد المعاد“ میں وارد ہوا ہے․
ترپنواں عمل : روز جمعہ جو امام سے مخصوص ہے خود کو امام کا مہمان
سمجھنا اور ذیل کی زیارت پڑھنا جسے سید ابن طاوٴس نے اپنی کتاب ”جمال
الاسیوع“میں ذکر کیا ہے․
السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا حُجَّةَ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِہِ،السَّلاٰمُ
عَلَیْکَ یٰا عَیْنَ اللّٰہ فِی خَلْقِہِ،السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا
نُورُ اللّٰہ ِالَّذِی یَھْتَدِی بِہِ الْمُھْتَدُونَ وَ لِفُرَّج
بِہِ عَنِ الْمُوْمِنِینَ،السَّلاٰمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا الْمُھَذَّبُ
الْخٰائِفُ،السَّلاٰمُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالْوَلِیُّ النّٰاصِحُ،
السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا عَیْنَ لاٰحَیٰاةِ، السَّلاٰمُ عَلَیْکَ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْکَ وَ عَلَی آلِ بَیْتِکَ الطَّیِّبِینَ الطّٰاھِرِینَ،
السَّلاٰمُ عَلَیْکَ عَجَّلَ اللّٰہ لک ما وعدک من النصر و ظھور الامر،
السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یا مولای انا مولاک عارف باولاک واخراک،
اتقرب الیٰ اللہ تعالیٰ بک و بآل بیتک و انتظر ظھورک و ظھور الحق علی یدک
و اسئال اللہ ان یصلی علی محمد و آل محمد و ان یجعلنی من المنتظرین لک
والتابعین والناصرین لک علی اعدائک والمستشھدین بین یدیک فی جملة اولیائک․
یا
مولای یا صاحب الزمان صلوات اللہ علیک و علی آل بیتک ھذا یوم الجمعة وھو
یومک المتوقع فیہ ظھورک والفرج فیہ المومنین علی یدک و قل الکافرین بسیفک․
و
انا یا مولای فیہ ضیفک و جارک و انت یا مولای کریم من اولاد الکرامک وما
مور بالضیافة والا جارة فاضفنی و اجرنی صلوات اللہ علیک و علی اھل بیتک
الطاھرین “ ۱
ترجمہ۔ آپ پر سلام ہو اے زمین پر خدا کی حجت ، آپ پر سلام ہو اے خلق
خدا پر اللہ کے چشم و نگراں ،آپ پر سلام ہو اے وہ نور الٰہی جس کی بدولت
طالبان ہدایت کو ملتی اور مومنین کی پریشانی و مصیبت دور ہوتی ہے ․ آپ
سلام ہو اے مہذب و خائف ․آپ پر سلام ہو اے ولی ناصح ،آپ پر سلام ہو اے
کشتی ٴ نجات ، آپ پر سلام ہو اے چشمہٴ حیات ، آپ پر سلام ہو اللہ آپ پہ
اور آپ کے خاندان پاک پہ درود و رحمت نازل کرے․
آپ پر سلام ہو،اللہ نے آپ سے نصرت اور ظہور امر کا جو وعدہ کیا ہے اس میں
تعجیل فرمائے آپ پر سلام ہواے مولا ،میں آپ کا غلام ہوں ،آپ کے اول و
آخر کی معرفت رکھتا ہوں اور آپ کے وسیلہ سے اور آپ کے خاندان پاک کے
وسیلہ سے میں تقرب الٰہی کا خواہاں ہوں ․میں آپ کے ظہور نیز آپ کے ہاتھوں
حق کے ظہور کا منتظر ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ محمد و آل محمد پر
صلوات و رحمت نازل کرے اور مجھے آپ کے منتظرین ،آپ کے تابعین و دشمنوں کے
بر خلاف آپ کے ناصرین اور آپ کے روبرو درجہ شہادت پہ فائز ین میں قرار دے․
اے
مولا صاحب الزمان !آپ پر اور آپ کے خاندان پاک پر اللہ کی رحمتیں نازل
