امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام

اوصاف علی بہ گفتگو ممکن نیست

گنجائش بحر در سبو ممکن نیست

من ذاتِ علی بواجبی کے دانم

الا دائم کہ مثل او ممکن نیست

مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام ، ابو الا یمان حضرت ابو طالب و جناب فاطمہ بنت اسد کے بیٹے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ کے سہیم نور ، داماد ، بھائی، جانشین اور فاطمہ کے شوہر حضر ت امام حسن ، امام حسینؑ ، زینبؑ و ام کلثومؑ کے پدر بزرگوار تھے۔ آپ جس طرح سرور کائناتؑ کے نور میں شریک تھے۔ اسی طرح کار رسالت میں بھی شریک تھے، یوم ولادت سے لے کر تا بحیات پیغمبر اسلام کے مدار المہام کی حیثیت سے کار پرواز ہے۔ امور مملکت ہوں یا میدان جنگ آپ ہر موقع پر تاج دار دو عالم کے پیش پیش رہے۔ عہد رسالت کے صحیح فتوحات کا سہرا آپ ہی کے سر رہا ہے۔ اسلام کی پہلی منزل (دعوت ذو العشیرہ)سے لے کر تابہ ارتحال رسول آپ نے وہ کار ہائے نمایاں کئے جو کسی صورت سے بھلائے نہیں جا سکتے اور کیوں نہ ہو جبکہ آپ کا گوشت پوست رسول کا گوشت پوست تھا اور علیؑ پیدا ہی کئے گئے تھے اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے۔

آپ کی ولادت

آپ کی نوری تخلیق، خلقت سرور کائنات کے ساتھ ساتھ پیدائش عالم و آدم سے بہت پہلے ہو چکی تھی۔ لیکن انسانی شکل و صورت میں آپ کا ظہور و نمود ۱۳ رجب ۳۰عام الفیل مطابق ۶۰۰ء ء یوم جمعہ بمقام خانہ کعبہ ہوا۔آپ کی ماں فاطمہ بنت اسد اور باپ ابو طالب تھے۔ آپ دونوں طرف سے ہاشمی تھے۔ مورخین عالم نے آپ کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کے متعلق کبھی کوئی اختلا ف ظاہر نہ کیا۔ بلکہ بالاتفاق کہتے ہیں کہ ”لَم یُولدَ قبِلہ وَلاَ بَعدَہَ مَو لُودَ فِی بیِتِ الحَرام “ آپ سے پہلے کوئی نہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوا ہے نہ ہو گا۔ اس کے بارے میں علماء نے تواتر کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ۱ تواریخ اسلام میں واقعہ ولادت یوں بیا ن کیا گیا ہے کہ فاطمہ بنت اسد کو جب درد زہ کی تکلیف محسوس ہوئی تو آپ بہ مشورہ رسول کریم خانہ کعبہ کے قریب گئیں اور اس کاطواف کرنے کے بعد دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئیں اور بار گاہ خدا کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرنے لگیں ۔ خدا یا میں مومنہ ہوں ۔ تجھے ابراہیم بانی خانہ کعبہ اور اس مولود کا واسطہ جو میرے پیٹ میں ہے۔ میری مشکل دور کر دے۔ ابھی دعا کے جملے ختم نہ ہونے پائے تھے کہ دیوار کعبہ شق ہو گئی اور فاطمہ بنت اسد داخل کعبہ ہو گئیں۔ اور دیوار جوں کی توں ہو گئی۔ ۲ ولادت کعبہ کے اندر ہوئی ۔ علیؑ پیدا تو ہوئے لیکن انہوں نے آنکھ نہیں کھولی۔ ماں سمجھی کہ شاید بچہ بے نور ہے۔ مگر جب تیسرے دن سرور کائنات تشریف لائے اور اپنی آغوش مبارک میں لیا تو حضرت علی نے آنکھیں کھول دیں اور جمالِ رسالت پر پہلی نظر ڈالی۔ سلام کر کے تلاوت صحف آسمانی شروع کر دی۔ بھائی نے گلے لگا یا اور یہ کہہ کر اے علیؑ جب تم ہمارے ہو تو میں بھی تمہارا ہوں۔ فوراََ منہ میں زبان دے دی۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں۔”واز زبان مبارک دوازدہ چشمہ کشودہ شد“

”زبان رسالت سے دہن امامت میں بارہ چشمے جاری ہو گئے ۔ اور علیؑ اچھی طرح سیرا ب ہو گئے“

 الغرض حضرت علی خانہ کعبہ سے چوتھے روز باہر لائے گئے اور اس کے در پر علیؑ کے نام کا بورڈ نصب کر دیا گیا ۔ جو ہشام ابن عبد الملک کے زمانہ تک لگا رہا۔ آپ پاک و پاکیزہ ، طیب و طاہر اور مختون پیدا ہوئے۔ آپ نے کبھی بت پرستی نہیں کی، اور آپ کی پیشانی کبھی بت کے سامنے نہیں جھکی۔ اسی لیے آپ کے نام کے ساتھ ”کرم اللہ وجہ “کہا جاتا ہے ۔ ۳

آپؑ کا نام نامی

مورخین کا بیان ہے کہ آپ کا نام جناب ابو طالبؑ نے اپنے جدا علیٰ جامع قبائل عرب، قصی کے نام پر زید اور ماں فاطمہ بنت اسد نے اپنے باپ کے نام پر اسد اور سرور کائنات نے خدا کے نام پر علی رکھا۔ نام رکھنے کے بعد ابو طالب اور بنت اسد نے کہا۔ حضور !ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

(روضتہ الشہداء اور کفایت الطالب)آپ کا ایک مشہور نام حیدر بھی ہے جو آپ کی ماں کا رکھا ہوا ہے۔ جس کی تصدیق اس رجز سے ہوتی ہے جو آپ نے مرحب کے مقابلہ میں پڑھا تھا ۔ جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے ۔ ”اَنا الذِی سَمَیتِھا اُمی حَیدرہ“اس نام کے متعلق روایتوں میں یہ ہے کہ جب آپ جھولے میں تھے ۔ ایک دن مان کہیں گئی ہوئی تھیں۔ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کر پکڑ لیااور کلہ کو چیر پھینکا۔ ماں واپس ہو کر یہ ماجرا دیکھا تو بیسا ختہ کہہ اٹھیں۔ یہ میرا بچہ حیدر ہے۔

کنیت و القاب

آپ کی کنیت و القاب بے شمار ہیں۔ کنیت میں ابو الحسن اور ابو تراب اور القاب میں امیر المومنین ۔ المرتضیٰ۔ اسداللہ۔ ید اللہ نفس اللہ حیدر کرار۔ نفس رسول اور ساقیؑ کو ثر زیادہ مشہور ہیں۔

آپ کی پرورش و پرادخت

آپ کی پرورش رسول اکرم نے کی۔ پیدا ہوتے ہی گود میں لیا۔ منہ میں زبان دی اور دودھ کے بجائے لعاب دہن رسول سے سیراب ہو کر ”لحمک لحمی “کے حقدار بنے ۔ ۴ اسی دوران میں جب کہ آپ سرور کائنات کے زیر سایہ عارضی طور پر پرورش پا رہے تھے۔ مکہ میں شدید قحط پڑا۔ ابو طالب کے یہاں چونکہ اولاد زیادہ تھی۔ اس لیے حضرت عباس اور سرور کائنات ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو راضی کر کے حضرت علیؑ کو اپنے پاس مستقل طور پر لے آئے اور عباس نے بھی جعفر طیار کو لے لیا۔ حضرت علیؑ سرور کائنات کے پاس رات دن رہنے لگے۔ حضور اکرم نے جملہ نعمات الہیٰ سے بہرہ ور کر لیا۔ اور ہر قسم کی تعلیمات سے بھر پور بنا دیا۔ یہاں تک کہ علیؑ نام خدا قوت باز وبن کر یوم بعثت ۲۷ رجب کو کل ایمان کی صورت میں ابھرے اور حضور کی تائید کر کے اسلام کا سکہ بٹھا دیا۔

اظہار ایمان

مسلمانوں میں اکثریہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ سب سے پہلے اسلام کون لایا اور اس سلسلہ میں حضرت علیؑ کا نام بھی آ جاتا ہے۔ حالانکہ آپ موضوع بحث سے خارج ہیں کیونکہ زیر بحث وہ لائے جا سکتے ہیں۔ جو یا تو مسلمان ہی نہ رہے ہوں اور تمام عمر شرک و بت پرستی میں گزری ہو۔ جیسے حضرت ابو بکر حضرت عمر، حضرت عثمان وغیرہ یا مسلمان تو رہے ہوں اور دین ابراہیم پر چلتے بھی رہے ہو ، لیکن اسلام ظاہر نہ کر سکے ہوں۔ جیسے حضرت حمزہؑ ۔ حضرت جعفر طیارؑ اور ابو الایمان حضرت ابو طالبؑ وغیرہ۔ ایسی صورت میں اول الذکر حضرات کو کہا جائے گا کہ اسلام قبول کیا ور آخر الذکر کے لیے کہا جائے گا کہ اسلام ظاہر کیا۔ اب رہ گئے حضرت علی یہ کعبہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوئے۔ کُلَ مَو لُو دیولد عَلیٰ فِطرَةِ اِلاسلامِ رسول اسلام کی گود میں آنکھ کھولی۔لعاب دہن رسول سے پرورش پائی۔ آغوش رسالت میں پلے بڑھے۔ دس سال کی عمر میں بوجہ ضرورت اعلان ایمان کیا۔ رسول کے داماد قرار پائے ۔ میدان جنگ میں کامیابیاں حاصل کر کے ”کل ایمان“بنے۔ پھر امیر المومنینؑ کے خطاب سے سر فراز ہوئے۔

فاضل معاصر تاریخ آئمہ میں لکھتے ہیں کہ علمائے محققین نے تبصریح لکھا ہے کہ حضرت علیؑ تو کبھی کافر رہے ہی نہیں۔ کیونکہ آپ شروع سے حضرت رسول خدا کی کفالت میں اسی طرح رہے جس طرح خود حضرت کی اولاد رہتی تھی اور کل امور میں حضرت کی پیروی کرتے تھے(سیرة حلبیہ جلد ۱صفحہ ۲۶۹) اس سبب سے اس کی ضرورت ہی نہیں ہوئی کہ آپ کو اسلام کی طرف بلایا جاتا اور جس کے بعد کہا جاتا کہ آپ مسلمان ہو جائیں۔

(سیرت حلبیہ جلدا صفحہ۲۶۹)مسعودی کہتا ہے کہ آپؑ بچپن سے رسول کے تابع تھے۔ خدا نے آپ کو معصوم بنایا اور سیدھی راہ پر قائم رکھا۔ آپ کے لیے اسلام لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ۵ حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ میں نے اس امت میں سب سے پہلے خدا کی عبادت کی اور سب سے پہلے آنحضرت کے ساتھ نماز پڑھی ۔ ۶ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں کہ حضرت علیؑ نے چشم زدن کے لیے بھی کفر اختیار نہیں کیا۔ ۷

حلیہ مبارک

آپ کا رنگ گندمی۔ آنکھیںَ بڑی۔ سینہ پر بال۔ قد میانہ۔ داڑھی بڑی اور دونوں شانے۔ کہنیاں اور پنڈلیاں پُر گوشت تھا۔ آپ کے پاؤں کے پٹھے زبر دست تھے۔ شیر کے کندھوں کے مانند آپ کے کندھوں کی ہڈیاں چوڑی تھیں۔ آپ کی گردن صراحی دار اور آپ کی شکل نہایت پر صنعت اور حسین تھی۔ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلا کرتی تھی۔ آپ خضاب نہیں لگاتے تھے۔

آپؑ کی شادی خانہ آبادی

آپ کی شادی ۲ ء ھج میں حضور اکرم کی دختر نیک اختر حضرت فاطمتہ الزہراء سے ہوئی۔ آپ کے گھر میں لونڈی ۔ غلام اور خدمتگار نہ تھے۔ باہر کا کام آپ خود اور آپ کی والدہ محترمہ کرتی تھیں اور امور خانہ داری کے فرائض جناب فاطمتہ الزہرا انجام دیتی تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ رشتہ عام رشتوں کی حیثیت سے دیکھا جائے ۔ لیکن در حقیقت اس میں ایک اہم قدرتی راز مضمر ہے اور اس کا انکشاف اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس پر غور کیا جا ئے کہ حضور اکرم کا ارشاد ہے کہ علی ؑکے علاوہ فاطمہؑ کا ساری دنیا میں تاقیامت کفو نہیں ہو سکتا۔ ۸

پھر فرماتے ہیں کہ مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہؑ کی شادی علیؑ سے کروں اور اسی سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر نبی کی نسل اس کے صلب میں ہوتی ہے لیکن میری نسل صلبِ علیؑ میں قرار دی گئی ہے۔ ۹ ان تمام اقوال کو ملانے کے بعد یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ علیؑ اور فاطمہؑ کا رشتہ نسل نبوت کی بقا اور دوام کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ پیغام رشتہ دے کر کامیاب نہیں ہو سکے جن کی بنیاد نجاست کفر پر استوار ہوئی اور جن کی انتہا گندگی نفاق پر ہوئی۔

سرداری اور سیادت علیؑ کی صفت ذاتی

سرور کائنات سے اتحاد ذاتی اور اشتراک نوری کی بناء پر حضرت علی کی سیادت مسلم ہے۔ جو مدارج کرم حضور اکرم کو نصیب ہوئے انہیں سے ملتے جلتے حضرت علی کو بھی ملے سیادت جس طرح سر ور کائنات کے لیے ذاتی ہے۔ اسی طرح حضرت علی کے لیے بھی ہے حافظ ابو نعیم نے حلیتہ االاولیا میں لکھا ہے کہ غدیر کے موقع پر خطبہ سے فراغت کے بعد جب امیر المومنین حضور اکرم کے سامنے آئے تو آپ نے فرمایا۔ ”مَرحَباَ بَسید المُسلمین وَاَمام المُتَقین “۔ اے مسلمانوں کے سردار اور اے پرہیز گاروں کے امام تمہیں جانشینی مبارک ہو۔ اس ارشاد رسول پر اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ محمد ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں لکھا ہے کہ حضرت کی سیادت مسلمین اور امامت متقین جس طرح صفت ذاتی ہے۔ خدا نے اپنا نفس قرار دے کر۔ رسول نے اپنا نفس فرما کر علی ؑ کے شرف سیادت کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ کیونکہ جس طرح اصلیہ نبویہ میں نفس مشارک ہے۔ اسی طرح اصلیہ سیادت میں بھی نفس شریک ہے۔ اس لیے حضور اکرم حضرت علی کو سید المومنین۔ سید المرسلین فرمایا کرتے تھے۔ ۱۰ اور حضرت فاطمہ کو سیدة النساء العالمین اور ان کے فر زندوں کو سید اشباب اہل الجنة کے الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ علی ؑ و فاطمہؑ کی باہمی مناکحت و مزاو جت نے صفت سیادت کو دائمی فروغ دے دیا ہے۔ یعنی جو بنی فاطمہ ہیں ان کا درجہ اور ہے اور جو دیگر اولاد علیؑ ہیں جو بطنِ فاطمہؑ سے متولد نہیں ہوئے۔اُن کی حیثیت اور ہے کیونکہ بنی فاطمہ سلسلہ نسل نبوت کی ضمانت ہیں۔

ماں کی وفات

آپ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسدنے ۱ ء بعثت میں اظہار اسلام کیا۔ آپ ۱ ء ھج میں شرف ہجرت سے مشرف ہوئیں۔ ج ۲ ئھج میں آپ نے اپنے نورنظر کورسول کی لخت جگر سے بیاہ دیااور

۴ئھ میں انتقال فرماگئیں ۔آپ کی وفات حضرت علیؑ بے حد متاثر ہوئے اور آپ سے زیادہ رسول اکرم کو رنج ہوا۔ رسول کریم حضرت علیؑ کی والدہ کو اپنی ماں فرماتے تھے اور اکثر ان کے وہاں جا کر رہتے تھے ۔ انتقال کے بعد آپ نے قبر کھودنے میں خود حصہ لیا ۔ اپنی چادر اور اپنے کرتے کو شریک کفن کیااور قبر میں لیٹ کر اس کی کشادگی کا اندازہ کیا۔ ۱۱

آپ کے والد ماجد کا انتقال

 آپ کے والد ماجد ابو الاایمان حضرت ابو طالبؑ ۵۳۵ء ء میں بمقام مکہ پیدا ہوئے ۔ اور وہیں پلے بڑھے۔ آپ کی بنیاد دین فطرت پر تھی۔ ۱۲ آپ نے حضرت علیؑ کو ہدایت کی تھی کہ رسول کا ساتھ نہ چھوڑنا ۱۳ آپ ہی کی ہدایت سے حضرت جعفر طیار نے حضور اکرم کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی تھی۔(اصحابہ جلد ۷ صفحہ ۱۱۳)عبدالمطلب کے انتقال کے وقت ۵۷۸ھء میں جبکہ رسول کریم کی عمر۸سال تھی آپ نے ان کی پرورش اپنے ذمہ لے لی اور ۴۵سال کی عمر تک محوِ خدمت رہے۔ اسی عمر میں غالباََ ۵۸۴ءء میں آپ نے رسول کریم کی شادی جناب خدیجہؑ کے ساتھ کر دی اور خطبہ نکاح خود پڑھا۔ ۱۴ آپ کا انتقال ۱۵شوال ۱۰ ء بعثت میں بعمر ۸۰ سال ہوا ۔آپ کے انتقال سے حضرت علیؑ کو بے انتہا رنج ہوا، اور رسول اللہ بھی بے حد متاثر ہوئے۔ آپ نے انتہائی تاثر کی وجہ سے اس سال کا نام عام الحزن رکھا۔ ابو طالبؑ کو اسلامی اصول پر دفن کیا گیا۔ ۱۵

حضرت علی کے جنگی کا رنا مے

علماء کا اتفاق ہے کہ علم اور شجاعت جمع نہیں ہو سکتے لیکن حضرت علی کی ذات نے اسے واضح کر دیا کہ میدان علم اور میدان جنگ دونوں پر قابو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ انسان میں وہی صلاحیتیں ہوں جو قدرت کی طرف سے حضرت علیؑ میں ودیعت کی گئی تھیں۔ ۲ء ہجری سے لے کر عہد وفات پیغمبر اسلام تک نظر ڈالی جائے تو علیؑ کے جنگی کار نامے اور اق تاریخ پر روشن نظر آئیں گے۔ جنگ اُحد ہو یا بدر جنگ خند ق ہو یا کوئی معرکہ ،ہر منزل میں، ہر موقع پر علی کی ذوالفقار چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ علیؑ کے مقابلہ میں کوئی بہادر ٹکا ہی نہیں۔ آپ کی تلوار نے مرحب و عنتر حارث و عمر بن عبد و جیسے بہادروں کو دم زدن میں فنا کے گھاٹ اتار دیا ۔ (جنگ کے واقعات گذر چکے ہیں)۔باور کرنا چاہیے کہ علیؑ سے مقابلہ جس طرح انسان نہیں کر سکتے تھے۔اسی طرح آپ سے نبرد آزمائی جنوں کے بھی بس میں نہ تھی۔

جنگ بیر العلم

 مناقب ابن آشوب جلد۲ صفحہ ۹۰ و کنز الوظین مُلا صالح برغانی میں بحوالہ امام المحققین الحاج محمد تقی القزوینی بتو سل حضرت امام حسن عسکریؑ و ابو سعید خدری و حدیفہ یمانی مرقوم ہے کہ رسول خدا ﷺ جنگ سکارسک سے واپسی میں ایک اجاڑوادی سے گزرے۔آپ نے پوچھا یہ کونسا مقام ہے۔ عمر بن امیہ ضمری نے کہا اسے وادیؑ کثیب ارزق “کہتے ہیں ۔ اس جگہ ایک کنواں ہے جس میں وہ جن رہتے ہیں جن پر جنابِ سلیمانؑ کو قابو نہیں حاصل ہو سکا۔ادھر سے تبع یمانی گذرا تھا۔اس کے دس ہزار سپاہی انہیں ۔جنوں نے مار ڈالے تھے۔آپ نے فرمایا کہ اچھا اگر ایسا ہے تو پھر یہیں ٹھہر جاؤ۔ قافلہ ٹھہرا۔ آپ نے فرمایا کہ دس آدمی جا کر جنوں کے کنویں سے پانی لائیں۔ جب یہ لوگ کنویں کے قریب پہنچے تو ایک زبر دست عفریت برآمد ہوا۔ اور ا س نے ایک زبر دست آواز دی ۔ سارا جنگل آگ کا بن گیا۔ دھرتی کا نپنے لگی۔ سب صحابی بھاگ نکلے لیکن ابو العاص صحابی پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھے اور تھوڑی دیر میں جل کر راکھ ہو گئے۔ اتنے میں جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے سرور کائنات سے کہا کہ کسی اور کو بھیجنے کے بجائے آپ ”علم “دے کر علی ابن ابی طالبؑ کو بھیجے۔ علیؑ روزانہ ہوئے۔ رسول ﷺ نے دستِ دعا بلند کیا۔ علیؑ پہنچے،عفریت بر آمد ہوا اور بڑے غصہ میں رجز پڑھنے لگا۔ آپ نے فرمایا میں علی ابن ابی طالب ہوں۔ میرا شیوہ ، میرا عمل سرکشوں کی سرکوبی ہے۔ یہ سن کر آپ پر اس نے زبر دست کر تبی جملہ کیا۔ آپ نے وار خالی دے کر اسے ذوالفقار سے دو ٹکڑے کر ڈالا۔ اس کے بعد آگ کے شعلے اور دھوئیں کے طوفان کنوئیں سے برآمد ہوئے اور زبر دست شور مچا اور بے شمار ڈراؤنی شکلیں سامنے آ گئیں علی نے بَرداََ وَسَلَاماََ کہا اور چند آیتیں پڑھیں ۔آگ بجھنے لگی ، دھواں ہوا ہونے لگا حضرت علیؑ کنویں کی جگت پر چڑھ گئے۔اور ڈول دیا ۔کنویں سے ڈول باہر پھینک دیا گیا۔ حضرت علی نے رجز پڑھا اور کہا کہ مقابلہ کے لیے آ جاؤ۔ یہ سن کر ایک دعفریت بر آمد ہوا، آپ نے اسے قتل کیا۔ پھر کنویں میں ڈول ڈالاوہ بھی باہر پھینک دیا گیا۔ غرضیکہ اسی طرح تین بار ہوا۔ بالآخر آپ نے اصحاب سے کہا کہ میں کمر میں رسی باندھ کر کنویں میں اترتاہوں تم رسی پکڑے رہو۔ اصحاب نے ر سی پکڑ لی اور علی کنویں میں اترے۔ تھوڑی دیر بعد رسی کٹ گئی اور علی و اصحاب کے ما بین رشتہ منقطع ہو گیا۔ اصحاب سخت پریشان ہوئے اور گریہ کرنے لگے۔ اتنے میں کنویں سے چیخ و پکار کی آواز آنے لگی۔ اس کے بعد صدا آئی اَعِطناَ الاَمَانَ اے علی ہمیں پناہ دو۔ آپ نے فرمایا کہ قطع برید اور ضرب شدید کلمہ پر موقوف ہے۔ کلمہ پڑھو، امان لو۔ غرضیکہ کلمہ پڑھ گیا۔ اس کے بعد رسی ڈالی گئی اور امیر المونینؑ ۲۰ ہزار جنوں کو قتل کر کے ۲۴ ہزار قبائل کو مسلمان بنا کر کنوئیں سے بر آمد ہوئے۔ اصحاب نے مسرت کا اظہار کی اور سب کے سب آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور اکرم نے علی کو سینے سے لگایا۔ ان کی پیشانی کا بوسہ دیا۔ اور مبارک باد سے ہمت افزائی فرمائی۔ پھر ایک رات قیام کے بعد مدینہ کو روانگی ہوئی۔ ۱۶

اسلام پر علی ؑ کے احسانات

اسلام پر علی ؑ کے احسانات کی فہرست اتنی مختصر نہیں ہے کہ ہم اسے اس مختصر مجموعہ حالات میں لکھ سکیں، تاہم ”مشتے از خر دارے “لکھے دیتے ہیں۔

(۱)       دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر جس جگہ رسول اکرم کو تقریر کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ آپ نے ایسی جرات و ہمت کا مظاہرہ کیا کہ پیغمبراسلام کا میاب ہو گئے اور آپ نے اسلام کا ڈنکا بجا دیا۔

(۲)       شب ہجرت فرش رسول پر سو کر اسلام کی قسمت بیدار کر دی اور جان جو کھم میں ڈال کر غارمیں تین یوم کھانا پہنچا یا۔

(۳)       جنگ بدر میں جب کہ مسلمان صرف۳۱۳اور کفار بے شمار تھے۔آپ نے کمال جرات و ہمت سے کامیابی حاصل کی۔

(۴)       جنگ اُحد میں جب کہ مسلمان سرور عالم کو میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس وقت آپ ہی نے رسول اکرم کی جان بچائی اور اسلام کی عزت محفوظ کر لی تھی۔

(۵)       کفار جن کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ عمر و بن عبد و د جیسے بہادر کو لے کر میدان میں آپہنچے اور اسلام کو چیلنج کر دیا۔ پیغمبر اسلامپریشان تھے اور مسلمانوں کو بار بار ابھار رہے تھے کہ مقابلہ کے لیے نکلیں ۔لیکن علی کے سوا کسی نے ہمت نہ کی۔ بالآخر رسول اللہ کو کہنا پڑا کہ آج علی کی ایک ضربت عبادت ثقلین سے بہتر ہے۔

(۶)       اسی طرح خیبر میں کامیابی حاصل کر کے آپ نے اسلام پر احسان فرمایا۔

(۷)       میرے خیال کے مطابق حضرت علیؑ کا اسلام پر سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ وفات رسول کے بعد روح فرسا واقعات اور جان لیوا حالات کے با وجود آپ نے تلوار نہیں اٹھائی ورنہ اسلام منزل اول پر ہی ختم ہو جاتا۔ٍ

دنیا حضرت علی کی نگاہ میں

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دنیا اور امور دنیا سے حد درجہ بیزار تھے۔ آپ نے دنیا کو مخاطب کر کے بار ہا کہا ہے کہ ”اے دنیا “غُرِی غَیری “جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے میں نے تجھے طلاق بائن دے دی ہے۔ جس کے بعد رجوع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت علیؑ نے جابر ابن عبد اللہ انصاری کو لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ اے جابر کیا یہ تمہاری ٹھنڈی سانس دنیا کے لیے ہے۔ عرض کی مولا ہے تو ایسا ہی آپ نے فرمایا۔جابر سنو!،انسان کی زندگی کا دارو مدار سات چیزوں پر ہے اور یہی سات چیزیں وہ ہیں جن پر لذتوں کا خاتمہ ہے۔ جن کی تفصیل یہ ہے ۔

(۱)کھانے والی چیزیں(۲)پینے والی چیزیں(۳)پہننے والی چیزیں         (۴)لذت نکاح والی چیزیں (۵)سواری والی چیزیں(۶)سونگھنے والی چیزیں (۷)          سننے والی چیزیں

 اے جابر اب ان کی حقیقتوں پر غور کرو۔ کھانے میں بہترین چیز شہد ہے۔ یہ مکھی کا لعاب دہن ہے ۔ اور بہترین پینے کی چیز پانی ہے۔ یہ زمین پر مارا مارا پھرتا ہے بہترین پہننے کی چیز دیباج ہے یہ کپڑے کا لعاب ہے اور بہترین منکوحات عورت ہے جس کی حد یہ ہے کہ پیشاب کا مقام پیشاب کے مقام میں ہوتا ہے۔ دنیا اس کی جس چیز کو اچھی نگاہ سے دیکھتی ہے وہ وہی ہے جو اس کے جسم میں سب سے گندی ہے اور بہترین سواری کی چیز گھوڑا ہے جو قتل و قتال کا مرکز ہے اور بہترین سونگھنے کی چیز مشک ہے جو ایک جانور کے ناف کا سوکھا ہوا خون ہے۔ اور بہترین سننے کی چیز غنا (گانا)ہے جو انتہائی گناہ ہے۔ اے جابر ایسی چیزوں کے لیے عاقل کیوں ٹھنڈی سانس لے۔ جابر کہتے ہیں کہ اس ارشاد کے بعد سے میں نے کبھی دنیا کا خیال تک نہیں کیا۔ ۱۷

