حضرت علی علیہ
السلام اور حقوق انسانی
یہ مضمون جناب ندیم اشرف صاحب نے تحریر کیا ہے ۔ اسے ہم اردو ماہنامے تنظیم
المکاتب کے شکریے کے ساتھ نذر قارئين کررہےہیں۔ ندیم اشرف صاحب علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی میں شعبہ سنی دینیات میں مشغول خدمت ہیں۔
اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت
اسلام وہ مذھب ہے جو خالق کائنات کی طرف سے پوری دنیائے انسانیت کے لئے ایک
بیش بہا دولت کی حیثیت رکھتا ہے۔ بارگاہ ایزدی میں اس دین کی قبولیت کا اعلان
قرآن مجید یوں کررہا ہے۔ ان الدین عنداللہ الاسلام ۔ بے شک خدا کے نزدیک دین
اسلام ہی ہے۔ ( آل عمران)
خدا کے دین کی اس عالمگیریت کا تقاضہ یہ ہےکہ جغرافیائي حدود و قیود سے
بالاترہوکر تمام خطہ زمین کے انسان اس کے سایہ عاطفت میں پناہ لے لیں اور اس
کے ماننےوالے افراد تمام انسانیت کے لئے امن و سلامتی کے پیامبر بن جائيں۔
اسلام میں انسانی حقوق کے تعلق سے اس کی عالم گیریت سے روشناس ہونے کےبعد ہم
دیکھتےہیں کہ اس خدائي ضابطہ حیات نے تمام مخلوقات ارضی و سماوی میں آدم و
حوا کی اولاد کا کیا مقام بتایا ہے اور اس مقام تک رسائي کیسے ممکن ہے۔
سورہ والتین میں نوع انسانی کا مقام ذہن نشین کرایا گيا ہے۔لقد خلقنا الانسان
فی احسن تقویم ( سورہ تین 5 )
ایک مقام پرنوع انسانی کی افضلیت اور برتری کو یو بیان کیا گيا ہے۔ ولقد
کرمنا بنی آدم و حملنا ھم فی البر و البحر و رزقناھم من الطیبات و فضلنا ھم
علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا۔ اسراء 70
انسان کے بنیادی حقوق میں اہم حق یہ ہے کہ اس کو برتری اور فوقیت عطا کی جائے،
اس کو جینے کے وسائل فراہم کئے جائيں اور حلال رزق عطاکیا جائے۔ چنانچہ اسلام
نے ان حقوق کا خاص خیال رکھا اور انسان کو دیگر تمام مخلوقات پرایک تفوق
عطاکیا جیسا کہ مندرجہ بالا آیت سے یہ مفہوم واضح ہے۔ اسی طرح دیگر حقوق
انسانی سے متعلق جو فرمودات نبوی حجت الوداع کے موقع پرپیش کئے گئےتھے ان میں
یہ تعلیم بھی موجود تھی : یا ایھاالناس ان ربکم واحد و ابا کم واحد الا لا
فضل لعربی علی عجمی، ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود و لا لاسود علی
احمر الا بالتقوی ( مسند احمد ج 5 ص 411)
خلاصہ یہ ہےکہ اسلام میں حقوق انسانی کو ایک اہم مقام حاصل ہے اس کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگي میں اگر کوئي
کوتاہی ہوجائے تو اللہ رب العزت کی کریم ذات سے توقع ہےکہ وہ بندوں کی غلطیوں
کو نطر انداز کردے لیکن جن حقوق کا تعلق بندوں سے ہے ان کی ادائیگي میں کسی
طرح کی کوتاہی قابل معافی نہیں ہے۔ جیسا کہ مسلم کی روایت میں جو ابوہریرہ سے
منقول ہے اس میں سب سےبڑا مفلس ان شخص کو قراردیا گيا ہے جس کے اوپر دوسروں
کے حقوق ہوں خواہ وہ نمازی ہویا بہت زیادہ زکاۃ دینے والا ہوں ، اس وقت تک اس
کو نجات نہیں ملے گي جب تک کہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کردے ۔ ( کتاب مسلم
البروالصلۃ )
خلیفہ رسول حضرت علی علیہ السلام
آپ کا مختصر تعارف یہ ہےکہ آپ کی ولادت تیرہ رجب تیس عام الفیل مطابق چھے سو
عیسوی بروز جمعہ بمقام خانہ کعبہ میں ہوئي۔ آپ کے والد ابوطالب اور والدہ
ماجدہ فاطمہ بنت اسد تھیں ۔ آپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں ۔ مورخین عالم نے آپ
کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کے بارےمیں کبھی کوئي اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ
بالاتفاق کہتے ہیں کہ : لم یولد قبلہ و لا بعدہ مولود فی بیت الحرام ۔ (