ہوں یہ جمعہ کا دن ہے ،وہی دن ہے جس میں آپ کے ظہور ،مومنین کے لئے آپ کے
ہاتھوں کشایش و وسعت اور آپ کی شمشیر سےکافروں کے قتل کی امید ہے․
اور اے مولا ! میں آج کے دن آپ کا مہمان اور آپ کی پناہ کا خواہاں ہوں ،اور
اے مولا آپ کریم ابن کریم ہیں مہماں نوازی اور پناہ دہی آپ کی شان ہے ․لہٰذا
آپ مجھے اپنا مہمان قبول کریں اور مجھے پناہ عنایت کریں ،آپ پر اور آپ
کے خاندان پاک پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔ جمال الا سبوع ، ص/۳۷
چوّنواں عمل : کتاب ”کمال الدین “اور ”جمال الاسبوع “ میں صحیح اور معتبر
اسناد کے ساتھ شیخ ثقہ جلیل القدر عثمان ابن سعید عمری سے روایت ہے کہ
انھوں نے درج ذیل دعا کے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ غیبت امام کے
زمانے میں اس دعا کا پڑھنا شیعوں پر واجب ہے․
میں(موٴلف) کہتا ہوں کہ یہ شیخ جلیل غیبت صغری کے زمانے کے نُوّاب اربعہ
میں نائب اول تھے ،لہذا وہ جس بات کا حکم دیں وہ بات ضرور صاحب الامر علیہ
السلام سے صادر ہوئے ہے․
بنابرایںجب بھی آپ کے یہاں حسن توجہ بیدا ہو اس دعا کو پڑھیں اور اس کے
تئیس کوتاہی نہ برتیں خاص طور پر جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد ، کہ سید جلیل
علی بن طاوٴس نے اپنی کتاب ”جمال السبوع“ میں لکھا ہے کہ اگر تمہیں عذر در
پیش ہو ان تمام تعقیبات کے پڑھنے سے جو جمعہ کے دن نماز عصر سے متعلق ہم نے
ذکر کئے ہیں،تو خبردار اس دعاء کے پڑھنے میں کوتاہی نہ کرنا کیونکہ ہم
جانتے ہیں کہ یہ دعا اللہ جل شانہ کی طرف سے خاص فضل و نعمت ہے جس سے اس نے
صرف ہمیں نوازا ہے لہذا تم اس دعا پہ اعتماد کرو اور اس کا سہارالو․
سیدا بن طاوٴس کی اس عبارت سے سمجھ میں آتا ہے کہ اتنی اہمیت کے ساتھ اس
دعا کے پڑھنے کا حکم حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی جانب سے سید ابن
طاوٴس کے لئے صادر ہوا ہے، اور سید ابن طاوٴس کے مقام ومنزلت دیکھتے ہوئے
ایسا ہونا کچھ بعید نہیںہے․
وہ
دعا یہ ہے :
اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ
لَمْ اَعْرِفْ رَسُولَکَ ،
(
خدا یا! تو مجھے اپنی معرفت عطا کرکہ اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہیں عطا
کی تو تیرے رسول کی معرفت حاصل نہیں کرسکوںگا)،
اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ
رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ،
(
خدا یا! تو مجھے اپنی رسول کی معرفت عطا کرکہ اگر تو نے مجھے اپنے رسول
کی معرفت نہیں عطا کی تومیں تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کرسکوںگا)،
اَللّٰھُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی
حُجَّتَک ظَلَلْتُ عَنْ دِینِی ،
(بار
الٰہا! تو مجھے اپنے حجت کی معرفت عطا کرکہ اگر تو نے مجھے اپنے حجت کی
معرفت نہیں بخشی تومیں اپنے دین سے منحرف ہوجاوٴںگا)،
اَللّٰھُمَّ لاٰ تُمِتْنِی مِیْتَةً جٰاھِلِیَّةً وَلاٰ تُزِغْ قَلْبِی
بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنِی،
(خدایا!