کسب حلال کی جدو جہد

آپ کے نزدیک کسب حلال بہترین صفت تھی جس پر آپ خود بھی عمل پیرا تھے ۔ آپ روزی کمانے کو عیب نہیں سمجھتے تھے اور مزدوری کو نہایت اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ محدث دہلوی کا بیان ہے کہ حضرت علیؑ نے ایک دفعہ کنویں سے پانی کھینچنے کی مزدوری کی اور اجرت کے لیے فی ڈول ایک خرمہ کا فیصلہ ہوا آپ نے ۱۴ڈول پانی کے کھینچے اور اجرت لے کر سرور کائنات کی خدمت میں میں حاضر ہوئے ا ور دونوں نے مل کر تناول فرمایا۔ اسی طرح آپ نے مٹی کھودنے اور باغ میں پانی دینے کی بھی مزدوری کی ہے۔ علامہ محب طبری کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت علیؑ نے باغ سے سینچنے کی مزدوری کی اور رات بھر پانی دینے کے لیے جو کی ایک مقدار طے ہوئی۔ آپ نے حسب فیصلہ ساری رات پانی دے کر صبح کی اور جو حاصل کر کے آپ گھر تشریف لائے۔ جو فاطمہ زہراؑ کے حوالہ کیا انہوں نے اس کے تین حصے کر ڈالے اور تین دن کے لیے علیحدہ علیحدہ رکھ لیا۔ اس کے بعد ثلث حصہ کو پیس کر شام تک روٹیاں پکائیں ۔ اتنے میں ایک یتیم آ گیا۔ اور اس نے مانگ لیں۔پھر دوسرے دن ثلث کی روٹیاں تیار کی گئیں۔ مسکین نے سوال کیاور روٹیاں لے گیا پھر تیسرے دن روٹیاں تیار ہوئیں ۔ اسیرنے آواز دی اور لے گیا۔ یہ سب کے سب تینوں دن بھوکے ہی رہے۔ اس کے انعام میں خدا نے سورہ ھَل آتی نازل فرمایا۔ ۱۸ بعض روایات میں نزول ھَل اَتی کے متعلق ۔ اس کے علاوہ دوسرے انداز کا واقعہ مرقوم ہے۔

حضرت علی ؑ اخلاق کے میدان میں

آپ نہایت خوش اخلاق تھے۔علماء نے لکھا ہے کہ آپ روشن رو اور کشادہ پیشانی رہا کرتے تھے یتیم نوا ز تھے ۔ فقیروں میں بیٹھ کر خوشی محسوس کرتے تھے ۔ مومنوں میں اپنے کو حقیر دشمنوں میں اپنے کو با رعب رکھتے تھے۔ مہمانوں کی خدمت خود کیا کرتے تھے۔ کار خیر میں سبقت کرتے تھے ۔ جنگ میں دوڑ کر شامل ہوتے تھے۔ ہر مستحق کی امداد فرماتے تھے۔ ہر کافر کے قتل پر تکبیر کہتے تھے۔ جنگ میں آپ کی آنکھیں خون کی مانند ہوتی تھیں۔عبادت خانہ میں انتہائی خضوع اور خشوع کی وجہ سے بے حس معلوم ہوتے تھے۔ہر رات کو وہ ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔ اپنے عیال و اطفال کو امور خانہ میں مدد دیتے تھے۔ ضروریات خانگی بازار سے خود خرید کر لاتے تھے۔ اپنے لباس کو بد ست خود پیوند لگاتے تھے، اپنی نیز رسول کریم کی جوتی خود ٹانکتے تھے۔ ہر روز دنیا کو تین طلاق دیتے تھے۔ وہ غلام اپنی مزدوری سے خرید کر آزاد کرتے تھے۔ ۱۹ کتاب ارحج المطالب صفحہ۲۰۱میں ہے کہ حضرت علیؑ حضور اکرم کی طرح کشادہ روہنسنے والے خوش طبع تھے اور مزاح بھی فرمایا کرتے تھے۔

حضرت علی ؑ خلاقِ عالم کی نظر میں

(۱)       خلاق عالم نے خلقت کائنات سے قبل نور علوی کو نور نبوی کے ساتھ پیدا کیا۔

(۲)       پھر مسجود ملائکہ قرار دیا۔

(۳)       پھر جبرئیلؑ کا استاد بنایا۔

(۴)       پھر انبیاء کے ساتھ اپنی طرف سے مدد گار بنا کر بھیجا ۔ ۲۰

(۵)       اپنے مخصوص گھر، خانہ کعبہ میں علی کو پیدا کیا۔

(۶)       عصمت سے بہرہ ور فرمایا۔

(۷)       آپ کی محبت دنیا والوں پر واجب قرار دی۔

(۸)       رسول اکرم کا خود جا نشین بنایا۔

(۹)       معراج میں اپنے حبیب سے انہی کے لہجہ میں کلام کیا۔

(۱۰)     ہر اسلامی جنگ میں ان کی مدد کی۔

(۱۱)     آسمان سے علیؑ کے لیے ذو الفقار نازل فرمائی۔

(۱۲)     علی کو اپنا نفس قرار دیا۔

(۱۳)     علم لُدنی سے ممتاز کیا۔

(۱۴)     فاطمہ ؑ کے ساتھ عقد کا خود حکم دیا۔

(۱۵)     مبلغ سورہ برات بنایا۔

(۱۶)     مدح علی میں کثیر آیات نازل فرمائیں ۔

(۱۷)     علی کو انتہائی صبرو ضبط دے کر رسول کے بعد فوری تلوار اٹھانے سے روکا۔

(۱۸)     ان کی نسل میں قیامت تک کیلیے امامت قرار دی۔

(۱۹)     قسیم النارو الجنۃ بنایا۔

(۲۰)     لوا ء الحمد کا مالک بنایا۔

(۲۱)     اور ساقی کوثر قرار دیا۔

علی کی شان میں مشہور آیات

(۱)       آیہٴ تطہیر           (۲)       آیہٴ صالح المومنین

(۳)       آیہٴ ولایت           (۴)       آیہٴ مباہلہ

(۵)       آیہٴ نجوی           (۶)       آیہٴ اذن و اعیتہ

(۷)       آیہٴ اطعام

(۸)       آیہٴ بلغ ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔”روح القرآن “مولفہ حقیر مطبوعہ لاہور۔

حضرت علیؑ رسول خدا کی نگاہ میں

(۱)       فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے علی کے کعبہ میں پیدا ہوتے ہی منہ میں اپنی زبان دی۔

(۲)       علی کو اپنا لعاب دہن چوسایا۔

(۳)       پرورش و پرداخت خود کی۔

(۴)       دعوت ذو العشیرہ کے موقع پر جبکہ علی کی عمر ۱۰ یا ۱۴ سال کی تھی۔ اپنا وصی، جا نشین اور خلیفہ بنایا۔

(۵)       دامادی کا شرف بخشا ۔

(۶)       بُت شکنی کے وقت علی کو اپنے کندھوں پر سوار کیا۔

(۷)       جنگ خندق میں آپ کے کل ایمان ہونے کی تصدیق کی۔

(۸)       علم و حکمت سے بہرہ ور کیا۔

(۹)       امیر المومنینؑ کا خطاب دیا۔

(۱۰)     آپ کی محبت ایمان اور آپ کا بغض کفر قرار دیا۔

(۱۱)     علی کو اپنا نفس قرار دیا۔

(۱۲)     شب ہجرت آپ نے اپنے بستر پر جگہ دی۔

(۱۳)     آپ پر بھروسہ کر کے فرمایا کہ امانت وغیرہ تم ادا کرنا ۔

(۱۴)     علی کو مخصوص قرار دیا کہ وہ غار میں کھانا پہنچائیں۔

(۱۵)     ۱۸ ذی الحجہ کو آپ کی خلافت کا ایک لاکھ چوبیس ہزار اصحاب کے مجمع میں بمقام غدیر خم اعلان          فرمایا۔

(۱۶)     وفات کے قریب جا نشینی کی دستاویز لکھنے کی سعی کی۔

(۱۷)     آپ کی مدح و ثنا میں بے شمار احادیث فرمائیں۔

(۱۸)     آپ کو حکم دیا کہ میرے بعد فوری جنگ نہ کرنا۔

(۱۹)     موقع ہاتھ آنے پر منافقوں سے جنگ کرنا تا کہ حکم خدا جَاھِدِ الکُفارَ وَالمُناَفِقینَ کی تکمیل ہو سکے جو کہ             میرے لیے ہے۔

علیؑ کی شان میں مشہور احادیث

(۱)       حدیث مدینہ (۲)   حدیث سفینہ

(۳)       حدیث نور (۴)     حدیث منزلت

(۵)       حدیث خیبر          (۶)       حدیث خندق

(۷)       حدیث طیر           (۸)       حدیث ثقلین

(۹)       حدیث عذیر۔۔۔ تفصیل کے لیے عبقات الانوار ملاحظہ ہو۔

نقشِ خاتم رسول اور علی ؑ ولی اللہ

امام المحدثین علامہ محمد باقر مجلسی ، علامہ محمد باقرنجفی علامہ شیخ عباس قمی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم نے حضرت علیؑ کو ایک نگینہ دیکر مہر کن کے پاس جو انگشتریوں کے نگینوں پر کندہ کرتا تھا بھیجا اور فرمایا کہ ا س پر ”محمد بن عبد اللہ “کے بجائے محمد رسول اللہ کندہ کرا لاؤ۔حضرت علیؑ نے اسے کندہ کرنے والے کو دے کر ارشاد رسول کے مطابق ہدایت کر دی۔ امیر المومنین جب شام کے وقت اسے لانے کے لیے گئے تو اس پر” محمد بن عبد اللہ“ کی بجائے محمد رسول اللہ کندہ تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے جو عبارت بتائی تھی تم نے وہ کیوں کندہ نہیں کی۔ کندہ کنندہ نے عرض کی مولا، آپ اسے حضور کے پاس لے جائیں۔ پھر وہ جیسا ارشاد فرمائیں گے، ویسا کیا جائے گا۔ حضرت نے اسے قبول فرما لیا، رات گزری ،صبح کے وقت وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ اس پر محمد رسول اللہ کے نیچے علی ولی اللہ کندہ ہے۔ آپ اس پر غور فرما رہے تھے۔ کہ جبرئیل ؑ امین نے حاضر ہو کر عرض کی۔”حضور فرمایا گیا کہ کَتَبَتَ مَا اَدتُ وَکَتبناَ ماَ اَردنا َ “۔ اے نبی جو تم نے چاہا تم نے لکھوا یا، جو میں نے چاہا میں نے لکھوا دیا ۔ تمہیں اس میں تردو کیا ہے ؟ ۲۱

نیا بتِ رسول

ہر عقل سلیم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ منیب و مناب میں توافق ہونا چاہیے یعنی جو صفات نائب بنانے والے میں ہوں، اسی قسم کی صفتیں نائب بننے والے میں بھی ہونی چاہئیں۔ اگر نائب بنانے والا نور سے پیدا ہو تو جا نشین کو بھی نوری ہونا چاہیے۔ اگر وہ معصوم ہو تو۔اسے بھی معصوم ہونا چاہیے۔اگر اسے خدا نے بنایا ہو تو اسے بھی بحکم خدا ہی بنایا گیا ہو۔ حضرت علیؑ چونکہ حضرت محمد مصطفی کے جا نشین تھے لہذٰا ان میں نبوی صفات کا ہونا ضروری تھا۔یہی وجہ ہے کہ جن صفات کے حامل سرور کائنات تھے انہیں صفات سے حضرت علیؑ بھی بہرہ ور تھے۔

جا نشین بنانے کا حق صرف خدا کو ہے

قرآن مجید کے پارہ ۲۰ رکوع ۱۰/۷ میں بصراحت موجود ہے کہ خلیفہ اور جا نشین بنانے کا حق صرف خدا وند کریم کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تمام انبیاء کا تقرر خود کیا اور ان کے جانشین کو خود مقرر کرایا۔ اپنے کسی نبی تک کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ بطورخود اپنا جا نشین مقرر کردے۔ چہ جائیکہ امت کو اختیار دینا کہ اجماع سے کام لے کر منصب الہیہٰ پر کسی کو فائز کر دے اور یہ ہو بھی نہیں سکتا تھا ۔ کیوں کہ تمام امت خطار کار ہے اور خطا کاروں کا اجماع نہ صواب بن سکتا ہے اور نہ خاطیوں کا مجموعہ معصوم ہو سکتا ہے۔ اور جا نشین رسول کا معصوم ہونا اس لیے ضروری ہے کہ رسول معصوم تھے۔یہی وجہ ہے کہ خدا نے رسول کریم کا جا نشین حضرت علیؑ اور ان کی گیارہ اولاد کو مقرر فرمایا۔ ۲۲ جس کا سنگ بنیاد دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رکھا اور آیت ولایت اور واقعہ تبوک ۲۳ سے استحکام پیدا کیاپھر ”اِذِفَرَغتَ فَا نصَب “سے حکم کے نفاذ کا فرمان جاری فرمایا اور آیہ بَلغ کے ذریعے سے اعلان عام کا حکم نافذ فرمایا۔ چنانچہ رسول کریم نے یوم جمعہ ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ء ھ کو بمقام عذیر خم ایک لاکھ چو بیس ہزار اصحاب کی موجود گی میں حضرت علی کی خلافت کا اعلان عام فرمایا۔ روضتہ الصفاج ۲ صفحہ ۲۱۵میں ہے کہ مجمع کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے جو اعلان ہوا تھا ۔ وہ حَیٰ عَلیَ خَیر العَمَل کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ کتب تواریخ و احادیث میں موجود ہے کہ اس اعلان پر حضرت عمر نے بھی مبارکباد ادا کی تھی۔ جس کی تفصیل باب نمبر ۱ میں گذری۔

۱۸ذی الحجہ

علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے اس تاریخ کو یوم عید قرار دیا ہے رئیس العلما حضرت علامہ بہاؤ الدین عاملی تحریر فرماتے ہیں کہ سرور عالم کی ولادت سے ۶۳سال بعد ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ء ھج کو حضرت علیؑ کی جا نشینی عمل میں آئی اور آپ کے امام الانس وا لجن ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ اور اسی تاریخ کو۳۴ء ہجری میں عثمان قتل ہوئے اور حضرت علی کی بیعت کی گئی اسی تاریخ حضرت موسیٰ سا حروں پر غالب آئے اور حضرت ابراہیمؑ کو آگ سے نجات ملی اور اسی تاریخ کو حضرت موسیؑ نے جناب یوشع ابن نون کو حضرت سلیمانؑ نے جناب آصف ابن برخیا کو اپنا جا نشین مقرر کیا اور اسی تاریخ کو تمام انبیاء نے اپنے جا نشین مقرر فرمائے ہیں۔ الخ ۲۴

دستاویزِ خلافت

سرور کائنات نے ابتداء اسلام سے لے کر زندگی کے آخری ایام تک حضرت علی کی جانشنی کا باربارمختلف اندازوعنوان سے اعلان کرنے کے بعد بوقت وفات یہ چاہا کہ اسے دستاویز شکل دے دیں ۔لیکن حضرت عمر نے بنی بنائی اسکیم کے ما تحت رسول کریم کو کامیاب ہونے نہ دیا۔ اور ان کے آخری فرمان (قلم و دوات کی طلبی )کو بکواس اور ہذیان سے تعبیر کر کے انہیں ما یوس کر دیا۔جس کے متعلق آپ(عمر) کا خود بیان ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے اپنے مرض الموت میں حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جانا چاہا تا کہ علی کے نام کی صراحت کر دیں ۔ تو خدا کی قسم میں نے آنحضرت کو منع کر دیا۔ اور آنحضرت علی کے نام کو تحریر اََ ظاہر نہ کر سکے۔ ۲۵ امام غزالی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی وفات سے قبل اصحاب سے کہا کہ مجھے قلم دوات کاغذ دے دو۔ ”لاَ ذیَلَ عَنکُم اَشکالُ الامرذِ اذکر لَکم مِنَ المستحقِ بَعدِی قَالَ عُمرَ دَ عَوِا الرُجَلَ فَاِنَہُ لَیھجُرَ“تا کہ میں تمہارے لیے امارت و خلافت کی مشکلات کو تحریراََ دور کر دوں اور بتا دوں کہ میرے بعد امارت و خلافت کا کون مستحق ہے۔ مگر حضرت عمر نے اس وقت یہ کہہ دیا کہ اس مرد کو چھوڑ دو۔ یہ ہذیان بک رہا ہے اور بکواس کر رہا ہے۔ ملاحظہ ہو (سر العالمین طبع بمبئی صفحہ۹ سطر ۱۵کتاب الشفاء قاضی عیاض طبع بریلی صفحہ۳۰۸ و نسیم الریاض شرح شفاء شرح مشکوة محدث دہلوی و مدارج النبوت، حبیب السیرج ا صفحہ ۱۴۴روضتہ الاحباب جلدا صفحہ ۵۵۰، بخاری جلد۶ صفحہ ۶۵۴ ، الفاروق ۲ صفحہ ۴۸)

خلیفہ کا تقرر اور تواریخ فرنگ

 مورخین اسلام کے علاوہ مورخین فرنگ نے بھی حضرت علی کے استحقاق خلافت اور نمایاں طور پر خلیفہ مقرر کئے جانے پر مکمل روشنی ڈالی ہے۔ ہم اس موقع پر مسٹر ڈیون رپورٹ کی تحریر کا ترجمہ پیش کر تے ہیں کہ ان دونوں فرقوں ”سنی اور شیعہ“ میں سے ایک نے محمد کے چچا زاد بھائی اور داماد علی ؑ سے جیسا کہ مقتضائے انصاف و حمیت ہے تو لارکھا ۔ کیونکہ آنحضرت اعلانیہ طور پر ان سے محبت و الفت رکھتے تھے اور کئی بار ان کو اپنا خلیفہ بھی ظاہر کیا تھا۔ خصوصاََ دو مواقع پر ایک جب آنحضرت نے اپنے گھر میں بنی ہاشم کی دعوت کی تھی اور علیؑ نے با وصف تمسخر و توہین کفار اپنا ایمان ظاہر کیا۔ حضرت نے اپنی بانہیں اس جوان کے گلے میں ڈال کر چھاتی سے لگا یااور باآواز بلند کہا دیکھو میرے بھائی میرے وصی اور میرے خلیفہ کو دوسرے جب آنحضرت نے اپنے انتقال سے چندماہ پیشتر خطبہ پڑھا تھا۔ بحکم خدا جس کو جبرئیلؑ آنحضرت کے پاس لائے تھے۔ اور یوں کہا تھاکہ اے پیغمبر میں خدا کی طرف سے آپ پر صلوٰت ورحمت لایا ہوں۔ اور اس کا حکم آپ کے پیرؤں کے نام جس کو آپ بغیر تاخیر کے سنا دیجئے اور شریروں سے کوئی خوف نہ کیجئے خدا آپ کو ان کے شر سے بچائے گا۔ خدا کے حکم کے مطابق آنحضرت نے انس سے کہا کہ لوگوں کو جمع کریں۔ جس میں آنحضرت کے پیروکار اور یہودی و نصرانی اور مختلف باشندے بھی حاضر ہوں یہ جمعیت ایک گاؤں کے پاس جمع ہوئی جسے غدیر خم کہتے ہیں جو نواح شہر حجفہ میں مکہ اور مدینہ کے لیے درمیان واقع ہے۔ پہلے اس مقام کو صاف کیا گیا اور ۲ اپریل ۶۲۶ء کو آنحضرت ایک بلند منبر پر گئے جو وہاں ان کے نصب کیا گیا تھا اور جب کہ حاضرین نہایت توجہ سے سنتے تھے۔ ایک خطبہ حضرت نے بڑی شان و شوکت اور فصاحت و بلاغت سے پڑھا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ ”تمام حمد و ثنا اس خدا ئے یکتا کے لیے ہے جس کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ اس کا علم ماضی حال اور مستقبل کو شامل ہے اور اس کو انسانوں کے کل پوشیدہ اسرار معلوم ہیں کیونکہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ وہ بے انتہا بعید اور بالکل قریب ہے۔ وہی وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی تمام چیزوں کو خلق کیا وہ غیر فانی ہے اور جو کچھ ہے سب اس کی قدرت اوراس کے اختیار کے تابع ہے۔ اس کی رحمت اور اس کا فیض سب کے شامل حال ہے۔ وہ جو کرتا ہے مصلحت سے کرتا ہے۔ وہ نزول عذاب میں ٹال مٹول کر تا ہے۔ اس کا سزا دینا رحمت سے خالی نہیں ہے۔ اس کی ذات کا بھید ممکنات کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ آفتاب و ماہتاب اور باقی اجرام سمادی اسی کے علم سے اپنی راہ پر جو اسی نے مقرر کر دی ہے چلتے ہیں۔ بعد حمد خدا، واضح ہو کہ میں خدا کا صرف ایک بندہ ہوں ۔ مجھے خدا کا حکم ہوا ہے اور میں اس کی تعمیل میں سر نیاز بکمال ادب و خضوع جھکاتا ہوں۔ سنو !تین بار جبرئیل میرے پاس آ چکے ہیں اور تینوں دفعہ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے تمام پیروؤں سے خواہ وہ گورے ہوں یا کالے یہ ظاہر کر دوں کہ علی میرے خلیفہ اورمیرے وصی اور تمام امت کے امام ہیں اور میرے گوشت و پوست ہیں اور میرے ایسے ہیں جیسے موسیٰ کے ہارون تھے اور میری وفات کے بعد وہی تمہاری ہدایت کریں گے۔ اور ہادی ہوں گے۔ جب میں اس دنیا سے رحلت کر جاؤں تو میرے پیرؤں کو ان کی فرمانبرداری ایسی کرنی چاہیے جیسے اطاعت میری کرتے تھے جب کہ میں تم میں موجود تھا۔ سنو جس نے علی کی نا فرمانی کی اس نے درحقیقت خدا اور رسول کی نا فرمانی کی ، اے دوستو!یہ خدا کے احکام ہیں ۔ سب وحیاں جو وقتاََ فوقتاََ مجھ پر آئی ہیں علی ؑ نے مجھ سے سیکھ لی ہیں جو اس کا حکم نہ مانے گا اور علی ؑ کا حکم بجا نہ لائے گا اللہ کی دائمی لعنت اس کے سر پر ضروررہے گی۔ خدا نے قرآن کی ہر سورت میں علیؑ کی تعریف کی ہے میں دوبارہ کہتا ہوں کہ علیؑ میرے چچا زاد بھائی اور میرے گوشت اور خون ہیں اور خدا نے ان کو نہایت نادر خوبیاں بیان کی ہیں۔علیؑ کے بعد ان کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ ان کے جا نشین ہوں گے۔

 اس خطبہ کے تمام ہونے ہونے پر ابو بکر۔ عمر۔ عثمان، ابو سفیان اور دوسرے لوگوں نے علی کے ہاتھ چومے اور ان کو رسول کے خلیفہ مقرر ہونے کی مبارک باد دی اور اقرار کیا کہ ان کے کل احکام کو سچے طور پر بجا لائیں گے۔ ۶۲۲ ء ء میں صرف تین دن قبل اپنے انتقال سے آنحضرت نے پھر اپنے تابعین کو ۔۔۔ان عقیدوں کی مزید تاکید کر دی۔ اور اس بات پر زور دیا گیا کہ آپ کی آل سے خصوصیت کے ساتھ محبت رکھیں اور ان کی عزت و توقیر کریں۔ آپ نے بڑے شد و مد سے یوں فرمایا کہ جو مجھ کو مولا مانتا ہو۔ وہ علی کو بھی اپنا مولا سمجھے،اللہ تائید کرے اس کی جو دوستی رکھے علیؑ سے اور غضبناک ہو اس پر جو ان کا دشمن ہو۔ ایسے مکرر اور مُصرح بیانات سے جو خود رسول کے لبوں سے ادا ہوئے تھے۔ایک وقت تک تو امر تو خلافت سے شک وشبہ بالکل دور رہا۔ مگر آخر میں سب کو مایوسی ہو گئی کیونکہ ابو بکر کی بیٹی اور آنحضرت کی دوسری زوجہ عائشہ نے ساز باز کر کے اپنے باپ کو پہلا خلیفہ لوگوں سے مقرر کرا لیا۔ ملک الموت کے انتظار میں آنحضرت کا عائشہ کے حجرے میں جانا خواہ آپ کی مرضی سے ہوا ہو یا بی بی عائشہ کے حکم سے خاص کر ان کے مفید مطلب بات ہو گئی کہ آنحضرت کا حکم دربارہ خلافت علی ؑ لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔ پس علی العموم یہ سمجھا گیا کہ رسول نے بغیر اپنے خلیفہ کے متعلق آخری وصیت کئے ہوئے انتقال کیا اور اس طرح یہ بات ہوئی کہ تینوں خلیفوں نے راج کیا قبل اس کے کہ علیؑ اپنے حق کو پہنچیں جس کا وہ مکمل استحقاق رکھتے تھے، نہ صرف بلحاظ قرابت و زوجیت، فاطمہ دختر رسول بلکہ بلحاظ ان بے شمار اور بڑی خدمتوں کے جو انہوں نے اسلام کی کیں۔ ہو سکتا ہے کہ بی بی عائشہ نے اپنے باپ کی لڑکی ہونے کی وجہ سے ان کی یہ خدمت کی ہو کہ انہیں خلیفہ بنا دیا ہو۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ عائشہ کو علی کی طرف سے پرانا بغض و کینہ تھا جوو اقعہ افک کے موقعہ پر پیدا ہو گیا تھا۔ ۔۔کیونکہ اس موقع پر علیؑ نے یہ رائے پیش کی تھی کہ بی بی عائشہ کی تحقیقات کرائی جائے۔ بی بی عائشہ کو اس چیز کو کبھی نہ بھولیں اور انہوں نے در گذر نہیں کیا بلکہ علی کو ستایا۔ اور ایسا انتقام لیا۔جو اسلام میں اپنی آپ نظیر ہے ۲۷

آنر یبل مسٹر ٹائیلر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ کہ محمد نے خود اپنے داماد علی کو اپنا خلیفہ اور جا نشین مقرر کر دیا تھا۔لیکن آپ کے خسر ابو بکر نے لوگوں کو اپنی سازش میں لے کر خلافت پر قبضہ کر لیا۔(ملا حظہ ہو ایلیمنٹس آف جنرل ہسٹری ۲۴۹طبع ۱۸۵۱ء ء)انسائیکلو پیڈیابرٹانیکا میں یہ ہے کہ ”کہ رسول کے بعد اسلام کی سرداری کا دعویٰ علیؑ کو زیادہ مناسب معلوم ہوتا تھا۔ مسٹر ٹریوے نے لکھا ہے کہ اگر قرابت کی وجہ سے تخت نشینی کا اصول علیؑ کے موافق مانا جاتا تو وہ برباد کن جھگڑے پیدا ہی نہ ہوتے جنہوں نے اسلام کو مسلمانوں کے خون میں ڈبو دیا۔ ۲۸