مستدرک حاکم جلد سوم ، چار سوتراسی )
کنیت و القاب
آپ کی کنیت و القاب بے شمار ہیں۔
کنیت میں ابوالحسن ، اور ابوتراب اور القاب میں امیرالمومنین ، المرتضی ، اسد
اللہ ، یداللہ ، نفس اللہ ، حیدرکرار، نفس رسول اور ساقی کوثر مشہور ہیں۔
آپ کی تربیت
حضرت علی علیہ السلام کی منفرد ذات ایسی ہے کہ جو پیدائش کے وقت سے ہی پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش تربیت میں رہی ہے۔ بچپن سے تعلیم و
تربیت، جوانی میں شرف مصاہرت اور وصال نبوی تک دامن دولت سے وابستگي نے آپ کی
ذات کو خلق نبوی کا پیکر اور تعلیمات اسلامی کی تصویر بنادیا تھا۔ حضرت علی
علیہ السلام کو ابتدا سے تربیت صالح ملنے کی وجہ سے ان کا دامن زمانہ جاہلیت
کی تمام آلودگيوں سے محفوظ رہا۔ حضرت علی علیہ السلام بچپن سے ہی وعظ و پند
کے جلسوں میں اور تبلیغ اسلام کے موقعوں پرہروقت آنحضرت کے رفیق کار بنے رہے۔
( شاہ معین الدین تاریخ اسلام ج اول تین سواڑسٹھ )
صاحب مناقب آل ابی طالب اسی مضمون کی مزید تشریح کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت
علی علیہ السلام کی شخصیت کی تعمیر میں آنحضرت کا بڑا اہم کردار ہے۔
مولا علی علیہ السلام کی شخصیت کے مختلف عناصر کی تشکیل رسول خدا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی نگرانی میں ہوئي یہاں تک کہ آپ کی ذات گرامی نبوت اور اس
کی خصوصیات کے علاوہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شخصیت کے مختلف
فکری اور اعتقادی زاویوں کی ایک حقیقی تصویر بن گئي۔
حضرت عمار یاسر فرماتےہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی
علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا : خداوند تمہیں ایسے زیورات سے سجائے جن سے
اس نے اپنے کسی بندے کو آراستہ نہ کیا ہو ، وہ خدا کے خالص اور نیک بندوں کا
مخصوص زیور ہے جو زہد اور دنیا سے بے رغبتی ہے ، تمہیں خدا نے ایسا بنایاہے
کہ تم دنیا کی کسی بھی شئي سے اپنے آپ کو آلودہ نہ کرو۔ (مناقب آل ابی طالب ص
دوسوچورانوے)
آپ کے امتیازات و خصوصیات
مولانا ضیاء الدین برنی جو حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید تھے لکھتےہیں کہ :
صحابہ میں مرتضی علیہ السلام کو کئي حیثیتوں سے مسلمہ طور پرشرف حاصل ہے۔ سب
سےپہلے یہ کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچازاد بھائي ہیں دوسرے
یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ماں باپ
کی آغوش میں تربیت پائي ہے، تیسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے نورنظریعنی حسن و حسین علیھما السلام کے باپ تھے، چوتھے یہ کہ پیغمبر نے
ان کو صحابہ میں سب سے بڑا زاہد کہا، پانچویں یہ کہ صحابہ میں وسعت علم کے
لحاظ سے ان کی نظیرنہ تھی، چھٹے یہ کہ اسلام سے پہلے بھی کفر وشرک ان کے دل
میں ایک لمحہ کے لئےداحل نہ ہوا اور ساتویں یہ کہ ان کی سخاوت کے متعلق چند
آیتیں نازل ہوئيں۔ ( تاریخ فیروزشاہی ص پینتالیس )
آپ کے دورہ خلافت کا ایک مختصر
جائزہ
مولانا ابوالحسن ندوی آپ کی خلافت کے بارےمیں لکھتےہیں : خلافت کی پوری مدت
کو ایک مسلسل مجاھدہ، ایک کشمکش ایک مسلسل سفر میں گزارنا، لیکن نہ تھکنا، نہ
مایوس ہونا، نہ بددل ہونا ، نہ شکایت کرنا ، نہ راحت کی طلب نہ محنت کا شکوہ،
نہ دوستوں کا گلہ، نہ دشمن کی بدگوئي، مدح و ذم سے بے پروا، جان سے بے پروا،
انجام سے بے پروا، ماضی کا غم نہ مستقبل کا اندیشہ ، فرض کا ایک احساس مسلسل،
اور سعی کا ایک سلسلہ غیر منقطع، دریا کا سا صبر، سورج اور چاند کی سی پابندی،
