واقعہ غدیر پر ایک مختصر نظر

< یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ >[1]

”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔

اھل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشھور کتابوں میں) بیان ھوا ھے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔

ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ھے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوھریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ھوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ھے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ ان میں سے بعض روایات متعدد طریقوں سے نقل ھوئی ھیں، منجملہ:

حدیث ابوسعید خدری ۱۱طریقوں سے۔

حدیث ابن عباس بھی ۱۱ طریقوں سے۔

اور حدیث براء بن عازب تین طریقوں سے نقل ھوئی ھے۔

جن افراد نے ان احادیث کو (مختصر یا تفصیلی طور پر ) اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے ان کے اسما درج ذیل ھیں:

حافظ ابو نعیم اصفھانی نے اپنی کتاب ”ما نُزِّل من القرآن فی عليّ“ میں (الخصائص سے نقل کیا ھے، صفحہ۲۹)

ابو الحسن واحدی نیشاپوری ”اسباب النزول“ صفحہ۱۵۰۔

ابن عساکر شافعی ( الدر المنثور سے نقل کیا ھے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸)

فخر الدین رازی نے اپنی ”تفسیر کبیر“ ، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶ ۔

ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ (خطی)

ابن صباغ مالکی نے ”فصول المھمہ“ صفحہ ۲۷ ۔

جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸ ۔

قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“ ، جلد سوم صفحہ ۵۷ ۔

شھاب الدین آلوسی شافعی نے ”روح المعانی“ ، جلد ۶، صفحہ ۱۷۲ ۔

شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ”ینابیع المودة“ صفحہ ۱۲۰ ۔

بد ر الدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری“ ، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴ ۔

شیخ محمد عبدہ مصری ”تفسیر المنار“ ، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳۔

حافظ بن مردویہ (متوفی ۴۱۸ھ) (الدر المنثور سیوطی سے نقل کیا ھے) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگرعلمانے اس حدیث کو بیان کیا ھے ۔

البتہ اس بات کو نھیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے مذکورہ علمانے حالانکہ شان نزول کی روایت کو نقل کیا ھے لیکن بعض وجوھات کی بنا پر (جیسا کہ بعد میں اشارہ ھوگا) سرسری طور سے گزر گئے ھیں یا ان پر تنقید کی ھے، ھم ان کے بارے میں آئندہ بحث میں مکمل طور پر تحقیق و تنقیدکریں گے۔(انشاء اللہ )
واقعہٴ غدیر

مذکورہ بحث سے یہ بات اجمالاً معلوم ھوجاتی ھے کہ یہ آیہٴ شریفہ بے شمار شواھد کی بنا پر امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے، اور اس سلسلہ میں (شیعہ کتابوں کے علاوہ) خود اھل سنت کی مشھور کتابوں میں وارد ھونے والی روایات اتنی زیادہ ھیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نھیں کرسکتا۔

ان مذکورہ روایات کے علاوہ بھی متعددروایات ھیں جن میں وضاحت کے ساتھ بیان ھوا ھے کہ یہ آیت غدیر خم میں اس وقت نازل ھوئی کہ جب پیغمبر اکرم (ص)نے خطبہ دیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وصی و خلیفہ بنایا، ان کی تعداد گزشتہ روایات کی تعداد سے کھیں زیادہ ھے، یھاں تک محقق بزرگوار علامہ امینی (رہ) نے کتابِ ”الغدیر“ میں ۱۱۰ اصحاب پیغمبر سے زندہ اسناد اور مدارک کے ساتھ نقل کیا ھے، اسی طرح ۸۴ تابعین اور مشھور و معروف۳۶۰ علماو دانشوروں سے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

اگر کوئی خالی الذھن انسان ان اسناد و مدارک پر ایک نظر ڈالے تو اس کو یقین ھوجائے گا کہ حدیث غدیر یقینا متواتر احادیث میں سے ھے بلکہ متواتر احادیث کا بہترین مصداق ھے، اور حقیقت یہ ھے کہ اگر کوئی شخص ان احادیث کے تواتر میں شک کرے تو پھر اس کی نظر میں کوئی بھی حدیث متواتر نھیں ھوسکتی۔