حضرت علیؑ کے فضائل

 امیر المومنین حضرت علیؑ کے فضائل کا قلمبند کرنا طاقت بشریہ سے بالا ہے۔ خود سرور کائنات نے ا س کے محال ہونے پر نص فرما دی ہے۔ آپ کا ارشا دہے کہ ”اگر تمام دنیا کے دریا سیاہی بن جائیں اور درخت قلم ہو جائیں اور جن و انس لکھنے اور حساب کرنے والے ہوں۔ تب بھی علی ابن ابی طالب کے فضائل کا اعتراف کا احصاء نہیں کر سکتے ۲۸ علماء اسلام نے بھی اکثریت فضائل کا اعتراف کیا ہے اور اکثر نے احاطہ فضائل سے عاجزی ظاہر کی ہے ۔ علامہ عبد البر نے کتاب استیعاب جلد۲ کے صفحہ ۴۷۸ پر تحریر فرمایا ہے فَضَائِلُہ لاَ مُحیطُ بِھاَ کِتَابُ آپ کے فضائل کسی ایک کتاب میں جمع نہیں کئے جاسکتے علامہ ابن حجر مکی صواعق محرقہ اور منج مکیہ میں لکھتے ہیں کہ مَناَقِبُ عَلی وَ فَضَائُلہ اکثَرَ مِن اُن تُحصیٰ حضرت علی ؑ کے مناقب و فضائل حد احصا ء سے باہر ہیں اور صواعق صفحہ۷۲ تحریر فرماتے ہیں کہ فضائل علی ؑ وَھَی کَثیرَتُ عَظِیمَتہُ مشائعتہ حَتیَ لقَالَ اَحمدُ وَ مَا جَا لاِ جَدِِ مِنَ الفضَائلَ ماَ جارَ لَعلیَ ۔ بے شمار ہیں۔ بیش بہا ہیں اور مشہور ہیں۔ احمد ابن جنبل کا کہنا ہے کہ علی کے لیے جتنے فضائل و مناقب موجود ہیں کسی کے لیے نہیں ہیں۔ قاضی اسماعیل ،امام نسائی اور ابو علی نیشا پور ی کا کہنا ہے کہ کسی صحابی کی شان میں عمدہ سندوں کے ساتھ وہ فضائل وارد نہیں ہوئے جو حضرت علیؑ کی شان میں وارد ہوئے ہیں۔ علامہ محمد ابن طلحہ شافعی تحریر فرماتے ہیں کہ علی کے جو فضائل ہیں وہ کسی اورکو نصیب نہیں ۔رسول اللہ نے آپ کو آیہ الہدی ‘منارالایمان اورالاولیاء فرمایا ہے اور ارشاد کیا ہے کہ علیؑ کا دوست میرا دوست ہے اور علی کا دشمن میرا دشمن ہے۔ ۳۰ علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں ”یاَ ایُھاَ الذِینَ اٰمَنوُ “ آیا ہے ۔ وہاں ایمان داروں سے مراد لیے جانے والوں میں علیؑ کا درجہ سب سے پہلا ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پراصحاب کی مذمت آئی ہے۔ لیکن حضرت علیؑ کے لیے جب بھی ذکر آیا ہے خیر کے ساتھ آیا ہے اور علی کی شان میں قرآن مجید کی تین سو آئیتں نازل ہوئیں ۔ ۳۰ یہی وجہ ہے کہ امام الانس و الجن حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔ اس امت میں سے کسی ایک کا بھی قیاس اور مقابلہ آلِ محمد سے نہیں کیا جاسکتا اور ان لوگوں کی برابری جن کو ۔۔۔۔برابر نعمتیں دی گئیں ان افراد سے نہیں کی جا سکتی جو نعمت دینے والے تھے اور نعمتیں دیتے رہے۔ آلِ رسول دین کی نیو اور یقین کے کھمبے ہیں۔ ۳۱ بے شک حضور ولایت کا یہ فرمانا بالکل درست ہے کہ آل ِ محمد ساری کائنات سے بہتر اور افضل ہے اور حدیث کفو فاطمہؑ نے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ آلِ رسول کا درجہ انبیاء سے بالاتر ہے۔ ان ہی حضرات کی محبت کا حکم خدا وند عالم نے قرآن مجید میں دیا ہے اور ان کی محبت سے سوال کیا جانا مسلم ہے ان کے لیے دنیا کی مسجدیں اپنے گھر کے مانند ہیں ۳۲ اہل بیت میں حضرت علی کا پہلا درجہ ہے، اور یہ مانی ہوئی بات ہے کہ جو فضیلت علیؑ کی ہے ۔ اس میں تمام آئمہ مشترک ہیں ۔ آپ کو خدا نے قسمُ النَار وَالجنة بنایا ہے۔ ۳۳ آپ کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے اور آپ کا ذکر کرنا عبادت ہے ۳۴ آپ کے حکم کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا۔ علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسو ل اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص بھی صراط پر سے گذر کر جنت میں جا نہ سکے گا جب تک علی کا دیا ہوا پروانہ جنت اس کے پاس نہ ہو گا۔ ۳۵ آپ کو حق کے ساتھ اور حق کو آپ کے ساتھ ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔ آپ کو رسول اکرم نے بموقعہ مواخات اپنا بھائی قرار دیا ہے۔ آپ کے لیے دوبار آفتاب پلٹا شواہدالنبوت صفحہ۸۷ میں ہے کہ جنگ خیبر کے سلسلہ میں بمقام صہبا جب وحی کا نزول ہونے لگا اور سَرِ رسول علیؑ کے زانو پر تھا اور آفتاب غروب کر گیا تھا۔ اس وقت آپ نے حکم دیا کہ آفتاب کو پلٹا کر نماز ادا کریں ۔ چنانچہ آفتاب غروب ہونے کے بعد پلٹا اور نماز ادا کی۔ اسی کتاب کے صفحہ۱۷۶ پر نیز کتاب سفینتہ البحار جلدا صفحہ ۵۷و مجمع البحرین صفحہ۲۳۲ میں ہے کہ وفات ِ رسول کے بعد حضرت علیؑ بابل جاتے وقت جب فرات کے قریب پہنچے تو اصحاب کی نماز عصر قضا ہو گئی آپ نے آفتاب کو حکم دیا کہ پلٹ آئے۔چنانچہ وہ پلٹااور اصحاب نے نماز عصر ادا کی نسیم الریاض شرح شفا قاضی عیاض وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ کا ایک ذاکر آپ کے ذکر میں مشغول تھا کہ نماز عصر قضا ہو گئی اس نے کہا اے آفتاب پلٹ آ کہ میں اس کا ذکرکر رہا ہوں جس کے تو دوبارہ پلٹ چکا ہے۔چنانچہ آفتاب پلٹنا اور اس نے نماز عصر ادا کی۔ شواہد النبوت کے صفحہ۲۱۹میں ہے کہ علی مجسم حق تھے اور ان کی زبان پر حق ہی جاری ہوتا تھا۔ امام شافعی ارشاد فرماتے ہیں جو مسلمان اپنی نماز میں ان پر درود نہ بھیجے اس کی نما ز صحیح نہیں ہے۔

مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر اوراس کی رد

مولانا ظفر علی خاں مرحوم ایڈیٹر ”زمیندار “لاہور کا ایک عجیب و غریب شعر ایک درسی کتاب (ہماری اردو )مصنفہ ہارون رشید میں ہماری نظر سے گزرا شعریہ ہے ۔

ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی ابو بکر و عمر عثمان و علیؑ

ہم مرتبہ ہیں یا رانِ نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں

اس شعر میں اگر مشعل سے مراد نبی کی ذات لی گئی ہے تو اصحاب کا ان کی کرن ہونا انتہائی بعید ہے۔ کیونکہ وہ نوری اور جوہری تھے اور یہ مادی ہیں۔ وہ مجسم ایمان تھے اور ان لوگوں نے ۳۸ ۳۹۔۴۰ سال کفر میں گذارے ہیںَ انہوں نے کبھی بُت پرستی نہیں کی اورانھوں نے اپنے عمر کے بڑے حصے بت پرستی میں گذار کر اسلام قبول کیا تھا۔ اور اگر مشعل سے مراد نبوت لی گئی ہے اوراس کی کرنیں ان کی امامت اور خلافت کو قرار دیا ہے تو یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ رسول کی نبوت منجانب اللہ تھی اور ان کی خلافت کی بنیاد اجماع ناقص پر قائم ہوئی تھی۔

اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں چاروں کو ”ہم مرتبہ “کہا گیا ہے اور رسول کا یار بتا یا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تینوں حضرات رسول کے یار رہے ہوں،لیکن حضرت علیؑ ہر گز رسول کے یار نہ تھے۔ بلکہ داماد اور بھائی تھے ۔ اب رہ گیا چاروں کا ہم مرتبہ ہونا یہ تو ہو سکتا ہے کہ تینوں ہم مرتبہ ہوں اور تھا بھی ایسا کہ تینوں حضرا ت ہر حیثیت سے ایک دوسرے کے برابر تھے۔ لیکن حضرت علی کا ان کے برابر ہونا یا ان کا آپ کے ہم مرتبہ ہونا سمجھ سے باہر ہے کیونکہ یہ چالیس سال بت پرستی کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ اور علی ؑ پید اہی مومن اور مسلمان ہوئے۔ ان لوگوں نے مدتوں بت پرستی کی اور علی ؑ نے ایک سیکنڈ کے لیے بت نہیں پوجا۔ اسی لیے انھیں کرم اللہ وجہ کہا جاتا ہے۔ یہ فاطمہؑ کے شوہر تھے۔ ان میں سے کسی کو یہ شرف نصیب نہیں ہوا وہ لوگ عام انسانوں کی طرح خلق ہوئے اور علی مثل نبی نور سے پیدا ہوئے اس کے علاوہ خود خداوند عالم نے علی ؑ کے افضل ہی ہونے کی نہیں بلکہ بے مثل ہونے کی نص فرما دی ہے ملا حظہ ہو احیاء العلوم غزالی تفسیر ثعلبی تفسیر کبیر بیرج ۲ صفحہ۲۸۳) امام فخر الدین رازی نے حضرت علیؑ کو انبیاء کے برابر اور تمام صحابہ سے افضل تحریر کیا ہے ۔ ۳۶ سر ور کائنات نے علی ؑ کو اپنی نظیر بتایا ہے۔ ۳۷ انہیں وجوہ کی بناء پر علیؑ کو معیار ایمان قرار دیا گیا ہے۔ علامہ ترمذی اور امام نسائی نے بغض علی ؑ سے منافق کو پہچاننے کا اصول بتایا ہے اور بعض نے افضلیت علی پر اعتقا د ضروری قرار دیا ہے۔ اور علامہ عبد البر نے استیعاب میں صحابہ تابعین وغیرہ کی فہرست پیش کی ہے جو علیؑ کو افضل صحابہ مانتے تھے اورشاید اس کی وجہ یہ ہو گی ۔ کہ تمام لوگ جانتے تھے کہ خدا وند عالم نے علیؑ کے سواکسی قلب کو ایمان کی کسوٹی پر نہیں کسا ۔۳۸

حضرت علیؑ کی علمی حیثیت

 حضر ت علی کا نفس اللہ ہونا مسلمات سے ہے اور اللہ اس واجب الوجود ذات کو کہتے ہیں جو علم و قدرت سے عبار ت ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ جو نفس اللہ ہو گا اسے فطرتاََ تمام علوم سے بہرہ ور ہونا چاہیے۔ حضرت علیؑ کے لیے یہ مانی ہوئی چیز ہے کہ آپ دنیا کے تمام علوم سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ ان میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور علم لدنی سے بھی مالا مال تھے۔ آپ کے علوم کا احصانا ممکن ہے امام شبلنجی لکھتے ہیں۔ ”وَمَکَانتہ فِی العِلم وَالفَھمِ۔۔۔۔تَحمِلُ مُجلداتِ“ آپ کے علم و فہم وغیرہ کے لیے بہت سی جلدیں درکار ہیں۔ محمد ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام المفسرین جناب ابن عباس کا کہنا ہے کہ علم و حکمت کے دس درجوں میں سے ۹ حضرت علیؑ کو ملے ہیں اور دسویں میں تمام دنیا کے علماء شامل ہیں اور اس دسویں درجہ میں بھی علیؑ کو اول نمبر حاصل ہے۔ ابو الفداء کہتے ہیں کہ حضرت اعلم الناس بالقرآن والسنن تھے۔ یعنی تمام لوگوں سے زیادہ انہیں قرآن و حدیث کا علم تھا۔ خود سر ور کائنات نے آپ کے علمی مدارج پر بار بار روشنی ڈالی۔ اَناَ مَدینَتُہ اَلعَلمِ وَعَلی بابُھاَ فرمایا کہیں اَناَ دَارُالحِکمتِ وَعَلی باَبُھا۔ ارشاد فرمایا کسی مقام پر ”اَعلمُ اُمتیِ علیَ ابن ابی طَالب “۔ کہا حضرت علی ؑ نے خود بھی اس کا اظہا ر کیا ہے اور بتایا ہے کہ علمی نقطہ نظر سے میرا درجہ کیا ہے ۔ ایک مقام پر فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھے علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے ہیں اورمیں نے ہر باب سے ہزار باب پیدا کر لیے ہیںَ ایک مقام پر ارشاد فرمایا۔ ”زَقَنیِ رُسول اللہ زقَاََ زَقاََ مجھے رسول اللہ نے اس طرح علم بھرایا ہے جس طرح کبوتر اپنے بچے کو دانا بھراتا ہے، ایک منزل پر کہا کہ سَلونیِ قَبلَ اَن تَفقِدُونی “میری زندگی میں جو چاہے پوچھ لو۔ ورنہ پھر تمہیں علمی معلومات سے کوئی بہرہ ور کرنے والا نہ ملے گا۔ ایک مقام پر فرمایا کہ آسمان کے بارے میں مجھ سے جو چاہے پوچھو۔ مجھے زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کے راستوں کا علم ہے۔ ایک دن فرمایا کہ اگر میرے لیے مسند قضا بچھادی جائے تو میں توریت والوں کو توریت سے انجیل والوں سے ، زبور والوں کو زبور سے اور قرآن والوں کو قرآن سے اس طرح جواب دے سکتا ہوں کہ ان کے علماء حیران رہ جائیں۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ قرآن کی کونسی آیت کہاں نازل ہوئی۔ کون سی دن میں کون سی رات میں نازل ہوئی ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ ایک شب ابن عباس نے علیؑ سے خواہش کی کہ بسم اللہ کی تفسیر بیان فرمائیں۔ آپ نے ساری رات بیان فرمایا اور جب صبح ہو گئی تو فرمایا اے ابن عباس میں اس کی تفسیر اتنی بیان کر سکتا ہوں کہ ۷۰ اونٹوں کا بار ہو جائے بس مختصر یہ سمجھ لو کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ سورة حمد میں ہے اور جو سورة حمد میں ہے وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں ہے اور جو بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو بائے بسم اللہ میں ہے وہ نقطہ بائے بسم اللہ میں ہے ”واَناَ النقطةُ اللتیِ تَحتَ الباء “اے ابن عباس میں وہی نقطہ ہوں جو بسم اللہ کی (ب) کے نیچے دیا جاتا ہے ۔ شیخ سلیمان قندوزی لکھتے ہیں کہ تفسیر بسم اللہ سن کر ابن عباس نے کہا کہ خدا کی قسم میرے اور تمام صحابہ کا علم علی ؑ کے علم کے مقابلے میں ایسا ہے ۔جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ کمیل ابن زیاد سے حضرت علیؑ نے فرمایاکہ اے کمیل میرے سینے میں علم کے خزانے ہیں۔ کاش کوئی اہل ملتا کہ میں اسے تعلیم کر دیتا۔ محب طبری تحریر فرماتے ہیں کہ سرور عالم کا ارشاد ہے کہ جو شخص علم آدم فہم ، نوح حلمِ ابراہیم زید یحیٰ ، صولت موسیٰ کو ان حضرات سمیت دیکھنا چاہے۔ ”فلینظر اِلیَ عَلی اَبنِ اَبی طالب “اسے چاہیے کہ وہ علی ابن ابی طالب کے چہرہ انور کو دیکھے ملا حظہ ہو(نور الابصار شرح مواقف ، مطالب السول صواعق محرقہ شواہد النبوت ابو الفداء ، کشف الغمہ ، ینابیع المودت، مناقب ابن شہر آشوب، ریاض النضرہ، ارحج المطالب ، انوار الغتہ )علماء اسلام کے علاوہ مشتشرقین فرنگ نے بھی آپ کے کمال علمی کا اعتراف کیا ہے ۔ مصنف انسائیکلو پیڈیا بڑ ٹانیکا لکھتے ہیں علیؑ علم اور عقل میں مشہور تھے اور اب تک کچھ مجموعے ضرب الامثال اور اشعار کے ان سے منسوب ہیں۔خصوصاََ مقالات علیؑ جس کا انگریزی ترجمہ ولیم پول نے ۱۸۳۲ء ء میں بمقام ٹونبرا شائع کرا یا ہے۔ ۳۹ مسٹر ایرونگ لکھتے ہیں ۔ آپ ہی وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علوم و فنون کی بڑی حمایت فرمائی۔ آپ کو خود بھی شعر گوئی کا پورا ذو ق تھا اور آپ کے بہت سے حکیمانہ مقولے اور ضرب الامثال اس وقت تک لوگوں کے زبان زد ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔کتاب خلفاء رسول صفحہ۱۷۸ مسٹر اوکلی لکھتے ہیں۔ تمام مسلمانوں میں باتفاق علیؑ کی عقل و دانائی کی شہرت ہے جس کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کے صد کلمات ابھی تک محفوظ ہیں جن کا عربی سے ترکی میں ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے اشعار کا دیوان بھی ہے۔ جس کا نام انوار الاقوال ہے۔ نیزورڈ لین لائبریری میں آپ کے اقوال کی ایک بڑی کتاب (نہج البلاغہ )موجود ہے۔ آپ کی مشہور۴ ترین تصنیف ”جعفر و جامعہ “ہے۔ جو ایک بیدالفہم خط میں اعداد و ہندسہ پر مشتمل بتلاتے ہیں۔یہ ہندسے ان تمام عظیم الشان واقعات کو جو ابتداء اسلام رہتی دنیا تک قائم ہونے والے واقعات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ آپ کے خاندان میں ہے اور پڑھی نہیں جا سکتی البتہ امام جعفر صادقؑ اس کے کچھ حصے کی تشریح و تفسیر میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس کو مکمل بارہویں امام کریں گے ، ۴۰ مورخ گلمن لکھتے ہیں ، آپ وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علم و فن اور کتابت کی پرورش کی اور حکمت سے مملو اقوال کا ایک بڑا مجموعہ آپ کے نام سے منسوسب ہے۔۔۔۔آپ کا قلب و دماغ ہر شخص سے خراج تحسین حاصل کر تا رہے گا۔۔۔آپ کا قلب و دماغ مجسم نور تھا۔۔۔آپ کی دانائی اور پر مغز نکتہ سنجی اور ضر ب الامثال کے ایجا د میں آپ کی فراست بہت ہی اعلیٰ پایہ کی تھی۔ ۴۱ بمبئی ہائی کورٹ کے جج مسٹر ار نولڈ ایڈ ووکیٹ جنرل ایک فیصلہ میں لکھتے ہیں۔شجاعت حکمت، ہمت ، عدالت، سخاوت، زہد اور تقویٰ میں علیؑ کا عدیل و نظیر تاریخ عالم میں کمتر نظر آتا ہے۔ ۴۲

حضرت علیؑ کی تصنیفات

علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے مصنف حضرت علیؑ ہیں۔ علامہ رشید الدین ابن شہر آشوب کتاب معالم العلماء میں اور علامہ سید محسن صدر نے کتاب الشیعہ و فنون الاسلام میں تحریر فرمایا ہے۔ کہ اَوَلُ مَن صَنَفَ الاسلَامِ اَمِیر المومنین اسلام میں سب سے پہلے حضرت علیؑ نے تصنیف کی ہے۔ آپ کی کتاب کا نام ”کتاب علیؑ “اور جامعہ تھا۔ اصول کافی کتاب الحجة میں ہے کہ اس کتا ب میں دنیا کے ہونے والے وقعات و حالات مندرج تھے، یہ بھی مسلم ہے کہ سب سے پہلے جامع قرآن مجید بھی حضرت علیؑ ہی ہیں۔ ۴۳ کتاب اعیان الشیعہ میں ابو الائمہ کی تالیفات و تصنیفات کی فہرست اس طرح مرقوم ہے۔

(۱)       قرآن مجید کو تنزیل کے مطابق حضرت علیؑ نے جمع کیا۔ اس میں اسباب و مقامات نزول آیات و سور کا بھی ذکر تھا۔

(۲)کتاب علیؑ جس میں قرآن مجید کے ساٹھ قسم کے علوم کا ذکر تھا۔

(۳)کتاب جامعہ (۴) کتاب الجفر(۵)صحیفہ الفرائض (۶)کتاب فی زکوةٰ النعم

(۷)کتاب فی ابواب الفقہ (۸)کتاب فی الفقہ (۹)مالک اشتر کے نام تحریری ہدایات (۱۰)محمد بن حنفیہ کے نام وصیت

(۱۱)     مسند علیؑ لابی عبد الرحمٰن احمد بن شعیب نسائی ان کتابوں کے علاوہ آپ کا مجموعہ اوراد ”صحیفہ علویہ “اورآپ کے اشعار کا مجموعہ ”دیوان علیؑ “کے نام سے حضرت علی بن ابی طالبؑ کی طرف منسوب ہے۔ یہ کتاب نواب علامہ علاء الدین احمد خان بہادر، فرمانروائے لو ہارو کے حکم سے ۱۸۷۶ء ء میں فخر المطابع، لوہارو میں چھپی تھی اور اب مختلف ملکوں میں چھپ چکی ہے اور اس کی شرحیں بھی ہو چکی ہیں۔

 ان کتابوں کے علاوہ جناب امیر المومنینؑ کا کلام مندرجہ ذیل کتب میں جمع کیا گیا ہے۔

نہج البلاغہ اسے علامہ سید رضی علیہ الرحمتہ نے جمع فرمایا ہے۔ وہ ۳۵۹ء ھج مطابق ۹۲۹ء ء میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی وفات محرم ۴۰۴ ء ھج مطابق جولائی ۱۰۱۳ءء میں ہوئی ہے۔

کتاب نہج البلاغہ کی بہت سی شرحیں لکھی گئی ہیں لکھنے والوں میں سے چند نام یہ ہیں۔

(۱)       امام اہل سنت عزیز بن ابو حامد عبد الحمید بن ہبة اللہ بن محمد بن حسنین ابن ابی الحدید مدائنی المتولد یکم ذی الحجہ ۵۸۶ءء مطابق ۳۰دسمبر۱۱۹۰ءء بمقام مدائن، المتوفی ۶۵۵ء ھج مطابق ۱۲۵۷ء ء بمقام بغداد

(۲)       قوام الدین یوسف بن حسن المتوفی ۹۲۲ئھ ء مطابق ۱۵۱۶ءء

(۳)       مفتی محمد عبدہ مصر

(۴)       علامہ محمد حسن نائل المرصفی جن کا حاشیہ ہے اصل کتاب نہج البلاغہ کے مشہور مطبع دار الکتب العربیہ میں چھپ گئی ہے یہ چاروں شارح اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

(۵)       سید علی بن ناصر یہ سید رضی کے معاصر تھے۔ سب سے پہلے نہج البلاغہ کی شرح انہوں نے ہی لکھی ہے ۔ ان کی شرح کا نام ”اعلام نہج البلاغہ “ہے۔

(۶)       علامہ قطب الدین رواندی ان کی شرح کا نام منہاج البراعتہ ہے۔

(ّ۷)       سید ابن طاؤس ، ابو القاسم علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن طاؤس المتو لد محرم ۵۱۹ء ھج المتوفی ۵ ذی قعدہ ۶۶۴ئھ

(۸)       کمال الدین مثیم بن علی بن میثم بحرانی

(۹)       قطب الدین محمد بن الحسین سکندری

(۱۰)     شیخ حسین بن شہاب الدین حیدر علی عاملی متوفی صفر ۱۰۷۶ء ء مطابق اگست ۱۶۶۵ء بمقام حیدر آبا دکن

(۱۱)     شیخ نظام الدین علی بن الحسین ان کی شرح کا نام انوار الفصاحت ہے ۔

(۱۲)     علامہ مرزا علاء الدین محمد بن ابی تراب الحسین ان کی شرح نہایت مسبوط ہے۔ اس کا نام ”حدائق الحقائق“ہے یہ ۲۰ جلدوں میں ہے۔

(۱۳)     آقا شیخ محمد رضا مسمی بہ ”در نجفیہ “

(۱۴)     ملا فتح اللہ کاشافی المتوفی ۹۹۷ءء یہ فارسی میں ہے اور اس کا نام تنبیہ الغافلین ہے۔

(۱۵)     محقق حبیب اللہ ہاشمی الخوئی ، ان کی شرح کا نام بھی ”منہاج البراعة “فی شرح نہج البلاغہ ہے۔ یہ ۲۵ جلدوں میں ہے ۔ قم خیابان ارم میں ملتی ہے۔ اب یہ کتاب ایران کے تمام شہروں سے ملتی ہے اور پاکستان میں اس کا اردو ترجمہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے چند مستدر کات ہیں جو طبع ہو چکی ہیں۔

کلام علی کے متفرق مجموعات

(۱)مائة کلمة جس کو جاحظ نے جمع کیا تھا۔

(۲)       ”غُررَ الحِکمِ وَدرَ رُ الکلم “جس کو عبد اللہ ابو واحد بن عبد الواحد نے جمع کیا تھا۔

(۳)       دستور معالم الحکم جس کو قاضی عبداللہ محمدبن سلامہ متوفی ۴۵۴ء نے جمع کیا تھا۔

(۴)       نثر اللّالی جس کو ابو الفضل علی بن الحسن الطبرسی صاحب مجمع البیان نے جمع کیا۔

(۵)       ”کتاب مطلوب کل طالب من کلام علی بن ابی طالب “جس کو ابو اسحاق الوطواط الانصاری نے جمع کیاہے۔ اس کا فارسی اور جرمن زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

(۶)       ”قلائد الحکم و فرائد الکلم “ جس کو قاضی ابویوسف بن سلیمان الاسفر ائنی نے جمع کیا ہے۔

(۷)       کتاب”معمیات علی “

(۸)       امثال الامام علی بن ابی طالب

(۹)       شیخ مفید علیہ الرحمہ نے کتاب الارشاد میں کچھ کلام جمع کیا ہے۔

(۱۰)     نصر بن مزاحم کی کتاب ”صفین“ میں آپ کا کلام علی جمع ہے۔

(۱۱)     جواہر المطالب۔

آپؑ کی علمی مرکزیت

علامہ ابن ابی الحدید، علامہ ابن شہر آشوب۔ علامہ ابن طلحہ شافعی اور علامہ اربلی تحریر فرماتے ہیں کہ ”اشرف العلوم “علم الھٰیات ہے اور یہ حضرت علی ہی کے کلام سے اقتباس کیا گیا ہے اور آپ ہی اس کی ابتداء اورانتہا ہیں۔ عقائد کے اعتبار سے اسلام میں جو مختلف فرقے ہیں۔ ان میں معتزلہ بھی ہے ۔اس فرقہ کا بانی واصل بن عطا ہے جو ابو ہاشم کا شاگرد تھا۔ اور وہ اپنے باپ محمد بن حنیفہ کا شاگر د تھا اور محمد حضرت علی کے شاگر دتھے۔دوسرا فرقہ اشعریہ ہے جو ابو الحسن اشعری کی طرف منسوب ہے اور وہ شاگرد تھا ابو علی جبائی کا جو مشائخ معتزلہ سے تھا۔ اس کی انتہا بھی حضرت علی تک قرار پاتی ہے ۔ تیسرا امامیہ و زید یہ ہے اس کا حضرت کی طرف منصوص ہونا بالکل واضح ہے۔

            اسلامی علوم میں علم فقہ بھی ہے اور اسلام کا ہر فرقہ کا مجتہد حضرت ہی کا شاگر دہے ۔ چنانچہ اہل سنت میں چار فرقے ہیںَ مالکی ، حنفی، شافعی اور جنبلی۔ مالکی فرقہ کے بانی امام مالک شاگر دتھے ربیعتہ الرائی کے او ر وہ شاگرد تھے ۔ عکرمہ کے اور وہ شاگرد تھے ابن عباس کے او ر وہ شاگرد تھے حضرت علیؑ دوسرے فرقہ حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ تھے یہ شاگرد تھے امام جعفر صادق اورامام محمد باقرکے اور یہ شاگرد تھے امام زین العابدینؑ کے اور امام عابد شاگرد تھے اور امام حسینؑ کے اور وہ شاگرد تھے حضرت علیؑ کے تیسرے، فرقہ کے بانی امام شافعی شاگرد تھے۔ امام محمد کے او ر وہ شاگرد تھے امام ابو حنیفہ کے ۔ چوتھے فرقہ کے بانی، امام احمد ابن جنبل شاگرد تھے۔ امام شافعی کے اس طرح ان کا فرقہ بھی حضرت علی کا شاگرد ہوا۔ اسکے علاوہ صحابہ کے فقہاو حضرت عمر و عبد اللہ ابن عباس تھے اور دونوں نے علم فقہہ حضرت علی ؑ ہی سے سیکھا ۔ ابن عبا س کا شاگرد حضرت علی ؑ ہونا تو واضح اور مشہور ہے۔ رہے حضرت عمر تو ان کے بارے میں بھی سب کو علم ہے کہ بکثرت مسائل میں جب ان کی عقل و فہم اور راہ چارہ و تدبر بند ہو جایا کرتی تھی تو وہ حضرت علیؑ کی طرف رجوع کرتے اور حضرت علی سے ہی مشکل کشائی کی درخواست کیا کرتے تھے ۔ اور اکثر ایسا بھی ہوا کہ اپنے علاوہ دیگر صحابہ کی بھی مشکل کشائی علیؑ سے کرایا کرتے تھے ، ان کا باربار ”لَو لاَ عَلیَ لَھَلَکَ عُمَرہُ “اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا ،کہنا اور یہ فرمانا کہ ”خدا وہ وقت نہ لائے کہ میں کسی علمی مشکل میں مبتلا ہو جاؤں ور علیؑ موجود نہ ہوں اس کے علاوہ یہ کہنا کہ جب علیؑ مسجد میں موجود ہوں تو کوئی فتویٰ دینے کی جرائت نہ کرے، یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت عمر کی فقہی حد حضرت علیؑ تک منتہی ہوتی ہے۔ حضرت علیؑ ہی وہ ہیں جنہوں نے اس عورت کے مقدمہ میں منصفانہ فتویٰ دیا جس نے چھ مہینہ میں بچہ جنا تھا اور زنا کار حاملہ عورت کے معاملہ کو طے فرمایا تھا ۔ جس کے رجم کا فتویٰ حضرت عمر دے چکے تھے۔

            اسلامی علوم میں تفسیر کا علم بھی ہے یہ علم بھی حضرت علیؑ ہی سے حاصل کیا گیا ہے ، جو شخص تفسیر کی کتابیں دیکھے اسے آسانی سے اس دعویٰ کی صحت معلوم ہو جائے گی ۔ کیونکہ تفسیر کے مطالب زیادہ تر حضر ت علیؑ اور عبد اللہ ابن عباس ہی سے منقول ہیں اور عبد اللہ ابن عباس کا شاگرد حضرت علی ؑ ہونا مشہورو معروف ہے۔ لوگوں نے عبد اللہ ابن عباس سے ایک دفعہ پوچھا کہ حضرت علیؑ کے علم کے مقابلہ میں آپ کا علم کتنا ہے فرمایا جتنا ایک بحر زخار کے مقابلہ میں ایک چھوٹا قطرہ ہو سکتا ہے۔