ہواوں اور بادلوں کی سی فرض شناسی۔
معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ذوالفقار ان کے ہاتھ میں سرگرم اور بے زبان ہے اسی
طرح وہ کسی اور ہستی کے دست قدرت میں سرگرم عمل اور شکوہ و شکایت سے ناآشنا
ہیں، ایمان و اطاعت کا وہ مقام جو صد فیصد یقین کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا
پہچاننا اور ان نزاکتوں اور مشکلات سے واقف ہونا بڑے صاحب نظر اور صاحب ذوق
کا کام ہے۔اس لئے ان کی زندگي اور ان کی عظیم شخصیت کا پہچاننا ایک بڑا
امتحان ہے۔
(المرتضی )
یہ بات مندرجہ بالاسطور میں بہت ہی مدلل انداز میں گزری کہ حضرت علی علیہ
السلام کی پرورش اور تربیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ
ہوئي اور آپ کو اس بات کا شرف حاصل ہےکہ سفر میں حضر ہرجگہ آپ کو رسول خدا
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہم نشینی و رفاقت میسر رہی اس لئے آپ کی زندگي کو
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا عکس قراردیاجاسکتاہے۔
چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا اختلاف
مذھب و ملت حقوق انسانی کی ادائيگی کے لئے امت مسلمہ کو ابھارا اور عملی
طورپراپنی کاوشوں کے ذریعے اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ تمہاری نجات حقوق
انسانی اور حقوق العباد کی ادائیگي کے ساتھ وابستہ ہے۔ چونکہ حضرت علی علیہ
السلام کو آپ کی لمبی رفاقت اور ساتھ میسر رہا ہے اس لئےنہ صرف آپ کے اقوال و
نصائح میں حقوق انسانی کی تعلیمات ملتی ہیں بلکہ مختلف مواقع پراللہ کے بندوں
کے ساتھ آپ کے کئے گئے معاملات اس بات کے عملی گواہ ہیں کہ حضرت علی علیہ
السلام کو حقوق انسانی کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے ایک امتیازی مقام حاصل
ہے اور آپ کی اس سلسلے میں کی گئی عملی کوششیں بعد والوں کے لئے ایک نمونہ
عمل ہیں۔
سماج کے کمزور طبقوں کے لئے آپ کا
عمل اور انکے حقوق کا خیال
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور حیات سے ایک انصاف پسند، مساوات
پرمبنی، اور عام بہتری کے تصور پرمبنی معاشرے کے قیام کی کوشش نے عرب کی
سماجی، مذہبی اور سیاسی زندگی کا رخ بدل دیا۔ مشقت کی عظمت اور سماجی خدمت
اسلام کے ماننے والوں کی ایک اہم روشنی بن گئي۔
اسی چراغ کی روشنی کو مزید تیز کرتےہوئے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگي
خدمت خلق کے لئے وقف کردی، اپنے بچپن سے ہی انہوں نے اپنے آپ کو انسانوں کی
فلاح و بہبود کے کاموں کے ساتھ وابستہ کرلیا۔ ( مسعود الحسن، حضرت علی مرتضی
علیہ السلام ، دہلی ص تین )
حضرت علی کی سخاوت اور طبیعت کی خود مختاری کا یہ عالم تھا کہ افلاس و فاقہ
کے دنوں میں بھی جوکچھ وہ دن بھر کی مزدوری کے بعد حاصل کرتے تھے اس کا ایک
بڑا حصہ غریب اور فاقہ کش لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور وہ کسی سائل کو
اپنے در سے ناامید واپس جانے نہیں دیتے تھے۔ ( شریف رضی نہج البلاغہ )
آپ کے تقوے اور استغنا کا یہ عالم تھا کہ شدید سردی میں ایک چادر جو مدینے
سےلائے تھے وہ اوڑھتے تھے۔ بدن کانپ رہا ہے لیکن امیر المومنین ہونےکےباوجود
بیت المال سے اس وجہ سے نہیں لیتے تھے کہ کسی مسلمان کی حق تلفی نہ ہوجائے۔ (
شاہ معین الدین تاریخ اسلام ج ا )
حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ طرز عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ دوسروں
کے حقوق کے سلسلےمیں بہت زیادہ حساس تھے، حتی کہ آپ نے سخت ٹھنڈک کی صعوبتیں