ھم یھاں اس حدیث کے بارے میں بحث مفصل طور پر بحث نھیں کرسکتے ، حدیث کی سند اور آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ھیں، اور اب حدیث کے معنی کی بحث کرتے ھیں، جو حضرات حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں مزید مطالعہ کرنا چاہتے ھیںوہ درج ذیل کتابوں میں رجوع کرسکتے ھیں:

۱۔ عظیم الشان کتاب الغدیر جلد اول تالیف ،علامہ امینی علیہ الرحمہ۔

۲۔ احقاق الحق، تالیف ،علامہ بزرگوار قاضی نور اللہ شوستری، مفصل شرح کے ساتھ آیت اللہ نجفی، دوسری جلد ، تیسری جلد، چودھویں جلد، اور بیسوی جلد۔

۳۔ المراجعات ،تا لیف ،مرحوم سید شرف الدین عاملی۔

۴۔ عبقات الانوار ، تالیف عالم بزرگوار میر سید حامد حسین ھندی (لکھنوی) ۔

۵۔ دلائل الصدق ، جلد دوم، تالیف ،عالم بزرگوار مرحوم مظفر۔

حدیث غدیر کا مضمون

ھم یھاں تمام روایات کے پیش نظر واقعہ غدیر کا خلاصہ بیان کرتے ھیں، (البتہ یہ عرض کردیا جائے کہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ھوا ھے، بعض میں واقعہ کے ایک پھلو اور بعض میں کسی دوسرے پھلو کی طرف اشارہ ھوا ھے، چنا نچہ ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ھے:)

پیغمبر اکرم (ص)کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار اور باعظمت ھو سکتے تھے وہ پیغمبر اکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر ھوئے، سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر کی کثیر تعداد آنحضرت (ص)کے سا تھ اعمال حج انجام دینے کی عظیم سعادت پر بہت زیادہ خوش نظر آرھے تھے ۔[2]

نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے۔

سرزمین حجاز کا سورج درودیوار اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی حلاوت نے تمام تکلیفوں کو آسان بنارھا تھا۔ زوال کا وقت نزدیک تھا، آھستہ آھستہ ”جحفہ“ کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کا بیابان نظر آنے لگا۔

در اصل یھاں ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے، شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاںآخری او راس عظیم سفر کااھم ترین مقصدانجام دیاجا نا تھا اور پیغمبر مسلمانوں کے سامنے اپنی آخری اور اھم ذمہ داری کی بنا پر آخری حکم پہچا نا چا ہتے تھے ۔

جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال، آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے سب کو ٹھھر نے کا حکم دیا گیا، مسلمانوں نے بلندآواز سے قافلہ سے آگے چلے جانے والے لو گوں کوواپس بلایااوراتنی دیر تک رکے رھے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پھنچ گئے۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ھوگئے، لیکن فضا اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی حصہ سر پر رکھنے کے لئے مجبور تھے ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔

اس صحرا میں کوئی سایہ نظر نھیں آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند خشک جنگلی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے ھوئے تھے، انھوں نے ان برھنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان بنا رکھا تھا لیکن سورج کی جلا دینے والی گرم ھوا اس سائبان کے نیچے سے گزر رھی تھی ،بھرحال ظھر کی نمازاداکی گئی۔

مسلمان نماز کے بعد فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لینے کی فکر میں تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار ھوجائیں جسے ایک مفصل خطبہ کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