            اسلامی علوم میں علم طریقت و حقیقت اور اصول تصوف بھی ہے اور تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس فن کے جملہ علماء و ماہرین اپنے کو حضرت کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں اور حضرت ہی تک اپنے سلسلہ کو منتہی قرار دیتے ہیں۔ اس کی صراحت ان لوگوں نے بھی کی ہے۔ جو فرقہ صُوفیہ کے امام اور پیشوا مانے گئے ہیں جیسے شبلی۔ جنید۔سری ۔ ابو یزید بسطامی۔ معروف کرخی۔ صوفی خرقہ صوفی کو علی ہی کا شعار قرار دیتے ہیں۔

            علوم عربیہ میں علم نحو بھی ہے دنیا کے ماہرین کو علم ہے کہ اس علم کے بانی حضرت علیؑ ہیں ۔ آپ ہی نے اس کی ایجاد کی ہے۔۔۔آپ ہی نے اس کے قواعد و ضوابط مدو ن فرمائے ہیں۔آپ نے فرمایا اس علم کے اصول و جوامع کی تعلیم ابو الاسود ودویلی کو دی اور اس کے قوانین ترتیب دینے کا طریقہ سکھایا حضرت نے جو مختصر اور جامع اصول بتائے ان میں کلام، کلمہ اور اعراب تھے۔ آپ نے کہا کہ کلام ، اسم فعل، حرف کو کہتے ہیں اور کلمہ معرفہ اور نکرہ ہوتا ہے اور اعراب ”رفع نصب جر اور جزم میں منقسم ہوتا ہے۔ حضرت ان مختصر اصول و ضوابط کو آپ کے معجزات میں شمار کرنا چاہیے ۔ ۴۴

            اس کے علاوہ علم القرآت ، علم الفرائض ، علم الکلام، علم الخطابت، علم الفصاحت و بلاغت ۔ علم الشعرا علم العروض و القوافی ۔ علم الادب۔ علم الکتابت۔ علم تعبیر خواب ۔ علم الفلسفتہ ۔ علم الہندسہ ۔ علم النجوم ۔ علم الحساب۔ علم الطب۔ علم منطق الطیر وغیرہ۔ میں آپ کو انتہائی کمال حاصل تھا ۴۵ علم لدنی علم الغیب میں بھی آپ کو ید طونی حاصل تھا ۔ (نورالابصارص۶۷وارجح المطالب)ابن شہر آشوب نے مناقب میں حضرت علیؑ کے صوتِ ناقوس کی تفسیر بیان فرمانے کی تفصیل لکھی ہے۔ اور علامہ محمدباقر نے دمعہ ساکبہ کے صفحہ ۱۴۱ پر ابن ابی الحدید کے حوالہ سے ۳۳بڑی سطروں پر مشتمل حضرت کا ایک نہایت فصیح و بلیغ ایسا خطبہ نقل کیا ہے جس میں ”الف “نہیں ہے۔

آپ کا زھد و تقویٰ

            مصر کے مشہور مورخ علامہ جرجی زیدان لکھتے ہیں کہ علیؑ کی حالت کیا بیان ہو، زہد اور تقویٰ کے متعلق آپ کے واقعات بہت کثرت سے ہیں۔ اصول اسلام کی پابندی کرنے میں آپ بہت سخت اور اپنے ہر قول و فعل میں نہایت شریف وآزاد تھے۔ جعل ۔فریب دھوکا مکر کو آپ جانتے تک نہیں تھے اور اپنی زندگی کے مختلف زمانوں سے کسی حالت میں بھی آپ نے چال ۔ حیلہ۔ غداری وغیرہ کی طرف ذرہ برابر بھی رُخ نہیں کیا۔ آپ کی تمام تر توجہ محض دین کے متعلق رہتی تھی اور آپ کا کل اعتماد اور بھروسہ صرف سچائی اور حق پر تھا ۔ چنانچہ آپ کے زہد اور فقیرانہ زندگی کی مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے جس وقت رسول کی بیٹی فاطمہ سے شادی کی تو آپ کے پاس فر ش کی قسم کوئی چیز نہیں تھی ما سوائے دنبہ کی ایک کھال کے کہ اسی پر دونوں شب کو پڑ کر سو رہتے تھے۔ اوردن کے وقت اسی چمڑے پر اپنے اونٹ کو دانہ کھلاتے تھے۔آپ کے پاس ایک ملازم بھی نہ تھا جو آپ کی خدمت کرتا۔ آپ کی خلافت ظاہر کے زمانہ میں ایک دفعہ اصفہان کے خراج کا مال آیا تو آپ نے اس کو سات حصوں پر تقسیم کر دیا پھر اس میں ایک روٹی ملی تو اس کے بھی سات ٹکڑے کیے۔ آپ ایسے کپڑوں کا لباس پہنتے تھے جو سردی سے ذرا بھی محفوظ نہیں رکھ سکتا تھا۔ بعض لوگوں نے آپ کو دیکھا کہ اپنے اوڑھنے کی چادر میں کھجوریں اٹھا کر خود لا رہے ہیں جن کو ایک ورم میں خریدا تھا۔ یہ دیکھ کر عرض کی اے امیر المومنینؑ یہ ہمیں دے دیں تا کہ ہم پہنچا دیں ۔ آپ نے جواب دیاکہ جس کے عیال ہیں اسی کو ان کا بوجھ اٹھانا چاہیے۔ آپ کے زریں اقوال سے یہ بھی ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ اتنا کم کھائیں کہ بھوک سے ان کے پیٹ ہلکے رہیں اور اتنا کم پئیں کہ پیاس سے ان کے پیٹ سوکھے رہیں اور خدا کے خوف سے اتنا روئیں کہ ان کی آنکھیں زخمی رہیں۔ ۴۶

آپؑ کی اصابت رائے

            آپ کی رائے اتنی صائب تھی کہ کبھی لغزش نہیں ہوئی جس کو جو مشورہ دے دیا وہ اٹل ثابت ہوا۔ علامہ ابن ابی الحدید شرح نہح البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ تمام لوگوں سے زیادہ حضرت علی کی رائے صائب اور محکم و صحیح ہوا کرتی تھی اور آپ کی تدبیر تمام لوگوں کی تدبیروں سے بلند و بر تر ہو تی تھی البتہ آپ اسی معاملے میں رائے دیتے تھے جو شریعت کے مطابق اور اسلام کی روشنی میں ہو یعنی غلط امور میں آپ کا کوئی مشورہ نہ تھا۔

آپؑ کی سیاسست

            علامہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں ”کَانَ شَدیدُ السِیَاسَتِ خَشناََ فیِ ذاتِ اللہ “ آپ بے نظیر سیاسی تھے۔ آپ کی سیاست ان لوگوں جیسی نہ تھی جو دین اور خدا کو پہچانتے نہیں ۔ آپ کی سیاست حکم خدا و رسول کا پر تو ہوا کرتی تھی ۔ آپ اللہ کی ذات کے بارے میں نہایت ہی سخت اور شدید العمل تھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کبھی اپنے بھائی تک کی پرواہ نہیں کی ، عقیل اور ابن عباس کی ناراضی مشہور ہے۔ ۴۷

علم۔صداقت۔ عدل

            خالد ابن یعمر کا بیان ہے کہ علی کو تین باتوں کی وجہ سے محبوب رکھتا ہوں۔

(۱)       یہ کہ جب وہ خفا ہوتے تھے تو مکمل حلم کا استعمال کرتے تھے۔

(۲)       جو بات کہتے تھے سچ کہتے تھے۔

(۳)       جو فیصلہ کرتے تھے پورے عدل کے ساتھ کرتے تھے معقل ابن یسار کا بیان ہے کہ سرور کائنات نے ایک دن فاطمہؑ زہرا سے فرمایا کہ میں نے تمہاری شادی بہت بڑے عالم اور امت میں سب سے بڑے ایماندار اور عظیم ترین حلم کرنے والے (علی ؑ )سے کی ہے ۔ ۴۸

مولائے کائنات حضرت علی ؑکے بعض کرامات

            یہ مسلم ہے کہ مولائے کائنات، مشکل کشاء عالم حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ، مظہر العجائب و الغرائب ، تھے ۔ خلقت ظاہری سے قبل انبیاء علیہم السلام کی مدد کرنا۔ سلمان فارسی کو دشت ارژن میں شیر سے چھڑانا، اور ظہور و شہود کے بعد ایک شب میں چالیس جگہ بیک وقت دعوت میں شرکت کرنا، دنیا کے ہر گوشے میں آپ کے قدم کے نشانات کا پتھر پر موجود ہونا ،غار اصحاب کہف میں نشان قدم کا موجود ہونا، کامل میں مزارسخی کا وجود اور دیگر نشانات کا موجود ہونا، طور خم کے قریب مسجد علی کی تعمیر، پشاور میں ، عصائے شاہ مردان کی زیارت گاہ کا ہونا کوئٹہ کے راستے میں قدم کے نشانات کا پایا جانا ۔ حیدر آباد میں قدم گاہ مولا علی کا ہونا، عالم میں ہر شخص کی مشکل کشائی کا ہو جانا۔ نیز باب خیبر کا اکھاڑنا ۔ رسول کریم کی آواز پر چشم زدن میں پہنچ جانا ۔ چادر پر بیٹھ کر غار اصحاب کہف تک جانا اور ان سے کلام کرنا وغیرہ وغیرہ آپ کے مظہر العجائب و الغرائب ہونے کا بین ثبوت ہے۔ ہم ذیل میں کتاب ”امام مبین “سے چند واقعات کا خلاصہ درج کرتے ہیں۔

آپ کا گہوارہ میں کلاء اژدر دو ٹکڑے کرنا

            ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حوالی مکہ میں ایک نہایت زبر دست اور طویل اژدہا آ گیا اور اس نے تباہی مچا دی ، ایک لشکر نے اسے مارنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو ا۔ ایک دن وہ اژدہا مدینہ کی طرف چلا جب قریب پہنچا، شہر مدینہ میں ہلچل مچ گئی لوگ گھروں کو چھوڑ کر باہر بھاگنے لگے ۔ اتفاقاََ وہ اژدہا خانہ حضرت ابو طالب میں داخل ہو گیا۔ وہاں مولائے کائنات گہوارے میں فروکش تھے اور ان کی مادر گرامی کہیں باہر تشریف لے گئی تھیں۔ جب وہ اژداہاگہوارے کے قریب پہنچا تو ”ید اللہ “نے ا س کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر دو پارہ کر دیا۔ رسول خدا نے مسرت کا اظہار کیا۔ عوام نے داد شجاعت دی۔ ماں نے واپس آکر ماجرا دیکھا او راپنے نور نظر کا نام ”حیدر “رکھا۔ اس نام کا ذکر مرحب کے مقابلہ میں علی بن ابی طالب نے خود بھی فرمایا۔

اَناَ الذِی سمتنی اُمی حَیدرُہ

ضَرِ غَامُ آَجاَ مُ وَلَیثُ قصورَہُ

ساقیؑ کوثر اور سنگ خارا

            روایت میں ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین سے واپس جاتے ہوئے ایک صحرا ئے لق ودق سے گزرے، شدت گرما کی وجہ سے آپ کا لشکر بے انتہا پیا ساہو گیا ، اس نے حضرت سے پانی کی خواہش کی۔آپ نے صحر ا میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، ایک بہت بڑا پتھر نظر آیا۔ اس کے قریب تشریف لے گئے اور پتھر سے کہا کہ میں تجھ سے سننا چاہتا ہوں کہ اس صحرا میں پانی کہاں ہے؟ اس نے بقدرت خدا جواب دیا کہ ” اَلمَاء تَحتیِ “چشمہ آب میرے ہی نیچے ہے۔ حضرت نے لشکر کو حکم دیا کہ اس پتھر کو ہٹائے ۔ ۱۰۰ آدمی کا میاب نہ ہو سکے پھر آپ نے لب مبارک کو حرکت دی اور دست خیبر کشا اس پر مارا، پتھر دور جا پڑا، اس کے ہٹتے ہی شہد سے زیادہ شیریں اور برف سے زیادہ سرد پانی کا چشمہ بر آمد ہو گیا، سب سیراب ہوئے اور سب نے پانی سے چھاگلیں بھر لیں، پھر آپ نے پتھر کو حکم دیا کہ اپنی جگہ پر آجمے۔ بروایت ابن عباس پتھر اس جگہ سے خود بخود سرک کر اپنی جگہ پر آپہنچا اور لشکر خدا خدا کرتا ہوا روانہ ہو گیا۔

مولا علی ؑ اور انسان کی تبدیلی ماہیت

            اصبغ بن نباتہ کا بیان ہے کہ ایک شخص قریش سے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں وہ ہوں کہ جس نے بے شمار انسانوں کو قتل کیا ہے اور بہت سے اطفال کو یتیم کیا ہے حضرت نے اس کا جب یہ تعارف سنا تو آپ کو غصہ آ گیا، آپ نے فرمایا کہ ”اِخسَا یَا کلبُ“اے کتے میرے پاس سے دور ہو جا، حضرت کے ذہن اقدس سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ اس کی ماہیت اور اس کی ہیت بدل گئی۔ اور وہ کتے کی شکل میں ہوکر دم ہلانے لگا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بیتا ب ہو کر فریاد و فغان کرتے ہوئے زمین پر لوٹنے لگا ۔حضرت کو اس پر رحم آیا اور آپ نے دعا کی۔ خدا نے پھر اسے اس کی ہیئت اصلی میں بدل دیا۔

عین اللہ ، علی ؑ نے کور مادر زاد کو چشم بینا دے دی

            عبد اللہ بن یونس کا بیان ہے کہ میں ایک سال حج بیت اللہ کے لیے گھر سے روانہ ہو کر جا رہا تھا۔ نا گاہ راستے میں ایک نا بینا زن حبشیہ کو دیکھا کہ وہ ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے اس طرح دعا کر رہی ہے، اے اللہ بحق علی ابن ابی طالبؑ مجھے چشم بینا دے دے۔ یہ دیکھ کر میں اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا تو واقعی علی بن ابی طالب سے محبت رکھتی ہے اس نے کہا بے شک میں ان پر صد ہزار جان سے قربان ہوں یہ سن کر میں نے اسے بہت سے درہم دئیے مگر اس نے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں درہم و دینار نہیں مانگتی۔”میں آنکھ چاہتی ہوں “پھر میں اس کے پاس سے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچا اور حج سے فراغت کے بعد پھر اسی راستہ سے واپس آیا۔ جب اس مقام پر پہنچا جس مقام پر وہ نا بینا عورت تھی تو دیکھا کہ وہ عورت چشم بینا کی مالک ہے اور سب کچھ دیکھتی ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا ماجرا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں بد ستور دعا کیا کرتی تھی۔ ایک دن حسب معمول مشغول دعا تھی، نا گاہ ایک مقدس ترین عالم بزرگ نمو دار ہوئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو واقعی علی کو دوست رکھتی ہے، میں نے کہا ”جی ہاں “ایسا ہی ہے یہ سن کر انہوں نے کہا ”خدا یا اگر یہ عورت دعوائے محبت میں سچی ہے تو اسے بینائی عطا فرما “۔ ان کے ان الفاظ کے زبان پر جاری ہوتے ہی میری آنکھیں کھل گئیں، چشم بینا مل گئی میں سب کچھ دیکھنے لگی۔ میں نے اس کے فوراََ بعد قدموں پر گر کر پوچھا، حضور آپ کون ہیں۔ فرمایا میں وہی ہوں جس کے واسطہ سے تو دعا کر رہی تھی۔

مشکل کشاکی مشکل کشائی

            ایک روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے ۔ نا گاہ آپ کی نگاہ ایک مومن پر پڑی دیکھا کہ اسے ایک شخص بری طرح گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ حضرت اس کے قریب گئے اور اس سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے، اس مومن نے کہا، مولا میں اس مرد منافق کے ایک ہزار سات سو دینار کا قرض دار ہوں، اس نے مجھے پکڑ کر رکھا ہے اور اتنی مہلت بھی نہیں دیتا کہ میں یہاں سے جا کر کوئی بندو بست کروں۔ حضرت نے فرمایا کہ تو زمین کی طرف رُخ کر اور جو پتھر وغیرہ اس وقت تیرے ہاتھ میںآ ئیں انہیں اٹھا لے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جب اس نے اٹھا کر دیکھا تو وہ سب سونے کے تھے ۔حضرت نے فرمایا کہ اس کا قرضہ ادا کرنے کے بعد جو بچے اسے اپنے کام میں لا ۔راوی کہتا ہے کہ دوسرے دن جبرئیل کے کہنے سے حضرت رسول کریم نے اس واقعہ کو اصحاب کے مجمع میں بیان فرمایا۔

ایک مشلول کی شفا یابی

            عبد اللہ بن عباس کا بیان ہے کہ ایک روز نماز صبح کے بعد حضرت رسول کریم مسجد میں مدینہ میں بیٹھے ہوئے سلمان ابو ذر ، مقداد اور حذیفہ سے محو گفتگو تھے کہ نا گاہ مسجد کے باہر ایک غلغلہ اٹھا، شور سن کر لوگ مسجد کے باہر آ گئے تو دیکھا کہ چالیس آ دمی کھڑے ہیں جو مسلح ہیں اوران کے آگے ایک نہایت خوبصورت نو جوان شخص ہے حذیفہ نے رسول خدا کو حالات سے آگاہ کیا ، آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ، وہ آگئے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ علی بن ابی طالبؑ کو بلا لاؤ۔ حذیفہ گئے، امیر المومنینؑ نے فرمایا کہ اے حذیفہ مجھے علم ہے کہ ایک گروہ قوم عاد سے آیا ہے ، مجھے ان کی حاجت بھی معلوم ہے۔ اس کے بعد آپ حاضر خدمت رسول کریم ہوئے۔ آنحضرت نے حضرت علیؑ سے ان کا سامنا کرایا۔ حضرت علیؑ نے اس مر د خوبرو سے کہا کہ اے حجا ج بن خلجا ابن ابی العصف بن سعید بن ممتع بن علاق بن و ھب بن صعب،بتا تیری کیا حاجت ہے ؟اس نے جب اپنا نام اور پورا شجرہ سنا تو حیران رہ گیا ۔ اور کہا کہ حضور میرے بھائی کو شکار کا بڑا شوق ہے اس نے ایک دن جنگل میں شکا ر کھیلتے ہوئے ایک جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالا ، اور اس پر تیر چلایا اس کے فوراََ بعد اس کا نصف بدن شل ہو گیا ہے ، بڑے علاج کئے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، آپ نے فرمایا کہ اسے میرے سامنے لا، وہ ایک شتر پر لایا گیا، حضر ت نے اسے حکم دیا کہ اٹھ بیٹھ۔ چنانچہ وہ تندرست ہو کر اٹھ بیٹھا ۔ یہ دیکھ کر وہ اوراس کے قبیلہ کے ستر ہزار نفوس مسلمان ہو گئے۔

آپؑ کی سایہ رحمت سے محرومی

حضرت محمد مصطفیٰؐ نے ۲۸ صفر ۱۱ء ہجری بروز پیر انتقال فرمایا۔(مودة القربی )حضرت علیؑ آپ کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہو گئے ۔ حضرت عمر حضرت ابو بکر کو ہمرا ہ لے کر سقییفہ بنی ساعدہ چلے گئے جو مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرواقع ہے اور مشورہ ہائے باطل کے لیے بنایا گیا تھا۔ (غیاث اللغات)چلے گئے کافی رسہ کشی کے بعد حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنا لائے۔ حضرت علیؑ چونکہ رسول کریم کو ان کی واپسی سے قبل دفن کر چکے تھے۔ اس لیے سب سے پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آ پ نے ہماری واپسی کا انتظا رکیوں نہیں کیا؟۔ حضرت علیؑ نے فرمایا کہ رسول کریم بمقام غدیر خُم خلیفہ مقرر کر چکے تھے ۔ آپ کس جواز سے وہاں گئے اور کس اصول سے مسئلہ خلافت کو زیر بحث لائے اور کیا وجہ تھی کہ ہم رسول کا لاشہ بے گو رو کفن رہنے دیتے۔ اس کے بعد انہوں نے بیعت کا مطالبہ کیا ۔ حضرت علیؑ نے اپنا حق فائق ہونا اورخودکا اپنے کو منصوص خلیقہ ہونا ظاہر کر کے ان کے مطالبہ کے خلاف احتجاج کیا اور فرمایا کہ مجھ سے بیعت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر انہوں نے شدید اصرار کیااور آپ سے بیعت لینے کی ہر ممکن سعی کی۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ اسی سلسلہ میں فاطمہؑ کا گھر جلایا گیا ۔فاطمہؑ کے درے لگائے گئے ۔علیؑ کی گردن میں رسی باندھی گئی اور آپ کو قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی اور وراثت رسول سے فاطمہ اور اولاد فاطمہؑ کو محروم کر دیا گیا ۔ باغ چھینا گیا۔ علی حسنین اور ام ایمن کو گواہی فدک میں جھوٹا قرار دیا گیا ان حالات سے آلِ محمد کو جتنا متاثر ہونا چاہیے تھا۔ اس کا اندازہ ہر بافہم کر سکتا ہے۔ حضرت علیؑ جو سایہ رحمت رسول سے محروم ہو کر مصائب و آلام کی چکی کے دونوں پاٹ میں آ گئے۔ انہوں نے اپنے خطبات میں اس پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے حالات کی وضاحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو خطبہ شقشقیہ۔

وفاتِ رسول کے بعد علیؑ کا خطبہ

کتا ب نہج البلاغہ ج اصفحہ ۴۳۲ طبع مصر میں ہے ”بزرگان اصحاب محمد ﷺ نے جو حافظ (قرآن و سنت نبوی تھے)جان لیا تھا کہ میں کبھی ایک ساعت کے لیے بھی فرمان خدا اور رسول سے دور نہیں ہوا اور پیغمبر اکرم کی خاطر کبھی اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی۔ جب دلیروں نے راہ فرار اختیار کی اور بڑ ے بڑے پہلوان پیچھے ہٹ آئے تواس شجاعت اور جوانمردی کے باعث جو خدا نے مجھے عطا کی ہے۔ میں نے جنگ کی اور رسول خدا کی قبض روح اس حالت میں ہوئی کہ آپ کا سر مبارک میرے سینے پر تھا۔ ان کی جان میرے ہی ہاتھوں پر بدن سے جدا ہوئی چنانچہ (بہ نیت تبرک و تیمن )میں نے اپنے ہاتھ (روح نکلنے کے بعد )اپنے چہرہ پر ملے۔ میں نے آنحضرت کے جسد اطہر کو غسل دیااور فرشتوں نے (اس کام میں) میری مدد کی۔ پس بیت نبوی اوراس کے اطراف سے گریہ و زاری کی صدا بلند ہوئی فرشتوں کا ایک گروہ جاتا تھا تو دوسرا آجا تا تھا ۔ ان کی نماز جنازہ کا ہمہمہ میرے کانوں سے جدا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آپ کو آخری آرام گاہ میں رکھ دیا گیا۔ پس آنحضرت کی حیا ت و ممات میں ان سے میرے مقابلہ میں کون سزا وا ر تھا۔ (جو کوئی) اس کا ادعا کرتا ہے وہ صحیح نہیں کہتا ۔ الخ ۴۹ اسی کتاب کے صفحہ۱۳۰۳پر ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان اے رسول خدا۔ آپ کی وفات سے نبوت ۔ احکام الہیٰ اور اخبار آسمانی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ جودوسرے (پیغمبروں )کی وفات پر (کبھی )نہیں ہوا تھا۔ آپ کی خصوصیت اور یگانگت یہ بھی تھی کہ دوسری مصیبتوں سے آپ نے تسلی دے دی۔ (کیونکہ آپ کی مصیبت ہر مصیبت سے بالاتر ہے)او ردنیا سے رحلت فرما نے کی بنا ء پر آپ کو یہ عمومیت وخصوصیت حاصل ہے کہ آپ کے ماتم میں تمام لوگ یکساں درد مند(اور سینہ فگار )ہیں۔ الخ

رفیقہ حیات کی جدائی

            رسول کریم کے انتقال پر ملال کو ابھی ۱۰۰ دن بھی نہ گزرے تھے کہ آپ کی رفیقہ حیات حضرت فاطمتہ الزھرا اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے صدمے وغیرہ سے بتاریخ ۲۰ جمادی الثانیہ ۱۱ء ہجری انتقال فرما گئیں۔ حضرت علیؑ نے وصیت فاطمہ کے مطابق حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عائشہ وغیر ہم کو شریک جنازہ نہیں ہونے دیا۔ا ور شب کے تاریک پردے میں حضرت فاطمتہ الزہرا کو سپرد خاک فرما دیا۔ اور زمین سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”یاَ ارضُ اَسَتودعکِ وَ دِ یَعتیِ ھَذاَ بنتُ رسول اللّٰہ“ اے زمین میں اپنی امانت تیرے سپر کر رہا ہوں، اے زمین یہ رسول کی بیٹی ہیں۔ زمین نے جواب دیا ۔”یاعَلیَ اَناَ ارفقُ بِھاَ مِنکَ “اے علیؑ آپ گھبرائیں نہیں۔ میں آپ سے زیادہ نرمی کروں گی۔ ۵۰

حضرت علیؑ کا خطبہ

            زمین سے مخاطبہ کے بعد آپ نے سرور کائنات کو مخاطب کر کے کہا، یا رسول اللہ آپ کو میری جانب سے اورآپ کی پڑوس میں اترنے والی اور آپ سے جلد ملحق ہونے والی آپ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو۔ یا رسول اللہ آپ کی برگزیدہ بیٹی کی رحلت سے میرا صبر و شکیب جا تا رہا۔ میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپ کی رحلت کے بعد صدمہ جانکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبرو و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا۔ جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو قبر کی لحد میں اتار ا اور اس عالم میں آپ کی روح نے پروازکی کہ آپ کا سر میری گردن کے درمیان رکھا ہو اتھا۔ (اِناَ لِلہ وَاِناََ اِلیہَ رَاجِعون)اب یہ امانت پلٹائی گئی ۔ گروی رکھی ہوئی چیز چھڑالی گئی ۔ لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی۔ یہاں تک کہ خدا وند عالم میرے لیے بھی اسی گھر کو منتخب کر ے۔ جس میں آپ رونق افروز ہیں (یا رسول اللہ )وہ وقت آ گیا کہ آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں کہ کس طرح آپ کی امت نے ان پر ظلم ڈھانے کے لیے ایکاکر لیا۔ آپ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں۔ حالانکہ آپ کو گذرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ اور نہ آپ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔آپ دونوں پر میرا سلام رخصتی ہو۔ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اب اگر میں (اس جگہ سے )پلٹ جاؤں تواس لیے نہیں کہ آپ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لیے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بد ظن ہوں۔جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے ۔ ۵۱

حضرت علیؑ کی گوشہ نشینی

            پیغمبر اسلام کے انتقال پر ملال اور ان کے انتقال کے بعد کے حالات نیز فاطمہ زہراؑ کی وفات حسر ت آیات میں حضرت علیؑ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آپ آئندہ زندگی کس اسلوب اور کس طریقہ سے گزاریں بالآخر آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ

(۱)       دشمنان آلِ محمد کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔

(۲)       گوشہ نشینی اختیار کر لینی چاہیے۔

(۳)       حتٰی المقدور موجودہ صورت میں بھی اسلام کی ملکی وغیر ملکی خدمت کرتے رہنا چاہیے ۔چنانچہ آپ اسی پر کاربند ہو گئے۔

            حضرت علیؑ نے جو پروگرام مرتب فرمایا۔ وہ پیغمبر اسلام کے فرمان کی روشنی میں مرتب فرمایا کیوں کہ انہیں حالات کی پوری اطلا ع ملی تھی اور انہوں نے حضرت علیؑ کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ علامہ ابن حجر لکھتے ہیں۔ ”اِنَ اللہَ تَعالیَ اِطلعَ نبَیَہُ عَلیٰ مَا یَکونُ بَعدُہ مِماَ ابتلیَ بِہ علیَ “کہ خدا وند عالم نے اپنے نبی کو ان تمام امور سے باخبر کر دیا تھا ۔ جو ان کے بعد ہونے والے تھے، اور ان حالات و حادثات کی اطلاع کر دی تھی جس میں علیؑ مبتلا ہوئے ۵۲ رسول کریم نے فرمایا تھاکہ اے علیؑ میرے بعد تم کو سخت صدمات پہنچیں گے، تمہیں چاہیے کہ اس وقت تم دل تنگ نہ ہو اور صبر کا طریقہ اختیار کرو اور جب دیکھنا کہ میرے صحابہ نے دنیا اختیار کر لی ہے۔ تو تم آخر ت اختیار کئے رہنا ۵۳ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؑ نے تمام مصائب و آلام نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کئے مگر تلوار نہیں اٹھائی اور گوشہ نشینی اختیار کر کے جمع قرآن کی تکمیل کرتے رہے اور وقتاََ فوقتاََ اپنے مشوروں سے اسلام کی کمر مضبوط فرماتے رہے۔