مجھے زمانہٴ جاہلیت جیسی موت نصیب نہ کر اور مجھے ہدایت عطا کرنے کے بعد
میرے دل کو کجی و انحراف میںمبتلا نہ کر) ،
اَللّٰھُمَّ فکما ھدیتنی بولایة من فرضت طاعتہ علی من ولاة امرک بعد رسولک
صلواتک علیہ وآلہ حتی والیت ولاة امرک امیر الموٴمنین والحسن والحسین و
علیاً ومحمداً وجعفراً و موسی علیاً ومحمداً و علیاً والحسن والحجة القائم
المھدی صلواتک علیھم اجمعین،
بار الہا! جس طرح تونے ان افراد کی ولایت کی مجھے راہنمائی کی جن کی طاعت
کو تونے میرے اوپر فرض لازم قرار دیاہے ،اور جو تیرے رسول صلواتک علیہ
وآلہ کے بعد تیرے صاحبان امر ہیں یہاں تک کہ میں تیرے صاحبان امر کو دوست
رکھنے لگا جو امیر الموٴمنین علی ہےں،حسن حسین ہیں، علی ابن الحسین ،محمد
ابن علی ،جعفرا بن محمد ،موسی ابن جعفر ،علی ابن موسی ،محمد ابن علی ،علی
ابن محمد ،حسن ابن علی اور حجت قائم مھدی ہیں صلواتک علیھم اجمعین،
اللھم فثبتنی علی دینک واستعملنی بطاعتک ولیّن قلبی لولیّ امرک وعافنی ممّا
امتنحت بہ خلقک،
تو
خدایا! مجھے ثابت قدم رکھ اپنے دین کے اوپر، مجھے مشغول رکھ اپنی طاعت
میں ،اور اپنے صاحب امر کے لئے میرے قلب کو نرم قرار دے ،اور جن باتوں نے
اپنی خلق سے امتحان لیا ہے اس سے مجھے عافیت نصیب کر ،
و
ثبتنی علی طاعة ولی امرک الذی سترتہ عن خلقک فباذنک غاب من بریّتک وامرک
ینتظر،
اور مجھے ثابت قدم رکھ اپنے ولیّ امر کی اطاعت کے اوپر جن ہیں تو نے اپنی
خلق سے پوشیدہ کر رکھاہے تووہ تیرے اذن ہی سے نگاہ خلائق سے اوجھل ہیں،اور
تیرے ہی حکم کے منتظر ہیں،
وانت العالم غیر معلم بالوقت الذی فیہ صلاح امر ولیّک فی الاذن لہ باظھار
امرہ وکشف سترہ،
اور صرف تو جانتا ہے اور کسی کو علم نہیں اس وقت کا جس میں تیرے ولی کے
ظہور میں مصلحت ہے کہ تو انھیں مرحمت فرمائے اور وہ ظاہر ہوں اور پردہٴ غیب
اٹھادیں،
فصبّرنی علی ذالک حتی لااحب تعجیل ما اخّرت ولا تاٴخیر ما عجّلت ولا اکشف
عمّا سترت ولا ابحث عمّا کتمت ولا اُنازعک فی تدبیرک ولا اقول لم وکیف
ومابال الولیّ الامر لا یظھر وقد امتلاٴت الارض من الجور و افوّض اموری
کلّھا الیک،
پس
مجھے تو اس امر کے اوپر صبر عنایت فرماتا کہ جس چیز کی تاٴخیر میں تیری
مصلحت ہے میں اس کی تعجیل کا خواہاںنہ بنوںاور جس چیز کی تعجیل میں تیری
حکمت ہے میں اس کی تاٴخیر کا طالب قرار نہ پاوٴں اور جس چیز کو تونے پردہ
میںرکھا ہے میں اس سے پردہ نہ اٹھاوٴں،اور جس کو تونے صیغہٴ راز میں رکھا
ہے میںاس کی جستجو نہ کروں، تیری تدبیر کی بابت تجھ سے میں جدال نہ کروں ،کیوں
اور کیسے کا سوٴال نہ کرو ں اوریہ نہ کہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ولی امر
ظہور نہیں فرمارہے ہیں جبکہ دنیا ظلم وجور سے بھر چکی ہے بلکہ میں اپنے
تمام امور کو تیرے سپرد کرتاہوں،
اللھم انی اسئلک ان ترینی ولیّ امرک ظاھرا نافذ الامر مع علمی باٴن لک
