امام موسیٰ كاظم (ع) كی شھادت اور اس كے محركات﴿ 

واپس جائیں       PDF

 

   “انتم الصراط الاقوم والسبیل الاعظم وشھداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء” -   زیارت جامعہ كبیرہ

 آپ ھی صراط اقوام (بہت ھی سیدھا راستہ) ھیں، عظیم ترین راستہ (وسیلہ) اس فانی دنیا كے گواہ، باقی رھنے والی دنیا كے شفیع ھیں۔
چونكہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام اللہ تعالیٰ كے حكم اور مشیت سے زندہ ھیں ان كے علاوہ باقی آئمہ طاھرین علیھم السلام جام شھادت نوش فرما چكے ھیں۔ان میں سے كوئی امام بھی طبعی موت یا كسی بیماری كی وجہ سے اس دنیا سے نھیں گیا۔ ھمارے آئمہ اطھار شھادت كو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ھیں۔ سب سے پھلے تو ھمارا ھر امام ھمیشہ اپنے لیے خدا سے شھادت كی دعا كرتا ھے۔ پھر انھوں نے جو ھمیں دعائیں تعلیم فرمائیں ھیں ان میں سے بھی شھادت سب سے پسندیدہ چیز متعارف كی گئی ھے جیسا كہ ھمارا آقا و مولا حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں۔ میں بستر كی موت كو سخت ناپسند كرتا ھوں۔ مجھ پر ھزار ٹوٹ پڑنے والی تلواریں اور ھزاروں زخم اس سے كھیں بھتر ھیں كہ میں آرام سے بستر كی موت مروں۔ ان كی دعاؤں میں یھی التجاء ھے، تمناؤں میں یھی تمنا، آرزوؤں میں یھی آرزو، مناجات میں یھی دعا ھے كہ خدا ھمیں شھادت كے سرخ خون سے نھلا كر اپنی ابدی زندگی عطا فرما، غیرت رحمیت، حریت، و عظمت میری زندگی كا نصب العین ٹھرے۔ زیارت جامعہ كبیرہ میں ھم پڑھتے ھیں كہ:
انتم الصراط الاقوم، والسبیل الاعظم و شھداء دار الفناء وشفعاء دار البقاء
كہ آپ بہت ھی سیدھا راستہ، عظیم ترین شاھراہ آپ اس جھان كے شھید اور اس جھان كے شفاعت كرنے، بخشوانے والے ھیں۔
لفظ شھید امام حسین علیہ السلام كی ذات گرامی كے ساتھ وقف كیا گیا ھے ھم عام طور پر جب بھی آپ كا نام لیتے ھیں”تو الحسین الشھید”كھتے ھیں اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام كے ساتھ صادق اور امام موسیٰ ابن جعفر كا لقب موسیٰ الكاظم اور سید الشھداء كا لقب حضرت امام حسین علیہ السلام كے ساتھ خاص ھے۔ اس كا یہ مطلب ھر گز نہ لیا جائے كہ ائمہ طاھرین علیھم السلام میں سے امام حسین علیہ السلام ھی شھید ھوئے ھیں؟ اس طرح موسیٰ ابن جعفر كے ساتھ كاظم كا لقب ھے اس كا مقصد یہ نھیں ھے كہ صرف وھی كاظم ھیں، امام رضا علیہ السلام كے ساتھ الرضا كا لقب خاص ھے اس كا یہ معنی نھیں كہ دوسرے ائمہ رضا نھیں ھیں اگر امام جعفر صادق كو صادق (ع) كھتے ھیں تو اس كا یہ مفھوم نھیں ھے كہ دوسرے ائمہ صادق نھیں ھیں۔ یہ سارے كے سارے محمد (ص) بھی ھیں اور علی (ع) بھی ان كی زندگی ایك دوسرے كی زندگی كا عكس ھے۔ تاثیر بھی ایك، خوشبو بھی، ایك سلسلہ نسب بھی ایك مقصد حیات بھی ایك۔

جھاد اور عصری تقاضے

یھاں پر ایك سوال اٹھتا ھے كہ تمام ائمہ اطھار علیھم السلام شھید كیوں ھوئے ھیں؟ حالانكہ تاریخ ھمیں بتلاتی ھے كہ امام حسین علیہ السلام كے سوا كوئی امام تلوار لے كر میدان جھاد میں نھیں آیا۔ امام سجاد (ع) خاموشی كے باوجود شھید كیوں ھوئے؟ اسی طرح امام باقر (ع)، امام صادق (ع) امام موسی كاظم (ع) اور باقی تمام ائمہ شھید كیوں ھوئے ھیں؟ اس كا جواب یہ ھے یہ ھماری بہت بڑی غلطی ھوگی كہ اگر یہ سمجھیں كہ امام حسین (ع) اور دیگر ائمہ طاھرین (ع) كے انداز جھاد میں فرق ھے؟ اسی طرح كچھ ناسمجھ لوگ تك بھی كھہ دیتے ھیں كہ امام حسین علیہ السلام ظالم حكمرانوں كے ساتھ لڑنے كو ترجیح دیتے تھے اور باقی ائمہ خاموشی كے ساتھ زندگی گزارنا پسند كرتے تھے۔ درحقیقت اعتراض كرنے والے یہ كہہ كر بہت غلطی كرتے ھیں۔ ھمارے مسلمان بھائیوں كو حقیقت حال كو جانچنا اور پھچاننا چاھیے۔ ھمارے ائمہ طاھرین (ع) میں سے كوئی امام ظالم حكومت كے ساتھ سمجھوتہ نھیں كرسكتا اور نہ ھی وہ اس لیے خاموش رھتے تھے كہ ظالم حكمران حكومت كرتے رھیں۔ حالات و واقعات كا فرق تھا موقعہ محل كی مناسبت كے ساتھ ساتھ جھاد میں بھی فرق ھے۔ كسی وقت ان كو مجبوراً تلوار اٹھانا پڑی اور ایك وقت ایسا بھی آیا كہ حالات میں سخت گھٹن پیدا ھوگئی، یھاں تك كہ لوگوں كا سانس لینا بھی مشكل ھو گیا تھا۔ اس كے باوجود ھمارے كسی امام نے بھی حكومت وقت كے ساتھ سمجھوتہ نہ كیا بلكہ وہ ظالموں، آمروں كو بار بار ٹوكتے اور ان كے مظالم كے خلاف آواز حق بلند كرتے تھے۔
آپ اگر ائمہ طاھرین (ع) كی سیرت طیبہ كا مطالعہ كریں تو آپ دیكھیں گے كہ آل محمد (ص) نے ھمیشہ اور ھر دور میں ظلم كے خلاف آواز اٹھائی اور مظلوموں كی نہ صرف حمایت كی بلكہ ان كی ھر طرح كی مدد بھی كی۔ جب كبھی ان كی اپنے دور كے حكمران سے ملاقات ھوتی تھی تو وہ اس كے منہ پر ٹوك دیتے تھے۔ آپ كو تاریخ میں یہ كبھی نھیں ملے گا كہ آئمہ اطھار (ع) میں كسی امام نے كسی حكمران كی حمایت كی ھو۔ وہ ھمیشہ مجاھدت میں رھے۔ تقیہ كا یہ مقصد نھیں ھے كہ وہ آرام و سكون سے زندگی بسر كرنا چاھتے تھے تقیہ وقی سے جیسا كہ تقویٰ كا مادہ بھی وقی ھے ۔ تقیہ كا معنی یہ ھے كہ خفیہ طور پر اپنا اور اپنے نظریے كا دفاع كرنا۔ ھمارے ائمہ طاھرین (ع) تقیہ كی حالت میں جو جو كارنامے سرانجام دیتے شاید تلوار ٹھانے كی صورت میں حاصل نہ ھوتے۔ ھمارے ائمہ كی بھترین حكمت عملی، حسن تدبر اور مجاھدت كی زندگی بسر كرنا ھمارے لیے باعث فخر ھے۔ وقت گزر گیا مورخین نے لكھ دیا كہ آل محمد (ص) حق پر تھے۔ ان كا ھر كام اپنے جد امجد رسول اكرم (ص) كے مقدس ترین دین كو تحفظ فراھم كر نے كیلئے تھا۔ آج ان كا دشمن دنیا بھر كے مسلمانوں كے نزدیك قابل نفرین اور مستحق لعنت ھے۔ صدیاں بیت گئیں۔ عبدالملك مروان، اولاد عبدالملك، عبد الملك كے بھتیجے بنی العباس، منصور دوانیقی، ابو العباس سفاح، ھارون الرشید، مامون و متوكل تاریخ انسانیت كے بدنام ترین انسان شمار كیے جاتے ھیں۔ ھم شیعوں كے نزدیك یہ لوگ غاصب ترین حكمران تھے انھوں نے شریعت اسلامیہ كو جتنا نقصان پھنچایا ھے۔ اس پر ان كی جتنی مذمت كی جائے كم ھے۔ اگر ھمارے ائمہ طاھرین (ع) ان كے خلاف جھاد نہ كرتے تو وہ اس سے بڑھ كر بلكہ علانیہ طور پر فسق و فجور كا مظاھرہ كرتے، نہ جانے كیا سے كیا ھو جاتا۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں كے حق میں مخلص نہ تھےائمہ طاھرین (ع) كے ساتھ مقابلہ كرنے اور لوگوں كو دھوكہ دینے كے لیے ظاھری طور پر اسلام كا نام لیتے اور علمی مراكز اور مساجد قائم كر كے لوگوں كو باور كرانے كی كوشش كرتے كہ وہ پكے اور سچے مسلمان ھیں۔ لیكن ائمہ حق نے نہ صرف ان كے منافقانہ چھروں سے نقاب اٹھا كر ان كا ڈٹ كر مقابلہ كیا بلكہ لوگوں كو بھی راہ راست پر لانے كی بھر پور كوشش كی۔
اگر آل محمد (ص) ان ظالموں كے خلاف مجاھدت و مقاومت نہ كرتے تو آج تاریخ اسلام میں ان جیسے منافق، خود نما مسلمان حكمرانوں كو اسلام كے ھیرو كے طور پر متعارف كرایا جاتا۔ اگر چہ كچھ اب بھی ان كو بڑھا چڑھا كر پیش كرنے كی كوشش كرتے ھیں۔لیكن مسلمان كی اكثریت تاریخی حقائق كو ان كی بات كی طرف دھیان نھیں دیتی۔ اس نشست میں ھم امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كی شھادت كی وجوھات اور محركات پر روشنی ڈالنا چاھتے ھیں كہ امام علیہ السلام كو شھید كیوں كیا گیا؟ آپ كو سالھا سال كی قید با مشقت اور اسیری كے انتھائی تكلیف دہ ایام گزارنے كے باوجود آپ كو زھر دے كر شھید كیوں كردیا گیا؟ اس كی وجہ یہ ھے كہ آپ پر بے پناہ مظالم ڈھانے كے بعد بھی وہ امام كو اپنے ساتھ ملانے میں كامیاب نہ ھوسكے۔ جب وہ ھر طرح سے ناكام و نامراد ھوگئے تو استقامت اور پائیداری كے اس عظیم المنزلت پہاڑ كو بزدلانہ حركت كے ذریعہ گرانے كی ناكام كوشش كی گئی كہ آپ كو زھر دے كر شھید كر دیا گیا۔