غصب خلافت کے بعد تلوارنہ اٹھانے کی وجہ

            بعض بردران اسلام یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب علی کی خلافت غصب کی گئی اور انہیں مصائب و آلام سے دو چار کیا گیا تو انہوں نے بدر واحد ، خیبر و خندق میں چلی ہوئی تلوار کو نیام سے باہر کیوں نہ نکال لیا۔ اور صبر پر کیوں مجبور ہو گئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ علیؑ جیسی شخصیت کے لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انہوں نے اسلا م کے عہد اول میں جنگ کیوں نہیں کی۔ کیونکہ ابتداء عمر سے تا حیات پیغمبر علیؑ ہی نے اسلام کو پروان چڑھایا تھا ہر مہلکہ میں اسلام ہی کے لیے علیؑ لڑے تھے۔ علی نے اسلام کے لیے کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی تھی۔ بھلا علیؑ سے یہ کیونکہ ممکن ہو سکتا تھا کہ رسول کریم کے انتقال کے بعد وہ تلوار اٹھا کر اسلام کو تباہ کر دیتے اور سر ور کائنات کی محنت اور اپنی مشقت کو اپنے لیے تباہ و برباد کر دیتے ۔ استیعاب عبد البرجلد ا صفحہ۱۸۳طبع حیدر آباد میں ہے کہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ دیکھو رسول اللہ کا انتقال ہو چکا ہے اور خلافت کے بارے میں مجھ سے کوئی نزاع نہ کرے کیوں کہ ہم ہی ا س کے وارث ہیں ۔لیکن قوم نے میرے کہنے کی پرواہ نہیں کی ۔ خدا کی قسم اگر دین میں تفرقہ پڑ جانے اور عہد کفر کے پلٹ آنے کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کی ساری کاروائیاں پلٹ دیتا ۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۰۴)کی عبارت سے واضح ہو تا ہے کہ حضرت علی ؑ نے اسی طرح چشم پوشی کی جس طرح کفر کے پلٹ آنے کے خوف سے حضرت رسول کریم مناقفوں اورمولفتہ القلوب کے ساتھ کرتے تھے کہ کنز العمال جلد۶ صفحہ ۳۳میں ہے کہ آنحضرت منافقوں کے ساتھ اس لیے جنگ نہیں کرتے تھے کہ لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد نے اپنے اصحاب کو قتل کر ڈالا۔

            کتاب معالم التنزیل صفحہ۴۱۲ ، صفحہ۴۱۴، احیاء العلوم جلد۴ صفحہ ۸۸ سیرت محمدیہ صفحہ۳۵۶تفسیر کبیر جلد۴ صفحہ۶۸۶تاریخ خمیس جلد۲ صفحہ ۱۱۳۹سیرت جلبیہ صفحہ۳۵۶ شواہد النبوت اور فتح الباری میں ہے کہ آنحضرتنے عائشہ سے فرمایا کہ اے عائشہ ”لوَ لاَ حدَ ثَانِ قَومُک بالکَفرِ لَفَعلتُ “اگر تیری قوم تازی کفر سے مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں اس کے ساتھ وہ کرتا جو کرنا چاہیے تھا۔

            حضرت علیؑ اور رسول کریم کے عہد میں کچھ زیادہ بعد نہ تھا۔ جن وجوہ کی بناء پر رسول نے منافقوں سے جنگ نہیں کی تھی انہیں وجوہ کی بناء پر حضرت علیؑ نے بھی تلوار نہیں اٹھائی ۔ کنز العمال جلد۶ صفحہ ۶۹ کتاب خصائص سیوطی جلد۲ صفحہ۱۳۸ روضتہ الاحباب جلدا صفحہ ۳۶۳ازالتہ الخفاجلدا صفحہ ۱۲۵ وغیرہ میں مختلف طریقہ سے حضرت کی وصیت کا ذکر ہے اور اس کی وضاحت ہے کہ علیؑ کے ساتھ کیا ہونا ہے اور علیؑ کو اس وقت کیا کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت علیؑ نے اس حوالہ کے بعد کہ میری جنگ سے اسلام منزل اول ہی میں ختم ہو جائے گا۔ میں نے تلوار نہیں اٹھائی۔ یہ فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے اس وقت کا بہت زیادہ خیال رکھا کہ رسول خدا نے مجھ سے عہد خاموشی و صبر لے لیا تھا۔ تاریخ اعثم کوفی ۸۳ طبع بمبئی میں حضرت علیؑ کی وہ تقریر موجود ہے جو آپ نے خلافت عثمان کے موقع پر فرمائی ہے۔ ہم اس کا ترجمہ اعثم کوفی اردو طبع دہلی کے صفحہ۱۱۳ سے نقل کرتے ہیں۔ خدا ئے جلیل کی قسم اگر محمد رسول اللہ ہم سے عہد نہ لے لیتے اور ہم کو اس امر سے مطلع نہ کر چکے ہوتے جو ہونے والا تھا تو میں اپنا حق کبھی نہ چھوڑتا ۔ اوراپنا حق کسی شخص کو نہ لینے دیتا ۔ اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے اس قدر کوشش بلیغ کرتا کہ حصول مطلب سے پہلے معرض ہلاکت میں پڑنے کا بھی خیال نہ کرتا ۔ ان تمام تحریروں پر نظر ڈالنے کے بعد یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علیؑ نے جنگ کیوں نہیں کی اور صبرو خاموشی کو کیوں ترجیح دی۔

            میں نے اپنی کتاب ”الغفاری کے ۱۲۱“پر حضرت ابو ذر کے متعلق امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد ”وَعیٰ عِلماََ عَجَزَفِیہ “کی شرح کرتے ہوئے امام اہل سنت ابن اثیر جزری کی ایک عبارت تحریر کی ہے جس سے حضرت علیؑ کے جنگ نہ کرنے کی وجہ پر روشنی پڑتی ہے ۔”وہ یہ ہے“۔

            ”نَہایتہ اللغت ابن اثیر جرزی کے ۲۳۱ میں ہے ۔”اَلاِ رعَجازَ جَمعُ عجز وَھوَ مُو خُر الشَی یُریدُ بِھاَ آخِر الامور “اعجاز ، عجز کی جمع ہے جس کے معنی موخر شی کے ہیں اور جس کا مطلب آخر امورتک پہنچنے سے متعلق ہے۔ اس کے بعد علامہ جرزی لفظ اعجاز کی شرح کرتے ہوئے حضرت علیؑ کی ایک حدیث نقل فرماتے ہیں وَمَن حَدِیثِ عَلیَ لَناَ حَقُ اَن نعطِہ ناَخُذُہ وَاِن نَمنعہ نَرکبُ اعجازَ الابلِ وَاِن طَالَ السِری “آپ فرماتے ہیں کہ خلافت ہمارا حق ہے اگر ہمیں دے دیا گیا تو تو لے لیں گے اور ہمیں روک دیا یعنی ہمیں نہ دیا گیا تو ہم ”اعجاز اہل “پر سواری کریں گے ۔ یعنی آخر تک اپنے حق کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے اورمدت کی پرواہ نہ کریں گے یہاں تک کہ اسے حاصل نہ کر لیں یہی وجہ ہے کہ ”سَلِمَ وَصَبَرَ عَلیَ التَاخِیر وَلَمُ یقَاتِلَ وَاِنماَ قَاتَلَ بَعدَ اِنعقاَ د ِ الاماِ مَتِہ الخ دلتنگ اور صبر کئے آخر تک بیٹھے رہے اور خلفاء وقت سے جنگ نہیں کی ۔ پھر جب انہوں نے امامت (خلافت )حاصل کر لی تو (اسے صحیح اصولوں پر چلانے کے لیے )ضروری سمجھا۔الخ

حضر ت علی ؑ کا قرآن پیش کرنا

            نور الابصارجلد ۱ ص۷۳ امام شبلنجی میں ہے کہ حضرت علی ؑ نے رسول کریم کے زمانہ میں قرآن مجید جمع کر کے آنحضرت کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔صواعق محرقہ صفحہ۷۶ میں ہے کہ جب آپ کو بیعت ابو بکر کے لیے مجبور کیاگیااور کہا گیا ، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل طور پر جمع نہ کر لوں گا۔ درانہ اوڑھوں گا (اتقان سیوطی ۵۷)وحبیب السیرج ۱ ص ۴میں ہے ۔ کہ علیؑ کا قرآن تنزیل کے مطابق تھا۔ بحار الانوار ۔ و مناقب صفحہ۶۶ میں ہے کہ امیر المومنینؑ نے پورا قرآن مجید جمع کرنے کے بعد اسے چادر میں لپیٹا اور لے کر مسجد میں پہنچے اور حضرت ابو بکر سے کہا کہ یہ قرآن ہے جسے میں نے تنزیل کے مطابق جمع کیا ہے اور جو آنحضرت کی نظر سے گذر چکا ہے، اسے لے لو اور رائج کر دو، آپ نے یہ بھی کہاکہ میں اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ مجھے آنحضرت نے حکم دیا تھا کہ ا تمام حجت کے لیے پیش کرنا ۔ کتاب فصل الخطاب میں ہے کہ انہوں نے جواب دیا کہ اسے واپس لے جاؤ ۔ ہمیں تمہارے قرآن کی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ سیوطی تاریخ الخلفاء کے ۱۸۴ میں ابن سیر ین کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر وہ قرآن قبول کر لیا گیا ہوتا ، تو لوگوں کو بے انتہا فائدہ پہنچتا۔

حضرت علیؑ کے محافظ اسلام مشورے

            یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت علی ؑ اپنے پیش رو حضرات خلفاء کو غادر خائن ، کا ذب ، آثم سمجھتے تھے۔ ۵۴ اور ان کی سیرت سے اس درجہ بیزار تھے کہ بموقع تقرر خلافت حضرت عثمان، سیرت شیخین کی شرط کی وجہ سے تخت چھوڑنا گوارا کیا تھا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علیؑ اپنے ذاتی جذبات پر خدا و رسول کے جذبات کو مقدم رکھتے تھے، عمرو بن عبد ود نے جب جنگ خندق میں آپ کے چہرہ مبارک کے ساتھ لعاب دہن کے ساتھ بے ادبی کی تھی اور آپ کو غصہ آ گیا تھا تو آپ سینے سے اتر آئے تھے ، تا کہ کارِ خدا میں اپنا ذاتی غصہ شامل نہ ہو جائے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ دل تنگ اور ناراض ہونے کے باوجود، تحفظ وقار اسلام کی خاطر خلفاء کو اپنے مفید مشوروں سے نواز تے رہے۔ مثال کے لیے ملاحظہ ہو،

(۱)       قیصر روم نے خلیفہ دوم سے سوال کر دیا کہ آپ کے قرآن میں کونسا ایسا سورہ ہے جوصرف سات آیتوں پر مشتمل ہے۔ اور اس میں سات حروف حروف تہجی کے نہیں ہیں۔ اس سوال سے عالم اسلام میں ہلچل مچ گئی۔ حفاظ نے بہت غورو فکر کے بعدہتھیار ڈال دئیے۔ حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو بلوا بھیجااور یہ سوال سامنے رکھا۔ آپ نے فوراََ ارشاد فرمایا کہ وہ سورہ حمد ہے ۔ اس سورہ میں سات آیتیں ہیں اور اس میں ث، ج، خ، ز، ش، ظ، ف نہیں ہیں۔

(۲)       علماء یہود نے خلیفہ دوم سے اصحاب کہف کے بارے میں چند سوالات کئے، آپ ان کا جواب نہ دے سکے اور آپ نے علیؑ کی طرف رجوع کیاحضرت نے ایسا جواب دیا کہ وہ پورے طور پر مطمئن ہو گئے۔ حجر اسود اکے بوسہ دینے پر حضرت علیؑ نے جو بیان دیا ہے۔ اس سے حضرت عمر کی پشیمانی،بدو سافرہ سیوطی میں موجود ہے۔

(۳)       عہد اول میں نیز عہد ثانی کی ابتداء میں شراب پینے پر ۴۰ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر نے یہ دیکھ کر کہ اس حد سے رعب نہیں جمتا اور لوگ کثرت سے شراب پی رہے ہیں۔ حضرت علیؑ سے مشور ہ کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ چالیس کے بجائے ۸۰کوڑے کر دئیے جائیں اور اس کے لیے یہ دلیل پیش کی کہ جو شراب پیتا ہے نشہ میں ہوتا ہے اور جس کو نشہ ہوتا وہ ہذیان بکتا ہے اور ہذیان بکتا ہے وہ افتریٰ کرتا ہے ۔”وَعَلیَ المُفتری ثَماَ نوُن “ اور افترا کرنے والوں کی سزا ۸۰ کوڑے ہیں لہذٰا شرابی کو بھی ۸۰ کوڑے مارنے چائیں۔ حضرت عمر نے اسے تسلیم کر لیا۔(مطالب السئول ص۱۰۴)

(۴) ایک حاملہ عورت نے زنا کیا حضرت عمر نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کر دیا جائے حضرت علیؑ نے فرمایا کہ زنا عورت نے کیا ہے ۔لیکن وہ بچہ جو جو پیٹ میں ہے ۔ اس کی کوئی خطا نہیں، لہذٰا عورت پر اس وقت حد جاری کی جائے جب وضع حمل ہو چکے ۔ حضرت عمر نے تسلیم کر لیا اور ساتھ ہی ساتھ کہا۔”لَولاَ عَلیَ لَھَکَ عُمر “

(۵)       جنگ روم میں اپنے جانے کے متعلق حضرت عمر نے حضرت علیؑ سے مشور کیا۔

(۶)جنگ فارس میں بھی خود شریک جنگ ہونے کے متعلق حضرت علی سے مشورہ کیا مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت علیؑ نے حضرت عمر کو خود جنگ میں جانے سے روکا اور فرمایا کہ آپ شہید ہو جائیں گے تو کسر شان اسلام ہو گی۔۔۔۔الخ حضرت علیؑ کے مشورہ پر حضرت عمر بہادروں کے مسلسل زور دینے کے باوجود جنگ میں شریک نہ ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ حضرت علیؑ نے نہایت ہی صائب مشورہ دیا تھا کیونکہ وہ جنگ بدر اور خیبر ، خندق کے واقعات و حالات سے واقف تھے۔ اگر خدا نخواستہ میدان چھوٹ جاتا تو یقینا کسر شان اسلام ہوتی ۔ا گر شہادت سے کسر شان اسلام کا اندیشہ ہوتا تو حضرت علیؑ سرور کائنات کو بھی مشورہ دیتے کہ آپ کسی جنگ میں خود نہ جائیے۔ تاریخ میں ہے کہ وہ برابر جاتے اور زخمی ہوتے رہے۔ احد میں تو جان ہی خطرہ میں آ گئی تھی ۔

(۷)       مسٹر امیر علی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ کے مشورہ سے زمین کی پیمائش کی گئی اور مال گذاری کا طریقہ رائج کیا گیا۔

(۸)       آپ ہی کے مشورہ سے سنہ ہجری قائم ہوا۔

مشوروں کے متعلق علماء اسلام کی رائیں

            علامہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر نے چاہا کہ خود جنگ روم و ایران میں جائیں تو حضرت علیؑ ہی نے ان کو مفید مشور ہ دیا۔ جس کو حضرت عمر نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا اور وہ اپنے ارادہ سے باز رہے ۔ پھر حضرت عثمان کو بھی ایسے قیمتی مشورے دئیے جن کو اگر وہ قبول کر لیتے تو انہیں حوادث و آفات کا سامنا کرنا نہ پڑتا ۔عبید اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ تمام مورخین متفق ہیں کہ اسلام میں حضرت عمر سے زیادہ کوئی خلیفہ مدبر پیدا نہیں ہوا۔ اس کی خا ص وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر ہر باب میں حضرت علی سے مشورہ لیتے تھے۔ ۵۵ مسٹر امیر علی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر کے عہد خلافت میں جتنے کام رفاہ عامہ کے ہوئے ہیں وہ سب حضرت علیؑ کے صلاح و مشورہ سے عمل میں آئے۔ ۵۶

مشوروں کے علاوہ جانی امداد

             حضرت علی ؑ نے صرف مشوروں ہی سے عہد گوشہ نشینی میں اسلام کی مدد نہیں کی بلکہ جانی خدمات بھی انجا م دی ہیں۔ مثال کے لیے عرض ہے کہ جب فتح مصر کا موقع آیا تو حضرت علی ؑ نے اپنے خاندان کے نو جوانوں کو فوج میں بھرتی کرایاا ور ان کے ذریعہ سے جنگی خدمات انجام دئیے۔ شیخ محمد ابن محمد بن معز مملکت مصرمیں مسلمانوں کی فتو حات کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ مبارکباد کے قابل ہیں حضرت علیؑ کے بھتیجے اور داماد مسلم بن عقیل ؑ اور ان کے بھائی جنہوں نے محاذ مصر میں سخت جنگ کی اور اس درجہ زخمی ہوئے کہ خون ان کی زرہ پر سے جاری تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اونٹ کے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ ملاحظہ ہو کتاب فتوحات صفحہ۶۴ طبع بمبئی ۱۲۸۶ء ء) اسی طرح فتح شوشتر کے موقع پر ۱۷ ء ھج میں آپ کے بھتیجے محمد ابن جعفر اور عون بن جعفر شہید ہوئے۔ تاریخ اسلام جلد ۳ صفحہ ۸۱ بحوالہ تاریخ کامل و استیعاب۔

حضرت علیؑ اور اسلام میں سڑکوں کی تعمیری بنیاد

            حضرت علیؑ بذات خود صراط مستقیم تھے ۔ اور آپ کو راستوں سے زیادہ دلچسپی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ میں زمین و آسمان کے راستوں سے واقف ہوںَ حافظ حیدر علی قلندر سیرت علویہ میں لکھتے ہیں کہ جزیہ کا مال وروپیہ لشکر کی آراستگی، سرحد کی حفاظت اور قلعوں کی تعمیر میں صرف ہوتا تھا۔ اور جو اس سے بیچ رہتا تھا وہ سڑکوں پلوں کی تیاری اور سر رشتہ تعلیم کے کام میں آتا تھا ۔(احسن الانتخاب ص ۳۴۸۸طبع لکھنو ۱۳۵۱ء ھج )اسی سیرت علویہ کی روشنی میں فقہی کتابوں میں سڑک کی تعمیر کی طرف (لفظ فی سبیل اللہ )سے اشارہ کیا گیا ہے۔ (شرائع الاسلام طبع ایران ۱۲۰۷ء )میں ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد مخصوص جنگی اخراجات ہیں اور ایک قول ہے کہ اس میں راستوں اور پلوں کی تعمیر زائروں کی امداداور مسجدوں کی مرمت بھی شامل ہے اور مجاہد کو چاہے وہ اپنے معاملات میں غنی ہی کیوں نہ ہو۔ امداد ینی ضروری ہے سبیل کے معنی راستے کے ہیں اور اس کی اضافت اللہ کی طرف دینے سے بحوالہ مذکورہ ثابت ہوتا ہے کہ سڑک کی تعمیر کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے سڑک کی تعمیر میں پورے انہماک کا ثبوت دیا ہے۔ علامہ ہاشم بحرینی کتاب مدینة المعاجر کے صفحہ۷۹ پر بحوالہ ابن شہر آشوب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علیؑ نے ۱۷ میل تک اپنے ہاتھوں سے زمین ہموار کی اور سڑک تعمیر فرمائی اور ہر میل پر پتھر نصب کر کے ان پر (ہَذَامیل عَلی )تحریر فرمایا۔ چونکہ اس زمانہ میں نقل و حمل کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اس لیے ان وزنی پتھروں کو جنہیں بڑے قومی ہیکل لوگ اٹھا نہ سکتے تھے ۔ حضرت علیؑ خود اٹھا کر لے جاتے تھے اور نصب کرتے تھے اور اٹھانے کی شان یہ تھی کہ دو پتھروں کو ہاتھوں میں لے لیتے اورا یک کو پیروں کی ٹھوکر وں سے آگے بڑھاتے اس طرح تین تین پتھر لے جا کر ہر میل پر سنگ میل نصب کرتے تھے ۔ علامہ شبلی نے حضرت عمر کے محکمہ جنگی کی ایجاد کو الفاروق میں بڑے شدو مد سے لکھا ہے ۔ لیکن حضرت علیؑ کی اس اہم رفاہی خدمت کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت علیؑ کی یہ وہ بنیادی خدمت ہے۔ جس کا جواب نا ممکن ہے۔

حضرت عثمان کی خلافت اور وفات

            مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرات شیخین کی وفات کے بعد مسئلہ خلافت پھر زیر بحث لایا گیا ۔ا ور حضرت علی سے کہا گیا کہ آپ سیرت شیخین پر عمل پیرا ہونے کا وعدہ کیجئے توآپ کو خلیفہ بنا دیا جائے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں خدا اور رسول اور اپنی صائب رائے پر عمل کروں گا۔ لیکن سیرت شیخین پر عمل نہیں کر سکتا۔(طبری جلد ۵ ص ۳۷ شرح فقہ اکبر ص ۸۰)اس جواب کے بعد لوگوں نے اسی کے اقرار کے ذریعہ سے حضرت عثمان کو خلیفہ بنا دیا۔ حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں خوہش پروری ، اقربانو ازی کی۔ بڑے بڑے اصحاب رسول کو جلا وطن کیا۔ بیت المال کے مال میں بے جا تصرف کیا۔ اپنی لڑکی کے لیے محل تعمیر کرائے ۔ مروان بن حکم کو اپنا داماد اور وزیر اعظم بنا لیا۔ حالانکہ رسول اللہ اسے شہر بدر کر چکے تھے۔ اورشیخین نے بھی اسے داخل مدینہ نہیں ہونے دیا تھا۔ فدوک اس کے حوالے کر دیا۔ بعض معز زاصحاب کو پٹوایا گزرے ہوئے عہد میں جو قرآن رائج تھے جمع کر کے جلوادیا ۔(تاریخ القرآن ص ۳۶ طبع جدہ )جن اصحاب نے اپنے قرآن نہ دئیے انہیں مسجد میں اتنا پٹوایا کہ پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ حضرت عائشہ ام المومنین کا وظیفہ بند کر دیا اور حضرت محمد ابن ابی بکر کو قتل کر دینے کی پوری سازش کی۔ انہیں حالات کی وجہ سے نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ حضرت عائشہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ”اَقتَلو نَعثلاََ “اس لمبی ڈاڑھی والے کو قتل کر دو۔ ۵۷ یہ فرمانے کے بعد آپ حج کو تشریف لے گئیں۔ آپ کے جانے کے بعد لوگوں نے عثمان کو قتل کر ڈالا۔ جب آپ کو مکہ میں قتل عثمان کی اطلاع ملی تو آپ بہت خوش ہوئیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کے میت پر حضرت علیؑ مدینہ میں ہونے کے باوجود نماز جنازہ نہیں پڑھ سکے۔ آپ کی لاش کوڑے پر ڈال دی گئی، اور کتوں نے ایک ٹانگ کھا لی ۔ ۵۸ الغرض آپ ۱۸ذی الحجہ ۳۵ ء ھ یوم جمعہ ۸۸ سال کی عمر میں قتل ہو کر یہودیوں کے قبرستان (حش کو کب)میں دفن ہوئے۔

حضر ت علیؑ کی خلافت ظاہری

            پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد سے حضرت علیؑ گوشہ نشینی کے عالم میں فرائض منصبی ادا فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ خلافت کے تین دور اسلام کی تقدیر کے چکر بن کر گذر گئے اور ۳۵ھء میں تخت خلافت خالی ہو گیا۔ ۲۳۔۲۴ سال کی مدت حالات کو پر کھنے اور حق و باطل کے فیصلہ کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بالآخر اصحاب اس نتیجہ پر پہنچے کہ تختِ خلافت حضرت علیؑ کو بلا شرط حوالہ کر دینا چاہیے چنانچہ اصحاب کا ایک عظیم گروہ حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس گروہ میں عراق، مصر، شام حجاز، فلسطین اور یمن کے نمائندے شامل تھے۔ ان لوگوں نے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی۔

            حضرت علیؑ نے فرمایا مجھے اس کی طرف رغبت نہیں ہے۔ تم کسی اور کو خلیفہ بنا لو۔ا بن خلدون کا بیان ہے کہ جب لوگوں نے اسلام کے انجام سے حضرت کو ڈرایا، توآپ نے رضا ظاہر فرمائی۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں خلیفہ ہو جاؤں گا تو تمہیں حکم خدا وند ی ماننا پڑے گا۔ بہر حال آپ نے ظاہری خلافت قبول فرمالی۔ مصنف بریف سروینے لکھا ہے کہ علیؑ ۶۵۵ء ھ میں تختِ خلافت پر بٹھائے گئے۔جو حقیقت کے لحاظ سے رسول کی رحلت کے بعد ہی ہونا چاہیے تھا۔ ۵۹ روضتہ الاحباب میں ہے کہ خلافت ظاہر یہ قبول کرنے کے بعدآپ نے جو پہلا خطبہ پڑھا اس کی ابتداء ان لفظوں سے تھی۔ ”اَلَحمد لِلہ عَلی اِحسَانِہِ قَد رَجَعَ الحَقَ اِلیٰ مَکانِہِ “خدا کا لاکھ لاکھ شکر اور اس کا احسان ہے۔ کہ اس نے حق کو اپنے مرکز اور مکان پر پھر لا موجود کیا۔ تاریخ اسلام اور جامع عباسی میں ہے کہ ۱۸ ذی الحجہ کو حضرت علیؑ نے خلافت ظاہر یہ قبول فرمائی اور ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ ھئکو بیعت عامہ عمل میں آئی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں ہے کہ جب محمد صاحب نے انتقال فرمایا۔ تو علی میں مذہب اسلام کے مسلم الثبوت سردار ہونے کے حقوق موجود تھے۔ لیکن دوسرے تین صاحب ابو بکر و عمر و عثمان نے جائے خلافت پر قبضہ کر لیااور علیؑ ملقب بہ خلیفہ نہ ہوئے لیکن بعد عثمان ۶۵۶ھء میں علی خلیفہ ہو گئے ۔ علیؑ کے عہد خلافت میں سب سے پہلا کام طلحہ و زبیر کی بغاوت کو فرد کرنا تھا جنہیں بی بی عائشہ نے بہکا یا تھا۔ عائشہ علیؑ کی سخت دشمن تھیں اور خاص انہیں کی وجہ سے علیؑ اب تک خلیفہ نہ ہو سکے تھے۔ ۶۰ مورخ جرجی زیدان لکھتے ہیں کہ ”اگر حضرت عمر کے زمانہ میں جب لوگوں کے دلوں میں نبوت کی دہشت اور رسالت کی ہیبت قائم تھی اور سچا تدین قائم تھا۔ حضر ت علی مسلمانوں کے حاکم مقرر ہوتے تو آپ کی حکومت اور سیاست کہیں بہتر اور اعلیٰ ثابت ہوتی اور آپ کے کاموں میں ذرہ برابر بھی ضعف ظاہر نہیں ہوتا ۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آپ کے پاس خلافت کی خدمت اس وقت آئی جب لوگوں کی نیتیں فاسد ہو گئی تھیں۔ اور انتظامات ملکی اور اصول حکومت کے متعلق والیوں اور ما تحتوں کے دلوں میں حرص و طمع پیدا ہو گئی تھی۔ اور ان سب سے زیادہ طماع اور مکار معاویہ ابن ابی سفیان تھا،۔ کیونکہ اس نے اپنی حکومت جمانے کے لیے لوگوں کو دھوکا فریب دے کر،ان کے ساتھ مکر و حیلہ کر کے اور مسلمانوں کا مال بے دریغ لٹا کر لوگوں کو اپنی طرف کر لیا تھا۔ ۶۱

            فاضل معاصر سید ابن حسن جار چوی لکھتے ہیں کہ اگر علیؑ رسول کے بعد ہی خلیفہ تسلیم کر لیے جاتے تو دنیا منہاج رسالت پر چلتی اور راہوار سلطنت و حکومت دین حق کی شاہراہ پر سر پٹ دوڑتا مگر مصلحت اور دو ر اندیشی کے نام سے جو آئین و رسوم حکمران جماعت کا جزو زندگی اور اوڑھنا بچھونا بن گئے تھے۔ انہوں نے علیؑ کی پوزیشن نا ہموار اور ان کا موقف نا استوار بنا دیا تھا۔ پچھلے دور کی غیر اسلامی رسموں اور امتیاز پسند ذہنیتوں کی اصلاح کرنے میں ان کو بڑی دقت ہوئی اور پھر بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ طبعیتیں عدم مساوات کی خوگر اور معاشرتی عدل سے کوسوں دور ہو چکی تھیں۔ علیؑ نے بیعت کے دوسرے روز بیت المال کا جائز لیا اور سب کو برابر برابر تقسیم کر دیا۔ حبشی غلام اور قریشی سردار دونوں کو دو دو درہم ملے اس پرپیشانی پر سلوٹیں پڑنے لگیں۔ بنی امیہ کو اس دور میں اپنی دال گلتی نظر نہ آئی۔ کچھ معاویہ سے جا ملے کچھ ام المومنین عائشہ کے پاس مکہ جا پہنچے، اعثم کوفی کا بیان ہے کہ عائشہ حج سے واپس آ رہی تھیں کہ انہیں قتل عثمان کی خبر ملی۔ انہوں نے نہایت اشتیاق سے پوچھا کہ اب کون خلیفہ ہوا، کہا گیا کہ ”علی ؑ “یہ سن کر بالکل خاموش ہوئیں عبد اللہ ابن سلمہ نے کہا ۔ کیا آپ عثمان کی مذمت اور علیؑ کی تعریف نہیں کرتی تھیں اب نا خوشی کا سبب کیا ہے ؟فرمایا آخرکر وقت میں اس نے توبہ کر لی تھی اب اس کا قصاص چاہتی ہوں۔ ابن خلدون کا بیان ہے کہ عائشہ نے اعلان کرایا کہ جو شخص اسلام کی ہمدردی کرنا اور خون عثمان کا بدلہ لینا چاہتا ہواور اس کے پاس سواری نہ ہو وہ آئے اسے سواری دی جائے گی۔ بریف سر وے آف ہسٹری کا قول ہے کہ عائشہ جو علیؑ کی پرانی اور ہمیشہ کی دشمن تھیں۔ عداوت میں اس قدر بڑھ گئیں کہ ان کے معزول کرنے کے لیے ایک فوج جمع کر لی۔