السّلطان و القدرة والبرھان والمشیئة والحول والقوة ،
خدایا! میں تجھ سے سوٴال کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ولی امر کا دیدار نصیب
فرما ،اس حال میں کہ ان کا غلبہ ہو اور ان کے حکم کا نافذ ہو،
جبکہ مجھے علم ہے کہ سلطنت،قدرت،برہان،مشیئت اور طاقت وقوت سب تیری ذات سے
مخصوص ہے،
فافعل ذالک بی و بجمیع الموٴمنین حتّی ننظر الی ولیّک صلواتک علیہ وآلہ
ظھر المقالة واضح الدلاة ھادیا من الضلالة شافیاً من لاجھالة،
اے
خدا! تو میرے ساتھ اور تمام موٴمنین کے ساتھ ایسا ہی کرتا کہ ہم تیرے ولی
صلواتک علیہ وآلہ کی طرف نگاہ کریں تو انھیں ایسا پائیں کہ ان کا قول غالب
اور ان کی دلالت رواشن ہو وہ ضلالت و گمراہی سے ہدایت کا فریضہ انجام دے
رہے ہوں اور جہالت و نادانی سے لوگوں کو شفاعت فرمارہے ہوں ،
و
ابرز یا رب مشاھدتہ و ثبت قواعدہ وجعلنا ممّن تقر عینہ بروٴیتہ و اقمنا
بخدمتہ و توفّنا علی ملّتہ واحشرنا فی زمرتہ ،
اور پروردگارا! ان کے دیدار کو نمایاں کر،ان کے اصولوں کومستحکم فرما،اور
ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کے آنکھیں ان کے دیدار سے خنک ہوں، ہمیں ان
کی خدمت میں قائم ودائم رکھ، ان کے مذہب وملت کے اوپر ہمیں موت نصیب کر اور
ان کے زمرہ میں ہمیں محشور فرما ،
اللھم اعذہ من شر جمیع و براٴت و ذراٴت وانشاٴت وصوّرت واحفظہ من بین یدیہ
ومن خلفہ وعن یمینہ وعن شمالہ ومن فوتہ ومن تحتہ بحفظک الّذی لا یضیع من
حفظتہ بہ واحفظ فیہ رسولک ووصی رسولک علیھم السلام،
بار خدایا ! تو انھیں پناہ دے ان تمام چیزوں کے شر سے جو تونے پیدا کی ہیں
،خلق کی ہیں ،ایجاد کی ہیں اور جنھیں تونے ہستی اور صورت بخشی ہے،
اور انھیں سامنے سے ،پیچھے سے ،داہنے سے ،بائیں سے، اوپر سے نیچے سے اپنے
اس تحفظ کے ذریعہ محفوظ رکھ کے جسے بھی تونے اس تحفظ سے محفوظ رکھ وہ کبھی
ضائع نہیں ہوا اور ان کے سلسلہ میں (اور ان کی ذات میں )اپنے رسول اور وصی
رسول کاتحفظ فرما،علیہم السلام
اللھم ومدفی عمرہ وزد فی اجلہ واعنہ علی دلیتہ واسترعیتہ وزد فی کرامتک
فانہ الھادی المھتدی والقائم المھدی الطاھر التقی الزکی النقی الرضی المرضی
الصابر الشکور المجتھد،
بار الہا! ان کی عمر کو دراز کر ،ان کی مدت حیات میں اظافہ فرما اور جن
امور کاتونے انھیں ذمہ دار ونگراں قرار دیا ہے ان میں ان کی مدد کرو،ان کے
عز وشرف میں اضافہ فرما ،کہ وہی ہادی ،مہتدی ،قائم،مہدی،طاہر،تقی ،زکی،نقی،رضی،مرضی،صابر،شکرگزار
اور جفاکش ہیں،
اللھم ولاتسلبنا الیقین لطول الامد فی غیبتہ وانقطاع خبرہ عنا ولا تنسنا
ذکرہ وانتظارہ والایمان بہ وقوة الیقین فی ظھورہ والدعاء لہ والصلوة علیہ
حتی لایقنطنا طول غیبتہ من ظھورہ وقیامہ ویکون یقیننا فی ذالک کیقننا فی
قیام رسولک صلی اللہ علیہ وآلہ وماجاء بہ من وحیک وتنزیلک،