امام زندان بصرہ میں

امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كو ایك زندان میں نھیں ركھا گیا بلكہ آپ كو مختلف زندانوں میں ركھا جاتا۔ آج ایك زندان میں توكل كسی اور زندانوں میں منتقل كیا جاتا تھا۔ اس كی ایك وجہ تو آپ كو طرح طرح كی اذیتیں دینا مقصود تھا اور دوسری وجہ آپ جس جیل میں جاتے وھاں كے قیدی آپ كے مرید بن جاتے۔ سب سے پھلے امام كو عیسیٰ بن ابی جعفر منصور كے زندان میں بھیجا گیا۔ یہ منصور دوانیقی كا پوتا تھا اور بصرہ كا گورنر تھا امام علیہ السلام كی نگرانی اس كے ذمہ تھی۔ یہ عیاش ترین شخص تھا۔ھر وقت نشہ میں مدھوش رھتا اور رقص و سرور، ناچ گانے كی محفلیں منعقد كرتا تھا۔ ایك كسان كے بقول كہ اس عارف خدا ترس، عابد و زاھد انسان كو ایسی جگہ پر قیدی بنا كر لایا گیا كہ جس كا تصور بھی نھیں كیا جا سكتا، آپ كے كانوں میں ناچنے گانے والوں كی آوازیں آتی تھیں۔ ایسی آوازیں كہ آپ نے زندگی بھر نہ سنی تھیں۔۷ ذی الحجہ سال ۱۷۸كو امام علیہ السلام كو زندان بصرہ میں لایا گیا۔ عید الاضحیٰ كا دن تھا اس لیے لوگ خوشیاں اور جشن منارھے تھے۔ آپ كو روحانی و ذھنی لحاظ سے بہت زیادہ تكلیف پھنچائی گئی۔
آپ (ع) ایك طویل مدت تك اس زندان میں رھے۔ عیسیٰ بن جعفر آھستہ آھستہ آپ كا مرید ھوگیا۔ وہ پھلے آپ كے بارے میں كچھ اور خیال كرتا تھا وہ سمجھتا تھا كہ امام موسیٰ كاظم (ع) حكومت و سیاست كیلئے كوشاں ھیں لیكن اس نے جب دیكھا كہ امام علیہ السلام تو بہت ھی عظیم اور عبادت گزار شخصیت ھیں۔ اس كے بعد اس كی سوچ یكسر بدل گئی چناچہ اس نے اپنے نوكروں كو حكم دیا كہ امام علیہ السلام كے لیے بھترین كمرہ مھیا كیا جائے۔ آپ كا غیر معمولی طور پر احترام كیا جانے لگا۔ ھارون نے اسے پیغام بھیجا كہ اس قیدی كا خاتمہ كر دے۔ عیسیٰ نے جواب میں كھا كہ میں ایسا ھر گز نھیں كرسكتا۔ بھتر یہ ھے كہ یہ قیدی مجھ سے واپس لے لیا جائے۔ ورنہ میں ان كو آزاد كردوں گا۔ میں اس قسم كے عظیم انسان كو اپنے قید خانے میں نھیں ركھ سكتا چونكہ وہ خلیفہ وقت كا چچا زاد بھائی اور منصور كا پوتا تھا اس لیے اس كی بات میں وزن تھا اور امام كو كسی دوسرے زندان میں منتقل كر دیا گیا۔

امام علیہ السلام مختلف زندانوں میں

حضرت امام موسی كاظم كو بغداد لایا گیا یھاں پر فضل بن ربیع مشھور دروغہ تھا۔ امام (ع) كو اس كے سپرد كر دیا گیا۔ اس پر تمام خلفاء اعتماد كرتے تھے۔
ھارون نے اس سے خاص تاكید كی تھی كہ امام علیہ السلام كے ساتھ كسی قسم كی نرمی نہ برتے بلكہ جتنا ھوسكے ان پر سختی كی جائے لیكن فضل امام كے معصومانہ كردار كو دیكھ كر پسیج گیا اور آپ كا عقیدت مند بن گیا۔ سختی كی بجائے نرمی سے پیش آنے لگا۔ زندان كے كمرے كو ٹھیك كیا اور امام علیہ السلام كو قدرے سھولتیں فراھم كیں۔ جاسوس نے ھارون كو خبر دی كہ امام موسی كاظم فضل بن ربیع كے زندان میں آرام و سكون كے ساتھ زندگی بسر كررھے ھیں۔ یوں محسوس ھورھا ھے كہ زندان نھیں ھے بلكہ مھمان سرا ھے۔ ھارون نے امام علیہ السلام كو اس سے لے كر فضل بن یحییٰ برمكی كی نگرانی میں دے دیا۔ فضل بن یحییٰ بھی كچھ عرصہ كے بعد امام (ع) سے محبت كرنے لگا۔ ھارون كو جب اس كے رویے كی تبدیلی كی خبر ملی تو سخت غضبناك ھوا اور اپنے جاسوس كو بھیجا كہ جاكر معاملہ كی تحقیق كریں۔ جب جاسوس آئے تو معاملہ ویسا ھی تھا جیسا كہ ھارون كو بتیا گیا تھا۔ھارون فضل برم، كی پر سخت ناراض ھوا اس كا باپ وزیر تھا، یہ ایرانی النسل تھا۔ بہت ھی ملعون شخص تھا۔ اس كو ڈر لاحق ھوا كہ كھیں اس كا بیٹا خلیفہ كی نظروں میں گر نہ جائے، یہ فوری طور پر ھارون كے پاس آیا اور كھا كہ وہ اس كے بیٹے كی غلطی كو معاف كر دے۔ اس كی جگہ پر میں معافی مانگتا ھوں۔ اور میرا بیٹا بھی اپنے كیے پر شرمندہ ھے۔ پھر وہ بغداد آیا امام (ع) كو اپنے بیٹے كی نگرانی سے لے كر سندی بن شاھك كی نگرانی میں دیا۔ یہ انتھائی ظالم اور سفاك آدمی میں تھا اور مسلمان بھی نہ تھا، اس لیے امام علیہ السلام كے بارے میں اس كے دل ذرا بھر رحم نہ تھا۔ پھر كیا ھوا؟ امام علیہ السلام پر سختی كی جانے لگی اس كے بعد میرے آقا نے كسی لحاظ سے سكون نھیں دیكھا ۔