            حضرت علیؑ کو ایک دوسری دقت یہ درپیش تھی کہ سارا عالم اسلام ان اموی عاملوں اور حاکموں سے تنگ آ گیا تھا۔ جو حضرت عثمان کے عہد میں مامور تھے اگر علیؑ ان کو بدستور رہنے دیتے تو حکومت کے با وجود جمہور کو چین نہ ملتا اور اگر ہٹاتے ہیں تو مخالفوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں حکام و عامل مدت سے خود سری کے عادی اور بیت المال کو ہضم کرنے کے خوگر ہو چکے تھے۔ اکثر ان میں ایسے تھے جن کے باپ دادا یا عزیز و اقربا علیؑ کی تلوار سے موت کے گھاٹ اتر چکے تھے یا علیؑ کے کھرے اور بے لوث عدل و انصاف کا تماشہ دیکھ چکے تھے ۔ ان کو نظر آ رہا تھا کہ علی ہیں تو ہم نہیں رہ سکتے اور رہے بھی تو من مانی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے وہ کمین گاہ تلاش کی جہاں بیٹھ کر وہ دامادِ رسول پر تیر چلا سکیں۔ اور وہ مورچے بنائے اور گھاٹیاں کھودیں جن کی آڑ میں چھپ کر وہ نئی حکومت کو بیخ دُبن سے اکھاڑ سکیں۔ طلحہ و زہر جو خود حکومت کے خواہاں اور خلافت کے آرزو مند تھے۔ اور حضرت عائشہ کی حمایت اور مدد ان کو حاصل تھی۔ پہلے تو علیؑ سے بیعت کر بیٹھے، پھر لگے ان سے سازشیں کرنے ، ایک دن آئے اوربصرہ و کوفہ کی حکومت طلب کرنے لگے۔ حضرت علیؑ نے کہا مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ مدینہ میں رہو اور روز مرہ کے کارو بار میں میری مدد کرو۔ دوسرے دن وہ مکہ جانے کی اجازت مانگنے آئے۔ واشنگٹن ایرونگ لکھتا ہے، ایسی حالت میں کہ لب پر تقویٰ اور دل میں مکر تھا یہ عائشہ سے جا ملے جو مخالفت کے لیے تیار تھیں۔ یہی مورخ لکھتا ہے۔

            علی خلیفہ ہو گئے لیکن دیکھتے تھے کہ ان کی حکومت جمی نہیں ہے۔ گزشتہ خلیفہ کے زمانے میں بہت سی بد عنوانیاں پیدا ہو گئیں تھیں جن میں اصلاح کی ضرورت تھی اور بہت سے صوبے ان لوگوں کے ہاتھ میں تھے جن کی وفاداری پر ان کو مطلقاََ اعتماد نہ تھا۔ انہوں نے اصلاح عام کا ارادہ کیا، پہلی اصلاح یہ تھی کہ گورنر ہٹا دئیے جائیں لوگوں نے ان کے اس عمل کی مو افقت نہ کی۔ مگر علیؑ نے نا مانا

گورنروں کی تقرری

            نئے گورنروں کی تقرری فرما دی۔ آپ نے حالات حاضرہ کے پیش نظر اس عہدہ پر زیادہ ان لوگوں کو فائز کیا جن پر آپ کو کامل اعتماد تھا اور جو عہد سابق میں اپنے حقوق سرداری سے محروم رکھے گئے تھے ۔ آپ نے عبد اللہ کو یمن کا سعید کو بحرین کا۔ سماعہ کو تہامہ کا۔ عون کو یمامہ کا قثم کو مکہ کا۔ قیس کو مصر کا عثمان بن حنیف کو بصرہ کا ۔ عمار کو کوفہ کا اور سہل کو شام کا گورنر مقرر فرمادیا۔

            (حضرت علیؑ کو )صلاح دی گئی کہ وہ معاویہ کواپنی جگہ رہنے دیں۔۔۔مگر علیؑ نے ایسی صلاحوں پر توجہ نہ کی، اور قسم کھائی کہ میں راستی سے منحرف امور پر عمل نہ کروں گا۔ احسان اللہ عباسی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں ۔علیؑ نے سیدھے طور پر جواب دیا کہ میں امت رسول پر برے لوگوں کو حکمران نہیں رکھ سکتا۔ علامہ جرجی زیدان تاریخ تمدن اسلامی میں لکھتے ہیں۔”یہ امر پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ ابو سفیان اوراس کی اولاد نے محض مجبوری کے عالم میں اسلام قبو ل کیا تھا۔ کیونکہ ان کو اپنی کامیابی سے مایوسی ہو چکی تھی۔ اس لیے معاویہ کو خلافت کی آرزو محض دنیاوی اغراض کی وجہ سے پیدا ہوئی۔قریش کے چیدہ چیدہ سردا ران کے پاس جمع ہو گئے۔ اغراض نفسانی کی بنا پر منصب خلافت کا خاندان بنی ہاشم میں جانا ان کو بہت شاق گزر رہا تھا“۔

            عامل ہٹتے گئے اور کچھ معاویہ کے پاس شام میں اور کچھ ام المومنین عائشہ کے پاس مکہ میں جمع ہوتے گئے طلحہ و زبیر جا کرام المومنین سے ملے اور ”انتقام عثمان “کے نام سے ایک تحریک اٹھائی ۔ عبد اللہ ابن عامر اور یعلی بن امیہ نے جو معزول گورنر تھے اور بیت المال کا روپیہ لے کر بھاگ آئے تھے۔ مالی امدادی ۔ تاریخ اسلامی جلد ۳ صفحہ ۱۶۹میں ہے کہ بروایت صاحب روضتہ الاحباب و ابن خلدون ابن اثیر یعلی نے جناب عائشہ کو ساٹھ ہزار دینار جو چھ لاکھ درہم ہوتے ہیں اور چھ سو اونٹ اس غرض سے دئیے کہ علی ؑ سے لڑنے کی تیاری کریں۔ انہیں اونٹوں میں ایک نہایت عمدہ عظیم الجثہ اونٹ تھا جس کا نام ”عسکر “تھا اور جس کی قیمت بروایت مسعودی دو سو اشرفی تھی۔ مورخین کا بیان ہے کہ اسی اونٹ پر سوار ہو کر جناب ام المومنین عائشہ داماد رسول زوج تبول حضرت علی علیہ السلام سے لڑیں اور اسی اونٹ کی سواری کی وجہ سے اس لڑائی کو ”جنگ جمل “کہا گیا۔

جنگ جمل ۳۶ھ

            یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت علی قتل عثمان کے بعد ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ء ھج کو تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور آپ نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا جو کام کیا وہ قتل عثمان کی تحقیقات کے متعلق تھا ۔ نائلہ زوجہ عثمان اگرچہ کوئی شہادت نہ دے سکیں اور کسی کا نام نہ بتا سکیں۔ نیز ان کے علاوہ بھی کوئی چشم دید گواہ نہ مل سکاجس کی وجہ سے فوری سزائیں دی جائیں۔ لیکن حضرت علیؑ تحقیقات یقینیہ کا عزم صمیم کر چکے تھے ۔ ابھی آپ کسی نتیجہ پر نہ پہنچنے پائے تھے کہ مکہ میں سازشیں شروع ہو گئیں حضرت عائشہ جو حج سے فراغت کے بعد مدینہ کے لیے روانہ ہو چکی تھیں اور خلافت علیؑ کی خبر پانے کے بعد پھر مکہ میں جا کر فروکش ہو گئی تھیں۔ انہوں نے چار یاران، طلحہ زبیر، عبد اللہ ، ابو یعلی کے مشورے سے ”انتقام خون عثمان “کے نام سے ایک سازشی تحریک کی بنیاد ڈال دی اور قتل عثمان کا الزام حضرت علی علیہ السلام پر لگا کر لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس کا اعلان کرا دیا کہ جس کے پاس علیؑ سے لڑنے کے لیے مدینہ جانے کے واسطے سواری نہ ہو، وہ ہمیں اطلاع دے ہم سواری کا بندو بست کریں گے۔ اس وقت علی کے دشمنوں کی کمی نہ تھی۔کسی کو آپ سے بغض للہی تھا۔ کوئی جنگ بدر میں اپنے کسی عزیز کے مارے جانے سے متاثر تھا۔ کسی کو پروپیگنڈے نے متاثر کر دیا گیا تھا۔ غرضیکہ ایک ہزار افراد حضرت عائشہ کی آواز پر مکہ میں جمع ہو گئے ، اور پروگرام بنایا گیا کہ سب سے پہلے بصرہ پر چھاپا مارا جائے۔ چنانچہ آپ انہیں مذکورہ چاروں افراد کے ممینہ اور میسرہ پر مشتمل لشکر لے کر بصرہ کی طرف روانہ ہو گئیں۔آپ کے ساتھ ازواج نبی میں سے کوئی بھی بی بی نہ گئی۔حضرت عائشہ کا یہ لشکر جب مقام ”ذات العرق“میں پہنچا تو مغیرہ اور سعید ابن عاص نے لشکر سے ملاقات کی اور کہ کہ تم اگر خون عثمان کا بدلہ لینا چاہتے ہو تو طلحہ اور زبیر سے لو۔ کیونکہ عثمان کے یہی قاتل ہیں اور اب تمہارے طرف دار بن گئے۔ تواریخ میں ہے کہ روانگی کے بعد جب ”مقام حواب “پر حضرت عائشہ کی سواری پہنچی اور کتے بھونکنے لگے تو ام المومنین نے پوچھا کہ یہ کونس مقام ہے۔ کسی نے کہا اسے”حواب “کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے ام سلمہ کی یاد دلائی ہوئی حدیث کا حوالہ دے کر کہا کہ میں اب علیؑ سے جنگ کے لیے نہیں جاؤں گی۔ کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میری بیوی پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ حق پر نہ ہو گی۔ لیکن عبد اللہ ابن زبیر کے ضد کرنے سے آگے بڑھیں، بالآخر بصرہ جا پہنچیں اور وہ وہاں کے علوی گور نر عثمان بن حنیف پر شبخون مارا اور چالیس آدمیوں کو مسجد میں قتل کرا دیا اور عثمان بن حنیف کو گرفتار کرا کے ان کے سر، ڈاڑھی، موچھ ، بھویں اور پلکوں کے بال نچوا ڈالے ۔ اور انھیں چالیس کوڑے مار کر چھوڑ دیا۔ان کی مدد کے لیے حکیم ابن جبلة آئے تو انھیں بھی ستر آدمیوں سمیت قتل کر دیا گیا۔اس کے بعد بیت المال پر قبضہ نہ دینے کی وجہ سے سترآدمی اور شہید ہوئے۔یہ واقعہ ۲۵ربیع الثانی ۳۶ئہجری کا ہے۔۶۲

            حضرت علی ؑ کو جب اطلاع ملی تو آپ نے بھی تیاری شروع کردی۔ابھی آپ بصرہ کی طرف روانہ نہ ہونے پائے تھے کہ مکہ سے ام المومنین حضرت ام سلمہ کا خط آگیا۔جس میں لکھا تھا کہ عائشہ حکم خدا و رسول کے خلاف آپ سے لڑنے کے لیے مکہ سے روانہ ہو گئی ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ میں عورت ہوں حاضر نہیں ہوسکتی۔اپنے بیٹے عمر ابن ابی سلمہ کو بھیجتی ہوں اس کی خدمت قبول فرمائیے۔(اعثم کوفی)

            حضرت علی ؑ آخرربیع الاول ۳۶ئھج میں اپنے لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہوئے آپ نے لشکر کی علمداری محمد حنفیہ ؑ کے سپر د کی اور میمنہ پر امام حسن ؑ اور میسرہ پر امام حسین ؑ کو متعین فرمایااور سواروں کی سرداری عمار یاسر اور پیادوں کی نمائندگی محمد ابن ابی بکر کے حوالہ کی اور مقدمة الجیش کا سردار عبداللہ ابن عباس کو قرار دیا۔مقام ربذہ میں آپ نے قیام فرمایا۔اور وہاں سے کوفہ کے والی ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ فوج روانہ کرے۔لیکن چونکہ وہ عائشہ کے خط سے پہلے ہی متاثر ہوچکا تھا۔لہٰذا اس نے فرمان علوی کو ٹال دیا۔حضرت کومقام ذی قار پر حالات کی اطلاع ملی،آپ نے اسے معزول کرکے قرظہ ابن کعب کو امیر نامزدکر دیااور مالک اشتر کے ذریعہ سے دارالامارہ خالی کرالیا۔(طبری)اس کے بعد امام حسن ؑ کے ہمراہ ۷ہزار کوفی اور مالک اشتر کے ہمراہ ۱۲ہزار کوفی ۶دن کے اندرذی قارپہنچ گئے۔اسی مقام پر اویس قرنی نے بھی پہنچ کربیعت کی۔اسی مقام پر ان خطوط کے جواب آئے۔جوربذہ سے حضرت نے طلحہ وزبیر کو لکھے تھے۔جن میں ان کی حرکتوں کا تذکرہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ اپنی عورتوں کو گھر میں بٹھا کر ناموس رسول کو جودربدر پھرارہے ہو۔اس سے باز آجاؤ۔جوابات میں اسکیم کے ماتحت قتل عثمان کی رٹ تھی۔اس کے بعد امام حسن ؑ نے ایک خطبہ میں طلحہ وزبیر کے قاتل عثمان ہونے پر روشنی ڈالی۔حضرت ابھی مقام ذی قارہی میں تھے کہ مظلوم عثمان بن حنیف آپ کی خدمت میں جاپہنچے۔حضرت نے عثمان کا حال دیکھ کر بے حدافسوس کیااور فوراََبصرہ کی طرف روانہ ہوگئے مصنف تاریخ آئمہ لکھتے ہیں کہ عائشہ کے لشکر کی آخری تعداد ۳۰ہزار اور حضرت علی ؑ کے لشکر کی تعداد ۲۰ہزار تھی علامہ عباسی لکھتے ہیں کہ حضرت علی ؑ،طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے تمام حالات دیکھ رہے تھے۔لیکن یہی چاہتے تھے کہ لڑائی نہ ہو۔جب بصرہ کے قریب آپ پہنچے تو قعقاع ابن عمر وکوان لوگوں کے پاس بھیجااور صلح کی پیش کش کی قعقاع نے جو رپورٹ واپس ہو کر پہنچائی اس سے وہ لوگ تو متاثر ہوئے جو زیرقیادت عاصم ابن کلیب حضرت علی ؑ کے پاس بطور سفیر آئے ہوئے تھے اور ان کی تعداد سوتھی لیکن عائشہ وغیرہ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔عاصم وغیرہ نے علی ؑ کی بیعت کر لی اور اپنی قوم سے جاکر کہا کہ علی ؑ کی باتیں نبیوں جیسی ہیں۔غرضیکہ دوسرے دن علی بصرہ پہنچ گئے۔اس کے بعد جمل والے بصرہ سے نکل کر مقام زابوقہ یاخربیہ میں جاکرٹھہرے اور وہاں سے علی کے مقابلہ کے لیے حضرت عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر خود نکل پڑیں۔حضرت علی ؑ نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ عائشہ اور ان کے لشکر پر نہ حملہ کریں۔نہ ان کا جواب دیں۔غرضیکہ وہ جنگ کی کوشش کرکے واپس گئیں۔اس کے بعد علی نے زیدابن صوحان کو ام المومنین کے پاس بھیج کر جنگ نہ کرنے کی خواہش کی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

            ۱۵جمادی الآخر ۳۶ئھج بروزجمعرات بوقتِ شب طلحہ وزبیر نے شبخون مارکر حضرت علی ؑ کو سوتے میں قتل کر ڈالنا چاہا۔لیکن علی ؑ بیدار تھے اور تہجد میں مشغول تھے حضرت کو حملہ کی خبر دی گئی۔آپ نے حکم جنگ دے دیا۔اس طرح جنگ کا آغاز ہوا۔

میدان کا رزار

            حضرت عائشہ کو طلحہ وزبیر لوہے اور چمڑے سے منڈھے ہوئے ہووج میں بیٹھا کر میدان میں لائے اور علمداری کا منصب بھی انھیں کے سپرد کیااور اس کی صورت یہ کی کہ ہووج میں جھنڈا نصب کرکے مہارناقہ،عسکریعلی کے سپرد کر دی۔یہ دیکھ کر حضرت علی رسول اللہ کے گھوڑے(دلدل)پرسوار ہو کر دونوں لشکروں کے درمیان آکھڑے ہوئے اور زبیر کو بلا کر کہا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو۔اب بھی سوچو اور اس پر غور کرو کہ رسول اللہ نے تم سے کیا کہا تھا اے زبیر کیا تمھیں مجھ سے جنگ کرنے کے یے منع نہیں کیا تھا یہ سن کر زبیر شرمندہ ہوئے اور واپس چلے آئے۔لیکن اپنے لڑکے عبداللہ کے بھڑکانے سے عائشہ کی طرف داری میں نبردآزمائی سے بازنہ آئے۔

            الغرض حضرت علی ؑ نے جب دیکھا کہ یہ جمل والے خونریزی سے بازنہ آئیں گے تو اپنی فوج کو خداترسی کی تلقین فرمانے لگے۔آپ نے کہا

(۱)بہادرو! صرف دفع دشمن کی نیت رکھنا

(۲)ابتداء بہ جنگ نہ کرنا

(۳)مقتولوں کے کپڑے نہ اتارنا

(۴)صلح کی پیش کش مان لینااور پیش کش کرنے والے کے ہتھیارنہ لینا

(۵)بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کرنا

(۶)زخمی بیمار اور عورتوں وبچوں پر ہتھیار نہ اٹھانا

(۷)فتح کے بعد کسی کے گھر میں نہ گھسنا۔

            اس کے بعد عائشہ سے فرمانے لگے تم عنقریب پشیمان ہوگی اور اپنے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا تم میں کون ایساہے جو قرآن کے حوالے سے انھیں جنگ کرنے سے بازرکھے۔یہ سن کر مسلم نامی ایک جانباز اس پر تیار ہوا،اور قرآن لے کر ان کے مجمع میں جاگھسا۔طلحہ نے اس کے ہاتھ کٹوادیئے۔پھر شہید کر ادیا۔

            حضرت علی ؑ کے لشکر پر تیروں کی بارش شروع ہوگئی بروایت طبری آپ نے فرمایااب ان لوگوں سے جنگ جائز اور ضروری ہوگئی ہے آپ نے محمد بن حنفیہ کوحکم دیا۔محمد کافی لڑکرواپس آئے۔علی ؑ نے علم لے کر ایک زبردست حملہ کیا اور کہا بیٹا اس طرح لڑتے ہیں۔پھر علم محمدبن حنفیہ کے ہاتھ میں دے کر کہا ہاں بیٹاآگے بڑھو،محمد حنفیہ انصار لے کر آگے بڑھے۔یہاں تک کہ ہووج تک مارتے ہوئے جاپہنچے۔بالآخرسات دن کے بعد حضرت علی ؑ خود میدان میں نکل پڑے اور دشمن کو پسپا کر ڈالا۔

            مروان کے زہرآلودتیر سے طلحہ مارے گئے اور زبیر میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔راستہ میں وادی السباع کے قریب عمر بن جرموزنے ان کا کام تمام کر دیا۔اس کے بعد حضرت عائشہ ۱۲ہزار جرارسمیت آخری حملہ کے لیے سامنے آگئیں۔علوی لشکر نے اس قدر تیربرسائے کہ ہووج پشت ساہی کی مانند ہو گیاحضرت عائشہ نے کعب ابن اسود کو قرآن دے کر حضرت علی ؑ کے لشکر کی طرف بھیجا۔مالک اشتر نے اسے راستہ ہی میں قتل کر دیا۔اس کے بعد عائشہ کے ناقہ کو پے کر دیا گیا۔اونٹ ہووج سمیت گرپڑا۔اور لوگ بھاگ نکلے۔حضرت علی ؑ نے محمد بن ابی بکر کوحکم دیا کہ ہووج کے پاس جاکر اس کی حفاظت کریں اس کے بعد خود پہنچ کر کہنے لگے عائشہ تم نے حرمت رسول برباد کر دی۔پھر محمد سے فرمایا کہ انھیں عبداللہ ابن حنیف خزاعی بصری کے مکان میں ٹھہرائیں۔حضرت نے کشتوں کودفن کرنے کا حکم دیااور اعلان عام کرایا کہ جس کا سامان جنگ میں رہ گیاہوتو جامع بصرہ میں آکرلے جائے۔مسعودی نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں ۱۳ہزار عائشہ کے اور ۵ہزار حضرت علی ؑ کے لشکر والے مارے گئے۶۳مورخین کا بیان ہے کہ فتح کے بعد عبدالرحمن ابن ابی بکر نے حضرت علی ؑ کی بیعت کر لی۔مسعودی اور اعثم کوفی نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؑ نے عائشہ کو متعدد آدمیوں سے کہلابھیجا کہ جلد سے جلد مدینہ واپس چلی جاؤ۔لیکن انھوں نے ایک نہ سنی۔آخر میں بروایت روضة الاحباب وحبیب السیرواعثم کو فی امام حسن ؑ کے ذریعہ سے کہلا بھیجا کہ اگر تم اب جانے میں تاخیر کروگی تو میں تمھیں زوجیت رسول سے طلاق دے دوں گا۔یہ سن کر وہ مدینہ جانے کے لیے تیار ہوگئیں۔حضرت علی ؑ نے چالیس عورتوں کومردوں کے سپاہیانہ لباس میں حضرت عائشہ کی حفاظت کے لیے ساتھ کردیااور خود بھی بصرہ سے باہر کئی میل تک پہنچانے گئے۔۶۴اور محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ انھیں منزل مقصود تک جاکر پہنچاآؤ۔ایرونگ لکھتا ہے کہ عائشہ کو علی کے ہاتھوں سخت برتاؤ کی امید ہو سکتی تھی۔لیکن وہ عالی حوصلہ شخص ایسا نہ تھا جو ایک گرے ہوئے دشمن پر شان دکھاتا۔انھوں نے عزت کی اور چالیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا۔

            اس کے بعد حضرت علی ؑ نے بصرہ کے بیت المال کا جائزہ لیا ۶لاکھ درآبدار برآمد ہوئے آپ نے سب اہل معرکہ پر تقسیم کر دیااور عبداللہ ابن عباس کو وہاں کا گورنر مقرر کر کے بروزپیر ۳۶ئھج کو کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر کچھ دنوں قیام کیاا ور دوران قیام میں کوفہ ۔عراق خراسان ،یمن،مصراور حر مین کا انتظام کیا۔غرض شام کے سوا تمام ممالک اسلامی پر حضرت کا تسلط ہو گیا۔اور قبضہ بیٹھ گیا۔پھر اس اندیشہ سے کہ معادیہ عراق پر قبضہ نہ کرلے کو فہ کو دار الخلافہ بنالیا۔  

            ابن خلدون لکھتا ہے کہ جمل کے بعد سیستان میں بغاوت ہوئی حضرت نے ربعی ابن کاس عنبری کو بھیج کر اسے فرو کر ایا۔

خراسان میں رفع بغاوت کیلئے علوی فوج کی جنگ اور جناب شہربانوکالایاجانا

            تاریخ اسلامی میں ہے کہ عہد عثمانی میں اہل فارس نے بغاوت وسرکشی کرکے عبداللہ ابن معمروالی فارس کو مارڈالااور حدود فارس سے لشکر اسلام کو نکال دیا۔اس وقت فارس کی لشکری چھاؤنی مقام ’اصطخر‘ تھا۔ایران کا آخری بادشاہ یزوجردابن شہر یار ابن کسریٰ اہل فارس کے ساتھ تھا۔حضرت عثمان نے عبداللہ ابن عامر کو حکم دیا کہ بصرہ اور عمان کے لشکر کو ملا کر فارس پر چڑھائی کرے۔اس نے تعمیل ارشاد کی۔حدود اصطخہ میں زبردست جنگ ہوئی مسلمان کا میاب ہوگئے اور اصطخرفتح ہو گیا۔

            اصطنحر کے فتح ہونے کے بعد ۳۱ئہجری میں یزدجرد مقام رے اور پھر وہاں سے خراسان اور خراسان سے مروجاپہنچا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔اس کے ہمراہ چار ہزار آدمی تھے،مرد میں وہ خاقان چین کی سازشی امداد کی وجہ سے ماراگیا۔اور شاہان عجم کے گورستان اصطخر میں دفن کر دیا گیا۔

            جنگ جمل کے بعد ایران خراسان کے اسی مقام مرو میں سخت بغاوت ہوگئی۔اس وقت ایران میں بروایت ارشاد مفید وروضة الصفا”حرث ابن جابر جعفی“گورنر تھے۔حضر ت علی ؑ نے مرد کے قضیہ نامرضیہ کو ختم کرنے کے لیے امدادی طورپر خلیدابن قرئہ یربوعی کو روانہ کیا۔وہاں جنگ ہوئی اور حریث ابن جابر جعفی نے یزد جردا بن شہر یار ابن کسریٰ(جوعہد عثمانی میں مارا جا چکا تھا)کی رو بیٹیاں عام اسیروں میں حضرت علی ؑ کی خدمت میں ارسا ل کیں۔ایک کا نام”شہر بانو“اور دوسری کا نام ”کیٰھان بانو“تھا۔حضرت نے شہر بانو امام حسین ؑ کو اور گیہان بانو محمد ابن ابی بکر کو عطا فرمائیں۔

             ملاحظہ ہو‘ارشاد مفید ج ۲ص۲۹۳اعلام الوری ص۱۵۱،روضة الصفاج ۳ص۵۴۳،عمدة الطالب ص۱۷۱،جامع التواریخ ص۱۴۹،کشف الغمہ ص ۸۹،مطالب السول ص۲۶۱،صواعق محرقہ ص ۱۲۰،نورالابصارص۱۲۶، تحفہ سلیمانیہ شرح ارشادیہ ص ۳۹۱طبع ایران۔