پروردگارا ! امام کی مدت غیبت طولانی ہوجانے اور ان کے خبر سے ہم سے منقطع
ہوجانے کے باعث ہمارے یقین کو سلب نہ کر ،ان کی یاد ،ان کاانتظار ،ان پہ
ایمان ،ان کے ظہور کے سلسلہ میں قوت یقین ان کے لئے دعا اور ان کے اوپر
درودوورحمت کو ہم سے فراموش نہ ہونے دے ،تاکہ غیبت کی درازی ان کے ظہور
وقیام کی طرف سے ہمیں مایوس نہ بناسکے اور اس مسئلہ میں ہمارا یقین ،تیرے
رسول کے قیام ،اور وحی الہی وتنزیل کتاب کے متعلق یقین کی مانند ہو،
وقو قلوبنا علی الایمان بہ حتی تسلک بنا علی یدیہ منھاج الھدی والمحجة
العظمی والطریقة الوسطی ،
اورہمارے قلوب کو ان کے اوپر ایمان کی بابت قوت عطاکر تاکہ ان کے بدست ،تو
ہمیں ہدایت کے راستے ،عظیم جادہ اور بیچ کی راہ وروشن پر گامزن کرے ،
وقونا علی طاعتہ وثبتنا علی متابعتہ وجعلنا فی حزبہ واعوانہ وانصارہ
والراضین بفعلہ ولا تسلبنا ذالک فی حیاتنا ولاعند وفاتناحتی تتوفانا ونحن
علی ذالک لاشاکین علی ناکثین ولامرتابین ولامکذبین ،
اور ہمیں ان کی اطاعت کی قوت عطا کر ،ان کی متابعت کے اوپر ثابت قدم رکھ ،ہمیں ان
کے گروہ میں ان کے اعوان و انصار میں اور ان کے فعل سے راضی رہنے والوں میں
قرار دے ،
اور یہ توفیق نہ ہماری زندگی میں ہم سے سلب کر اور نہ موت کے وقت ،یہاں تک
کہ توہمیں موت دے تو ہم اسی بات کے اوپر قائم رہیں ،نہ شک میں مبتلا ہوں ،نہ
عہد کے توڑنے والے ٹھہریں ،نہ کسی ریب وشبہہ سے دوچار ہوں اور نہ ہی
تکذیب کرنے والے قرار پائیں ،
اللہم عجل فرجہ وایدہ وبالنصر و انصر بہ ناصریہ واخذل خاذلیہ ودمدم علی من
نصب لہ وکذب بہ،
ان
کی نصرت ترک کرنے والوں کی نصرت ترک فرما اور ان سے دشمنی کامظاہرہ کرنے
والوں نیز ان کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک فرما،
واظھر
بہ الحق وامت بہ الجور واستنفذ بہ عبادک الموٴمنین من الذل وانعش بہ البلاد
واقتل بہ جبابرةالکفر واقصم بہ روٴوس الضلالة،
اور ان کے بدست ،حق کاظاہر کر ،ظلم وجور کانابود کر ،اپنے مومن بندون کو
ذلت سے نجات دے ،زمین کو نشاط وحیات دے کفر کے سر غنوں کو ان کے ہاتھوں قتل
کردے ،اور ضلالت وگمراہی کے سرداروں کو توڑ کر رکھدے ،
وذلل بہ الجبارین والکافرین وابر بہ المنافقین والناکثین وجمیع المخالفین
والملحدین فی مشارق الارض ومغاربھا وبرھا وبحرھا وسھلھا وجبلھا حتی لاتدع
منھم دیاراً ولاتبقی لھم آثاراً وطھر منھم بلادک واسف منھم صدور عبادک ،
اور ان کے ذریعہ جباروں اور کافروںکو ذلیل کر، منافقوں ،عہد شکنوں، ان کے
تمام مخالفوں اور ملحدوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے چاہے وہ مشرق میں ہوں یا
مغرب میں ،خشکی میں ہوں یا سمندر میں ، ہموار زمین میں ہوں یا پہاڑوں پہ ،اور
پھر ان میں سے کسی ایک کو زندہ و سلامت نہ رکھ ، ان کے آثار کو باقی نہ
چھوڑ ، ان کے وجود سے کرہٴ ارض کو پاک کر دے اور ان سے اپنے بندوں کے سینوں