جو لوگ رسول اللہ (ص)سے دور تھے وہ اس عظیم اجتماع میں پیغمبر کا ملکوتی اور نورانی چھرہ دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،پیغمبر اس پر تشریف لے گئے،پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے ھوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقریب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے جا نے والاھوں ،میں بھی جوابدہ ھوںاورتم لو گ بھی جوابدہ ھو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ھو ؟سب لو گوں نے بلند آواز میں کھا:

”نَشھَد اٴنّکَ قَد بَلَغْتَ وَ نَصَحْتَ وَ جَاھَدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً“

”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ھدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ھونے کی گواھی نھیں دیتے؟

سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔

آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رھنا۔

آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے ھو؟

انھوںنے کھا: جی ھاں۔

اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری ھوگیا، سوائے ھوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ، پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا ھوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ (ص)وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ھیں؟

تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ھو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ بھشت میں مجھ سے آملیںگے۔

ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رھنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک ھو جاؤگے۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑارھے ھیں گویا کسی کو تلاش کررھے ھیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔

اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند ھوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:

”اٴیُّھا النَّاس مَنْ اٴولیٰ النَّاسِ بِالمَوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھم۔“

اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔

تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر ھوں اورمیںان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ھوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ھے)۔

اس کے بعد فرمایا:

”فَمَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“۔

”یعنی جس کا میں مولاھوں علی (ع) بھی اس کے مولا اوررھبر ھيں“۔

پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی، او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:

”اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاٴحب مَنْ اٴحبہُ وَ ابغِضْ مَنْ اٴبغَضہُ وَ انْصُرْمَنْ نَصَرُہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ، وَاٴدرِالحَقّ مَعَہُ حَیْثُ دَارَ“

یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے۔

اس کے بعد فرمایا:

”اٴلَا فَلْیُبَلِّغ الشَّاھدُ الغائبُ“

” تمام حاضرین آگاہ ھوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پھنچائیں جو یھاں پر اس وقت موجود نھیں ھیں “۔

پیغمبر کا خطبہ ختم ھوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینہ میں غرق تھے، دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔

ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ھوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:

<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی>[3]

”آج کے دن ھم نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔

اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:

”اللّٰہُ اٴکبرُ اللّٰہُ اٴکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّینِ وَإتْمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِي وَالوِلاٰیَة لِعَليّ مِنْ بَعْدِي“

”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش ھوا۔“

پیغمبر کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ھوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انھوں نے کھا:

”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولاي و مولاکُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“

”مبارک ھو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب (ع) کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر ھوگئے“۔

اس وقت ابن عباس نے کھا :بخدا یہ عھد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا۔

اس موقع پر مشھور شاعر حسان بن ثابت نے پیغمبر اکرم (ص)سے اجازت طلب کی کہ اس موقع کی مناسبت سے کچھ شعر کھوں ،چنا نچہ انھو ں نے یہ مشھور و معروف اشعار پڑھے:

یَنادِیْھِمْ یَومَ الغَدِیرِ نَبِیُّھُمْ بِخُمٍّ وَاٴسْمِعْ بِالرَّسُولِ مُنَادِیاً

فَقَالَ فَمَنْ مَولٰاکُمْ وَنَبِیُّکُمْ؟ فَقَالُوا وَلَمْ یَبْدُو ھُناکَ التَّعامِیا

إلٰھکَ مَولانَا وَاٴنتَ نَبِیُّنَا َولَمْ تَلْقِ مِنَّا فِي الوَلایَةِ عَاصِیاً

فَقَالَ لَہُ قُمْ یَا عَليّ فَإنَّنِی رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِي إمَاماً وَ ھَادیاً

فَمَنْ کُنْتُ مَولاہُ فَھَذَا وَلِیُّہُ فَکُونُوا لَہُ اَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیاً

ھَنَاکَ دَعَا اَللّٰھُمَّ وَالِ وَلِیَّہُ وَکُنْ لِلَّذِي لَہُ اٴتْبَاعَ عَلِیًّا مُعَادِیاً[4]