ھارون كا امام علیہ السلام سے تقاضا

امام علیہ السلام كے زندان میں آخری دن تھے، یہ تقریباً شھادت سے ایك ھفتہ پھلے كی بات ھے۔ ھارون نے یحییٰ برمكی كو امام علیہ السلام كے پاس بھیجا اور انتھائی نرم اور ملائم لھجہ كے ساتھ اس سے كھا كہ میری طرف سے میرے چچا زاد بھائی كو سلام كھنا اور ان سے یہ بھی كھنا كہ ھم پر ثابت ھو چكا ھے كہ آپ بے قصور ھیں آپ كا كوئی گناہ نھیں ھے لیكن افسوس كہ میں نے قسم اٹھا ركھی ھے كہ اس كو توڑ نھیں سكتا۔ میری قسم یہ كہ جب تك آپ اپنے گناہ كا اعتراف نہ كریں گے اور مجھ سے معافی نھیں مانگیں گے تو آپ كو آزاد نھیں كروں گا اور كسی كو پتہ بھی نہ چلے آپ صرف یحییٰ كے سامنے اعتراف جرم كرلیں۔ میرے سامنے معافی مانگنے كی بھی ضرورت نھیں ھے۔ یہ بھی ضروری نھیں ھے كہ اعتراف جرم كے وقت بھت سے لوگ موجود ھوں میں تو صرف اتنا ھی چاھتا ھوں كہ اپنی قسم نہ توڑوں۔ آپ یحییٰ برمكی كے سامنے اعتراف گناہ كر لیں اور صرف اتنا كھہ دیں كہ معافی چاھتا ھوں، میں نے غلطی كی ھے مجھے معاف كر دیجئے تو میں آپ كو آزاد كردوں گا۔ اس كے بعد میرے پاس تشریف لے آیئے اور میں آپ كی ھر طرح كی خدمت كروں گا۔
اب اس استقامت كوہ گراں كی طرف دیكھئے۔ یہ شفیح روز جزاء كیوں ھیں؟ یہ شھید كیوں ھو جاتے ھیں؟ یہ ایمان اور اپنے نظریہ كی پختگی كی وجہ سے شھید كیے گئے اگر یہ سب آئمہ اپنے موقف كو بدل دیتے اور احكام وقت كی ہاں میں ہاں ملاتے تو ھر طرح كا آرام و سكون حاصل كر سكتے تھے۔ لیكن رات اور دن اور حق و باطل، روشنی اور تاریكی، سچ اور جھوٹ ایك جگہ پر جمع نھیں ھوسكتے۔ بھلا امام وقت كسی حاكم وقت كے ساتھ كس طرح سمجھوتہ كر سكتا ھے؟! آپ نے یحیٰ كو جو جواب دیا وہ یہ تھا كہ ھارون سے كھہ دینا كہ میری زندگی كے دن ختم ھو چكے ھیں اس كے بعد تو جان اور تیرا كام جانے۔ ھم نے جو كرنا تھا وہ كرچكے۔ اس كے بعد میرے آقا كو زھر دے كر شھید كر دیا گیا ۔

امام علیہ السلام كی گرفتاری كی وجہ؟

اب سوال یہ ھوتا ھے كہ ھارون نے امام علیہ السلام كو گرفتار كرنے كا حكم كیوں دیا تھا؟ اس لیے كہ وہ امام علیہ السلام كی عوام میں غیر معمولی مقبولیت كے باعث آپ سے حسد كرتا تھا اور اس كو یہ بھی ڈر تھا كہ لوگ ھمیں چھوڑ كر امام علیہ السلام كو اپنا مذھبی و سیاسی رھنما نہ بنالیں۔ ھارون دیگر خلفاء كی مانند آل محمد علیھم السلام كے ھر فرد سے ھراساں رھتا وہ اس خدشہ كے تحت ھمیشہ چوكنا رھتا تھا كہ آل رسول كھیں انقلاب نہ لے آئیں۔ وہ روحانی و نظریاتی انقلاب سے بھی ڈرتے تھے۔ اس لیے وہ لوگوں كو آئمہ طاھرین علیھم السلام كے ساتھ ملنے نہ دیا كرتے، لوگوں كی آمد و رفت پر مكمل طور پر پابندی تھی۔ جب ھارون نے چاھا كہ اپنے بیٹوں امین اور اس كے بعد مامون اور اس كے بعد موتمن كی ولیعھدی كا دوبارہ رسمی طور پر اعلان كرے تو وہ شھر كے علماء اور زعماء كو دعوت كرتا ھے كہ وہ مكہ میں اس سلسلے میں بلائی جانے والی عالمی كانفرنس میں شركت كریں اور سب لوگ اس كی دوبارہ بیعت كریں لیكن سوچتا ھے كہ اس منصوبہ اور پروگرام كے سامنے ركاوٹ كون ھے؟وہ كون ھے كہ جس كی موجودگی خلیفہ كے لیے بہت بڑی مشكل كھڑی كر سكتی ھے۔ كون ھے وہ كہ جس كی علمی استعداد اور پاكیزگی كردار لوگوں كو اپنا گرویدہ بنا لیتی ھے۔
كون ھے وہ كہ جس كی معصومانہ كشش اور مظلومانہ انداز احتجاج اس كی حكومت ظلم كی چولیں ھلاسكتا ھے؟ ظاھر ھے وہ امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ھی ھو سكتے ھیں۔ وہ مدینہ آتے ھی امام (ع) كی گرفتاری كا آرڈر جاری كر دیتا ھے۔ یھی یحییٰ برمكی ایك شخص سے كھتا ھے كہ مجھے گمان ھے كہ خلیفہ وقت آج نھیں توكل امام علیہ السلام كو گرفتار كرنے كا حكم صادر كر دے گا۔ اس شخص نے پوچھا وہ كیسے؟ بولا میں خلیفہ مسجد النبی (ص) میں گئے تو اس نے اس انداز میں حضور پر سلام كیا السلام علیك یاابن العم۔ سلام ھو آپ پر اے میرے چچا كے بیٹے۔ آپ سے معزرت چاھتا ھوں ۔ میں آپ كے بیٹے موسیٰ كاظم كو گرفتار كرنے پر مجبور ھوں (گویا وہ پیغمبر اسلام كے سامنے بھی جھوٹ بول رھا تھا) اگر میں ایسا اقدام نہ كروں تو ملك میں بھت بڑا فتنہ كھڑا ھوجائے گا۔ اجتماعی اور ملكی مفاد كیلئے كچھ دیر كیلئے امام علیہ السلام كو نظر بند كر رھا ھوں۔ یا رسول اللہ میں آپ سے معافی چاھتا ھوں۔ یحییٰ نے اپنے ساتھی سے كھا دیكھ لینا آج كل امام علیہ السلام نظر بند ھو جائیں گے۔ چناچہ ھارون نے امام كی گرفتاری كے لیے احكامات صادر كر دیئے۔ پولیس امام (ع) كے گھر گئی تو آپ وھاں پر موجود نہ تھے۔ پھر وہ مسجد النبی (ص) میں آئے دیكھا تو آپ نماز پڑھ رھے تھے۔ ان ظالموں نے آپ كو نماز مكمل كرنے كا موقعہ ھی نہ دیا۔ نماز كے دوران امام كو پكڑ كر زبردستی مسجد سے باھر لے آئے۔ اس وقت حضرت نے قبر رسول (ص) پر حسرت بھری نگاہ سے دیكھا اور عرض كی “السلام علیك یا رسول اللہ السلام علیك یا جداہ” نانا اپنے اسیر و مجبور بیٹے كا سلام قبول فرمائے دیكھ لیا آپ نے كہ آپ كی امت آپ كی اولاد كے ساتھ كیا سلوك كر رھی ھے؟
ھارون ایسا كیوں كر رھا ھے؟اس لیے كہ اپنے بیٹوں كی ولی عھدی كیلئے لوگوں كو بیعت پر مجبور كرے ۔ امام موسی كاظم علیہ السلام خاموش رھے ۔ صبر و تحمل سے كام لیا كسی قسم كا انقلاب برپا كرنے كی بات نہ كی كیونكہ اس وقت كا ماحول بالكل آپ كے خلاف تھا كوئی بھی نہ تھا كہ جو آپ كی حمایت كرتا جو حامی تھے وہ بہت مجبور تھے۔ لیكن آپ كی اسیری كا انداز ظالمانہ نظام حكومت كے خلاف پر زور احتجاج بھی تھا اور آمریت كے منہ پر طمانچہ بھی آپ نے قول و فعل سے ثابت كر دیا ھے كہ ھارون اور اس كے بیٹے غاصب ھیں، مجرم ھیں ملت اسلامیہ كے دشمن ھیں ۔