جنگ صفین ۳۷۔۳۶

            صفین نام ہے اس مقام کا جو فرات کے غربی جانب برقہ اور بالس کے درمیان واقع ہے۔۶۵اسی جگہ امیرالمومنین اورمعاویہ میں زبردست جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ کے متعلق علماء ومورخین کا بیان ہے کہ بانی جنگ جمل عائشہ کی مانند معاویہ بھی لوگوں کو قتل عثمان کے فرضی افسانہ کے حوالہ سے حضرت علی ؑ کے خلاف بھڑ کاتا اور ابھارتا تھا۔جنگ جمل کے بعد حضرت علی ؑ کے شام پر مقرر کئے ہوئے حاکم سہل ابن حنیف نے کوفہ آکر حضرت کو خبر دی کہ معاویہ نے اعلان بغاوت کر دیاہے،اور عثمان کی کٹی ہوئی انگلیوں اور خون آلود کرتا لوگوں کو دکھا کر اپنا ساتھی بنا رہا ہے اور اور یہ حالت ہو چکی ہے کہ لوگوں نے قسمیں کھالی ہیں کہ خون عثمان کابدلہ لیے بغیر نہ نرم بستر پر سوئیں گے نہ ٹھنڈا پانی پئیں گے۔عمر وعاص وہاں پہنچ چکا ہے جو اسے مدددے رہا ہے۔حضرت علی ؑنے معاویہ کو ایک خط مدینہ سے ،دوسرا کوفہ سے ارسال کرکے دعوتِ بیعت دی۔لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔معاویہ جو جمع لشکر میں مشغول و مصروف تھا۔ایک لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل لشکر لے کر مقام صفین میں جاپہنچا ۔حضرت علی علیہ السلام بھی شوال ۳۶ء میں نخیلہ اور مدائن ہوتے ہوئے۔مقام رقہ میں جاپہنچے۔حضرت کے لشکر کی تعداد ۹۰ہزار تھی۔راستہ میں لشکر سخت پیاسا ہو گیا،تو ایک راہب کے اشارہ سے حضرت نے زمین سے ایک ایسا چشمہ برآمد کیا جو نبی اور وصی کے سوا کسی کے بس کا نہ تھا۔۶۶حضرت نے اپنے لشکر کو سات حصوں میں تقسیم کیا۔اور معاویہ نے بھی سات ٹکڑے کر دیئے۔مقام رقہ سے روانہ ہو کر آبِ فرات عبور کیا۔حضرت کے مقدمةالجیش سے معاویہ کے مقدمہ نے مزاحمت کی اور وہ شکست کھا کر معاویہ سے جاملا۔حضرت علی ؑ کا لشکر جب واردصفین ہوا تو معلوم ہوا کہ معاویہ نے گھاٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور علوی لشکر کو پانی دینا نہیں چاہتا۔حضرت نے کئی پیغامبر بھیجے اور بندش آب کو توڑنے کے لیے کہا۔مگر سماعت نہ کی گئی۔بالآخر فوج نے زبردست حملہ کرکے گھاٹ چھین لیا۔مورخین کا بیان ہے کہ گھاٹ پر قبضہ کرنے والوں میں امام حسین ؑ اور حضرت عباس ابنِ علی ؑ نے کمال جرات کا ثبوت دیا تھا۔ملا خطہ ہو(ذکرالعباس ص۲۶ مولفہ حقیر)حضرت علی ؑ نے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد اعلان کرادیا کہ پانی کسی کے لیے بند نہیں ہے۔مطالب السول میں ہے کہ حضرت علی باربار معاویہ کو دعوت مصالحت دیتے رہے۔لیکن کوئی اثرنہ ہوا۔آخر کار ماہ ذی الحجہ میں لڑائی شروع ہوئی اور انفرادی طورپر سارے مہینہ ہوتی رہی۔محرم ۳۷ئھج میں جنگ بندررہی۔اور یکم صفر سے گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ایرونگ لکھتا ہے علی ؑ کو اپنی مرضی کے خلاف تلوار کھینچنی پڑی....چار مہینے تک چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں۔جن میں معاویہ کے ۴۵ہزار آدمی کام آئے اور علی ؑ کی فوج نے اس سے آدھا نقصان اٹھایا۔ذکر العباس ص۲۷میں ہے۔کہ امیرالمومنین اپنی روایتی بہادری سے دشمن اسلام کے چھکے چھڑا دیتے تھے عمر و بن العاص اور بشر ابن ارطاة پر جب آپ نے حملے کئے تو یہ لوگ زمین پر لیٹ کر برہنہ ہو گئے۔حضرت علی نے منہ پھیر لیا یہ اٹھ کر بھاگ نکلے۔معاویہ نے عمر وعاص پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہا کہ”درپناہ عورت خود گریختی“تونے اپنی شرمگاہ کے صدقہ میں جان بچالی۔مورخین کا بیان ہے کہ یکم صفر سے سات شبانہ روز جنگ جاری رہی ۔لوگوں نے معاویہ کو مشورہ دیا کہ علی ؑ کے مقابلہ میں خود نکلیں۔مگر وہ نہ مانے ۔ایک دن جنگ کے دوران میں علی ؑ نے بھی یہی فرمایا تھا کہ اے جگر خوارہ کے بیٹے کیوں مسلمانوں کو کٹوار ہا ہے تو خود سامنے آجا۔اور ہم دونوں آپس میں فیصلہ کن جنگ کر لیں۔بہت سی تواریخ میں ہے کہ اس جنگ میں نوے لڑائیاں وقوع میں آئیں۔۱۱۰روزتک فریقین کا قیام صفین میں رہا۔معاویہ کے نوے ہزار اور حضرت علی ؑ کے بیس سپاہی مارے گئے اور ۱۳صفر۳۷ئھج کو معاویہ کی چال بازیوں اور عوام کی بغاوت کے باعث فیصلہ حکمین کے حوالے کرنے جنگ بند ہو گئی۔تواریخ میں ہے کہ حضرت علی ؑنے جنگ صفین میں کئی بار اپنا لباس بدل کر حملہ کیا ہے۔ایک مرتبہ ابن عباس کا لباس پہنا۔ایک بار عباس ابن ربیعہ کا بھیس بدلا۔ایک دفعہ عباس ابن حارث کا روپ اختیار کیا اور جب کریب ابن صباح حمیری مقابلہ کے لیے نکلا تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت عباس ؑ کا لباس بدلااور زبردست حملہ کیا۔ملاخطہ ہو مناقب اخطب خوارزمی ص۱۹۶قلمی)لڑائی نہایت تیزی سے جاری تھی کہ عمار یا سرجن کی عمر ۹۳سال تھی،میدان میں آنکلے اور ۱۸شامیوں کو قتل کرکے شہید ہو گئے حضرت علی ؑ نے آپ کی شہادت کو بے حدمحسوس کیا....ایرونگ لکھتا ہے کہ عمار کی شہادت کے بعد علی ؑ نے بارہ ہزار سواروں کو لے کر پر غضب حملہ کیااور دشمنوں کی صفین الٹ دیں اور مالک اشتر نے بھی بے شمارزبردست حملے کئے دوسرے دن صبح کوحضرت علی ؑ نے پھر لشکر معاویہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ لوگوسن لو کہ احکام خدا معطل کئے جارہے ہیں۔اس لیے مجبوراََ لڑرہاہوں اس کے بعد حملہ شروع کر دیااور کشتوں کے پشتے لگ گئے۔

لَیلَةُ الہرِیر

            جنگ نہایت تیزی کے ساتھ جاری تھی،میمنہ اور میسرہ عبداللہ اور مالک اشتر کے قبضہ میں تھا،جمعہ کی رات تھی،ساری رات جنگ جاری رہی،براویت اعثم کوفی۳۶ہزار سپاہی طرفین کے مارے گئے۹۰۰آدمی حضرت علی ؑ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔لشکر معاویہ سے اَلغِیَاثُ اَلغِیَاثُ کی آوازیں بلند ہو گئیں۔یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور دوپہر تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔مالک اشتر دشمن کے خیمہ تک جاپہنچے قریب تھا کہ معاویہ زدمیں آجائے اور لشکر بھاگ کھڑا ہوناگاہ عمر وبن عاص نے۵۰۰قرآن نیزوں پر بلند کرادیئے اور آواز دی کہ ہمارے اور تمھارے درمیان قرآن ہے،وہ لوگ جو معاویہ سے رشوت کھاچکے تھے فوراََ تائید کے لیے کھڑے ہوگئے اور اشعت ابن قیس۔مسعودابن ندک زید ابن حصین نے عوام کو اس درجہ ور غلایا کہ وہ لوگ وہی کچھ کرنے پر آمادہ ہوگئے جو عثمان کے ساتھ کر چکے تھے۔مجبوراََ مالک اشتر کو بڑھتے ہوئے قدم اور چلتی ہوئی تلوار روکنا پڑی۔مورخ گبن لکھتا ہے کہ امیر شام بھاگنے کا تہیہ کر رہا تھا۔لیکن یقینی فتح فوج کے جوش اور نافرمانی کی بدولت علی ؑ کے ہاتھ سے چھین لی گئی۔جرجی زیدان لکھتا ہے کہ نیزوں پر قرآن شریف دیکھ کر حضرت علی ؑ کی فوج کے لوگ دھوکا کھا گئے...ناچار علیؑ کو جنگ ملتوی کرنا پڑی۔بالآخر عوام نے معاویہ کی طرف سے عمروعاص اور حضرت کی طرف سے ان کی مرضی کے خلاف ابوموسیٰ اشعری کو حکم مقرر کرکے ماہِ رمضان میں بمقام ”ذومة الجندل“فیصلہ سنانے کو طے کیا۔

حکمین کا فیصلہ

            الغرض ماہِ رمضان میں بمقام”اذرح“چار چا ر سوافراد سمیت عمر وبن العاص اور ابوموسیٰ اشعر ی جمع ہوئے اور اپنا وہ باہمی فیصلہ جس کی روسے دونوں کو خلافت سے معزول کرنا تھا۔سنانے کا انتظام کیا۔جب منبر پر جا کر اعلان کرنے کا موقع آیا تو ابوموسیٰ نے عمروبن العاص کو کہا کہ آپ جاکر پہلے بیان دیں۔انھوں نے جواب دیا آپ بزرگ ہیں پہلے آپ فرمائیں۔ابوموسیٰ منبر پر گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں علی ؑ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں۔یہ کہہ کر اترآئے۔عمروبن العاص جس سے فیصلہ کے مطابق ابوموسیٰ کو یہ تو قع تھی کہ وہ بھی معاویہ کے عزل کا اعلان کردے گا۔لیکن اس مکارنے اس کے برعکس یہ کہا کہ میں ابوموسیٰ کی تائید کرتا ہوں اور علی کو حکومت سے ہٹاکرمعاویہ کو خلیفہ بناتا ہوں۔یہ سن کر ابوموسیٰ بہت خفا ہوئے۔لیکن تیرترکش سے نکل چکا تھا۔یہ سن کر مجمع پر سناٹاچھا گیا۔علی ؑ نے مسکراکر اپنے طرفداروں سے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ دشمن فریب دینے کی فکر میں ہے۔

جنگِ نہروان

            حکمین کے مہمل لغواور مکارانہ فیصلہ کو حضرت علی ؑ اور ان کے طرف داروں نے مسترد کردیااور دوبار ہ اعلیٰ پیمانہ پر فوج کشی کا فیصلہ اور تہیہ کر لیا،ابھی اس کی نوبت نہ آنے پائی تھی کہ خوارج کی بغاوت کی اطلاع ملی اور پتہ چلا کہ وہ لوگ جو صفین میں جنگ روکنے کے خلاف تھے۔اب حضرت کے سخت مخالف ہو کر مقام”حرورا“میں آرہے ہیں۔پھر معلوم ہوا کہ وہ لوگ بغداد سے چار فرسخ کے فاصلہ پر بمقام نہروان بتاریخ۱۰شوال۳۷ئھ جاپہنچے ہیں اور وہاں مسلمانوں کو ستار ہے ہیں۔ حضرت نے مجبوراََ ان پر چڑھائی کی ۔۱۲ہزار میں سے کچھ کوفہ اور مدائن چلے گئے۔اور کچھ نے بیعت کر لی۔چار ہزار آمادہ پیکار ہوئے۔بالآخرلڑائی ہوئی اور نوآدمیوں کے علاوہ سب مارے گئے۔اسی جنگ میں مشہور منافق وخارجی ذوالثد یہ بھی مارا گیا جس کا اصل نام موزج تھا۔اس کے ایک ہاتھ کی جگہ لمباساپسان بناہوا تھا اسی لیے اسے ذوالثدیہ کہا جاتا تھا۔

محمد ابن ابی بکر کی عبرتناک موت

            محمد ابن ابی بکر مصر کے گورنر تھے معاویہ نے چھ ہزار فوج کے ساتھ عمروبن العاص کو محمد سے مقابلہ کے لیے مصربھیج دیا۔محمد نے حضرت علی کو واقعہ کی اطلاع دی۔آپ نے فوراََ جنابِ مالک اشتر کو ان کی کمک میں مصر روانہ کر دیا۔معاویہ کوجب مالک اشتر کی روانگی کا پتہ چلا تو اس نے مقام عریش یا ملزم کے زمیندار کو خفیہ لکھ بھیجا کہ مالک اشتر مصر جارہے ہیں۔اگر تم انھیں دعوت وغیرہ کے ذریعہ سے قتل کر دو تو میں تمھارا خراج بیس سال کے لیے معاف کردوں گا۔اس شخص نے ایسا ہی کیا۔جب مالک اشتر پہنچے تو اس نے دعوت دی آپ کے لیے افطار صوم کا انتظام کیا۔اور دودھ میں زہر ملا کر دے دیا جناب مالک اشتر شہید ہو گئے۔ادھر عمر وعاص نے جناب محمد ابن ابی بکر پر مصر میں حملہ کر دیا۔آپ نے پورا پورا مقابلہ کیا لیکن نتیجہ پر گرفتار ہو گئے۔آپ کو معاویہ ابن خدیج نے معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم سے گدھے کی کھال میں سی کر زندہ جلا دیا۔حضرت عائشہ کو جب اس عبرت ناک موت کی خبر ملی تو آپ بے حدرنجیدہ ہوئیں اور تاحیات معاویہ اور عمر وعاص کے لیے ہر نماز کے بعد بددعا کرنے کوو طیرہ بنالیا(تاریخ کامل جلد۳ص۱۴۳ حیواة الحیوان وغیرہ)اس واقعہ سے امیرالمومنین ؑ کو بے حدرنج پہنچااور معاویہ کو خوشی ہوئی(طبری ابن خلدون مسعودی)یہ واقعہ صفر ۳۸ئھج کا ہے۔۶۷۔کتاب نہایةالارب فی معرفت انساب العرب مولفہ ابوالعباس احمد بن علی ابن ابی بکر مکہ و مدینہ کے درمیان ۱۰ئھج میں پیدا ہوئے تھے۔ان کی پرورش حضرت علی ؑ کی آغوش کرامت میں ہوئی تھی۔وفات ابوبکر بعد ان کی ماں اسمابنت عمیس سے حضرت نے عقدکر لیا تھا۔حضرت ان کو بے حد چاہتے تھے۔انھوں نے مدینہ میں سکونت اختیا کر رکھی تھی۔یہ جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے۔۳۷ء میں امیرالمومنین نے انھیں مصر کا گور نربنا دیا۔جب جنگ صفین سے امیرالمومنین بارادہ عراق روانہ ہو گئے۔تو معاویہ نے ایک بڑالشکر بھیج کر مصر پر حملہ کر ادیا۔کافی جنگ ہوئی بالا خر محمد کو شکست ہوئی۔”اختفی محمد فعرف معاویہ بن خدیج مکانہ قبض علیہ وقتلہ،ثم احرقہ“۔محمدبن ابی بکر روپوش ہوگئے۔لیکن معاویہ نے انھیں تلاش کرکے گرفتار کر لیا۔پھر انھیں قتل کرکے جلادیا۔وکان من العباد الزھاد“وہ بڑے عابد زاہد تھے۔تاریخ اعثم کوفی کے ص ۳۳۸ میں ہے کہ انھیں گدھے کی کھال میں سی کر جلوادیا تھا۔حضرت محمد بن ابی بکر کی شہادت کے نتیجے میں حضرت عائشہ کو بھی کنویں میں گراکر امیر معاویہ نے ختم کرادیا تھا۔۶۸اس کی قدر ے تفصیل آئندہ آئے گی۔

امام زین العابدین ؑ کی ولادت

            اسی سال ۳۸ھج کے جمادی الثانی کی پندرہ تاریخ کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جناب شہر بانو بنت یزدجرو ابن شہر یار ابن کسریٰ شاہِ ایران کے بطن سے پیدا ہوئے۔

ہندوستان میں ”اسلام“سب سے پہلے حضرت علی بن ابی طالب کے ذریعہ سے پہنچا

سندھ والوں کی آلِ محمد سے خصوصی عقیدت

            یہ ظاہر ہے کہ حضرت رسولِ کریم ﷺ کے بعد اسلام کی ساری ذمہ داری،امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب ؑ پر تھی۔جس طرح سرکار دوعالم اپنے عہد نبوت میں تابہ حیات ظاہری اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور اسے فروغ دینے میں تن من دھن کی بازی لگائے رہے۔اسی طرح ان کے بعد امیرالمومنین ؑ نے بھی اسلام کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے جہد مسلسل اور سعی پیہم کی اور کسی وقت بھی اس کی تبلیغ سے غفلت نہیں برتی۔یہ اور بات ہے کہ غصب اقتدار کی وجہ سے دائرہ عمل وسیع نہ ہو سکا اور حلقہ اثر محدود ہو کر رہ گیا۔تاہم فریضہ کی ادائیگی امامت کی خاموش فضا میں جاری رہی۔یہاں تک کہ اقتدار قدموں میں آیا اور منہاج نبوت پر کام شروع ہو گیا۔تبلیغ کے محدود حلقے وسیع ہوگئے۔امامت خلامت کے دوش بدوش گئے بڑھی اور اسلام کی روشنی ممالک غیر میں پہنچنے لگی۔ہندوستان جو کفر والحاد،اور غیراللہ کی پرستش کامرکز اور ملجاو ماویٰ تھا،امیرالمومنین ؑ نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ وہاں بھی اسلام کی روشنی پہنچانے کا عزم محکم کرلیااور تھوڑی سی جدوجہدی کے بعد وہاں اسلام کی کرن پہنچادی اور زمین ہند کو اسلامی تابندگی سے منور کر دیا،امام المورخین ابومحمد عبداللہ بن مسلم ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب”المعار ف کے ص۹۵ طبع مصر ۱۹۳۴ءء میں لکھتے ہیں ”اِنَّمَا بَلَغَ الاسلام فی السندھ اولاََ فی زمنِ اَمیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کمایشھد علیہ وفائع کثیرة“۔اسلام سندہ(ہندوستان میں سب سے پہلے امیرا لمومنین علی بن ابی طالب ؑ کے عہد میں پہنچا۔اس پر بہت سے واقعات شاہد ہیں۔چچ نامہ قلمی ص ۳۴میں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے ۳۸ئھج میں ناظربن وعوراء کو سرحدات سندھ کی دیکھ بھال کے لیے روانہ کیا۔یہ روانگی بظاہر اپنے مقصد کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر تھی اور یہ معلوم کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں کیونکہ داخلہ ہوسکتا ہے،اسی مقصد کے لیے اس سے قبل عہد عثمانی میں ،عبداللہ بن عامر ابن کریز کومقرر کیا گیا تھا۔مورخ بلاذری لکھتے ہیں کہ وہ ”ثغرالہند“کی طرف دریائی مہم پر روانہ ہوئے۔غرض یہ تھی کہ اس ملک کے حالات سے آگاہی حاصل ہو۔عبداللہ بن عامرنے ”حکیم بن جبلة العددی کی سرداری میں ایک دستہ سمندر کے رستے روانہ کیا۔وہ بلوچستان اور سندھ کے مشرقی علاقہ کو دیکھ کے واپس آئے تو عبداللہ نے ان کو عثمان بن عفان کے پاس بھیج دیا کہ جو کچھ دیکھا ہے جا کر سنادیں۔عثمان نے پوچھا اس ملک کا کیا حال ہے۔کہا،میں نے اس ملک کو چل پھر کے اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔عثمان نے کہا مجھ سے اس کی کیفیت بیان کرو۔”حکیم بن جبلہ“نے کہا کہ ماء ھاوشل ثمرھاوقل،ولصھابطل،ان قل الجیش فیھاضاعواوان کثروا جاعوا“۔وہاں پانی کم پھل ردی،چور بے باک،لشکرکم ہوتو ضائع جائے گا بہت ہو تو بھوکوں مرے گا۔یہ سن کر انھوں نے کہا“خبردے رہے ہو یاسجع کہہ رہے ہو،بولے اے امیر خبر دے رہا ہوں یہ سن کر انھوں نے لشکر کشی کا خیال ترک کر دیا۔۶۹

            حضرت عثمان جن کا مقصد ملک پر قبضہ کرنااور فتوحات کی فہرست بڑھانا تھا۔وہاں کے حالات سن کر خاموش ہوگئے اور سندھ وغیرہ کی طرف بڑھنے کا خیال ترک کر دیا۔لیکن حضرت امیرالمومنین علیہ السلام جن کا مقصد فتوحات کی فہرست مرتب کرنا نہ تھا۔بلکہ دین اسلام پھیلانا تھا۔انھوں نے ناساز گار حالات کے باوجود آگے بڑھنے کا عزم بالجزم کر لیااور ۳۹ئھج میں سندھ پر قابو حاصل کرکے ہندوستان میں تبلیغ اسلام کی راہ ہموار کردی۔

            علامہ ابوالظفرالندوی تحریر فرماتے ہیں کہ ۳۹ئھ میں حضرت علی علیہ السلام نے حارث بن مرہ عبدی کو سندھ پر قابو حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔”ففتح السندہ فی ذالک السنہ اسی سن میں سندھ فتح ہوا۔یہ حضرت علی کا کارنامہ ہے کہ فتح سندھ،علی ید علی بن ابی طالب واقام الحکومة الاسلامیةسندھ علی بن ابی طالب ؑ کے ہاتھوں فتح ہوا۔اور حکومت اسلامیہ (پہلے پہل)انھیں کے ہاتھوں قائم ہوئی۔۷۰

            علامہ بلاذری المتوفی ۲۷۹ئھ لکھتے ہیں۔”آخر ۳۸ئھج یا اول ۳۹ئھج میں حارث بن مرہ عبدی نے علی بن ابی طالب ؑ سے اجازت لے کر بحیثیت مطوع سرحد ہندپر حملہ کیا،فتحیاب ہوئے کثیر غنیمت ہاتھ آئی،صرف لونڈی غلام ہی اتنے تھے کہ ایک دن میں ایک ہزار تقسیم کئے گئے۔حارث اوران کے اکثر اصحاب ارض قیقان میں کام آئے۔صرف چند زندہ بچے۔یہ ۴۲ئھج کا واقعہ ہے۔۷۱

            مورخ ذاکر حسین کا بیان ہے کہ ”صاحب روضةالصفالکھتے ہیں کہ ہندوستان میں قاسم کی ماتحتی میں ایک معتدبہ فوج روانہ کی گئی جو ۳۸ئھ کے اوائل میں سندھ کی فتوحات میں مصروف ہوئی۔اس نے چند مقامات سندھ پر قبضہ کیا۔قاسم کے بعد ۳۸ئھ کے اخیر میں (یا ۳۹ء کے شروع میں )حارث بن مرہ عبدی ایک دوسری فوج کے ساتھ دارالخلافہ سے روانہ کیا گیاا ور اس نے ان ممالک میں بہت سے ممالک فتح کئے۔بہت سے ہندوگرفتار کئے گئے اور کثیر مالِ غنیمت ہاتھ آیاجوبراہِ راست دارالخلافہ کو روانہ کیا گیا۔اور ایک دن میں ایک ہزار لونڈی غلام غنیمت کے مال میں تقسیم کئے گئے،حارث بن مرہ مدت تک ان بلاد پر قابض رہے۔۷۲

بادشاہ شنسب بن حریق کا دستِ امیرالمومنین پر ایمان لانا

            ہندوستان کے لیے فتح سندھ کے بعد راہ کا ہموار ہوجانا یقینی تھا اسی لیے سندھ فتح کیا گیا۔فتح سندھ کے بعد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اسلامی جدوجہدکے آثار تاریخ میں موجود ہیں۔”مورخ ملامحمد قاسم”ہندوشاہ“فرشتہ زیرعنوان“ذکر بنائے شہر دہلی لکھتے ہیں کہ ۳۰۷ئع میں دادپتہ راجپوت نے جو کہ طائفہ توران سے تعلق رکھتا تھا۔قصبہ اندرپت کے پہلو میں دہلی کی بنیاد رکھی تھی۔پھر ان کے آٹھ افراد نے اس پر حکومت کی۔پھر زوال حکومت توران کے بعد طائفہ چوھان کی حکومت قائم ہوئی۔اس طائفہ کے چھ افراد نے حکومت کی۔اس کے بعد سلطان شہاب الدین غوری نے ان کے آخری بادشاہ پتھوراکوقتل کر دیا پھر امرحکومت ۵۷۷ء میں ملوک غور کے اقتدار میں آگیا۔پھر ملوک غور کے آخری فرمانرواضحاک تازی پر بادشاہ فریدون کا غلبہ ہو گیا۔اور ضحاک کے دوپوتے یانواسے،سوری اور سام اس کے ہمراہ ہو گئے۔ایک عرصہ کے بعد ان دونوں کو فریدوں کی طرف سے اپنی تباہی کا وہم پیدا ہو گیا۔چنانچہ یہ دونوں نہاوند چلے گئے۔اور وہاں حکومت قائم کر لی اور فریدوں سے مقابلہ شروع کر دیا،بالآخر فریدوں غالب رہااوران لوگوں نے خراج قبول کرکے حکومت قائم رکھی ،اور ذریت ضحاک اس مملکت میں یکے بعد دیگرے بزرگ قبیلہ یعنی بادشاہ ہوتا رہا۔

تابوقتِ اسلام نوبت بہ شنسب رسیدواودرزمانِ امیرالمومنین اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب علیہ السلام بود وبردست آنحضرت ایمان آور دہ۔منشور حکومت غوربخط مبارک شاہ ولایت پناہ یافت

یہاں تک کہ دوراسلام آگیااور نوبت شاہی شنسب تک آپہنچی۔اس کا زمانہ عہدامیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب میں آیا۔اس نے حضرت علی بن ابی طالب میں آیا۔اس نے ہوااور حکومت غور کا منشور حضرت شا ہ ولایت پناہ کے ہاتھوں بناتاریخ فرشتہ جلدصحفہ۵۴۱ مقالہ دوم ذکر۔بنائے دہلی واحوال ملوک غور ،طبع نولکشور۱۲۸۱ء۔

            یہی کچھ طبقاتِ ناصری۔”مصنفہ ابوعمر منہاج الدین عثمان بن معراج الدین طبع کلکتہ ۱۸۶۴ئذکر سلاطین شنسانیہ کے طبقہ نمبرصحفہ۷ ۲۹میں بھی ہے۔تاریخ اسلام ذاکرحسین کے جلد۳ص۲۲۲میں ہے کہ شنسب ،ترکی النسل“۔تھا۔

            مورخ فرشتہ نے شاہ شنسب کا نسب نامہ یوں تحریر کیاہے۔شنسب بن حریق بن نھیق ابن میسی بن وزن بن حسین بن بہرام بن حجش بن حسن بن ابراہیم بن سعد بن اسدبن شداد بن ضحاک الخ ص۵۴

اولادِ شنسب کی عمل بنی امیہ سے بیزاری

            مورخ ملامحمد قاسم فرشتہ،لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں بنی امیہ نے یہ اندھیرگردی کر رکھی تھی کہ اہل بیت رسولِ خدا کو تمام ممالک اسلامیہ میں منبروں پر برا بھلا کہا جاتا تھا۔اور وہ حکم (بظاہر)یہاں بھی پہنچا ہوا تھا۔مگر غور میں”اہل غور مرتکب آن امرشنیع نشدند“اہل غور نے اس امرنامعقول کا ارتکاب نہیں کیا تھا(اور وہ اس عمل میں بنی امیہ سے بیزار تھے)۷۳

اولادِ شنسب کی دشمنانِ آلِ محمد سے جنگ

            اسی تاریخ فرشتہ کے ۵۴میں ہے کہ جب ابومسلم مروزی نے بادشاہِ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس نے اولاد شنسب سے مدد چاہی تھی تو ان لوگوں نے ”درقتل اعدائے اہلبیت تقصیرے نہ کرد“۔دشمنانِ آل محمد کے قتل کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔

            ان تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ذریعہ سے اسلام کے ساتھ ساتھ شیعیت بھی ہندوستان میں پہنچی تھی کیونکہ اولادِ شنسب کا طرز عمل شیعیت کاآئینہ دار ہے۔

حضرت امام حسین ؑ کی راہ کوفہ سے سندھ جانے کی خواہش

            مورخ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری المتوفی ۲۷۶ھ تحریر فرماتے ہیں کہ”ان الحسین لماسدہ حرفی طریق کوفہ قال علیہ السلام ان لستم براضین بورود العراق فاترکونی لاذھب الی السندہ،جب حضرت امام حسین علیہ السلام کو حرنے کو فہ کے راستے میں روکا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اگر میرے عراق میں آنے کو پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑدو کہ میں سندھ میں چلا جاؤں۔اس کے بعد ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔ویعلمہ منہ ‘ان الاسلام قدبلغ الیہ من قبل۔”امام حسین ؑ کے اس فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس وقت سے پہلے سندھ میں پہنچ چکا تھا۔۷۴

حضرت امام زین العابدین ؑ کی ایک زوجہ کا سندھی ہونا

            اسلام کا قدیم ترین مورخ ابن قتیبہ اپنی کتاب معارف کے ص ۷۳پر لکھتا ہے،کانت زوجة لامام زین العابدین سندیة وتولدتھازیدالشھید امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک بیوی سندھی تھی۔اور اس سے حضرت زید شہید پیدا ہوئے تھے۔پھر اسی کتاب کے ص ۹۵پر لکھتا ہے امازید بن علی بن الحسین فکان بکنی ابالحسن وامہ سندیة“زیدبن علی بن الحسین کی کنیت ابوالحسن تھی اور ان کی ماں سندھی تھیں۔ایک اور جگہ لکھتا ہے،”روی ان التی وھبت زین العابدین کا نت سندیة“مروی ہے جو بیوی امام زین العابدین ؑ کو دی گئی وہ سندھی تھی۔عبدالرزاق لکھتے ہیں کہ زید شہید امام زین العابدین ؑ کی جس بیوی سے پیدا ہوئے وہ سندھی تھی۔۷۵

