عقلی دلائل پر توجہ دینے کی ضرورت

          تمام بنی نوع انسان عقلی دلائل کو نہایت اہمیت دیتے ہیں ۔اس طرح عقلی دلائل اور عقلی بحث کا ایک خاص مقام ہے۔ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلامِ پاک میں بار بار انسانوں کو فکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور(آیاتِ قرآن جیسے افلاتعقلون: سورئہ بقرہ46۔76، لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْن،سورئہ بقرہ:73۔242،اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاٰیٰاتٍ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن،سورئہ رعد:4، سورئہ نحل12اور اسی طرح دوسرے مقامات پر۔ اَکْثَرُہُمْ لٰا یَعْقِلُوْن:سورئہ عنکبوت63، سورئہ مائدہ103 اور دوسری آیات)عقل سے کام نہ لینے کی مذمت کرتا ہے۔ درحقیقت اسلام کے جدیدمسائل کے اجتہاد کیلئے عقلی دلائل سے مطابقت ایک اہم شرط ہے، کیونکہ شریعت کے احکام عقل و دانائی کے عین مطابق ہیں اور ذاتِ باری تعالیٰ کوئی حکم خلافِ عقل صادر نہیں کرتی۔

          اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام اور عقل کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ ہر وہ چیز جس کو عقل سلیم تسلیم کرتی ہے، شریعت بھی اُس کی تائید کرتی ہے۔ لہٰذا عقل کا کسی چیز کو تسلیم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور لازماً اُس پر توجہ دینی چاہئے۔ اسی قانون کے پیش نظر اس کتاب میں بھی محققین اور دانشور حضرات کیلئے امامت اور رہبری کے موضوع پر اس طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے،نیز روایات اور احادیث کو بیان کرنے سے قبل عقلی دلائل کو زیر بحث لایا گیا ہے تاکہ اس اہم موضوع کیلئے تمام دلائل عقلی واضح ہوجائیں اور روایات، احادیث اور آیاتِ قرآنِ کریم کو پڑھنے کے بعد فیصلہ کرتے وقت کام آسکیں اور ہم منزلِ مقصودکو پاسکیں۔

مسئلہ امامت پر بحث کی ضرورت

          بعض اوقات اسلام کے بنیادی اصولوں سے بالکل ناواقف اور کم علم لوگ بڑی سنجیدگی سے اسلامی مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جب بھی لاعلمی اور عدم آگاہی کی بنیاد پر کسی موضوع پر اظہارِ خیال کیا جائے تو پریشانیِ افکار اور پراگندگیِ اذہان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیںآ تا۔

          افسوس کہ یہ علم سے بے بہرہ لوگ، دین اسلام کے دو اہم مسائل یعنی امامت اور رہبری پر ماضی میں بھی اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں۔ اس سے بُرے عزائم رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ ان لوگوں سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امامت اور خلافت کے بارے میں کوئی بات کرنا، یا رسولِ پاک کے انتقال کے بعد کس کو زمامِ حکومت سنبھالنا چاہئے تھی؟ اس پربحث کرنا زمانہٴ گزشتہ کی بات ہے جسے کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ لہٰذا اس پر بحث کرنے کا کوئی نتیجہ یا فائدہ نہیں ،کیونکہ اس کی حیثیت صرف تاریخی رہ گئی ہے۔

          اس طرح کے نتائج نکالنے والوں پرحقائق واضح کرنے کی ضرورت ہے ، اس لئے ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں جو اس طرح کے سوالات اور شبہات کے روشن جوابات ہیں:

اوّل:    گو مسلمانوں کی امامت اور رہبریٴ جیسے اہم مسائل رسولِ خدا کی وفات کے بعد بہت