یعنی: ”پیغمبر اکرم (ص)روز غدیر خم یہ اعلان کررھے تھے اور واقعاً کس قدر عظیم اعلان تھا۔

فرمایا: تمھارامولاا ور نبی کون ھے؟ تو مسلمانوں نے صاف صاف کھا:

”خداوندعالم ھمارا مولا ھے اور ھمارے نبی ھیں، ھم آپ کی ولایت کے حکم کی مخالفت نھیں کریں گے۔

اس وقت پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: یا علی اٹھو ، کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد امام اور ھادی مقرر کیا ھے۔

اس کے بعد فرمایا: جس کامیں مولا و آقا ھوں اس کے یہ علی﷼ مولا اور رھبر ھیں ، لہٰذا تم سچے دل سے اس کی اطاعت و پیروی کرنا۔

اس وقت پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: پالنے والے! اس کے دوست کو دوست رکھ! اور اس کے دشمن کو دشمن۔

قا ر ئین کرام !یہ تھا اھل سنت اور شیعہ علماکی کتابوں میں بیان ھونے والی مشھور و معروف حدیث غدیر کا خلاصہ۔
آیہ بلغ کے سلسلہ میں ایک نئی تحقیق

اگر ھم مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ھونے والی احادیث اور واقعہ غدیر سے متعلق تمام روایات سے قطع نظر کریں اور صرف اور صرف خود آیہٴ بلغ اور اس کے بعد والی آیتوں پر غور کریں تو ان آیات سے امامت اور پیغمبر اکرم (ص)کی خلافت کا مسئلہ واضح و روشن ھوجائے گا۔

کیونکہ مذکورہ آیت میں بیان ھونے والے مختلف الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ اس مسئلہ کی تین اھم خصوصیت ھیں:

۱۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کی ایک خاص اھمیت ھے ، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص)کو حکم دیا گیا ھے کہ اس پیغام کو پھنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو گویا اپنے پروردگار کی رسالت کو نھیں پھنچایا! دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ ولایت کا مسئلہ نبوت کی طرح تھا ، کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو پیغمبر اکرم کی رسالت ناتمام رہ جاتی ھے:<وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ>

واضح رھے کہ اس سے مراد یہ نھیں ھے کہ یہ خدا کا کوئی معمولی حکم تھا، اور اگرخدا کے کسی حکم کونہ پھنچایا جائے تو رسالت خطرہ میں پڑجاتی ھے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ھے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے، حالانکہ آیت کا ظاھر یہ ھے کہ یہ مسئلہ ایک خاص اھمیت کا حامل ھے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ھے۔

۲۔ یہ مسئلہ اسلامی تعلیمات جیسے نماز، روزہ، حج، جھاد اور زکوٰة وغیرہ سے متعلق نھیں تھا کیونکہ یہ آیت سورہ مائدہ کی ھے، اور ھم جانتے ھیں کہ یہ سورہ پیغمبر اکرم (ص)پر سب سے آخر میں نازل ھوا ھے، (یا آخری سوروں میں سے ھے) یعنی پیغمبر اکرم (ص)کی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں یہ سورہ نازل ھوا ھے جس وقت اسلام کے تمام اھم ارکان بیان ھوچکے تھے۔[5]

۳۔ آیت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ھیں کہ یہ مسئلہ ایک ایسا عظیم تھاجس کے مقابلہ میں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، یھاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص)کی جان کو بھی خطرہ تھا، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنی خاص حمایت کا اعلان کرتے ھوئے فرمایا:< وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ> ”اور خداوندعالم تم کولوگوں کے (احتمالی) خطرے سے محفوظ رکھے گا“۔

آیت کے آخر میں اس بات کی تاکید کی گئی ھے: ”خداوندعالم کافروں کی ھدایت نھیں فرماتا“< إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ >

آیت کا یہ حصہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص)کے خلاف کوئی منفی قدم اٹھانے والے تھے۔