کو شفا دے دے․
وجدد بہ ماامتحی من دینک واصلح بہ مابدل من حکمک وغیر من سنتک حتی یعود
دینک بہ وعلی یدیہ غضاً جدیداً صحیحاً لاعوج فیہ ولا بدعة معہ
اور ان کے ذریعہ اپنے مٹے ہوئے دین کو زندہ کر ،اور تیرا حکم جو بدل دیا
گیا ہے اور تیری سنت میں جو تغیر کردیا گیا ہے اس کی اصلاح فرما،تاکہ ان کے
ذریعہ اور ان کے ہاتھوں تیرا دن ترو تازہ ،جدید اور صحیح شکل وصورت میں پلٹ
آئے جس میں نہ کسی طرح کی کجی ہو اور نہ اس کے ہمراہ کسی قسم کی بدعت ،
حتی تطفیٴَ بعدلہ نیران الکافرین فانہ عبدک الذی استخلصہ لنفسک و ارتضی-تہ
لنص-رة دینک واصطفیتہ بعلمک وعصمتہ من الذنوب و بّراٴتہ من العیوب
واطعتہ علی الغیوب وانعمت علیہ وطھرتہ من الرجس ونقّیتہ من الدنس،
یہاںتک کہ تو ان کے عدل وانصاف سے کافروں کی آگ کو خاموش کردے ،کیونکہ وہ
تیرے وہ بندے ہیں جن کو تو نے اپنے لئے خالص قرار دیاہے ، اپنے دین کی نصرت
کے لئے انھیں منتخب کیا ہے ،اپنے علم سے انھیں برگزیدہ کیا ہے، گناہوںسے
معصوم اور جملہ عیوب سے انھیں منزہ قرار دیا ہے ، انھیں غیب کی تمام باتوں
سے آگاہ کیا ہے، ان کے اوپر نعمتیں نازل کی ہیں، انھیں رجس وآلودگی سے
پاکیزہ رکھا ہے، اور ہر طرح کی کثافت سے انھیں رجس وآلودگی سے پاکیزہ رکھا
ہے ، اور ہر طرح کی کثافت سے انھیں طیب وطاہر قرار دیا ہے،
اللھم فصل علیہ وعلی آبائہ الائمة الطاھرین و علی شیعتہ المنتجبین و
بلّغھم من آمالھم یاٴملون واجعل ذالک منا خالصا من کل شک و شبھة و ریاءٍ
وسمعةٍ حتی لا نرید بہ غیرک ولا نطلب بہ الاوجھک،
پروردگارا! تو ان پر ان کے آباء طاہرین پر درود ورحمت نازل کر، نیز ان
کے برگزیدہ شیعوں پر رحمت نازل کر، اور انھیں ان کی آرزوٴوںتک پہونچا، اور
ہماری اس استدعاء کو ہر شک وشبہہ اور ہر ریا کاری وسمعہ سے پاک قرار دے تا
کہ ہم اس کے سبب تیرے علاوہ کسی کا قصد نہ کر، اور تیری ذات ورضا کے سوا
کچھ اور طلب نہ کریں،
اللھم انا نشکوا الیک فقد نبیّنا وغیبة ولیّنا و شدة الزمان علینا ووقوع
الفتن بنا وتظاھر الاعداء علینا و کثرة عدوّنا وقلّة عددنا،
بار خدایا ! ہم تیری بارگاہ میں یہ شکوہ لے کر حاضر ہیں کہ ہمارے نبی ہمارے
درمیان نہیں رہے ہمارے ولی پردہٴ غیب میں ہیں زمانہ کی ہمارے اوپر شدت ہے ،فتنوں
نے ہمیں گھیر رکھا ہے دشمنوں نے ہمارے خلاف ،ایک دوسرے کے پشب پناہی کے لئے
ایکا کر رکھا ہے ،ہمارے اعدا کی تعداد زیادہ اور ہمارے اپنوں کی بڑی قلت ہے․
اللھم ففرج ذالک بفتح منک تعجلہ و نصر منک تعزہ و امام عدل تظھرہ الٰہ الحق
رب العالمین،
بارے الٰہا ! ہماری ان مصیبتوں کو دور فرما اپنی اس فتح کی ذریعہ جو تو جلد
بہم پہنچائے اور اپنی اس نصرت کے ذریعہ جسے توقرین عزت قرار دے ،اور اس
امام عدل کے ذریعہ جسے تو ظاہر فرمائے ، اے خدا ئے برحق اور اے سارے جہاں
کے پروردگار !