برداشت کرنا گوارا کیا لیکن بیت المال سے صرف اس وجہ سے اپنے لئے آرام کی چیز
نہيں لی کہ کہیں کسی مسلمان کی حق تلفی نہ ہوجائے۔
آپ حقوق کی ادائیگي کے سلسلےمیں لوگوں کے اعتراض کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام نے بیت المال کے حقوق کی تقسیم میں
مساوات کی تشہیر کی اور عمل کیا۔ جب کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی
علیہ السلام نے ان سے کہا : کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پرجبر وستم کرکے
حمایت حاصل کرون جن کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے۔ خدا کی قسم یہ میں اس وقت
تک کرتا رہوں گا جب تک یہ دنیا قائم ہے، جب تک چاند ستارے اسمان میں ہیں۔ اگر
یہ مال و دولت میری ملکیت ہوتی تو بھی ان میں برابر تقسیم کردیتا تو کیوں نہ
اللہ کے مال کو برابر تقسیم کروں۔ ( نہج البلاغہ )
امام بیہقی نے لکھاہےکہ حضرت علی علیہ السلام کا وجود رعایا کے لئے رحمت تھا۔
بیت المال کے دروازے غرباو مساکین کے لئے کھلے ہوئے تھے اور اس میں جورقم
ہوتی تھی نہایت فیاضی کے ساتھ مستحقین میں صرف کردی جاتی تھی ۔ ذمیوں کےساتھ
نہایت شفقت آمیز برتاو تھا۔ ایران میں خفیہ سازشوں کے باعث بار بار بغاوت
ہوئي لیکن حضرت علی علیہ السلام نے ہمیشہ ترحم سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی
اس لطف وکرم و شفقت سے متاثر ہوکر کہتے تھے کہ خدا کی قسم اس عربی نے
نوشیرواں کی یاد تازہ کردی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے حقوق کا اس قدر خیال تھا کہ خلیفہ وقت ہونے
کی حیثیت سے تمام وسائل حاصل ہونے کے باوجود آپ سادہ زندگي گذارتے تھے، سادہ
غذا اور سادہ لباس شروع سے آخرتک آپ کی عادت میں شامل رہا، جوکی سوکھی روٹی
کھاتے تھے اور موٹا سیاہ لمبا کرتا اور اسی قسم کی عبا اور عمامہ پہنتے تھے
لیکن ملازمین کو عمدہ لباس فراہم کرتےتھے ، غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرتے
تھے ، گھر کے اور ذاتی کام خود کرتےتھے۔ بڑی انسانی خوبی یہ تھی کہ آپ معمولی
غریب مسلمانوں سے ملتے تھے اور ان کو اپنے قریب بٹھاتے تھے(حضرت علی اردو
دائرۃ المعارف اسلامیہ دانش گاہ پنجاب لاہور)
حضرت علی علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں بھی
اپنی ذاتی جائداد اور مال تمام لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے وقف کردیتے تھے۔
وہ یہ محسوس کرتےتھے کہ ان کے مال میں غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی حق ہے۔
ایوب بن علیہ حذا کہتےہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے
سنا ہےکہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم کیا تو
حضرت علی علیہ السلام کے حصے میں زمین آئي، آپ نے اس زمیں میں کنواں کھودا
اور اس کا نام ینبع رکھا۔ لوگوں نے آپ کو اس کی مبارک باد دی تو آپ نے فرمایا
اس کے اصل وارث کو بشارت دو میں نے اسے خدا کی راہ میں حج کرنے والوں کے نام
وقف کردیا۔ یہ کبھی فروخت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جاسکتی ہے
اور نہ یہ وراثت میں کسی کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ( نہج البلاغہ )
آپ کےنصائج و خطبات میں حقوق انسانی
پر زور
حضرت علی علیہ السلام نے حقوق انسانی کے سلسلےمیں اپنے فرزند حضرت امام حسن
علیہ السلام کو وصیت کرتےہوئے جس طرح تعلیم دی ہے وہ دستور حیات اقدار بشریت
کو سمجھنے کےلئے کافی ہے۔
آپ نے فرمایا اے فرزند اپنے اور دوسروں کے درمیاں میں ہرمعاملہ میں اپنی ذات