ھماری مذکورہ باتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ھوجاتی ھے کہ اس آیت کا مقصد پیغمبر اکرم (ص)کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ اور کچھ نھیں تھا۔

جی ھاں پیغمبر اکرم (ص)کی آخری عمر میں صرف یھی چیز مورد بحث واقع ھوسکتی ھے نہ کہ اسلام کے دوسرے ارکان ، کیونکہ دوسرے ارکان تو اس وقت تک بیان ھوچکے تھے، صرف یھی مسئلہ رسالت کے ھم وزن ھوسکتا ھے، اور اسی مسئلہ پر بہت سی مخالفت ھوسکتی تھی اور اسی خلافت کے مسئلہ میں پیغمبر اکرم (ص)کی جان کو خطرہ ھوسکتا تھا۔

اگر مذکورہ آیت کے لئے ولایت، امامت اور خلافت کے علاوہ کوئی دوسری تفسیر کی جائے تو وہ آیت سے ھم آھنگ نہ ھوگی۔

آپ حضرات ان تمام مفسرین کی باتوں کو دیکھیں جنھوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ کر دوسری تاویلیں کی ھیں، ان کی تفسیر آیت سے بےگانہ دکھائی دیتی ھیں، حقیقت تو یہ ھے کہ یہ لوگ آیت کی تفسیر نھیں کرپائے ھیں۔
توضیحات

۱۔ حدیث غدیر میں مولی کے معنی

جیسا کہ معلوم ھو چکا ھے کہ حدیث غدیر ”فمن کنت مولاہ فعليٌّ مولاہ“ تمام شیعہ اور سنی کتا بوں میں نقل ھو ئی ھے: اس سے بہت سے حقائق روشن ھوجاتے ھیں۔

اگرچہ بہت سے اھل سنت موٴلفین نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ھے کہ ”مولی“ کے معنی ”ناصر یا دوست “ کے ھیں، کیونکہ مولی کے مشھور معنی میں سے یہ بھی ھیں، ھم بھی اس بات کو مانتے ھیں کہ ”مولیٰ“ کے معنی دوست اور ناصر ومددگار کے ھیں، لیکن یھاں پر بہت سے قرائن و شواھدھیں جن سے معلوم ھوتا ھے مذکورہ حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی ”ولی ، سرپرست اور رھبر“ کے ھیں، ھم یھاں پر ان قرائن و شواھد کو مختصر طور پر بیان کرتے ھیں:

۱۔ حضرت علی علیہ السلام سے تمام مومنین کی دوستی کوئی مخفی اور پیچیدہ چیز نہ تھی کہ جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ھوتی، اور اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس بے آب و گیاہ اور جلتے ھوئے بیابان میں اس عظیم قافلہ کو دوپھر کی دھوپ میں روک کرایک طویل و مفصل خطبہ دیا جائے اور سب لوگوں سے اس دوستی کا اقرارلیا جائے۔

قرآن مجید نے پھلے ھی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان فردیا ھے: < إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ>[6]”مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ھیں“

ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْض>[7] ”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ھیں“۔

خلاصہ یہ کہ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی اسلام کے سب سے واضح مسائل میں سے ھے جو پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ سے چلی آرھی ھے، اور خود آنحضرت (ص)نے اس بات کو بارھا بیان فرمایا اوراس سلسلہ میں تاکید فرمائی ھے، اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نھیں تھا جس سے آیت کا لب و لہجہ اس قدر شدید ھوجاتا، اور پیغمبر اکرم (ص)اس راز کے فاش ھونے سے کوئی خطرہ محسوس کرتے۔ (غور کیجئے )