اللھم انا نسئلک ان تاٴذن لولیک فی اظھار عدلک فی عبادک ،وقتل اعدائک فی
بلادک حتی لاتدع للجور یارب دعامة الا قصمتھا ولا بقیة الا افنیتھا ولاقوة
الا اوھنتھا ولا رکنا الا ھدمتہ ولا حدا الا فللتہ ولا سلاحا الا اکللتہ
ولا رایة الا نکستھا ولاشجاعاً الاقتلتہ ولاجیشا الا خذلتہ ،
بارے الٰہا ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف
کے اظہار اور روئے زمین میں اپنے دشمنوں کو تہ تیغ کرنے کے لئے اپنے ولی کو
ظہور کی اجازت مرحمت فرما،تاکہ اے رب ! تو ان کے بدست ظلم و جور کے ہر ستون
کو توڑ دے ،اس کے آثار کو فنا کر دے اس کی قوت و توانائی کو کمزور کر دے ،اس
کے رکن کو منہدم ،اس کی دھار کوکند ،اس کے اسلحہ کو خراب ، اس کے پرچم کو
سر نگوں ،اس کے ہر بہادر کو بے جان ،اور اس کے ہر لشکر کو بے یار و مددگار
کر دے․
وارمھم یا رب بحجرک الدامغ واضربھم بسیفک القاطع وباسک الذی لاتردہ عن
القوم المجرمین وعذب اعدائک واعداء دینک واعداء رسولک صلواتک علیہ وآلہ
بید ولیک وایدی عبادک الموٴمنین ،
پرور دگارا ! ارباب ظلم و جور کو اپنے سر توڑ پتھر کا نشانہ بنا، اپنی
شمشیر براں کی انھیں ضربت لگا ،اپنے اس غیظ وغضب کی مار ان پر برسا جسے تو
مجرم لوگوں سے دور نہیں کرتا ،اپنے دشمنوں کو، اور اپنے رسول صلواتک علیہ
وآلہ کے دشمنوں کو اپنے ولی اور مومن بندوںکے ہاتھوں عذاب میں مبتلا کر ،
اللھم اکف ولیک وحجتک فی ارضک ھول عدوہ وکید من کادہ وامکر بمن مکر بہ
واجعل دائرة السوء علی من اراد بہ سوء اً
بار خدایا! اپنے ولی اور روی زمین پہ اپنے حجت کی ان کے دشمن کے خطر اور ان
کے ساتھ چال چلنے والوں کی چال سے محافظت فرما جو ان کے تئیں بری تدبیر کرے
اس کی تدبیر کو باطل کر،اور جو ان کے ساتھ بدی کا ارادہ کرے اس بدی کا
ارادہ کرے اس بدی کو اس کی طرف موڑدے،
واقطع
عنہ مادتھم وارعب لہ قلوبھم وزلزل اقدامھم وخذھم جھرة وشدد علیھم عذابک
واخزھم فی عبادک والعنھم فی بلادک واسکنھم اسفل نارک واحط بھم اشد عذابک
واصلھم ناراً
خدایا تو اپنے ولی کی طرف سے ان کے بد خواہوں کے شر کو منقطع فرما، ان کے
دلوں کو رعب ووحشت سے مملو فرما ،ان کت قدموں کو ڈگمگادے ،ان کو کھلے طور
پر اپنے گرفت میں گرفتار کر ،ان کے اوپر عذاب کوشدید کر ،اپنے بندوں کے بیچ
انھیں رسواکر ،اپنی زمین میں انھیں لعنتوں کا طوق پہنا،انھین جہنم کے نچلے
طبقہ میں جگہ دے ،اپنا شدیدترین عذاب ان پہ نازل کر اور آتش دوزخ کے قعر
میں روانہ کر
واحش
قبور موتاھم نارا واصلھم حر نارک فانھم ضلوا واضاعوا الصلاة واتبعواالشھوات
واضلوا عبادک،
اور ان کے مردوں کی قبروں کو آگ سے بھر دے،انھیں آتش جہنم کی سخت حرارت
