على (ع) اور راہ خدا ميں جنگ
حضرت على كى شخصيت اپنى قربانيوں اور راہ حق ميں جانبازيوں كے باعث صحابہ
پيغمبر(ص) كے درميان لاثانى و بے مثال ہے غزوہ تبوك كے علاوہ آپ نے
تمام غزوات ميں شركت كى اور غزوہ تبوك ميں پيغمبر(ص) كى ہدايت كے مطابق آپ
مدينہ ميں مقيم رہے يہ آپ كى قربانى اور جانبازى كا ہى نتيجہ تھا كہ سپاہ
اسلام نے سپاہ شرك پر غلبہ حاصل كيا اگر اسلام كے اس جيالے كى جانبازياں نہ
ہوتيں تو ممكن تھا كہ وہ مشرك و كافر جو مختلف جنگوں ميں اسلام كے خلاف بر
سرپيكار رہے چراغ رسالت كو آسانى سے خاموش اور پرچم حق كو سرنگوں كر ديتے _
يہاں ہم حضرت على (ع) كى ان قربانيوں كا سر سرى جائزہ ليں گے جو آپ نے جنگ كے
ميدانوں (بدر ' احد ' خندق اور خيبر ) ميں پيش كيں _
علي(ع) جنگ بدر كے بے نظير جانباز
جنگ بدر ميں حضرت على (ع) كى شخصيت دو وجہ سے نماياں رہى _
1 _ جنگ فرد بفرد : جس وقت
مشركين كے لشكر سے عتبہ ' شيبہ اور وليد جيسے تين نامور دليروں نے ميدان جنگ
ميں اتر كر سپاہ اسلام كو للكارا تو رسول خدا(ص) كے حكم پر حضرت عبيدہ بن
حارث ' حمزہ بن عبدالمطلب اور على بن ابى طالب (ع) ان سے جنگ كرنے كے لئے
ميدان جنگ مےں اتر آئے _ چنانچہ حضرت عبيدہ عتبہ سے ' حضرت حمزہ ، شيبہ سے
اور حضرت على (ع) وليد سے برسر پيكار ہو گئے _
مورخين كا بيان ہے : حضرت على (ع) نے پہلے ہى وار ميں دشمن كو قتل كر ڈالا '
اس كے بعد آپ (ع) حضرت حمزہ كى مدد كے لئے پہنچے اور ان كے حريف كے بھى دم
شمشير سے دو ٹكڑے كرديئے اس كے بعد يہ دونوں بزرگ حضرت عبيدہ كى جانب مدد كى
غرض سے بڑھے اور ان كے حريف كو بھى ہلاك كر ڈالا
اس طرح آپ(ع) لشكر مشركين كے تينوں نامور پہلوانوں كے قتل ميں شريك رہے _
چنانچہ آپ نے معاويہ كو جو خط لكھا تھا اس ميں تحرير فرمايا كہ وہ تلوار جس
سے ميں نے ايك ہى دن ميں تيرے دادا ( عتبہ ) ' تيرے ماموں ( وليد ) ' تيرے
بھائي ( حنظلہ ) اور تيرے چچا ( شيبہ ) كو قتل كيا تھا اب بھى ميرے پاس ہے _
2 _ اجتماعى و عمومى جنگ_
مورخين نے لكھا ہے كہ جنگ بدر ميں لشكر مشركين كے ستر
سپاہى مارے گئے جن ميں ابوجہل ' اميہ بن خلف ' نصر بن حارث و ... اور ديگر سر
برآوردہ سرداران كفار شامل تھے ' ان ميں سے ستائيس سے پينتيس كے درميان حضرت
على (ع) كى شمشير كے ذريعہ لقمہ اجل ہوئے ، اس كے علاوہ بھى دوسروں كے قتل
ميں بھى آپ كى شمشير نے جو ہر دكھائے _ چنانچہ اس وجہ سے قريش آپ كو '' سرخ
موت ''كہنے لگے كيونكہ اس جنگ ميں انھيں ذلت و خوارى اميرالمومنين حضرت على
(ع) كے ہاتھوں نصيب ہوئي تھى _
حضرت على (ع) رسول(ص) كے تنہا محافظ
جنگ احد ميں بھى حضرت على (ع) كے كردار كا جائزہ دو مراحل ' يعنى مسلمانوں كى
فتح و شكست ' كے پس منظر ميں ليا جاسكتا ہے _
مرحلہ فتح و كاميابى :
اس مرحلے ميں لشكر اسلام كو كاميابى اور مشركين كو پسپائي آپ ہى كے دست مبارك
سے ہوئي_ لشكر قريش كا اولين پر چمدار طلحہ بن ابى طلحہ جب حضرت على (ع) كے
حملوں كى تاب نہ لاتے
ہوئے زمين پر گر گيا تو اس كے بعد دوسرے نو افراد نے يكے بعد ديگر پرچم لشكر