            ان جملہ حالات پر نظرکرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سندھ(ہندوستان)میں دین اسلام حضرت علی ؑ کے ذریعہ سے پہنچاا ور اسی کے ساتھ ساتھ شیعیت کی بھی بنیاد پڑی تھی۔نیز یہ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو سندھ کے مسلمانون پر بھروسہ تھا۔وہ کوفہ وشام کے مسلمانوں پر سندھ کے مسلمانوں کو ترجیح دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے راہ کوفہ میں ابن زیاد اور یزید بن معاویہ کے لشکر کے سردار،حربن یزید ریاحی(جوبعد میں حضرت امام حسین ؑ کے قدموں میں شہید ہوکر راہی جنت ہوئے تھے)سے یہ فرمایا تھا کہ مجھے سندھ چلے جانے دو۔اس کے علاوہ آپ کے فرزندامام زین العابدین ؑ نے ایک بیوی سندھ کی اپنے پاس رکھی تھی جس سے حضرت زید شہید پیدا ہوئے تھے۔یہ تمام امور اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ آلِ محمد کو علاقہ سندھ سے دلچسپی تھی اور وہ اس کے باشندوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان پر پورا بھروسہ کرتے تھے۔

حضرت امام علی ؑ کی شہادت(۴۰ھج)

کسے رامیسر نہ شدایں سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجدشہادت

            صفین کے سازشی فیصلہء حکمین کے بعد حضرت علی علیہ السلام اس نتیجہ پر پہنچے کہ اب ایک فیصلہ کن حملہ کرنا چاہیے۔چنانچہ آپ نے تیاری شروع فرمادی ا ور صفین ونہردان کے بعد ہی سے آپ اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔یہاں تک کہ حملہ کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔دس ہزار فوج اکا فسر امام حسین ؑ کو اور دس ہزار فوج کا سردار قیس ابن سعد کو اور دس ہزار کا ابوایوب انصاری کو مقرر کیا۔ابن خلدون لکھتا ہے کہ فوج کی جومکمل فہرست تیار ہوئی اس میں چالیس ہزار آزمودہ کار سترہزار رنگ روٹ اور آٹھ ہزار مزدور پیشہ شامل تھے۔لیکن کوچ کا دن آنے سے پہلے ابن ملجم نے کام تمام کر دیا۔مقدمہ نہج البلاعہ عبدالرزاق جلد۲ص۷۰۴میں ہے کہ فیصلہ تو ڈھونگ ہی تھا مگرطر فین کی جنگ ختم ہوگئی۔اور معاویہ حتمی تباہی سے بچ گئے۔اب امیرا لمومنین ؑ نے کوفہ کارخ کیا اور معاویہ پر آخری ضرب لگانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ساٹھ ہزار فوج آراستہ ہو چکی تھی اوریلغار شروع ہی ہونے والی تھی کہ ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے دغابازی سے حملہ کردیا۔حضرت امیرالمومنین ؑ شہید ہوگئے۔ابن ملجم کی تلوار نے حضرت علی ؑ کا کام تمام نہیں کیا،بلکہ پوری امت مسلمہ کو قتل کرڈالا،تاریخ کا دھاراہی بدل ڈالا۔ابن ملجم کی تلوار نہ ہوتی تو خلافت منہاج نبوت پراستور رہتی۔ارحج المطالب ص ۷۴۸میں ہے کہ پیغمبر اسلام نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ علی ؑ کی ڈاڑھی سر کے خون سے رنگین ہوگی۔تاریخ الفخری ص۷۳ میں ہے کہ حضرت علی ؑ ایک مرتبہ بیمار ہوئے اور شیخین انھیں دیکھنے کے لیے گئے تو حالت سقیم دیکھ کر آنحضرت سے کہنے لگے کہ شاید علی ؑ نہ بچیں گے۔آپ نے فرمایا ابھی علی ؑ کو موت نہیں آئے گی۔علی ؑ دنیا کے تمام رنج وغم اٹھانے کے بعد تلوار سے شہید ہونگے۔صواعق محرقہ ص۸۰ میں ہے کہ حضرت علی ؑ فرماتے تھے کہ میرے سراورمیری داڑھی کو خون سے جورنگین کرے گا۔وہ دنیا میں سب زیادہ بدبخت ہوگا۔شرح ابن ابی الحدید جز۱۳ص۱۰۲میں ہے کہ خالد بن ولید بعض امورشجاعت کی وجہ سے علی ؑ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔سیرت حلبیہ جلد۲ص۱۹۹وبخاری جلد۵حالات غزوہ طائف ص ۲۹ میں ہے کہ رسول اللہ خالد ابن ولید پر تبرا کرتے تھے۔تاریخ ابولفداء وغیرہ میں ہے کہ خالد نے عہد ابوبکر میں مالک ابن نویرہ کی بیوی سے زنا کیا تھا۔تاریخ اعثم کوفی ص۳۴و تاریخ طبریٰ جلد۴ص۴۶۴ میں ہے کہ حضرت علی نے خلیفہ ہوتے ہی خالد کو معزول کر دیا تھا۔تاریخ طبری جلد۶ص۵۴وکامل وغیرہ میں ہے کہ ۳۸ئھج میں امیر معاویہ نے مالک اشتر کو زہر سے شہید کرا دیا۔تاریخ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۴۲میں ہے کہ معاویہ نے حضرت ابوبکر کے بیٹے محمد کو گدھے کی کھال میں سی کر زندہ جلا دیا تھا۔جس کا حضرت عائشہ کو سخت رنج تھا اور معاویہ کو بددعا کیا کرتی تھیں تواریخ میں ہے کہ معاویہ نے حضرت عائشہ کو کنوئیں میں گرا کر زندہ دفن کر دیا۔ذکرالعباس ص۵۱ میں مختلف تواریخ کے حوالہ سے مرقوم ہے کہ ۲۸صفر۵۰ئھ کو واقعہ شہادت حضرت علی ؑ کے دس سال بعد امام حسن ؑ کو زہر سے معاویہ نے شہید کرایا تھا۔کشف الغمہ ص ۶۱میں ہے کہ حضرت علی ؑ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ امیرشام کو اس وقت تک موت نہ آئے گی۔جب تک وہ میرے سراورمیری ڈاڑھی کو خون آلوداپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے گا۔کتاب تذکرہ محمد و آلِ محمد جلد۲ص۲۸۸ میں ہے کہ ابن ملجم خارجی ۔تحریک کی اس جماعت کا ممبر تھا جو کسی مضبوط ہاتھ کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔عین اس وقت جب علی ؑ شام کے حملہ کے لیے روانہ ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے ابن ملجم کا وار کرنایہ بتا رہا ہے کہ اس کی تہ میں بڑی سازش تھی۔تاریخ الامامت والسیاست جلد۲ص۳۰ میں ہے کہ معاویہ نے عہد عثمان میں حضرت عثمان سے قتل علی کی اجازت مانگی تھی۔لیکن انھوں نے انکار کر دیا تھا۔کتاب مناقب مرتضوی کے ص۲۷۷میں بحوالہ حدیقة الحقائق حکیم ثنائی مرقوم ہے کہ امیرالمومنین ؑ کے قتل کے انتظامات ابن ملجم کے ذریعہ سے امیر معاویہ نے کئے تھے جس کا اقرار خود ابن ملجم نے ابن الفاظ میں کیا ہے

کہ مرا این معاویہ فرمود

کارکردم کنون نہ داردسود

            میں نے معاویہ کے کہنے سے ایسا فعل کیا۔مگر افسوس کوئی فائدہ برآمد نہ ہوا۔ملاخطہ ہو ذکرالعباس ص۲۰کتاب ارحج المطالب ص۷۵۳ وطبری جلد۴ص۵۹۹ وروضة الاحباب میں ہے کہ عبدالرحمن ابن ملجم نے کوفہ پہنچ کر ایک ہزار درہم کی ایک تلوار خریدی اور اسے زہر میں بجھا لیا،اور موقع کی تلاش میں کوفہ کے گلیوں کے چکر کاٹنے لگا۔اسی دوران میں ایک دن اس کی نظر ایک حسین عورت پر جاپڑی جس کانام قطامٰہ بنت نجبہ تھااور جومعاویہ کی رشتہ دار ہوتی تھی۔ابن ملجم اس عورت کا بے دام غلام بن گیا۔اور اس سے سلسلہ جنبانی شروع کی۔بالآخر بات ٹھہری اور عقدکافیصلہ ہوگیا۔جب مہر کی گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ تین ہزار اشرفیاں اور حضرت علی ؑ کاسرلوں گی۔کیوں کہ انھوں نے اسلامی جنگوں میں میرے باپ اور بھائیوں کو قتل کر دیا ہے۔ابن ملجم نے جواب دیا کہ مجھے منظور ہے۔”لقد قصدت القتل علی ومااقدمنی ھذاالمصرغیرذالک“۔خدا کی قسم تو نے ایسی چیز مانگی ہے جس کے لیے میں خود اس شہر میں بھیجا گیا ہوں۔البتہ تجھے بھی اپنے وعدہ کا پاس ولحاظ رکھنا چاہیے۔اس نے کہا ایسا ہی ہوگا۔اس عہدوپیمان اور وعدہ وعید کے بعد،ابن ملجم تگ ددوسعی وکوشش اور جدوجہد میں مشغول ہو گیا۔صواعق محرقہ ص۸۰ میں ہے کہ ابن ملجم کی امداد کے لیے شبیب ابن بحیرہ اشجعی بھی تھا۔روضة الشہداء ص۱۹۸ میں ہے کہ قطامہ نے اور کئی اشخاص اس کی مدد کے لیے معین ومہیا کردیئے۔مستدرک حاکم میں ہے کہ قطامہ نے ایسا مہر مانگا جس کی مثال عرب وعجم میں نہیں ہے۔تاریخ احمدی ص۲۱۰میں بحوالہ روضة الاحباب مرقوم ہے کہ حضرت علی ؑ نے زمانہء شہادت قریب ہونے پر کئی بار اپنی شہادت کا اشارہ اور کنا یہ میں ذکر فرمایا تھا۔منقول ہے کہ ایک دن آپ خطبہ فرمارہے تھے۔ناگاہ امام حسن ؑ دوران خطبہ میں آگئے۔حضرت علی ؑ نے پوچھا بیٹا آج کون سی تاریخ ہے۔اور اس مہینے کے کتنے دن گزرچکے ہیں۔آپ نے عرض کی بابا جان ۱۳دن گزر گئے ہیں۔پھر حضرت نے امام حسین ؑ کی طرف رخ کر کے پوچھا بیٹا اب مہینہ کے ختم ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں۔امام حسین ؑ نے عرض کی باباجان سترہ دن رہ گئے ہیں۔اس کے بعد آپ نے اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ عنقریب قبیلہء مراد کا ایک نامراد میری داڑھی کو سر کے خون سے رنگین کر ے گا۔(اخبار صحیحہ میں وارد ہے کہ حضرت علی ؑ کا اصول یہ تھا کہ آپ ایک ایک دن اپنے بیٹوں کے ہاں افطار فرمایا کرتے تھے اور صرف ایک لقمہ تناول کرتے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بیٹی ام کلثوم ؑ سے فرمایا کہ میں عنقریب تم لوگوں سے رخصت ہوجاؤں گا۔یہ سن کر وہ رونے لگیں۔آپ نے فرمایا کہ موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں ”بیٹی“میں نے آج رات کو خواب میں سرورعالم کو دیکھا ہے۔کہ وہ میرے سر سے غبارصاف کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم تمام فرائض ادا کر چکے ۔اب میرے پاس آجاؤ۔جمہورمورخین کا اتفاق ہے کہ جس کی صبح کو آپ شہید ہوئے۔اس رات میں آپ سوئے نہیں۔یہ رات آپ کی اس طرح گزری کہ آپ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مصلے سے اٹھ کر صحن خانہ میں آتے اور آسمان کی طرف دیکھ کرفرماتے تھے کہ میرے آقا سرورِ کائنات نے سچ فرمایا ہے کہ میں شہید کیا جاؤں گا۔لکھا ہے کہ جب نمازِ صبح کے ارادے سے باہر نکلے،تو صحن خانہ میں بطخوں نے دامن تھام لیااور شور مچانے لگیں،کسی نے روکا تو آپ نے فرمایا،مت روکویہ مجھ پر نوحہ کر رہی ہیں۔پھر آپ دولت سرا سے برآمد ہوکر داخل مسجدِ کوفہ ہوئے اور گلدستہ اذان پر جاکر اذان کہنے لگے۔اس کے بعد نماز میں مشغول ہو گئے۔جب آپ سجدہ اول میں گئے۔نامرادابن ملجم مرادی نے سراقدس پر تلوار لگادی۔یہ تلوار اسی جگہ لگی جس جگہ جنگ خندق میں عمروبن عبدود کی تلوار لگ چکی تھی۔ضرب کے لگتے ہی آسمان سے آواز آئی۔”الاقتلة ا میرالمومنین“ آگاہ ہوکہ امیرالمومنین قتل ہوگئے۔اس کے بعد آپ زمین پر لوٹنے لگے۔اور زخم پر مٹی ڈال کر بولے”فزت برب الکعبة“خداکی قسم میں نے حیات ابدی پائی اور کامیاب ہوگیا۔ضرب لگانے کے بعد ابن ملجم بھاگا۔لوگوں نے تعاقب کیا۔(کتاب ذکر العباس ص ۴۰)میں ہے کہ آپ کو خون میں نہایا ہوا دیکھ کر اولاد واصحاب نے گریہ کرنا شروع کر دیا۔آپ نے فرمایا بس روچکو اور مجھے گھر لے چلو۔یہ سن کر حضرت امام حسن ؑ امام حسین ؑ اور حضرت عباس ؑ نے ایک گلیم میں ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا۔کتاب الکرارص ۴۰۲ میں ہے کہ گھر پہنچ کر آپ نے صبح کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ،تو گواہ رہنا کہ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور خدا اور رسول کی کوئی مخالفت مجھ سے نہیں ہوئی۔تاریخ احمدی ص۲۱۲میں ہے کہ کوئی علاج کارگرنہ ہواورآپ کی وفات کا وقت آپہنچا(تاریخ الامامت والسیاست جلد۱ص۱۵۴ میں ہے کہ آپ کو ایسی زہر سے بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا تھا کہ سارے اہل مصر کے لیے کافی تھا۔کتاب رحمة اللعالمین”مصنفہ قاضی محمد سلیمان جج پٹیالہ کے ص ۸۱ میں ہے کہ ”زخم کو جس پر شہادت ہوئی کثیر بن عمروسکونی جو شاہان ایران کا طبیب خا ص رہ چکا تھا۔اس نے بتایا کہ زخم ام دماغ تک پہنچ گیا ہے اور اب صحت محال ہے۔تاریخ کا مل ابن اثیر میں ہے کہ انتقال کے وقت آپ نے نصیحتیں اور وصیتیں فرمائیں جو تقویٰ پر ہیز گاری عبادت صلہء رحم وغیرہ وغیرہ سے متعلق تھیں۔پھر ایک نوشتہ لکھ کر دیا۔کتاب اخبار ماتم ۱۲۴میں اور بعض کتب تواریخ میں ہے کہ آپ کی خدمت میں شربت پیش کیا گیا تو آپ نے تھوڑا ساپی کر قاتل کو بجھوادیا۔الاخبارالطوال ص۳۶۰میں ہے کہ حضرت ام کلثوم ؑ نے ابن ملجم سے کہلایا کہ اے دشمن خدا تو نے امیرالمومنین کو شہید کر دیا،تو اس نے جواب دیا کہ امیر المومنین ؑ کو نہیں ،میں نے تمھارے باپ کو قتل کیا ہے،اور ایسی تلوارسے قتل کیا ہے جسے ایک ماہ زہر پلاتا رہاہوں۔کشف الانوارترجمہ بحارجلد۹ص۲۱۷میں ہے کہ آپ نے آخر ی وقت اپنے سب بیٹوں کو بلا کر امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کی اطاعت اور امداد کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ فرزندان رسول ہیں۔اصول کافی ص ۱۴۱میں ہے کہ جن بیٹوں کو ہدایت دی گئی۔ان کی تعدادبارہ تھی۔مرقات الایقان جلد۱ص۴۰ میں ہے کہ آپ نے اپنی تمام اولاد وارواج کو امام حسن ؑ کے سپر د فرمایا۔مائتین ص۲۴۱میں ہے کہ حضرت عباس ؑ کو امام حسین ؑ کے حوالہ کرکے فرمایا کہ یہ تمھارا غلام ہے۔کربلا میں کام آئے گا۔کتاب عقدالفرید میں ہے کہ آپ نے امرخلافت امام حسن کے سپر دفرمایا۔کتاب وسیلة النجات میں ہے کہ امام حسن ؑ حضرت علی ؑ کی وصیت کے مطابق امام برحق اور خلیفہء وقت قرار پائے۔تاریخ کامل ابن اثیر،بحارالانوار اعلام الوری ذکر العباس ص۳۸میں ہے کہ آپ نے ۲۱رمضان ۴۰ئھج کو انتقال فرمایا۔کتاب جامع عباسی ص۵۹ اور الیعقوبی میں ہے کہ شب ۲۱رمضان کو آپ نے انتقال فرمایا ہے۔اسی شب کو حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے۔حضرت موسیٰ نے رحلت کی اور یوشع ابن نون نے وفات پائی۔کتاب الامامت والسیاست جلد۱ص۱۵۵ وارشاد مفیدص۷میں ہے کہ امام حسن ؑ امام حسینؑ عبداللہ ابن جعفر نے غسل دیااور محمد حنفیہ نے پانی ڈالنے میں مدد کی۔کفن پہنانے کے بعد حضرت امام حسن ؑ نے نماز جنازہ پڑھی۔رحلہ ابن جبیر اندلسی ص۱۸۹ طبع مصر ۱۹۰۸ءء میں ہے کہ آپ کو جس جگہ غسل دیا گیا۔اسی جگہ حضرت نوح کی بیٹی کا گھر تھا۔صواعق محرقہ ص۸۰میں ہے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر ۶۳سال تھی۔بعض تواریخ میں ہے کہ آپ کی قبر حضرت نوح کی بنائی ہوئی تھی اور آپ کا جنازہ سرہانے کی طرف سے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔تاریخ ابوالفداء میں ہے کہ آپ نجف اشرف میں سپرد خاک کئے گئے۔جواب بھی زیارت گاہ عالم ہے۔الیعقوبی جلد۲ص۲۰۳میں ہے کہ شہادت علی ؑ کے بعد امام حسن ؑ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ انھوں نے صرف سات سودرہم چھوڑے ہیں ۔مستدرک حاکم اور ریاض النضرہ اور ارحج المطالب ۷۶۰میں ہے کہ جس شب میں حضرت علی ؑ شہید ہوئے اس کی صبح کو بیت المقدس کا جو پتھراٹھایاجاتا تھا۔اس کے نیچے سے خون تازہ برآمد ہوتا تھا۔تاریخ الیعقوبی جلد۲ص۲۰۳میں ہے کہ حضرت علی ؑ کے دفن کے بعد ان کی قبر پر قعقاع بن زرارہ نے ایک تقریر کی جس میں نہایت غم و اندوہ کے ساتھ کہا کہ اے مولاآپکی زندگی خیروبرکت کی کلید تھی۔اگر لوگ آپ کوصحیح طریقہ پر مانتے تو خیر ہی خیر پاتے۔مگر دنیا والوں نے دنیا کو دین پر ترجیح دی(اور خیر حاصل نہ کر سکے۔انشاء اللہ دنیادار جہنم میں جائیں گے)کتاب انوارالحسینیہ جلد۲ص۳۶میں ہے کہ آپ کی قبر پوشیدہ رکھی گئی تھی۔مسٹرگبن کی تاریخ ڈیگائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر میں ہے کہ ظالم بنی امیہ کی وجہ سے علی ؑ کی قبر چھپائی گئی۔چوتھی صدی میں ایک قبہ روضئہ کوفہ کے کھنڈروں کے پاس نمودار ہو گیا مشہد علی ؑ کوفہ سے ۵میل اور بغداد سے ۱۲۰ میل جنوب میں واقع ہے۔حیواة الحیوان دمیری جلد۲ص۱۸۷میں ہے کہ سب سے پہلے آپ کی قبر کے گرد کٹہرے لگوائے گئے تھے۔کتاب سیف المقلدین باب ۵ص۲۷۴میں ہے۔کہ مصنف کتاب عبدالجلیل یوسف زی نے آپ کی تاریخ کے بارے میں لکھا ہے۔

گرتوسال شہادتش جوئی

سر ماتم چرانمی گوئی

حضرت علی ؑ کی شہادت پر مرثیہ

            حضرت کی شہادت پر بہت سے شعراء نے مراثی کہے ہیں۔ہم اس وقت کتاب”رحمة للعالمین“مصنفہ قاضی محمد سلیمان جج ریاست پٹیالہ کے جلد۲ص۸۱سے بکربن حمادالقاہری کے ۱۱اشعار میں سے صرف تین شعر مع ترجمہ نقل کرتے ہیں۔

قل لابن ملجم والا قدار غالبة

ھدمت ویلک لا سلام ارکانا

            ابن ملجم سے کہنا گومیں جانتا ہوں کہ تقدیر سب پر غالب ہے،کہ کنجت تو نے اسلام کے ارکان کو ڈھادیا

قتلت افضل من یمشی علی قدم

واول الناس اسلامََا وایماناََ

            وہ شخص جو زمین پر چلنے والوں میں سب سے افضل تھااور اسلام وایمان میں سب سے اول

واعلم الناس بالقران ثم بما

سن رسولنا شرعََا وتبیاناََ

اور قرآن وسنت کے جاننے میں سب سے اعلم تھا،تونے اسے قتل کیا ہے۔

حضرت کی ازواج واولاد

            کتاب انوارالحسینیہ جلد۲ص۳۵میں ہے کہ آپ نے دس عورتوں سے نکاح کیااور آپ کے انتقال کے وقت چار بیویاں موجود تھیں۔امامہ،اسماء لیلیٰ،اورام البنین آپ نے دس بیٹے اور اٹھارہ بیٹیاں چھوڑیں ارشادمفیدص ۱۹۹وجمہرئہ ابن حزم و تہذیب الاسماء جلد۱ص۳۴۹میں ہے کہ آپ کے بارہ بیٹے اور سولہ بیٹیاں تھیں۔آپ کی نسل پانچ بیٹوں سے بڑھی(۱)امام حسن ؑ (۲)امام حسین ؑ (۳)محمد حنفیہ( ۴)حضر ت عباس ؑ (۵)عمر بن علی ؑ ملا خطہ ہوناسخ التواریخ جلد۳ص۷۰۷طبع بمبئی وذکرالعباس ص۴۴طبع لاہور۔

 

 

حوالہ جات حضرت امام علیؑ

 ۱ مستدرک امام حاکم جلد۳ صفحہ۴۸۳

 ۲ مناقب صفحہ ۱۳۲وسیلتہ النجات صفحہ۶۰

 ۳ نور الابصار صفحہ۷۶صواعق محرقہ صفحہ۷۲

 ۴ سیرت حلبیہ جلدا صفحہ ۲۶۸

 ۵ مروج الذہب ج ۵ صفحہ ۶۸

 ۶ استیعاب جلد۲ صفحہ ۴۷۲

 ۷ سیرت جلیہ جلدا صفحہ ۲۷۰

 ۸ نور لاانوار

 ۹ صواعق محرقہ صفحہ۷۴

 ۱۰ مطالب السول صفحہ۵۶۔۵۷

 ۱۱ کنزل العمال جلد۶ صفحہ ۷فصول مہمہ صفحہ۱۵واصابہ صفحہ۱۶۰۔ازالتہ الخفا جلدا صفحہ ۲۱۵

 ۱۲ امہات الامتہ صفحہ۱۴۷

 ۱۳ تاریخ کامل جلد۶ صفحہ ۶۰

 ۱۴ اسنی المطالب صفحہ۳۴طبع مصر، تاریخ خمیس مواہب لدنیہ

 ۱۵ تاریخ خمیس سیرت جلیہ

 ۱۶ دمعہ و ساکبہ صفحہ۱۷۶طبع ایران و شواہد النبوت علامہ جامی رکن صفحہ۱۶۵ طبع لکھنو ۱۹۲۰ء ء

 ۱۷ مطالب السول صفحہ۱۹۱

 ۱۸ ریاض النصرة جلد۲ صفحہ ۲۳۷

 ۱۹ جنات الخلود

 ۲۰ حدیث قدسی و مدینتہ المغاحز صفحہ۱۹طبع ایران

 ۲۱ بحاالانوار ، دمعہ ساکبہ سفینتہ البحارجلد ا صفحہ ۳۷۶طبع نجف اشرف

 ۲۲ ینا بیع المودة صفحہ۹۳

 ۲۳ صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۲۷۲

 ۲۴ جامع عباسی صفحہ۵۸ طبع دہلی ۱۹۱۴ء ء و اختیارات مجلسی رحمتہ اللہ

 ۲۵ تاریخ بغداد و شرح ابن ابی الحدید جلدا صفحہ ۵۱طبع طہران

 ۲۶ کتاب خلافت منقول از تاریخ اسلام جلد۳ صفحہ ۲۵

 ۲۷ اسپرٹ آف اسلام مسٹر سڈیواز تاریخ اسلام جلد۳ صفحہ ۲۰۱

 ۲۸ کشف الغمہ صفحہ ۵۳، ارجح المطالب

 ۲۹ مطالب السول صفحہ۵۷

 ۳۰ صواعق محرقہ صفحہ۷۶ طبع مصر

 ۳۱ سلسبیل فصاحت ترجمہ نہج البلاغہ صفحہ۲۷

 ۳۲ در منشور ومطالب السول صفحہ۵۹

 ۳۳ صواعق محرقہ صفحہ۷۵

 ۳۴ نور الابصار ینا بیع صفحہ۹۰و صواعق محرقہ صفحہ۷۳

 ۳۵ صواعق محرقہ صفحہ۷۵ طبع مصر

 ۳۶ اربعین فی اصول الدین وار حج المطالب صفحہ۴۵۵

 ۳۷ ارحج المطالب صفحہ ۴۵۴

 ۳۸ ازالتہ الخفا جلد ۲ صفحہ ۲۵۶

 ۳۹ مہذب مکالمہ صفحہ۱۰۴

 ۴۰ تاریخ عرب اوکلی صفحہ۳۳۲

 ۴۱ تاریخ عرب صفحہ۲۸۶

 ۴۲ لا پورٹ جلد ۱۲ ،اعجاز التنزیل صفحہ۱۶۶

 ۴۳ نور الابصار امام شبلنجی صفحہ۷۳طبع مصر

 ۴۴ شرح ابن ابی الحدید جلدا صفحہ ۷و مطالب السول صفحہ۹۸ و کشف الغمہ صفحہ۵۴ مناقب ج ۲ صفحہ ۶۷

 ۴۵ مناقب جلد ۲ صفحہ۲۱۳

 ۴۶ تاریخ تمدن اسلامی جلد ۴ صفحہ ۳۷ و تاریخ کامل جلد ۳ صفحہ ۲۰۴

 ۴۷ صواعق محرقہ

 ۴۸ ارحج المطالب صفحہ۲۰۲

 ۴۹ ترجمہ نہج البلاغتہ رئیس احمد جعفری جلدا صفحہ ۱۲۰۰طبع لاہور

 ۵۰ مودةالقربی صفحہ۱۲۹ تمام واقعات کی تفصیل گزر چکی ہے۔

 ۵۱ نہج البلاغتہ مترجمہ مفتی جعفر حسین جلد ۲ صفحہ۲۴۳طبع لاہور

 ۵۲ صواعق محرقہ صفحہ۷۲

 ۵۳ روضتہ الاحساب جلدا صفحہ ۵۵۹و مدارج النبوت جلد۲ صفحہ ۵۱۱

 ۵۴ صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۹۱ طبع نو لکشور

 ۵۵ ارجح المطالب صفحہ۲۲۷

 ۵۶ تاریخ اسلام

 ۵۷ روضتہ الاحباب جلد ۳ صفحات ۱۲۔۲۰، مجمع البحار صفحہ ۳۷۲ نہایہ ابن اثیر صفحہ۱۶۶

 ۵۸ تاریخ اعثم کو فی

 ۵۹ تاریخ اسلام جلد۳ صفحہ ۲۶

 ۶۰ مہذب مکالمہ صفحہ۳۴

 ۶۱ تاریخ التمدن الاسلامی ۴ صفحہ ۳۷ طبع مصر

 ۶۲       (طبری)

 ۶۳ (مروج الذہب جلد۵ص۱۷۷)

 ۶۴ (الخضری جلد۲ص۹۰)

 ۶۵ (معجم البلدان ص۳۷۰)

 ۶۶ (اعثم کوفی ص۲۱۲، روضة السفاجلد۲ص۳۹۲)

 ۶۷ (تاریخ اسلام جلد۱ص۲۱۶)

 ۶۸ (حبیب السیر وغیرہ)

 ۶۹ (ترجمہ فتوح البلدان بلاذری جلد۲ص۶۱۳)

 ۷۰ (تاریخ سندہ دارارلمصنفین اعظم گڑھ ۱۹۴۷ءء)

 ۷۱ (ترجمہ فتوح البلدان بلاذری ج ۲ص۶۱۳طبع کراچی۔

 ۷۲ (تاریخ اسلام جلد۳ص۲۲۲طبع دہلی ۱۳۳۱ئھج)۔

 ۷۳ تاریخ فرشتہ ص ۵۴۔

۷۴ (معارف ابن قتیبہ ص۹۵طبع مصر ۱۹۳۴ء‘مہیج الاحزان ۱۶۳)۔

۷۵ (کتاب زیدالشہیدص ۵طبع نجف اشرف)۔