 پرانے ہوچکے ہیں اورانہیں صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان پر بحث کرنا بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ مسلمانوں اور حق طلبوں کی تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اگر ان موضوعات پر کوئی بحث اور تحقیق نہ ہو تو لوگوں کو صراطِ مستقیم کا سراغ نہیں مل سکتا بلکہ آہستہ آہستہ وہ راہِ حق سے دور ہوتے جائیں گے اور حقائق اسلام اُن سے پوشیدہ رہیں گے۔ آئمہ معصومین (پیغمبر اسلام کے برحق نائبین) کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بہت سے اسلامی فرقے غلط راستوں پر چل پڑے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امامت اور رہبری جیسے اہم مسائل کیلئے اُن تفاسیر اور روایاتِ نبوی سے مدد لی جن کے لکھنے والے کسی نہ کسی اعتبار سے قابلِ اعتماد نہ تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مسائل پر اُن کا نظریہ نہ تو قرآنِ پاک سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی معتبرروایات سے۔

دوسرا: عقلی دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت ہے کہ دین اسلام میں امام کا انتخاب خدائے پاک کی

طرف سے ہونا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف سے۔ صرف اور صرف اسی ایک نکتہ پر اگرتمام مسلمانانِ عالم تحقیق کریں اور توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کے بعد امام اور ولی کے طور پرکس کا تعارف کروایا ہے؟ تاکہ اُس کی اطاعت اور پیروی کرکے سعادتِ اُخروی پر فائز ہوسکیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امامت کے موضوع پر تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔

انتخابِ امام پر سنی اور شیعہ حضرات کا نظریہ

          نبی کے بعد امام کا انتخاب کیسے کیا جائے، اس کو جاننے کیلئے ہم اہلِ سنت اورشیعہ حضرات دونوں کے نظریات کا الگ الگ جائزہ لیں گے اور اُن کو عقل و منطق کی کسوٹی پر

پرکھیں گے۔

انتخابِ امام کیلئے علمائے اہلِ سنت کا نقطہ نظر

          علمائے اہلِ سنت کے نزدیک امام کا انتخاب ایک اجتماعی مسئلہ ہے جو تقریباً ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ زمانہٴ قدیم سے لے کر آج تک دنیا کی تمام ملتوں میں پایاجاتا ہے۔ اس کی مثال کسی جمہوری ملک کے ایسے سربراہ کی سی ہے جسے ایک خاص عرصہ اور مدت کیلئے وہاں کے رہنے والے چنیں۔ لہٰذا اہلِ سنت حضرات مقامِ امامت اور رہبری کو صرف عمومی حیثیت دیتے ہیں اور لوگ یا وہ افراد جن کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہو، اس مقام اور منصب کیلئے کسی فرد کو چن سکتے ہیں۔

انتخابِ امام کیلئے شیعہ علماء کا نقطہ نظر

          علمائے شیعہ اور مکتب ِشیعہ کی نظر میں امامت اللہ کا عطا کردہ منصب ہے اور یہ اللہ ہی کا کام ہے کہ جس فردکو اس مقام اور عہدہ کے لائق اور اس عظیم ذمہ داری کے قابل سمجھے، اُس کا تعارف بطورِ امام کروائے۔ اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ اگر امام اور پیغمبرکو فضائل ، مراتب اور ذمہ داریوں کے اعتبارسے دیکھا جائے تو اُن میں سوائے نزولِ وحی کے اور کوئی فرق نہیں کیونکہ وحی صرف نبیوں اور رسولوں کیلئے مخصوص ہے۔

          جس طرح ایک نبی کے انتخاب میں عوام کو کوئی اختیار حاصل نہیں ، اسی طرح امام کے انتخاب میں بھی اُن کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔مندرجہ ذیل دلائل اس کی تصدیق کرتے ہیں:

(ا)۔      اگر انتخابِ امام کا اختیار لوگوں کو دے دیا جائے تو یہ لوگوں کے درمیان شدید اختلاف

اور تفرقہ کا باعث بنے گا۔اس صورت میں ہر گروہ اور قبیلہ امام کے انتخاب کیلئے اپنے اپنے منظورِ نظر افراد کو پسند کرے گا۔