اپنے ہاتھوں ميں ليا ليكن جب وہ بھى حضرت على (ع) كى شمشير سے مارے گئے تو
لشكر قريش كے لئے راہ فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا _
مرحلہ شكست :
جب آبناے '' عينين'' كے بيشتر كمانداروں نے رسول خدا(ص) كے حكم سے سرتابى كى
اور اپنى جگہ سے ہٹ گئے تو اس وقت خالد بن وليد اپنے گھڑ سوار لشكر كے ساتھ
اس پہاڑ كا چكر كاٹ كر اس آبنائے كى راہ سے مسلمانوں پر ايك دم حملہ آور ہوا
چونكہ يہ حملہ اچانك اور انتہائي كمر شكن تھا اسى لئے جنگ كے اس مرحلے ميں
ستر مسلمانوں كو شہادت نصيب ہوئي اور باقى جو چند بچ گئے تھے انھوں نے راہ
فرار اختيار كى _
اس مرحلے ميں حضرت على (ع) كا اہم ترين كردار يہ تھا كہ آپ پيغمبراكرم(ص) كے
وجود مقدس كى پاسبانى و حفاظت كے فرائض انجام دے رہے تھے _
ان حالات مےں جبكہ چند مسلمانوں كے علاوہ سب اپنى جان بچانے كى خاطر ميدان
جنگ سے فرار كر گئے اور لشكر قريش نے رسول خدا(ص) كو ہر طرف سے اپنے حملوں كا
نشانہ بناليا تو اس وقت حضرت على (ع) ہى تھے جنہوں نے اپنے حملوں سے دشمن كو
آگے بڑھنے سے روكا چنانچہ دشمنان اسلام كا وہ گروہ جو رسول خدا (ص) كے نزديك
آكر حملہ كرنا چاہتا تھا آپ ہى كى تيغ سے ہلاكت كو پہنچا_
اميرالمومنين على (ع) كى يہ قربانى اتنى اہم و قابل قدر تھى كہ حضرت جبرئيل
(ع) نے رسول خدا (ص) كو اس كى مبارك بادى دى چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) نے بھى
يہ فرمايا كہ :''على منى و انا من على '' (يعنى على مجھ سے ہيں اور ميں على
سے ہوں) اس قربانى كو قدر ومنزلت كى نگاہ سے ديكھا اور جب غيب سے يہ ندا آئي
:''لا سيف الا ذوالفقار و لا فتى الا علي'' تو دوسروں كو بھى حضرت على (ع) كى
اس قربانى كا انداز ہ ہوا
خود حضرت على (ع) نے اپنے اصحاب كے ساتھ اپنى گفتگو كے درميان اس قربانى كا
ذكر كرتے
ہوئے فرمايا : جس وقت لشكر قريش نے ہم پر حملہ كيا تو انصار ومہاجرين نے اپنے
گھروں كى راہ اختيار كى مگر ميں ستر سے زيادہ زخم كھانے كے باوجود آنحضرت (ص)
كى مدافعت و پاسبانى كرتا رہا_
حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كى پاسبانى و مدافعت كى خاطر دشمن كا جم كر
مقابلہ كيا كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي اس وقت رسول خدا (ص) نے اپنى وہ شمشير جس
كا نام ''ذوالفقار'' تھا آپ كو عطا فرمائي چنانچہ آپ نے اسى سے راہ خدا ميں
اپنے جہاد كو جارى ركھا _
جنگ خندق ميں على (ع) كا كردار
مختلف لشكروں (احزاب) كے دس ہزار سپاہيوں نے تقريباً ايك ماہ تك مدينہ كا
محاصرہ جارى ركھا _ اتنى مدت گذرجانے كے بعد بالآخر دشمن كو اس كے علاوہ كوئي
چارہ نظر نہ آيا كہ وہ اپنے مضبوط وطاقتور لشكر كو جس طرح بھى ممكن ہو سكے
خندق پار كرائے_ اس فيصلے كے بعد عربوں كے ''نامور پہلوان عمر بن عبدود'' نے
اپنے ساتھ پانچ سپاہى ليے اور اس جگہ سے جہاں خندق كم چوڑى تھى پار كرآيا اور
جنگ كے لئے للكارا _ حضرت على (ع) نے اس كى اس دعوت جنگ كو قبول كيا اور اس