مامون كی باتیں

مامون كا طرز زندگی ایسا تھا كہ بہت سے مورخین اس كو شیعہ كھتے اور لكھتے ھیں۔ میرے عقیدہ كے مطابق یہ ضروری نھیں ھے كہ ایك شخص ایك چیز پر عقیدہ ركھتا ھو لیكن وہ عمل بھی اس پر كرے۔ ھو سكتا ھے كہ وہ شیعہ ھو اور اس كا شمار شیعہ دانشوروں میں سے ھوتا ھو۔ تاریخ میں یہ بھی درج ھے كہ اس نے علماء اھل سنت كے ساتھ متعدد بار مباحثے و مناظرے كیے ھیں۔ میں نے كسی ایسے شیعہ عالم كو نھیں دیكھا جو اس جیسی بھترین گفتگو كرتا ھو۔ چند سال پیش تركی كے ایك سنی جج كی ایك كتاب چھپی اس كا فارسی زبان میں بھی ترجمہ ھو چكا ھے ۔ اس كتاب میں مامون كے اھل سنت علماء كے ساتھ حضرت علی علیہ السلام كی خلافت حقہ كے بارے میں مباحثے، مناظرے درج كیے گئے ھیں۔ مامون كی عالمانہ، فاضلانہ، دانشمندانہ آراء كو پڑھ كر انسان حیران ھو كر رہ جاتا ھے۔ اس طرح كی بحثیں تو بڑے سےبڑا عالم بھی نہ كرسكے ۔ مورخین نے لكھا ھے كہ مامون نے ایك مرتبہ كھا ھے كہ اگر كوئی مجھ سے پوچھے كہ میں نے شیعہ ھونا كس سے سیكھا ھے تو میں كھوں گا كہ میں نے شیعیت كا درس اپنے بابا ھارون سے حاصل كیا ھے ۔
كسی نے بالآخر كھہ ھی دیا كہ تمھارے بابا تو شیعہ اور آئمہ شیعہ كا سخت ترین مخالف ار كٹر دشمن تھا، تو اس نے كھا ھاں ایسا ھی ھے، لیكن میں آپ كو ایك واقعہ سنا تا ھوں وہ یہ كہ میں ایك مرتبہ اپنے بابا كے ھمراہ حج پر گیا اس وقت میں بچہ تھا سب لوگ بابا سے ملنے كیلئے آجارھے تھے ۔ خاص طور پر علماؤ، مشائخ اور زعمائے ملت كی خلیفہ وقت كے ساتھ خصوصی میٹنگیں تھیں ۔ بابا كا حكم تھا كہ جو بھی آئے سب سے پھلے اپنا تعارف خود كروائے، یعنی اپنا نام تمام شجرہ نسب بیان كرے تاكہ خلیفہ كو معلوم ھو كہ یہ قریش سے ھے یا غیر قریش ھے۔ اگر انصار میں سے ھے تو خرزی قبیلہ سے ھے یا اوسی قبیلہ سے۔ سب سے پھلے نوكر اطلاع كرتا كہ آپ كو فلاں شخص، فلاں كا بیٹا ملنے آیا ھے ۔ ایك روز نوكر آیا اس نے بابا سے كھا كہ آپ سے ایك نوجوان ملنے آیا ھے، اور كھتا ھے كہ وہ موسی ابن جعفر بن محمد بن علی ابن الحسین بن علی ابن ابی طالب (ع) ھے۔ اس نے اتنا ھی كھنا تھا كہ میرا بابا اپنی جگہ سے اٹھا اور كھا كہ ان سے كھو كہ تشریف لے آئیں۔ پھر بولا كہ ان كو سواری سمیت آنے دیا جائے اور ھمیں حكم دیا كہ اس عظیم القدر شھزادے كا استقبال كیا جائے۔ جب ھم استقبال كیلئے گئے تو دیكھا كہ عبادت وتقویٰ كے آثار آپ كی پیشانی سے جھلك رھے تھے۔ چھرہ اقدس پر نور ھی نور تھا۔ ان كو دیكھتے ھی ھر انسان نجوبی سمجھ جاتا تھا كہ یہ نوجوان انتھائی پرھیزگار اور متقی شخص ھے۔ بابا نے دور سے زور سے آواز دی كہ آپ كو قسم دیتا ھوں كہ آپ سواری سمیت آئیں۔ وہ نوجوان چند قدم سواری سمیت آیا ھم جلدی سے دوڑے اور اس كی ركاب پكڑ كر اس كو نیچے اتارا۔ انھوں نے انتھائی شائستگی و متانت سے سب كو سلام كیا۔ بابا نے ان كا بھت زیادہ احترام كیا ان كی اور ان كے بچوں كی خیر خیریت دریافت كی۔ پھر پوچھا كوئی مالی پریشانی تو نھیں ھے۔ انھوں نے جواب میں كھا الحمد للہ میں اور میرے اھل و عیال سب ٹھیك ھیں۔ اور كسی قسم كی پریشانی نھیں ھے ۔ جب وہ جانے لگے تو بابا نے ھم سے كھا جاؤ ان كو گھوڑے پر سوار كراؤ۔
جب میں ان كے قریب گیا تو آھستگی سے مجھ سے كھا كہ تم ایك وقت خلیفہ بنو گے میں تم كو ایك نصیحت كرتا ھوں كہ میری اولاد سے برا سلوك نہ كرنا۔ مجھے پتہ نھیں تھا كہ یہ كون ھیں۔ واپس آیا مین تمام بھائیوں كی نسبت زیادہ جرات مند تھا۔ موقع پا كر بابا كے پاس آیا اور كھا كہ جس كا آپ اتنا زیادہ احترام كر رھے تھے وہ تھا كون؟ بابا مسكرا كر كھنے لگے بیٹا اگر تو سچ پوچھتا ھے تو جس مسند پر ھم بیٹھے ھیں یہ ان ھی كی تو ھے ۔ میں نے كھا كیا آپ جو كھہ رھے ھیں دل سے كھہ رھے ھیں؟ بابا نے كھا كیوں نھیں۔ میں نے كھا بس خلافت ان كو دے كیوں نھیں دیتے؟كھا كیا تو نھیں جانتا كہ “الملك عقیم”؟ تو میرا بیٹا ھے اگر مجھے پتا چلے كہ میری حكومت كے خلاف تیرے دل میں فطور پیدا ھوا ھے اور تو میرے خلاف سازش كرنا چاھتا ھے تو تیرا سر قلم كر دوں گا۔ وقت گزرتا رہا ہارون لوگوں كو انعامات سے نوازتا رھا۔ پانچ ھزار سرخ دینار ایك شخص كی طرف اور چار ھزار دینار كسی دوسرے شخص كی طرف۔ میں نے سمجھا كہ بابا جس شخصیت كا حد سے زیادہ احترام كر رھے تھے ان كی طرف بھی زیادہ مقدار میں بھیجیں گے لیكن اس نے ان كی طرف سے سب سے كم رقم ارسال كی یعنی دوسو دینار۔ میں نے وجہ پوچھی تو بابا نے كھا كیا تو نھیں جانتا كہ یہ ھمارے رقیب ھیں سیاست كا تقاضا یہ ھے كہ یہ ھمیشہ تنگدست رھیں۔ ان كے پاس پیسہ نہ ھو كیونكہ اگر ان كے پاس دولت آگئی تو ممكن ھے ایك لاكھ تلوار كے ساتھ تمھارے بابا كے خلاف انقلاب برپا كردیں ۔