۲۔ ”اٴلَسْتُ اٴولیٰ بِکُمْ مِنْ اٴنفُسِکم“ (کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفسوں سے زیادہ اولی اور سزاور نھیں ھوں؟) حدیث کا یہ جملہ بہت سی کتابوں میں بیان ھوا ھے جو ایک عام دوستی کو بیان کرنے کے لئے بے معنی ھے، بلکہ اس جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ جس طرح مجھے تم پر اولویت و اختیار حاصل ھے اور جس طرح میں تمھارا رھبر اور سرپرست ھوں بالکل اس طرح علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ھے، اورھمارے عرض کئے ھوئے اس جملے کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی انصاف اور حقیقت سے دور ھيں، خصوصاً ”من انفسکم“ کے پیش نظر یعنی میں تمھاری نسبت تم سے اولیٰ ھوں۔

۳۔ اس تاریخی واقعہ پرتمام لوگوں کی طرف سے خصوصاً حضرت ”عمر “ اور حضرت ”ابوبکر“ کا امام علی علیہ السلام کی خد مت میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ یہ مسئلہ صرف خلافت کا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے تبریک و تھنیت پیش کی جارھی تھی، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام سے دوستی کا مسئلہ تو سب کو معلوم تھا اس کے لئے تبریک کی کیا ضرورت تھی؟!!

مسند احمد میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:

”ھنئیاً یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“[8]

”مبارک ھو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے! آج سے تم ھر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے“۔

علامہ فخر الدین رازی نے < یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ >کے ذیل میں تحریر کیا ھے کہ حضرت عمر نے کھا: ”ھنئیاً یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“جس سے معلوم ھو تا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کوخود حضرت عمر اپنااور ھر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے۔

تاریخ بغداد میں روایت کے الفاظ یہ ھیں: ”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولاي و مولاکُلّ مسلم“[9] ”اے ابو طالب کے بیٹے مبارک ھو مبارک! آپ آج سے میرے اور ھر مسلمان کے مولا ھوگئے“۔

فیض القدیر اور صواعق محرقہ دونوں کتابوں میں نقل ھوا ھے کہ حضرت ابوبکر اور عمر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کھا: ”وَاٴَمسیتَ یابن اٴبي طالبٍ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“

یہ بات واضح ھے کہ ایک عام دوستی تو سبھی مومنین کے درمیان پائی جاتی تھی، تو پھر اتنا اہتمام کیسا؟! لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ اس وقت صحیح ھے جب مولی کے معنی صرف اور صرف حا کم اور خلیفہ ھوں۔

۴۔ حسان بن ثابت کے مذکورہ اشعار بھی اس بات پر بہترین گواہ ھیں کہ جن میں بلند مضامین اور واضح الفاظ میں خلافت کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ھے، جن کی بنا پر مسئلہ کافی واضح ھے (آپ حضرات ان اشعار کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھیں)
۲۔ قرآن کی آیات واقعہ غدیر کی تائید کرتی ھیں

بہت سے مفسرین اورراویوں نے سورہ معارج کی ابتدائی چند آیات: <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ۔لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ۔مِنْ اللهِ ذِی الْمَعَارِجِ > (ایک سائل نے واقع ھونے والے عذاب کا سوال کیا جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نھیں ھے، یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ھے،)کی شان نزول کو بیان کیا ھے جس کا خلاصہ یہ ھے:

”پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم میں خلافت پر منصوب کیا، اوران کے بارے میں فرمایا: ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“۔ تھوڑی ھی دیر میں یہ خبر عام ھوگئی، نعمان بن حارث فھری [10](جو کہ منافقوں میں سے تھا ) پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں حاضر ھوکر عرض کرتا ھے: آپ نے ھمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواھی دیں ھم نے گواھی دی، لیکن آپ اس پر بھی راضی نہ ھوئے یھاں تک کہ آپ نے (حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے کھا) اس جوان کو اپنی جانشینی پر منصوب کردیا اور کھا : ”مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَہذَا عَلِيّ مَولاہ“۔کیا یہ کام اپنی طرف سے کیا ھے یا خدا کی طرف سے؟ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس خداکی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے، یہ کام میں نے خدا کی طرف سے انجام دیا ھے“۔