کے حوالے کردے کیونکہ وہ خود گمراہ رہے ،نمازکو برباد کرتے رہے ،شہوتوں
کااتباع کرتے رہے اور تیرے بندوں کوبھی گمراہ ہی کرتے رہے،
اللھم واحی بولی-ک القرآن وارنا نورہ سرمدا لاظلمہ فیہ واحی بہ القلوب
المیتة واشف بہ الصدور الوغرة واجمع بہ الاھواء المختلفہ علی الحق واقم بہ
الحدود المعطلة والاحکام المھملة حتی لایبقی الا ظھر ولاعدل الا زھر،
بار الہا! اپنے ولی کے ذریعہ قرآن کو زندہ کر، نور قرآن کا دائمی طور
پر اس طرح ہمیں دیدار کرا کہ اس میں کسی ظلمت کا شائبہ نہ ہو،ان کے ذریعہ
مردہ دلوںکو حیات عطا کر ،آتش بغض و حسد میں جلنے والے سینوں کو شفا عنایت
کر ،ان کی بدولت پراکندہ رحجانت کو حق کے اوپر جمع کر،معطل حدود کو قائم کر
، متروک احکام کو استوار کر تا کہ حق جہاںجہاںپہ ہے ظاہر اور عدل وجہاں
جہاںپہ ہے واضح و باہرہوجائے،
واجعلنا
یارب من اعوانہ ومقویہ سلطانہ والموٴتمرین لامرہ والراضین بفعلہ والمسلمین
لاحکامہ وممن لاحاجة بہ الی التقیة من خلقک ،
اور اے ہمارے پروردگار! ہمیں ان کے اعوان و انصار میں ان کی سلطنت کی
تقویت کرنے والوں میں ،ان کے حکم کی اطاعت کرنے والوں ، ان کے فعل سے راضی
و خوشنود رہنے والوں ،اور ان کے احکام کے لئے سر تسلیم خم کرنے والوں میں
قرار دے نیز ان لوگوں میں قرار دے جنھیں تیری خلق سے تقیہ کرنے کی حاجت
نہیں․
انت یارب الذی تکشف الضر وتجیب المضطر اذا دعاک وتنجی من الکرب العظیم
فاکشف الضر عن ولیک واجعلہ خلیفتک فی ارضک کما ضمنت لہ،
اے
میرے پرور دگار ! تو ہی وہ ہے جو پریشانی کو دور فرماتا اور مضطر ّ کی دعا
کو قبول کرتا ہ اور کرب عظیم سے نجات عطا کرتا ہے لہٰذا اپنے ولی سے ہر
پریشانی کو دور فرما اور انھیں اپنی زمین میں خلیفہ و جانشین قرار دے جیسا
کہ ان کے لئے تو نے ضمانت لے رکھی ہے․
اللھم ولاتجعلنی من خصماء آل محمد علیھم السلام ولاتجعلنی من اھل الحنق
والغیظ علی آل محمد علیھم السلام فانی اعوذ بک من ذالک فاٴعذنی واستجیرک
فاجرنی،
اے
میرے اللہ ، مجھے آل محمد علیہم السلام کے حریفوں میں قرار نہ دے مجھے آل
محمد علیہم السلام کے دشمنوں میں قرار نہ دے ،مجھے آل محمد علیہم السلام
کے اوپر غیط و غضب اور برہمی کا اظہار کرنے والوں میں قرار نہ دے ، کہ میں
ان لعنت کی باتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں پس تو ہی مجھے پناہ دے ،اور
میںتیری اماں چاہتا ہوں پس مجھے اماں نصیب کر․
اللھم صل علی محمد وآل محمدواجعلنی بھم فائزا عندک فی الدنیا والآخرة ومن
المقربین آمین یارب العالمین․
بارے الٰہا ! محمد و آل محمد پہ درود و رحمت نازل فرما اور مجھے ان کے
واسطے سے دنیا و آخرت میں کامیاب و کامراں اور اپنی بار گاہ کے مقرب بندوں
میں قرار دے․
|
||