روحانی اعتبار سے امام (ع) كا اثر و رسوخ

یھاں سے آپ اندازہ لگایئے كہ شیعوں كے آئمہ كا روحانی اثر و رسوخ كس قدر زیادہ تھا۔ وہ نہ تلوار اٹھاتے تھے اور نہ كھلے عام تبلیغ كر سكتے تھے ۔ لیكن ان كی عوام كے دلوں پر حكومت تھی۔ ہارون كی حكومتی مشنری میں ایسے ایسے افراد موجود تھے جو امام علیہ السلام كو دل و جان سے چاھتے تھے ۔ دراصل حق اور سچ ایسی حقیقت ھے جو اندر بلا كی كشش ركھتی ھے ۔ آج آپ نے اخبار میں پڑھا ھو گا كہ اردن كے شاہ حسین نے كھا كہ میں اب سمجھا كہ میرا ڈرائیور میرے مخالفوں كا آلہ كار ھے اور میرا كچن بھی انھیں كی سازشوں كی زد میں ھے ۔ ادھر علی بن یقطین ھارون الرشید كا وزیر ھے یہ مملكت كا دوسرا ستون ھے۔ لیكن شیعہ ھے۔ تقیہ كی حالت میں زندگی بسر كررھا ھے۔ ظاھر میں ھارون كا كارندہ ھے لیكن پس پردہ امام امام موسی علیہ السلام كے پاك و پاكیزہ اھداف كی ترجمانی كرتا ھے۔ دو تین مرتبہ علی بن یقطین كے خلاف خلیفہ كو رپوٹ پیش كی گئی لیكن امام علیہ السلام نے اسے قبل از وقت بتا دیا اور اس كو ھوشیار رھنے ك تلقین ك جس كی وجہ سے علی بن یقطین حاكم وقت كے شر سے محفوظ رھا۔ ھارون كی حكومت میں ایسے افراد بھی موجود تھے جو امام علیہ السلام كے بیحد عقیدت مند تھے۔ لیكن حالات كی وجہ سے امام علیہ السلام سے رابط نھیں ركھ سكتے تھے ۔ اھواز كا رھنے والا ایك ایرانی شیعہ كھتا ھے كہ حكومت وقت نے مجھ پر بھت زیادہ ٹیكس عائد كر دیا تھا۔ ادائیگی ك صورت ھی میں مجھے چھٹكارا مل سكتا تھا۔ اتفاق سے انھیں دنوں میں اھواز كا گورنر معزدل ھوگیا۔ نیا گورنر آیا مجھے خوف تھا كہ اس نے آتے ھی مجھ سے ٹیكس كا مطالبہ كرنا ھے ۔ میری فائل كھل گئی تو میرا كیا بنے گا؟ لیكن میرے بعض دوستوں نے مجھ سے كھا كہ گھبراؤ نھیں نیا گورنر اندر سے شیعہ ھے اور تم بھی شیعہ ھو۔ ان كی باتوں كو سن كر مجھے قدرے دلی سكون ھوا۔ لیكن مجھ میں گورنر كے پاس جانے كی ھمت نہ تھی ۔
میں نے دل ھی دل میں سوچا كہ مدینہ جا كر امام موسی كاظم علیہ السلام كا رقعہ لے آؤں (اس وقت آقا گھر پر تھے) میں امام علیہ السلام كی خدمت میں حاضر ھوا اور سارا ماجرا گوش گزارا كیا۔ آپ نے تین چار جملے تحریر فرمائے جس میں آپ نے تحریر فرمایا كہ ھمارا حكم ھے كہ اس مرد مومن كی مشكل حل كی جائے ۔ آخر میں آپ نے لكھا كہ مومن كی مشكل كو حل كرنا اللہ كے نزدیك بہت ھی پسندیدہ عمل ھے۔وہ خط لے كر چھپتے چھپاتے اھواز آیا۔ اب مسئلہ خط پھنچانے كا تھا۔ چناچہ میں رات كی تاریكی میں بڑی احتیاط كے ساتھ گورنر صاحب كے گھر پھنچا۔ دق الباب كیا۔ گورنر كا نوكر باہر آیا میں نے كھا اپنے صاحب سے كھہ دو كہ ایك شخص موسیٰ ابن جعفر (ع) كی طرف سے آپ كو ملنے آیا ھے۔ میں نے دیكھا كہ گورنر صاحب فوری طور پر خود دروازے پر آگئے۔ سلام ودعا كے بعد آنے كی وجہ پوچھی میں نے امام علیہ السلام كا خط اس كو دے دیا۔ اس نے خط كو كھول كر اپنی آنكھوں پر لگایا اور آگے بڑھ كر مجھے گلے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس كے بعد مجھے اپنے گھر میں لے گیا۔ اور مجھے كرسی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔ بولا كیا تم امام علیہ السلام كی خدمت اقدس سے ھوكر آئے ھو؟ میں نے كھا جی ھاں پھر گورنر بولا كی آپ نے انھیں آنكھوں سے امام علیہ السلام كی زیارت كی ھے۔ میں نے كھا جی ھاں۔ پھر كھا آپ كی پریشانی كیا ھے؟میں نے اپنی مجبوری بتائی۔ آپ نے اسی وقت افسروں كو بلایا اور میری فائل كی درستگی كے آرڈر جاری كیے۔ چونكہ امام علیہ السلام نے فرمایا تھا كہ مومن كو خوش كرنے سے اللہ تعالیٰ كی رضا حاصل ھوتی ھے گورنر صاحب جب میرا كام كرچكے تھے تو مجھ سے بولے ذرا ٹھر جاؤ میں آپ كی خدمت كرنا چاھتا ھوں، وہ یہ كہ میرے پاس جتنا سرمایہ ھے اس كا آدھا حصہ آپ كو دیتا ھوں، میری آدھی رقم اور میرا آدھا سرمایہ آپ كا ھے۔ وہ مومن روایت كرتا ھے كہ ایك تو میری بہت بڑی مشكل حل ھوچكی تھی دوسرا گورنر صاحب نے مجھے امام علیہ السلام كی بركت سے مالا مال كردیا تھا۔ میں گورنر كو دعائیں دیتا ھوا گھر واپس آگیا۔ ایك سفر پہ میں امام (ع) كی خدمت اقدس میں گیا تو سارا ماجرہ عرض كیا آپ علیہ السلام سن كر مسكرا دیئے اور خوشی كا اظھار فرمایا۔
اب سوال یہ ھے كہ ہاروں كو ڈر كس چیز سے تھا؟ جواب صاف ظاھر ھے وہ حق ك جاذبیت اور كشش سے خوف زدہ تھا:
كونوا دعاۃ الناس بغیر السنتكم
یعنی آپ لوگ كچھ كھے بغیر لوگوں كو حق كی دعوت دیں۔ زبان كی باتوں میں اثر اكثر كم ھی ھوتا ھے۔ اثر و تاثیر تو عمل ھی سے ھے۔
وہ شخص جو امام موسی كاظم علیہ السلام یا آپ كے اباؤ اجداد اور اولاد كا نزدیك سے مشاھدہ كر چكا ھو۔ وہ جانتا ھے كہ یہ سب حق پر ھیں اور حق ان كے ساتھ ھے ۔ یہ پاك وپاكیزہ ھستیاں خدا كی حقیقی معرفت ركھتے ھیں۔ اور خوف خدا صحیح معنوں میں انھی میں ھے۔ یہ خدا سے صحیح محبت كرنے والے ھیں، اور جو كچھ بھی كرتے ھیں اسی میں خدا كی رضا ضرور شامل حال ھوتی ھے ۔