(ب)۔    اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگ بغیر کسی اختلاف کے کسی ایک شخص کواس مقام کیلئے چن لیں گے تو پھر بھی اُن کا یہ عمل خطا سے بَری نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ شخص جس کو چناگیا ہے، اُس میں وہ صلاحیتیں جو اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے ضروری ہیں، نہ ہوں۔ اس طرح ایک نادرست عمل کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک سکتے ہیں اور اس طرح تمام نبیوں اور رسولوں کا بڑی زحمتوں سے کیا ہوا تبلیغی کام ضائع ہوسکتا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس دین کو پھیلانے کیلئے خدانے اپنے بندگانِ خاص سے صدیوں تک کام لیا ہو، اُسی دین کو اب بے یارومددگار چھوڑ دے ۔ یہ اُس کی حکمت اور لطف و کرم سے بعید ہے۔ اُس کی ہرگز یہ منشاء نہیں ہوسکتی کہ لوگ گمراہی اور نقصان کے راستے پر چلیں۔

خدا کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضااس دنیا میں جب ہم وحدتِ خداوندی کو دیکھتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہدایت ِعمومی کیلئے ایک واضح اور روشن دلیل بھی نظر آتی ہے۔ اگر ہم اس کو پہچان لیں تو بہت سے شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں اور بہت سے سوالات کا جواب بھی مل جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب پروردگار اپنے لطف و کرم سے اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے تو ہر پیدا ہونے والے کو صراطِ مستقیم اور منزلِ مقصود کی ہدایت کرتاہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کی کسی مخلوق کا کوئی فرد بھی خدا کے اس قانون سے باہر نہیں ،حتیٰ کہ انسان بھی جو خدا کی ایک مخلوق ہی نہیں بلکہ اُس کی نظر میں اشرف المخلوقات ہے۔

          قرآن مجید نے انسان کے احترام و اکرام کے بارے میں واضح ارشاد فرمایا ہے:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَابَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنَھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَھُمْ مِّنَ الطَّیِبٰتِ وَفَضَّلْنَھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍمِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۔(سورئہ بنی اسرائیل:آیت70)

          اوریقینا ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور خشکی و تری میں ان کوسواریاں دیں اور اچھی اچھی چیزوں سے اُن کو روزی دی اور بہت سی مخلوق پر ان کو فضیلت دی جیسا کہ فضیلت دینے کا حق ہے۔

          وہ بھی خدا کی جانب سے اس قانون کے تحت ہدایت کیا گیا ہے۔

          البتہ انسان تنہا اپنی عقل کے بل بوتے پر ہرگز اُس منزلِ کمال کو نہیں پہنچ سکتا جو اُس کی تخلیق کا مقصد تھا۔لہٰذا ضروری تھا کہ خدا انسان کی ہدایت کا انتظام رسولوں، نبیوں اور اپنی کتب کے ذریعے سے کرے اور یہ سلسلہٴ ہدایت خاتم النبیین حضرت محمد کی بعثت پر اختتام پذیر ہو۔

          اب یقینایہ سوال پیداہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنے کا سلسلہ خاتم المرسلین کے بعد بند کردیا تو لوگوں کی ہدایت بغیر کسی نبی کے کیسے ممکن ہوگی۔ یعنی تاروزِ قیامت لوگ کس طرح حق و باطل ، غلط و صحیح اور کج روی و صراطِ مستقیم میں فرق جان سکیں گے۔ اس کے علاوہ کون اُن کو جعلی احادیث، آیاتِ قرآنی کی تفسیربالرائے، بدعتوں کی شناخت اورجدید مسائل کے بارے میں ہدایت کرے گا! یہ خدا کی عنایاتِ غیر محدود سے بعید ہے کہ وہ اپنے بندوں کو خاتم المرسلین کے بعد بغیر کسی رہبر یا ہادی کے لاوارث چھوڑ دے اور گمراہ کرنے والوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دے۔ نہیں ،ہرگز نہیں! ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اُس نے تو اپنے منتخب نمائندوں کا لوگوں میں تعارف کرواکے اُن کی ہدایت ِ دائمی کا سامان مہیا کردیا۔ یہ اُس کی مہربانی اور فضل و کرم کی بہترین مثال ہے۔