کو میزان قراردو ۔ جو اپنے لئے پسند کرتےہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو اور
جو اپنےلئے نہیں چاہتے وہ دوسروں کے لئے بھی نہ چاہو۔ جس طرح یہ چاہتے ہوکہ
تمہاری ساتھ حسن سلوک ہو یو نہی دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آو، دوسروں
کے لئے وہ بات نہ کہو جو اپنے لئے سننا گوارا نہیں کرتے۔
اپنے کو اپنے بھائی کے لئے اس بات پرآمادہ کرو کہ جب وہ دوستی توڑے تو تم اسے
جوڑو، وہ منھ پھیر لے تو تم آگے بڑھو اور لطف ومہربانی سے پیش آو۔ وہ تمہارے
لئے کنجوسی کرے تو تم اس پرخرچ کرو، وہ دوری اختیار کرے تو اس کے نزدیک ہونے
کی کوشش کرو، وہ سختی کرے اور تم نرمی کرو وہ خطا کامرتکب ہواور تم اس کےلئے
عذر تلاش کرو۔
آپ نے ایک موقعے پرفرمایا کہ انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتاہے۔ لطف وکرم سے
منزلت بڑھتی ہے۔ جھک کرملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ ہٹانے سے
سرداری حاصل ہوتی ہے۔ پھر فرمایا دوسروں کے پسماندگان سے بھلائي کرو تاکہ
تمہارے پسماندگان پربھی نظر شفقت پڑے۔ ( نہج البلاغہ )
حضرت علی علیہ السلام لوگوں کوتنبیہ کرتےہوئے فرماتےہیں : جس نے تم کو مال
ومتاع بخشا ہے اس کی راہ میں تم اسے خرچ نہیں کرتے ہو اور نہ اپنی جانوں کو
اس کےلئے خطرے میں ڈال دیتےہوجس نے ان کو پیدا کیا۔ تم نے اللہ کی وجہ سے
بندوں میں آبرو پائي لیکن اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرکے اس کا احترام
نہیں کرتے۔ ( نہج البلاغہ )
ایک اور جگہ آپ نصیحت کرتےہوئے فرماتےہیں کہ جس کسی کو اللہ دیتاہے اسے چاہیے
کہ وہ اسے قرابت داروں کے ساتھ اچھے برتاو کے لئے، مہمان نوازی کے لئے،
قیدیوں کو رہا کروانے کےلئےاور مصیبت زدوں کی مدد کرنے کےلئے استعمال کرے۔
اسے غرباء اور قرض داروں کو دینے میں خرچ کرنا چاہیے۔ حق کی ادائیگي میں اور
صلہ کی امید میں زحمت اٹھانی چاہیے، یقینا ان صفات کا حصول اس دنیا کی اعلی
ترین عظمت ہے اور اللہ نے چاہا تو اگلی دنیا کے لئے امتیازی کامیابی ہے۔ (
مسعود الحسن حضرت علی مرتضی علیہ السلام )
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے جن لوگوں کے پاس ذرایع موجود ہیں خیرات کی
تقسیم کو سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں کا ایک لازمی جز قراردیاہے۔ آپ نے لوگوں
کو نصحیت کی کہ وہ آپسی مدد کے تصور پرعمل کریں۔ ان کے نزدیک ضرورت مندوں کی
مدد اور سہارے دینے کی عادت انسان کے مقام کو بلند کرتی ہے۔ ان کا قول ہے کہ
تھوڑا دینے میں شرم نہ کرو کیونکہ انکار اس سے بھی چھوٹا ہوتاہے۔ ( نہج
البلاغہ)
حضرت علی علیہ السلام نے آپسی معاشرت کی پائداری اور دلی وابستگي کی پختگي
پرزوردیتےہوئے کہا ہے : لوگوں سے اس طرح ملو کہ اگر مرجاو تو تم پرروئيں اور
زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں ۔ ( حکم ومواعظ 43)
ان تمام اقوال و نصائح کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علی علیہ
السلام نے اپنی پوری زندگي حقوق انسانی کی محافظت اور اس کی ادائیگي پرلوگوں
میں شوق و رغبت پیدا کرنےمیں صرف کردی نیز یہ بھی اندازہ ہوتا ہےکہ آپ کے
یہاں حقوق انسانی کا مفہوم وسیع ہے صرف مادی شیئی حقوق انسانی کی تعریف میں
نہیں آتی، بلکہ ایک معاشرے میں رہ کر آپسی تعلقات کو خوشگوار بنانا اور دوستی
اور باہمی معاونت کی فضا قائم کرنا بھی آپسی حقوق میں سے ہے جس کی ادائيگی
ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کے قیام و بقا کے لئے لازم اور ضروری ہے ۔ |