حضرت فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیھا )

جلوہ نمائے شمع حقیقت ہے فاطمہؑ

آئینہ کمال نبوت ہیں فاطمہؑ

یہ مانتا ہوں ان کو رسالت نہیں ملی

لیکن شریکِ کارِ رسالت ہیں فاطمہؑ

 

حضرت فاطمہؑپیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور جناب خدیجہ الکبری (سلام اللہ علیھا ) کی اکلوتی بیٹی حضرت علیؑکی رفیقہٴ حیات اور امام حسنؑو امام حسین ؑ، جنابِ زینبؑو اُمِ کلثومؑکی مادرِ گرامی اور نو اماموں کی جدہٴ ماجدہ تھیں۔ آپ کی مشہور کنیت اُمُّ الآئمہ، امام الحسنین اور ام السبطین تھی۔ مشہور القاب زہرا و سیّدة النساء تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی کنیت ”اُمِّ ابیھا“ بھی تھی جو میرے نزدیک یہ ”اُمِ اِبنیہا“ ہے یعنی حسنؑو حسینؑکی ماں۔

 آپ کی ولادت

آپ کا نورِ وجود نورِ رسالت کے ساتھ خلقت کائنات سے بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا۔ البتہ آپؑکے ظاہری نمود و شہود کے لیے علماء نے لکھا ہے کہ آپ معراج رسالت مآب کے بعد ۵ ئبعثت میں بتاریخ ۲۰ جمادی الثانی یوم جمعہ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا سالِ ولادت عام الفیل کے لحاظ سے ۴۶ ء اور عیسوی نقطہٴ نگاہ سے ۶۱۴ - ۶۱۵ ء تھا۔ آپ کی ولادت کے وقت جنت سے حوروں اور آسیہ بنت مزاحم۔ مریم بنت عمران۔ صفورا بنت شعیب، کلثوم ہمشیرہ موسی کاآنا کتابوں سے ثابت ہے۔ جنابِ خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کا بیان ہے کہ چونکہ میں نے اپنے قبیلہ کے منشاء کے برخلاف سرورِ کائنات سے شادی کر لی تھی۔ اس لیے میری قوم نے میرا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ میں نے ولادت کے وقت حسبِ دستور اطلاع دی لیکن کوئی نہ آیا۔ اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوئی۔ حوروں اور پاک بیبیوں نے قابلہ اور دایہ کا کام کیا۔ بچی پیدا ہوئی۔ رحمة اللعالمین کا گھر بقعہ نور بن گیا (۱)

آپؑ کا اکلوتی بیٹی ہونا

مناقب ابن شہر آشوب میں ہے کہ جنابِ خدیجہؑ کے ساتھ جب آنحضرت کی شادی ہوئی تو آپ باکرہ تھیں۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ قاسم عبد اللہ یعنی طیب و طاہر اور فاطمہ زہرا بطنِ خدیجہؑ سے رسولِ اسلام کی اولادیں تھیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ زینب، رقیہ امِ کلثوم آنحضرت کی لڑکیاں تھیں، یا نہیں یہ مسلم ہے کہ یہ لڑکیاں ظہورِ اسلام سے قبل کافروں عتبہ، عتیبہ، پسران ابو لہب اور ابو العاص ابنِ ربیع کے ساتھ بیاہی تھیں۔ جیسا کہ مواہب لدنیہ ج۱ صفحہ ۱۹۷ طبع مصر و مروج الذہب مسعودی ج۲ صفحہ ۲۹۸ طبع مصر سے واضح ہے۔ یہ مانا نہیں جا سکتا کہ رسول اسلام اپنی لڑکیوں کو کافروں کے ساتھ بیاہ دیتے۔ لہٰذا یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ عورتیں ہالہ بنت خویلہ ہمشیرہ جناب خدیجہؑ کی بیٹیاں تھیں۔ ان کے باپ کا نام ابو لہند تھا جیسا کہ علامہ معتمد بدخشانی نے مرجاء الانس میں لکھا ہے۔“ یہ واقعہ ہے کہ یہ لڑکیاں زمانہ کفر میں ہالہ اور ابوالہند میں باہمی چپقش کی وجہ سے جنابِ خدیجہؑکے زیرِ کفالت اور تحت تربیت رہیں اور ہالہ کے مرنے کے بعد مطلقاً انھیں کے ساتھ ہو گئیں اور خدیجہؑ کی بیٹیاں کہلائیں۔ اس کے بعد بذریعہ جنابِ خدیجہؑ آنحضرت سے منسلک ہو کر اسی طرح رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی بیٹیاں کہلائیں۔ جس طرح جنابِ زید محاورہ عرب کے مطابق رسول کے بیٹے کہلاتے تھے۔ میرے نزدیک ان عورتوں کے شوہر مطابق دستورِ عرب و امادِ رسول کہے جانے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ کسی طرح نہیں مانا جا سکتا کہ یہ رسول کی صلبی بیٹیاں تھیں۔ کیونکہ حضور سرورِ عالم کا نکاح جب بی بی خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) سے ہوا تھا، تو آپ کے اعلانِ نبوت سے پہلے ان لڑکیوں کا نکاح مشرکوں سے ہو چکا تھا اور حضور سرورِ کائنات کا نکاح ۲۵سال کے سن میں خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) سے ہوا۔ اور تیس سال کے سن تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور چالیس سال کے سن میں آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا۔ اور ان لڑکیوں کا نکاح مشرکوں سے چالیس سال کی عمر سے پہلے ہو چکا تھا، اور اس دس سال کے عرصہ میں آپ کے فرزند کا بھی پیدا ہونا اور ان تین لڑکیوں کا پیدا ہونا تحریر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ مدارج النبوةمیں بتفصیل موجود ہے۔ بھلا غور تو کیجئے کہ دس سال کی عمر میں چار پانچ اولادیں بھی پیدا ہو گئیں اور اتنی عمر بھی ہو گئی کہ نکاح مشرکوں سے ہو گیا۔ کیا یہ عقل و فہم میں آنے والی بات ہے کہ چار سال کی لڑکیوں کا نکاح مشرکوں سے ہو گیا اور حضرت عثمان سے بھی بڑی ایک لڑکی کا نکاح حالتِ شرک ہی میں ہو گیا۔ جیسا کہ مدارج النبوة میں مذکور ہے۔ اس حقیقت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکیاں حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی نہ تھیں۔ بلکہ ہالہ کی تھیں اور اس عمر میں تھیں کہ ان کا نکاح مشرکوں سے ہو گیا تھا۔(۲)