          ان سوالات کے جوابات کیلئے ہم عقلِ سلیم کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جو جوابات ملیں، اُن کو اپنی بحث میں شامل کرتے ہیں۔

ہدایت ِ الٰہی کی تعریف

          ہدایت ِ الٰہی کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان کو وہ راستہ دکھائے جس پر چل کر انسان فلاح و بہبود پائے اور گناہ و گمراہی سے دور رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی منزل کی طرف رہنمائی دعوتِ ارشاد، تبلیغِ حق اور فرمانِ الٰہی کیبغیرممکن نہیں۔نصیحت و تبلیغ کی ضرورت تو انسان کو ہمیشہ رہتی ہے۔ علمِ کلام کے اساتذہ کے مطابق خدا پر واجب ہے کہ وہ انسان کی ہدایت کیلئے کرئہ ارض کو اپنے ہادی سے خالی نہ رکھے کیونکہ اگر حق تعالیٰ کی طرف سے اس میں کمی یا نفی ہو تو اس کا لازماً اثر یہ ہوگا کہ غرضِ خلقت ِ بشر پوری نہ ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں بغیر سامانِ ہدایت مہیا کئے مقصد ِخدا ناکام رہے گا۔مقصد میں ناکامی بجائے خود ایک ناپسندیدہ اور قبیح چیز ہے۔ خدا کی ذات بغیر کسی شک کے ہر قسم کے ناپسندیدہ اور قبیح افعال سے پاک و منزہ ہے۔

          لہٰذا اُس کی حکمت و رحمانیت و ہدایت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو کبھی بھی ہادیٴ برحق اور رہنما سے محروم نہ رکھے۔ قابلِ ستائش رہبروں کو بھیج کر انسان کو ہر طرح کی گمراہی و بے راہ روی سے نجات دیدے۔

          پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ امامت حقیقت میں خدا کی جانب سے انسان کو کمال تک پہنچانے کیلئے ہدایت اور حجت ہے۔

امام ہونے کی شرائط اہلِ سنت اور شیعہ حضرات کی نگاہ میں

          گزشتہ بحث میں انتخابِ امام کیلئے اہلِ سنت اور شیعہ حضرات کے جدا جدا نظریات بیان کئے گئے۔ اب ہم امامت اور خلافت جیسے اہم مراتب کیلئے امام ہونے کی لازم شرائط کے بارے میں اہلِ سنت اور شیعہ حضرات کے نظریات بیان کریں گے۔

علمائے اہلِ سنت کی نگاہ میں شرائط ِ امام

          علمائے اہلِ سنت کی نظر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام یا خلیفہ چننے کیلئے کسی خاص شرط کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک عادی اور معمول کا عمل ہے اور لوگ اختیار رکھتے ہیں کہ اپنے امام کو چن لیں۔ کسی شخص کی ظاہری قابلیت اُس کو اس عہدہ پر چننے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے اور دیگر کسی خصوصی شرط کی کوئی قید نہیں۔

علمائے شیعہ کی نگاہ میں شرائط ِ امام

          لیکن شیعہ علماء برخلافِ نظریاتِ برادرانِ اہلِ سنت اس عظیم منصب کیلئے ، جو قوموں کے حالات بدل کر رکھ دے، کو اس طرح آسانی سے چن لینے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ وہ تو امام یا وصیِ نبی کیلئے چند خاص شرائط کو لازم سمجھتے ہیں اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے دعویٰ کو قوت بخشتے ہیں۔ ان کے خاص خاص دلائل ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:

(ا)۔      کیونکہ امام نبی کا وصی ہونے کے ناطے اُس کی تمام تبلیغات اور دین و شریعت کے