ایك جیسی عادتیں

دو عاتیں ایسی ھیں جو تمام آئمہ طاھرین علیھم السلام میں مشترك ھیں۔ عبادت اور خدا خوفی كا جذبہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ھستیاں خدا كو اس طرح مانتی ھیں جیسا كہ ماننا چاھیے۔ خدا خوفی ایسی كہ نام الھی زبان پر آنے یا سننے سے ان كا جسم كانپ اٹھتا تھا یوں محسوس ھوتا ھتا جیسا كہ وہ خدا كو دیكھ رھے ھوں۔ جنت و جھنم كے مناظر آنكھوں كے سامنے ھوں؟ امام موسی كاظم علیہ السلام كے بارے میں تاریخ میں ملتا ھے ۔
حلیف السجدہ الطویلۃ والدموع الغزیرۃ” (منتھی الآمال، ج 2/222)
طویل سجدوں اور تیزی كے ساتھ بھنے والے آنسوؤں كے مالك امام ۔
جب انسان كا دل اندر سے جوش مارتا ھے تو تب اس كی آنكھوں سے آنسو بھتے ۔ آئمہ طاھرین علیھم السلام كی دوسری مشترك صفت اور عادت یہ ھے كہ تمام آئمہ طاھرین علیھم السلام غریبوں سے محبت كرتے ان كے ساتھ ھمدردی كے ساتھ پیش آتے اور غریبوں، بے نواؤں كی فوری اور ھر طرح كی مدد كرتے تھے۔ امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، امام زین العابدین (ع)، امام محمد باقر (ع)، امام جعفر صادق (ع)، امام موسی كاظم (ع)، اور دیگر آئمہ سیرت و كردار كے اعتبار سے اپنی مثال آپ ھیں۔ جب ھم ان كی سیرت طیبہ كا مطالعہ كرتے ھیں تو دیكھتے ھیں مظلوموں، بے كسوں، یتییموں، اور فقراء كی مدد كرنے میں ان كا كوئی ثانی نھیں ھے۔ ظاھری سی بات ھے یہ بے سھارا لوگ ان كو دیكھتے بھی ھوں گے۔ ان كے عمل نے ان كو وھاں تك پھنچا دیا جھاں كوئی بھی نھیں پھنچ سكتا ھے ۔

ھارون كی حكومتی مشنری

امام علیہ السلام ایك عرصہ سے زندان سے مظلومانہ زندگی گزار رھے تھے كہ ھارون نے سازش تیار كی كہ امام علیہ السلام كی حیثیت اور عزت كم كی جائے۔
ایك خوبصورت كنیز كی ڈیوٹی لگائی گئی كہ زندان میں امام علیہ السلام كے ساتھ رھے اور كھانا پینا آپ كی خدمت میں پیش كرتی رھے۔ انھوں نے انتھائی حیسن عورت كو اس لیے ڈیوٹی پر متعین كیا كہ امام ایك قیدی ھیں اور مرد ھونے كی وجہ سے ان كی خوابیدہ خواھشات بیدار ھوں گی اور وہ كوئی ایسا قدم اٹھائیں گے كہ ھم ان كو گناہ میں ملوث كرلیں گے۔ ہارون اور اس كے كارندوں كی غلط فھمی تھی لیكن ادھر كیا ھوا یہ كنیز جب تنگ و تاریك كمرہ میں گئی تو اس كی زندگی میں بہت بڑا انقلاب برپا ھوگیا۔ اور اس نےبھی اپنا سر سجدہ میں ركھ دیا اور عبادت میں مشغول ھوگئی۔ جاسوسوں نے ہارون كو خبر دی كہ كنیز بھی عبادت كرنے لگی ھے۔ ہارون نے اس كو اپنے دربار میں بلوایا دیكھا وہ تو وہ نہ رھی، كبھی آسمان كی طرف دیكھتی ھے اور كبھی زمین كی طرف۔ پوچھا گیا اے كنیز تو نے اپنا یہ حال كیوں بنایا ھے؟ كھنے لگی میں تو گناہ كی غرض سے گئی تھی جب تقویٰ اور پرھیز گاری كے عظیم پیكر كو دیكھا تو مجھ میں احساس شرمندگی پیدا ھوا كہ ھم كیا كرنا چاھتے ھیں۔ اور یہ قیدی كس طرح عبادت الھی میں منھمك ھے۔ میں اپنی اس غلطی پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی ھوں۔ اللہ میرے دوسرے گناہ بھی بخش دے گا۔ یہ كھتے كھتے وہ وھیں پر انتقال كر گئی۔

امام موسی كاظم (ع) اور بشر حافی

آپ نے بشر حافی كا واقعہ سنا ھے كہ ایك روز امام علیہ السلام بغداد كے ایك كوچے سے گزر رھے تھے۔ اچانك آپ كو رقص وسرود اور ناچ گانے كی آواز سنائی دی۔ اتفاق سے اسی گھر سے ایك نوكرانی باھر نكلی كہ گھر كا كوڑا كركٹ ایك جگہ پر پھینكنے۔ آپ نے اس كنیز سے فرمایا كہ كیا یہ گھر كسی آزاد شخص كا ھے یا كسی غلام كا؟ سوال بڑا عجیب تھا وہ كنیز بولی آپ مكان كی ظاھری خوبصورتی اور زیبائش و آسائش كو نھیں دیكھ رھے كہ یہ كس شخص كا گھر ھوسكتا ھے۔ یہ گھر بشر حافی كا ھے ۔ بغداد كا امیر ترین یہ شخص ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سن كر فرمایا ہاں یہ گھر كسی آزاد ھی كا ھے۔ اگر بندہ ھوتا تو اس كے گھر سے موسیقی، راگ رنگ كی آوازیں بلند نہ ھوتی؟ عجیب تاثیر تھی امام كے جملوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب وہ نوكرانی كوڑا ڈال كر واپس اپنے مالك كے گھر گئی تو اس نے نوكرانی سے تاخیر كی وجہ پوچھی، تو اس نے كھا كہ ایك شخص نے مجھ سے عجیب و غریب بات كھی ھے۔ بشر بولا وہ كیا؟ بولی كہ اس نے مجھ سے پوچھا كہ یہ گھر كسی آزاد كا ھے یا غلام كا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے كھا آزاد كا ھی گھر ھے۔ اس شخص نے كھاں ہاں واقعی وہ آزاد ھے۔ اگر بندہ ھوتا تو رقص وسرود كی آوازیں اس كے گھر سے بلند نہ ھوتیں۔ بشر نےپوچھا اس شخص كی كوئی خاص نشانی؟ كنیز نے جب اس كی وضع قطع بتائی تو سمجھا كہ آپ موسیٰ بن جعفر (ع) ھی تھے۔
بشر نے پوچھا پھر وہ شخص كھاں گیا؟ اس نے اشارہ كر كے بتایا كہ وہ بزرگ اس طرف جارھے تھے۔ چونكہ وقت كم تھا اگر جوتا پھنتا تو شاید امام علیہ السلام آگے جا چكے ھوتے۔ لہذا وہ پا برھنہ امام علیہ السلام كے پیچھے دوڑ پڑا۔ آقا كے اس جملے نے اس كی زندگی میں انقلاب برپا كردیا تھا۔ كہ اگر وہ بندہ ھوتا تو اس قسم كا گناہ نہ كرتا۔ یہ ہانپتا كانپتا امام علیہ السلام كی خدمت میں پھنچا۔ مولا (ع) آپ نےجو كچھ فرمایا سچ فرمایا ھے ۔ میں اپنی غلطی پر خدا سے توبہ كرتا ھوں اور واقعی طور پر اس كا بندہ بننا چاھتا ھوں۔ امام علیہ السلام نےاس كے حق میں دعا كی اور وہ توبہ تائب ھوكر اللہ تعالیٰ كے صالح ترین بندوں میں شامل ھو گیا۔ جب اس طرح كی خبریں ہارون الرشید تك پھنچیں تو وہ اپنے اندر حساس خطر كرنے لگا۔ دل ھی دل میں كھا كہ ایسا نھیں ھونا چاھیے گویا وہ كھہ رھا تھا كہ “وجودك ذنب” كہ اے موسیٰ ابن جعفر آپ كا زندہ رھنا میرے نزدیك گناہ ھے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا میں تمھارے كیا بگاڑا؟ میں نے كونسا انقلاب برپا كیا ھے؟ میں نے ایسا كونسا كام كیا ھے كہ تم مجھ سے گبھراتے ھو؟ ہارون جواب نہ دے سكا لیكن دل میں كھہ رھا تھا كہ آپ كا موجود رھنا بھی خطرے سے خالی نھین ھے۔ امام علیہ السلام یہ باتیں اپنے تحفظ اور دفاع كی خاطر كرتے تاكہ مومنین ہوشیار رھیں اور حكومتی ھتكنڑوں میں پھنس كر اپنا نقصان نہ كر بیٹھیں۔ ہارون كو ھر وقت آپ سے اور آپ كے ماننے والوں سے خطرہ لاحق رھتا تھا۔ اس لیے وہ امام اور ان كے چند خاص موالیوں كے خاتمہ كیلئے مشیروں سے مشورہ كرتا رھتا تھا۔