نعمان بن حارث نے اپنا منھ پھیر لیا اور کھا: خداوندا! اگر یہ کام حق ھے اور تیری طرف سے ھے تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا!۔

اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اس کے سر پر لگا ، جس سے وہ وھیں ھلاک ھوگیا،اس موقع پر آیہٴ <سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِع> نازل ھوئی ۔

(قارئین کرام!)مذکورہ روایت کی طرح مجمع البیان میں بھی یہ روایت ابو القاسم حسکانی سے نقل ھوئی ھے[11]، اور اسی مضمون کی روایت بہت سے اھل سنت مفسرین اور راویان حدیث نے مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کی ھے، منجملہ: قرطبی نے اپنی مشھور تفسیرمیں[12] آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں[13]، اور ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں۔[14]

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے کتاب الغدیر میں تیس علمااھل سنت سے (معہ منابع ) اس روایت کو نقل کیا ھے، جن میں سے: سیرہٴ حلبی، فرائد السمطین حموینی، درر السمطین شیخ محمد زرندی، السراج المنیرشمس الدین شافعی، شرح جامع الصغیر سیوطی، تفسیر غریب القرآن حافظ ابوعبید ھروی، اور تفسیر شفاء الصدور ابو بکر نقّاش موصلی ، وغیرہ بھی ھیں۔[15]

[1] سورہ مائدہ ، آیت ۶۷۔

[2] پیغمبر کے ساتھیوں کی تعداد بعض کے نزدیک ۹۰ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بارہ ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ بیس ہزار اور بعض کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ھے۔

[3] سورہٴ مائدہ ، آیت ۳۔

[4] ان اشعار کو اھل سنت کے بڑے بڑے علمانے نقل کیا ھے ، جن میں سے حافظ ”ابونعیم اصفھانی،حافظ ”ابو سعید سجستانی“، ”خوارزمی مالکی“، حافظ ”ابو عبد اللہ مرزبانی“،”گنجی شافعی“، ”جلال الدین سیوطی“، سبط بن جوزی“ اور ”صدر الدین حموی“ کا نام لیا جاسکتا ھے۔

[5] فخر رازی اس آیت کے ذیل میں تحریر کرتے ھیں: بہت سے علما(محدثین اور مورخین) نے لکھا ھے کہ اس آیت کے نازل ھونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص)صرف ۸۱ دن یا ۸۲ دن زندہ رھے، (تفسیر کبیر ، جلد ۱۱، صفحہ ۱۳۹) ، تفسیر المنار اور بعض دیگر کتابوں میں یہ بھی تحریر ھے کہ پورا سورہ مائدہ حجة الوداع کے موقع پر نازل ھوا ھے، (المنار ، جلد ۶ صفحہ ۱۱۶) البتہ بعض موٴلفین نے مذکورہ دنوں کی تعداد کم لکھی ھے۔

[6] سورہٴ حجرات ، آیت ۱۰۔

[7] سورہٴ توبہ ، آیت ۷۱۔

[8] مسند احمد ، جلد ۴، صفحہ ۲۸۱ ،(فضائل الخمسہ ، جلد اول، صفحہ ۴۳۲ کی نقل کے مطابق )

[9] تاریخ بغداد ، جلد ۷، صفحہ ۲۹۰۔

[10] بعض روایات میں ”حارث بن نعمان“ اور بعض روایات میں ”نضر بن حارث“ آیا ھے۔

[11] مجمع البیان ، جلد ۹و۱۰، صفحہ ۳۵۲۔

[12] تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، صفحہ ۶۷۵۷۔

[13] تفسیر آلوسی، ، جلد ۲۹، صفحہ ۵۲۔

[14] نور ا لابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۱ کے نقل کے مطابق۔

[15] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹، صفحہ ۱۸۱۔