سلسلہ کو جاری و ساری رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، لہٰذا اُس کی ذمہ داری بھی عین نبی کی ذمہ داری کے مساوی ہوتی ہے۔ اگر مقامِ وحی کو الگ سمجھا جائے تو مقامِ امام اور مقامِ نبی میں کوئی فرق نہیں رہتا اور امام کو بھی اُسی علم ، حلم ، تقویٰ اور دیگر کمالات کا حامل ہونا چاہئے جن کا نبی حامل ہے۔ امام کی عادات و اطواراوراوصاف بھی وہی ہونے چاہئیں جو نبی کے ہوں تاکہ وہ نبی کا پورا پوراعکس ہو۔

(ب)۔    شریعت ِمحمدی بغیر کسی شک و شبہ کے آخری شریعت ِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مکمل اور تسلیم شدہ دین بنا کر لوگوں تک پہنچایا ۔ اس کی تصدیق میں ارشادِ خداوندی ہے:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

          آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا۔۔۔۔۔۔۔(سورئہ مائدہ:آیت3)

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ

          اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(آلِ عمران:آیت19)

          یہ دین قیامت تک انسانوں کے مادی و روحانی تجسسّات و سوالات کا جواب دہندہ رہے گا۔

          رسولِ خدا نے اپنے اوصافِ اعلیٰ اور کمالِ علم کے باوجود بعض مسائلِ انسانی جو زمان و مکان سے مربوط ہیں، مصلحت ِ دین کی خاطر بیان نہ فرمائے تاکہ لوگوں کے فہم و ادراک میں بلندی آنے پر دین کے اُن مسائل پر اُس زمانے میں تحقیق کی جاسکے۔

          اس بناء پر ذاتِ حق پر واجب ہوا کہ وہ ہدایت ِ الٰہیہ کی گزشتہ روایت کو جاری رکھتے ہوئے ایسے افراد کو چنے اور یہ ذمہ داری سونپے کہ وہ لوگوں کو احکامِ خدا پہنچاتے رہیں۔ زمانہٴ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق دینی مسائل کے حل کیلئے قیامت تک رہنمائی کرتے رہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جن اشخاص کو یہ ذمہ داری سونپی جائے، وہ کردار و رفتار ، علم و حلم ، عصمت و صداقت اور پاکیزگی میں یا باالفاظِ مختصر وہ تمام صفات و عادات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھیں، اُن میں بھی ہونی چاہئیں۔ ابلاغ و تبلیغ جیسے کٹھن کام اور شریعت کے مشکل مسائل کو حل کرنے کیلئے اُن میں بھی رسولِ پاک جیسا وسیع خداداد علم ہونا چاہئے۔

          اس طرح ایسے افراد کو پاک طینت، زندہ و روشن ضمیر ہونا چاہئے اور ہر طرح کی خطا اور گناہ سے بھی مبرا ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کا اعتماد ہمیشہ بحال رہے۔ مزید برآں اُن کو دین میں ممکنہ تبدیلی کرنے یا کوئی بدعت شروع کرنے سے بھی پاک و منزہ ہونا چاہئے۔

          اوپر بیان کئے گئے دلائل سے ثابت ہواکہ امام اور وصیِ نبی کو یقینا خصوصی شرائط کا حامل ہونا چاہئے۔ ذیل میں اہم شرائط کو بیان کیا جاتا ہے:

اہم شرائط ِ امام کی تشریح

عصمت و پاکدامنی

          سب سے اہم شرط جو امام میں لازماً ہونی چاہئے، وہ اُس کی عصمت اور پاکدامنی ہے یعنی امام کو معصوم ہونا چاہئے۔ اس شرط کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی اس شرط کا قائل نہیں تو وہ واضح دلائل کی روشنی میں اپنے دعویٰ میں خرابی کا شکار ہوجائے گا کیونکہ یہ تسلسل کا محتاج ہوجائے گا۔اس کی تشریح درج ذیل ہے:

          امام کے وجود کی ضرورت اسی بناء پر ہے کہ وہ انسانوں کیلئے شمعِ ہدایت ہو اور ظلم و زیادتی اور فساد کو روکنے والا ہو، اگر امام خود معصوم نہیں ہوگا تو وہ کسی اور امام کا محتاج ہوگا جو اُس کی رہنمائی کرسکے اور اُسے بُرے کاموں سے روکے، اسی طرح یہ دوسرا امام کسی تیسرے امام کا محتاج ہوگا، لہٰذا یہ سلسلہ ایک غیر متناہی صورت پیدا کرے گا جو عقلاء کی نظر میں باطل ہے۔

          اس کے علاوہ اگر امام معصوم نہ ہو تو دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہوجائے گا کہ امام سے گناہ سرزد ہونے کی صورت میں لوگوں کے پاس دو راستوں کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہوگا:

پہلا راستہ

           لوگ امام کو اُس کے گناہ کرنے کی وجہ سے تنبیہ کریں اور آئندہ کیلئے منع کریں۔ اس صورت میں امام اپنے منصبِ اعلیٰ سے پستی میں گر جائے گا اور لوگوں کا اُس پر اعتماد اٹھ جائے گا۔ اُس کے احکامِ دینی و دنیوی میں کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح اُس کے امام ہونے کا فائدہ زائل ہوجائیگا۔

دوسرا راستہ

          لوگ امام کو اُس کے گناہ پر منع نہ کریں ۔ اس صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجود معاشرے میں ختم ہوجائے گا جو بغیر کسی شک کے مزید خرابیوں کا راستہ ہے۔امام کی تو سب سے بڑی ذمہ داری ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے تاکہ شریعت ِ دین کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر امام بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے تو لوگوں کو اُس کے کسی بھی حکم پر حکمِ خدا کے مطابق ہونے پر شک رہے گا۔

          لہٰذادرج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ یہ راستہ بھی ٹھیک نہیں۔

عہد ِخدا ظالموں تک نہیں پہنچ سکتا

          امام کے معصوم ہونے کی ایک اور محکم دلیل قرآن سے بھی ثابت ہے۔ سورئہ مبارکہ بقرہ کی آیت 124 میں ارشادِ خداوندی ہے:

لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ۔

میرا عہد(امر امامت و رہبری) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔

          جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب سے سوال کیا کہ :اے میرے رب! کیا منصب ِ امامت پر میری اولاد میں سے بھی کوئی پہنچے گا؟ تو ارشادِ خداوندی ہوا کہ امامت کے درجہ پر کوئی ظالم نہیں پہنچ سکتا۔ ظلم سے مراد صرف لوگوں پر ظاہری ظلم و ستم ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق عدمِ عدل سے ہے یعنی جہاں عدل نہیں ہوگا، وہاں ظلم ہوگا۔ اگر اس کو مزید دیکھیں تو ظلم تین طرح سے ہوسکتا ہے:

  •        خدا کے ساتھ ۔

  •        اپنے نفس کے ساتھ ۔

  •       لوگوں پر ۔

          ظاہر ہے کہ اگر کوئی ظلم کی ان تین اقسام میں سے کسی ایک ظلم کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو وہ ظالم شمار ہوگا اور وہ منصب ِ امامت کے لائق نہیں رہے گا۔

          یہ دلیل بجائے خود عظیم اہمیت کی حامل ہے اور آئمہ معصومین کیلئے خلافت برحق ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔ یہی آیت ِقرآنی اور اس کی تفسیر حضرت علی علیہ السلام اور اُن کی اولادِ پاک کیلئے خلافت کوثابت کرتی ہے کیونکہ اس سے اس نکتہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دوسرے صحابہ دورِ جاہلیت میں اپنی اپنی عمر کے کچھ حصے بت پرستی میں گزار چکے تھے اور قرآنِ کریم اس بارے میں فرماتا ہے:

یَبُنَیَّ لَا تُشْرِکُ بِاللّٰہِ۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔

لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں

          اے میرے بیٹے! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔(سورئہ لقمان:آیت13)۔

          اس سے پتہ چلا کہ شرک سب سے بڑا (خدا کے ساتھ) ظلم ہے ۔ اب رسولِ خدا کے صحابہ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ جس کسی نے ایک لحظہ کیلئے بھی بتوں کے سامنے سجدہ نہ کیا، وہ حضرت علی علیہ السلام تھے۔

          گزشتہ بحث میں اشارہ کیا گیا کہ امام کے لئے پہلی اور سب سے ضروری شرط یہی ہے کہ امام کی پوری مادّی اور معنوی زندگی کے ہر پہلو میں پاکیزگی، طہارت اور عصمت ہو۔ گہری سوچ رکھنے والے دانشمند حضرات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عصمت(ہرگناہ سے پاکیزگی) انسان کا اندرونی مسئلہ ہے اور اس کو مکمل جانچنے اور پرکھنے کیلئے کوئی طریقہٴ کار یا پیمانہ موجود نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امامِ معصوم کی معرفت اور شناخت کی جانی چاہئے۔ خدا عالمِ مطلق ہے، حاضر و غائب کو جاننے والا ہے، دلوں کی کیفیات کو زبانوں سے بہتر جانتا ہے، اس لئے امامِ حق کا تعارف کروانے کیلئے ہم اُسی کی ذات کے محتاج ہیں اور وہی ہمیں اُن افرادِ ذی قدر کا تعارف کروائے۔

          حقیقت شناسی کا ثبوت انسان کو مطالعہ اور تحقیق کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اس طرح وہ فرموداتِ خدا اور رسول تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ تحقیق ہی کا نتیجہ ہے کہ تمام پوشیدہ حقائق ایک ایک کرکے مانند ِآفتاب انسان کے سامنے آجاتے ہیں او رہر قسم کے ظلمت و تاریکی ، جہل و تعصب کے پردے چاک ہو جاتے ہیں۔ آئیے ہم محکم دلائل، آیاتِ قرآنی اور احادیث ِمتواترہ کو تلاش کریں تاکہ امام کو پہچاننے میں جتنی رکاوٹیں یا شکوک و شبہات ہیں، دور ہوجائیں اور حق تلاش کرنے والوں کو سچا رہبر اور صراطِ مستقیم مل جائے۔

          فرموداتِ خدا اور دیگر دلائل کچھ اس طرح سے ہیں کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات اور رسولِ اکرم کی معتبراحادیث ِمتواترہ نہایت خوبصورت انداز میں لوگوں کو اعلیٰ ترین انسانوں سے متعارف کرواتی ہیں۔ یہ عظیم ہستیاں انسانوں کی ہدایت و رہبری کی ذمہ دار ہیں۔انہی سالارانِ حق کے پہلے رہبر مولائے متقیان ، امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں اور ان کا آخری رہبر حضرتِ قائم آلِ محمدبقیۃ اللہ الاعظم حجۃ بن الحسن العسکری علیہ السلام ہیں۔

          خدا کی مدد و نصرت سے آئندہ ان دلائل کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا اور اس کے علاوہ دوسرے ابواب میں ہم اور نئی چیزیں بیان کریں گے جو انشاء اللہ مقصد ِکتاب کی تصدیق کرنے والی ہوں گی،لیکن آخری فیصلہ ہم پڑھنے والوں پر ہی چھوڑتے ہیں۔

          اَلّٰلھُمَّ عَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ نَفْسَکَ لَمْ اَعْرِفْ رَسُولَکَ،اَلّٰلھُمَّ عَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ فَاِ نَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ،اَلّٰلھُمَّ عَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِیْ حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِیْنِیْ،اَلّٰلھُمَّ لاٰ تُمِتْنِیْ مَیْتَۃً جٰاھِلِیَّۃً وَلاٰ تُزِغْ قَلْبِیْ بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنِیْ۔(آمین)۔