صفوان جمال اور ھارون

آپ نے صفوان كا واقعہ سنا ھے؟ یہ شخص اس دور میں اونٹ كرائے پر دیتا تھا۔ اس زمانے میں سب سے زیادہ استعمال ھونے والی سواری اونٹ ھی ھوا كرتا تھا۔ صفوان كا حكومت وقت كےساتھ بھی اچھا رابطہ تھا۔ كبھی كببھار سركاری ڈیوٹی كے لیے بھی حكومت كو اونٹ مھیا كرتا تھا۔ ایك روز ھارون نے پروگرام بنایا كہ مكہ جائے۔ چناچہ اس نے صفوان كو بلوایا كہ وہ اس كے لیے چند اونٹ تیار كر لے كرایہ وغیرہ طے پاگیا۔ صفوان امام موسی كاظم علیہ السلام كے خاص شیعوں میں تھا۔ ایك روز امام علیہ السلام كی خدمت اقدس مین حاضر ھوا اس نے آتے ھی امام علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا كہ مولا (ع) میں نے ہارون كو اونٹ كرائے پر دیئے ھیں۔ حضرت نے فرمایا تو نے اس ظالم، ستم گر شخص كو اونٹ كیوں دیئے ھیں۔ صفوان بولا مولا (ع) میں تو اس سے كرایہ لیا ھے، پھر اس كا سفر كوئی گناہ كی غرض سے نہ تھا بلكہ سفر حج كیلئے ھے۔ اگر وہ حج پر نہ جاتا تو میں اونٹ اس كو كرائے پر نہ دیتا۔ فرمایا تو نے اس سے پیسے لے لیے ھیں؟ یا اس رقم كا بقایا رھتا ھے؟ اپنے دل سے سوال كر، میں نے اونٹ اس كو كرائے پر دیئے ھیں اس لیے دیئے ھیں كہ ھارون واپس لوٹے گا اور میں اس سے كرایہ لوں گا۔ صفوان بولا جی ھاں مولا ایسا ھی ھے آپ نے فرمایا ظالم كی زندگی پر راضی رھنا بھی گناہ ھے ۔ صفوان باھر آیا ۔ ہارون سے دیرینہ تعلقات كے باوجود اس نے اپنے تمام اونٹ بیچ دیئے اور اعلان كیا كہ آئندہ وہ یہ كاروبار بلكل نھیں كرے گا۔ اس كے بعد ہارون كے پاس آیا كہ میں نے جو آپ سے معاھدہ كیا تھا وہ منسوخ كرتا ھوں كیونكہ میں نے مجبوری كی وجہ سے اپنے تمام اونٹ فروخت كر دیئے ھیں۔ ہارون نے پوچھا پھر بھی بتائے كہ اونٹ بیچنے كی وجہ كیا ھے؟ صفوان بولا اے بادشاہ سلامت میں بوڑھا ھوچكا ھوں اب اس طرح كا كام مجھ سے نھیں ھوسكتا ۔
ھارون بڑا چالاك شخص تھا اس نے كھا ایسا نھیں ھے كہ جو تم كھہ رھے ھو دراصل تجھے موسیٰ ابن جعفر (ع) نے منع كردیا ھے ۔ اور انھوں نے اس كام كو غیر شرعی قرار دیتے ھوئے اونٹ بیچنے كی تلقین كی ھے ۔ بخدا اگر تمھارے اور ھمارے درمیان پرانی دوستی نہ ھوتی تو تجھے ابھی اور اسی وقت قتل كردیتا ۔ یہ تھے وہ عوامل جو امام علیہ السلام كی شھادت كا سبب بنے ۔ سب سے پھلے تو دشمن كو آپ كے وجود سے سخت خطرہ لاحق تھا۔ دوسرا آپ تقیہ كی حالت میں زندگی گزارتے رھے، یعنی آپ نے اس انداز سے اپنا طور طریقہ ركھا كہ آپ كا دشمن كسی لحاظ سے بھی آپ كو نقصان نہ پھنچا سكا۔ اس كے باوجود آپ تبلیغی فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ لوگوں كی روحانی و علمی ضروریات پوری كرتے، پسماندہ طبقے كے حقوق كے لیے بھر پور طریقے سے آواز بلند كرتے تھے۔ لیكن آپ نے اس تمام مدت دشمن كو انگشت نمائی كا موقعہ نہ دیا۔
وہ اپنے جاسوسوں، گماشتوں كے ذریعے اس كو كوشش میں رھا كہ امام علیہ السلام پر كوئی نہ كوئی سیاسی یا مذھبی جرم عائد كركے ان كو سزا دے سكے۔ تیسرا آپ استقامت كا كوہ گراں تھے ۔ جب یحییٰ برمكی نے آپ سے كھا كہ آپ ایك مرتبہ ھارون سے معافی مانگ لیجئے تو آپ كو نہ صرف رھائی مل سكتی ھے بلكہ وافر مقدار میں انعام واكرام بھی ملے گا۔ آپ نے فرمایا اس زندگی سے مرجانا بھتر ھے اور ھم بھت جلد اس فانی دنیا سے كوچ ھی كرنے والے ھیں ۔
ایك دفعہ ھارون نے كسی دوسرے شخص كو امام كے پاس زندان میں بھیجا اور چاھا كہ پیار و محبت سے امام علیہ السلام سے گناہ كا اعتراف كروایا جائے۔ پھر بھی اس نے یہ لب و لھجہ اپنایا كہ ھم آپ سے دلی عقیدت ركھتے ھیں۔ آپ كا دل و جان سے احترام كرتے ھیں۔ ھماری دلی خواھش ھے كہ آپ یھیں پہ رھیں اور مدینہ نہ جائیں۔ ھم آپ كو زندان میں ركھنا نھیں چاھتے ۔ ھم آپ كو اپنے پاس ایك محفوظ مكان میں ركھنا چاھتے ھیں۔ میں نے آپ كے پاس ایك ماھر باورچی بھیجا ھے تاكہ آپ اپنی پسند كا كھانا تیار كرواسكیں۔ یہ تھا فضل بن ربیع۔ ھارون كو اس پر بھت زیادہ اعتماد تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یھی فضل سادہ لباس میں تلوار اپنے ساتھ حمائل كركے امام كے پاس پھنچا۔ امام علیہ السلام نماز پڑھنے میں مشغول تھے ۔
امام علیہ السلام كو جب پتہ چلا كہ فضل بن ربیع آیا ھے ۔ فضل اس انتظار میں تھا كہ آپ نماز كو ختم كریں اور میں آپ كو خلیفہ كا پیغام پھنچاؤں۔ آپ نے نماز ختم كرتے ھی دوبارہ اور نماز شروع كردی۔ اس طرح اس كو سلام كرنے اور بات كرنے كی مھلت بھی نہ دی۔ پھلے تو اس نے سمجھا كہ امام علیہ السلام نے چند نمازیں پڑھنی ھیں لیكن پھر اس كو پتہ چلا كہ آپ اس سے بات كرنا نھیں چاھتے۔ اس لیے وہ نماز پہ نماز پڑھ رھے ھیں۔ كافی انتظار كرتا رھا پھر اس كے ذھن میں خیال گزرا كہ ہارون كے ذھن میں بدگمانی نہ ھو۔ امام نماز میں مشغول تھے كہ اس نے بات شروع كردی كہ آپ كے چچازاد بھائی ہارون نے آپ كو اس طرح پیغام بھیجا ھے ۔ ھارون نے پیغام میں كھا ھے كہ ھم پر آپ كی بے گناھی ثابت ھو چكی ھے ۔ اسلئے مصلحت كا تقاضا یہ ھے كہ آپ مدینہ جانے كی بجائے یھیں پہ رھیں۔ مجھے ھارون كی طرف سے حكم ملا ھے كہ بھترین باورچی آپ كی خدمت میں پیش كروں تاكہ حسب خواھش آپ اپنا كھانا تیار كرواسكیں ۔
مؤرخین نے لكھا ھے امام علیہ السلام نے اس كے جواب میں صرف اتنا كھہ كر دوبارہ نماز شروع كرلی:
لا حاضر لی مال فینفصنی وما خلقت سؤولا، اللہ اكبر
میرے پاس اپنا مال نھیں ھے كہ خرچ كرسكوں میں مال حلال سے كچھ كھاتا پیتا ھوں باقی رھی كسی سے مانگنے كی بات تو مانگنا تو ھم نے اپنی زندگی میں سیكھا ھی نھیں ھے۔ بھلا دینے والے مانگنا گوارا كب كرسكتے ھیں۔ اس كے بعد كھا اللہ اكبر اور نماز شروع كر لی۔
یہ تھا خلفاء كا ھمارے اماموں كےساتھ رویے، وہ كسی نہ كسی طریقے سے آئمہ كو مجبور كرتے رھتے تھے، لیكن آئمہ طاھرین علیھم السلام كی حسن سیاست اور تدبر كا كیا كھنا كہ دنیا كے طاقتور ترین حكمران ان كی استقامت كے مقابلے میں گھٹنے ٹیكنے پر مجبور ھو گئے۔ وہ آئمہ كے وجود كو اس لیے برداشت نھیں كرتے تھے كہ ان كا وجود ھی ظالموں كی موت ھے اس لیے وہ تلوار كے ذریعہ یا زھر دے كر دنیا میں اللہ تعالیٰ كی خاص نشانیوں كو صفحہ ھستی سے مٹانے كےلیے عملی طور پر اس قبیح حركت كے مرتكب ھوتے تھے، لیكن حق كی سچائی اور فتح ملاحظہ كیجئے كہ وہ قتل كر كے آرام سے نھیں رہ سكتے تھے اور یہ مركر بھی امر ھوجاتے تھے ۔