كے نعروں كا جواب دينے كيلئے آگے بڑھے چنانچہ سخت مقابلے كے بعد عربوں كاوہ
دلاور ترين جنگجو پہلوان جسے ايك ہزار جنگى سپاہيوں كے برابر سمجھا جاتا تھا
، حضرت على (ع) كى شمشير سے زمين پر گر پڑا عمرو كے ساتھيوں نے جب اس كى يہ
حالت ديكھى تو وہ فرار كرگئے اور ان ميں سے جو شخص فرار نہ كرسكا وہ ''نوفل'
تھا _ چنانچہ وہ بھى حضرت على (ع) كے ايك ہى وار سے عمرو سے جاملا_ عمروبن
عبدود كى موت (نيز بعض ديگر عوامل) اس امر كا باعث ہوئے كہ جنگ كا غلغلہ دب
گيا او رمختلف لشكروں ميں سے ہر ايك كو اپنے گھر واپس جانے كى فكر دامنگير
ہوئي_
اس جنگ ميںحضرت على (ع) نے ميدان جنگ كى جانب رخ كيا تو آپ (ص) نے فرمايا:
خدايا جنگ بدر كے دن عبيدہ اور احد ميں حمزہ كو تو نے مجھ سے جدا كرديا اب
على (ع) كو تو ہرگزند سے محفوظ فرما_ اس
كے بعد آپ نے يہ آيت پڑھى ''رب لا تذرنى فردا و انت خيرالوارثين'' _
جب عمرو كے ساتھ ميدان جنگ ميں مقابلہ ہوا تو آپ(ص) نے فرمايا :
''برزالايمان كلہ الى الشرك كلہ'' (*) يعنى ايمان وشرك كے دو مظہر كامل ايك
دوسرے كے مقابل ہيں )
ا ور جب آپ ميدان جنگ سے فاتح و كامران واپس آئے تو پيغمبر خدا (ص) نے فرمايا
: ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمد (ص) لرجح عملك بعلمہم''_(يعنى اگر آج
تمہارے عمل كا امت محمد كے تمام اعمال ( پسنديدہ) سے مقابلہ كياجائے تو ( بے
شك) اس عمل كو ان پر برترى ہوگي
على (ع) فاتح خيبر
پيغمبر اكرم (ص) نے يہوديوں كے مركز ''خيبر'' كا محاصرہ كيا تو اس
غزوہ كے ابتدائي دنوں ميں حضرت على (ع) آشوب چشم كے باعث اس ميں شريك نہيں
ہوسكتے تھے چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) نے پرچم اسلام دو مسلمانوں كو ديا ليكن وہ
دونوں ہى يكے بعد ديگرے كامياب ہوئے بغير واپس آگئے_
يہ ديكھ كر پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا يہ پرچم ان كا حق نہ تھا على (ع) كو
بلاؤ عرض كيا گيا كہ ان كى آنكھ ميں درد ہے _ آپ (ص) نے فرمايا كہ : على (ع)
كو بلاؤ وہى ايسا مرد ہے جو خدا اور اس كے رسول كو عزيز ہے وہ بھى خدا اور اس
كے پيغمبر (ص) كو عزيز ركھتا ہے _
جس وقت حضرت على (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے حضور تشريف لائے تو آپ نے دعا فرماتے
ہوئے اپنے دہان مبارك سے لعاب ان كى آنكھوں پر لگايا جس كے باعث درد چشم زائل
ہوگيا اس كے بعد حضرت على (ع) نے پرچم اٹھايا اور ميدان جنگ كى جانب روانہ
ہوگئے_
يہودى دلاور اپنے قلعے سے نكل كر باہر آئے _ مرحب كابھائي حارث نعرا لگاتا
ہوا حضرت على (ع) كى جانب بڑھا مگر چند ہى لمحے بعد اس كا مجروح بدن خاك پر
تڑپنے لگا _ مرحب اپنے بھائي كى موت سے سخت رنجيدہ خاطر ہوا چنانچہ اس كا
انتقام لينے كى غرض سے وہ ہتھياروں سے ليس حضرت على (ع) سے لڑنے كے لئے ميدان
جنگ ميں اتر آيا _ پہلے تو دونوں كے درميان كچھ دير گفت و شنيد ہوئي مگر پلك
جھپكتے ہى جانباز اسلام كى شمشير بران مرحب كے سر پر پڑى اوآن كى آن ميں اسے
خاك پر ڈھير كرديا_ دوسرے يہودى دلاوروں نے جب يہ ماجرا ديكھا تو وہ بھاگ گئے
اور اپنے قلعے ميں چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا _ حضرت على (ع) نے ان بھاگنے
والوں كا تعاقب كيااور جب دروازہ بند پايا تو قدرت حق سے اسى دروازے كو جسے
بيس آدمى مل كر بند كيا كرتے تھے تن تنہا ديوار قلعہ سے اكھاڑ ليا اور
يہوديوں كى قلعہ خندق پر گرايا تاكہ سرباز اسلام اس كے اوپر سے گذر كر فساد
اور خطرہ كے آخرى سرچشمہ كو كچل ديں _
عزوہ خيبر ميں چونكہ مسلمانوں كو حضرت على (ع) كى قربانى و دلاورى سے فتح و
كامرانى حاصل ہوئي تھى اسى وجہ سے آپ كو ''فاتح خيبر '' كے لقب سے ياد كيا
جاتا ہے_
اميرالمومنين (ع) كى سياسى زندگى
ميں جنگجوئي كے اثرات
حضرت على (ع) كى شجاعت و دلاورى اور جرائتيں جوكہ مختلف غزوات، بالخصوص غزوہ
بدر ميں ابھر كر سامنے آئيں ہم نے انكو مختصر طور پر يہاں بيان كيا ہے '' جس
كى وجہ يہ ہے كہ ا سى جنگى پہلو كا اسلام كى آيندہ تاريخ اور آپ (ع) كى سياسى
زندگى كے حالات قلمبند كرنے ميں اہم ونماياں كردار تھے_ چنانچہ اس كے اثرات و
نتائج كى تلاش و جستجو ہميں تاريخ اسلام ميں پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كے بعد
سے كرنى چاہيئے
راہ خدا ميں على (ع) كى جانبازيوں او رآپ كے ہاتھوں مشركين كى ہلاكت (تمام
غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں ) كى وجہ سے آپ كے خلاف كفار قريش كے دلوں ميں
وہ دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جس كے اثرات بعد ميں منظر عام پر آئے_عثمان اور
حضرت على (ع) كے درميان خليفہ وقت مقرر كئے جانے سے متعلق چھ ركنى كميٹى ميں
جوگفتگو ہوئي اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ كفار و قريش كے دلوں ميں آپ كے خلاف كس
قدر دشمنى وعداوت تھى اس گفتگو كے اقتباس ہم يہاں پيش كرتے ہيں :
''مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں عثمان نے حضرت على (ع) سے خطاب كرتے ہوئے كہا تھا
ميں كيا كروں ، قريش آپ كو پسند نہيں كرتے كيونكہ آپ نے ان كے ايسے ستر (70)
آدميوں كو (جنگ بدر و احد اور ديگر غزوات ميں ) تہ تيغ كيا ہے جن كا شمار
قبيلے كے سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا (چنانچہ ان كے دلوں ميں
بھى كينہ و عداوت ہے ''_
اس كى دوسرى مثال يزيد كے وہ اشعار ہےں جو اس نے حضرت سيد الشہداء (ع) اور آپ
كے بہتّر عزيز و اقرباء اور ياران باوفا كى شہادت پر كہے تھے_ وہ لعين جب كہ
نشہ فتح وكامرانى ميں مست و سرشار تھا اور حسين بن على (ع) كا سر مبارك اس كے
پاس لايا گيا تو اس ملعون نے اس موقعے پر جو اشعار كہے ان كا مفہوم يہ ہے:
احمد (پيشوائے اسلام) نے جو كام انجام ديئے ہيں ان كے مقابل اگر ميں ان كى آل
سے انتقام نہ لوں تو خندف كى نسل سے نہيں_
ہاشم نے دين كے نام پر حكومت حاصل كى تھى ورنہ اس پر نہ غيب سے خبر آئي تھى
نہ وحى نازل ہوئي تھي_ ہم نے على (ع) سے اپنا بدلہ ليا اور سوار شجاع اور
سورما (حسين بن على (ع) ) كو قتل كرديا _ |