شھادت امام علیہ السلام

جیسا كہ ھم نے پھلے عرض كیا ھے كہ امام علیہ السلام كے لیے آخری زندان سندی بن شاھك كا تھا۔ وہ مسلمان نہ تھا اس كے دل میں كسی كے بارے میں كسی قسم كا رحم نہ تھا۔ خلیفہ اس كو جو بھی حكم دیتا وہ فوری طور پر بجا لاتا تھا۔ امام علیہ السلام كو تنگ و تاریك كمرہ میں ركھا گیا۔ ان كا خیال تھا كہ آپ اس كمرے كی وحشتناكی سے گھبرا كر اور بیماری سے نڑھال ھوكر یو نھی انتقال كر جائیں گے۔ اس سے عوام میں حكومت كےخلاف رد عمل ظاھر نہ ھوگا۔ مؤرخین نےلكھا ھے كہ یحییٰ برمكی نے ہارون سے كھا كہ امام علیہ السلام كو قتل كرنے كا كام وہ خود ھی كرے گا۔ اس نے سندی كو بلوایا اور اس كو مزید انعام واكرام اور اعلیٰ عھدے كی لالچ دی اور اس كو حكم دیا كہ وہ امام علیہ السلام كا كام تمام كردے۔ یحییٰ نے انتھائی خطرناك زھر منگوا كر سندی كو دیا وہ زھر كھجور میں ركھ كر امام علیہ السلام كو كھلایا۔ اس كے فوراً بعد انھوں نے چند سركاری گواہ منگوائے اور چند علماء اور قاضیوں كو بلوایا گیا۔ حضرت كو اس میٹنگ میں لایا گیا۔ ھارون نے كھا لوگو! گواہ رھنا شیعہ امام موسیٰ كاظم علیہ السلام كے بارے میں طرح طرح كے پروپیگنڑے كرتے ھیں اور ان كا كھنا كہ امام علیہ السلام زندان میں سخت تكلیف میں ھیں آپ خود اپنی آنكھوں سے مشاھدہ كر لیں كہ وہ تندرست و صحیح و سالم ھیں۔ ھارون كی بات ابھی مكمل نہ ھوئی تھی كہ قیدی امام علیہ السلام بول پڑے فرمایا ھارون جھوٹ كھتا ھے مجھے ابھی ابھی زھر دیا گیا اور میں چند لمحوں كا مھمان ھوں۔ ۔ ۔ ۔ یھان پر بھی ان عیار ترین حكمرانوں كا منصوبہ بھی پورا نہ ھوسكا۔
پھر كیا ھوا بغداد كا قیدی اور شیعوں و مومنوں كا ساتواں امام شھید ھوگیا۔ شھادت كے بعد غریب بغداد كا جنازہ پل بغداد پر ركھا گیا۔ لوگوں میں پھر پروپیگنڑا كیا گیا كہ ویكھو تو سھی امام كا كوئٰ عضو متاثر نھیں ھوا ھے۔ سر اور زبان سلامت ھے۔ یہ اپنی موت آپ مرے ھیں، ان كی وفات میں ھمارا كسی قسم كا ھاتھ نھیں ھے۔ تین دن تك اس پردیسی اور مظلوم ومسموم امام كا جنازہ بغداد كے پل پر پڑا رھا۔ اس سے صرف لوگوں كو یہ بتانا مقصود تھا كہ قتل امام علیہ السلام میں حكومت كا ھاتھ نھیں ھے۔ لیكن امام علیہ السلام كے ماننے والے (جو اس وقت سخت كرب اور پریشانی میں مبتلا تھے) جانتے تھے۔ امام علیہ السلام كو زھر ھی كے ذریعہ شھید كردیا گیا۔
مورخین لكھتے ھیں كہ ایران سے چند مومنین بغداد آئے ان كی دلی خواھش تھے كہ امام علیہ السلام كی زندان میں ملاقات كریں گے ۔ انھوں نے دروغہ جیل سے ملاقات كی اجازت چاھی تو اس نے انكار كر دیا۔ انھوں نے عھد كر لیا كہ وہ ھر ھال میں اپنے غریب و مظلوم آقا سے مل كر جائیں گے۔ حكام نے ان كے پاس چند سپاھی بھیجے كھا كہ آپ كی درخواست منظور كر لی گئی۔ آپ فلاں جگہ پر انتظار كریں۔ آپ كو اپنے امام (ع) سے ملایا جائے گا۔ یہ بیچارے اس انتظار میں كھڑے رھے اور دل ھی دل میں كھنے لگے جب ھم واپس اپنے وطن لوٹیں گے تو وھاں لوگوں كو امام علیہ السلام كی زیارت كے بارے میں بتائیں گے پھر ھم اپنے آقا سے شرعی مسائل بھی دریافت كریں گے۔ ابھی یہ اس طرح كی باتیں آپس میں كرھی رھے تھے كہ دیكھا چار مزدوروں نے ایك جنازہ اٹھایا ھوا ھے ھمیں جیل كا ایك ملازم كھنے لگا۔ “امام شما ھمین است”كہ آپ نے جس امام سے ملنا ھے وہ یھی ھے ۔ یہ جنازہ تمھارے بیكس امام ھی كا ھے۔ یہ ایرانی مومنین اپنا منہ پیٹتے رہ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب بغداد كا جنازہ آگے سے گزر گیا۔

مفاتیح انڈیکس پر جایئں

ہوم پیج پر جایئں

قرآن انڈیکس پر جایئں

محرم صفر ربیع الاول رجب شعبان رمضان ذی القعد ذی الحج

براہ مہربانی  اپنی  تجاویز  یہاں بھیجیں  

اس سائٹ کا کاپی رائٹ نہیں ہے