بچپن اور تربیت

جناب سیدہ میں بچپن کے وہ آثار ہی نہ تھے جو عام لڑکیوں میں ہوا کرتے ہیں۔ امِ سلمہ سے کہا گیا کہ فاطمہؑکو اصولِ تہذیب سکھائیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں مجسّمہٴ عصمت و طہارت کو اخلاق و عادات کی کیا تعلیم دے سکتی ہوں۔ میں تو خود اس کم سن بچی سے تعلیمِ اصول حاصل کیا کرتی ہوں۔ کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا بچپن ، عبادت اور خدمتِ والدین میں گزرا۔ ایک مرتبہ آنحضرت صحن کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ ابو جہل جو حضرت عمر کا ماموں تھا۔ (۳)اس کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے حالتِ سجدہ میں اونٹ کی اوجھڑی گوبر بھری پشتِ حضور پر رکھ دی۔ فاطمہؑکو خبر ملی تو آپ دوڑی ہوئی آئیں اور پشتِ رسالت سے اوجھڑی ہٹا دی اور پشتِ مبارک کو پانی سے دھو دیا۔ رسولِ کریم نے فرمایا۔ بیٹی! ایک دن یہ دشمن بھی مغلوب ہوں گے اور خدا میرے دین کو انتہائی بلندی عطا کرے گا۔ تاریخ میں ہے کہ حضرت خدیجہؑ کسی کی شادی میں جانے کے لیے تیار ہوئیں اور کپڑے پہننے لگیں، تو پتہ چلا کہ جنابِ سیّدہ کے لیے کپڑے نہیں ہیں۔ ماں اسی تردّد میں تھی کہ بیٹی کو احساس ہو گیا۔

عرض کیا مادرِ گرامی! میں پُرانے ہی کپڑوں میں چلوں گی۔ کیونکہ بابا جان فرماتے ہیں کہ مسلمان لڑکیوں کا بہترین زیورِ حیات تقویٰ ہے اور بہترین آرائش شرم و حیا ہے۔

فاطمہ زہراؑ کا سارا بچپن فقر و فاقہ اور تنگیٴ و مصائب میں گزرا۔ آپ کو جن حضرات سے تربیت ملی وہ یہ ہیں۔ (۱) خدیجہ  الکبریٰ (سلام اللہ علیھا ) (۲) سرورِ کائنات (۳) فاطمہ بنتِ اسد (سلام اللہ علیھا ) (۴) اُم الفضل زوجہ عباس (۵) اسماء بنت عمیس زوجہ جعفر طیار -(۶) اُم ہانی ہمشیرہ جنابِ ابو طالب- (۷) ام ایمن (۸) صفیہ بنت جناب حمزہ -

مدارج النبوة میں ہے کہ حضرت رسول اکرم جنابِ سیدہ کو جبکہ وہ کمسن تھیں۔ اکثر اپنی آغوش میں بٹھا لیا کرتے تھے اور ان کے لبوں کو بوسہ دیتے تھے۔ اس پر حضرت عائشہ نے کہا کہ جنابِ فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) کے بوسے دیتے ہیں اور اپنی زبان ان کے منہ میں دیتے ہیں۔ حضور نے فرمایا، تمہیں معلوم نہیں، جب میں معراج پر گیا تھا جبریلؑنے مجھے ایک سیب جنت دیا تھا۔ میں نے وہ کھایا تھا اور اسی سے فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کا نقطہٴ وجود قائم ہوا تھا۔ اے عائشہ جب میں جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہؑکی خوشبو سونگھتا ہوں اور دہنِ فاطمہؑسے میوہٴ جنت کا لطف اٹھاتا ہوں۔ (۴)

آپؑ کی عصمت

عصمت کوئی ایسی صفت نہیں جو کسی عمل پر موقوف ہو، یہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے اور بد و فطرت میں عطا ہوا کرتا ہے۔ ملائکہ انبیاء اور اوصیاء خاص کے علاوہ یہ پاکیزہ صفت جن اہم شخصیتوں کو عطا ہوئی، ان میں حضرت فاطمہؑکو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ جس طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور بارہ امام دنیا میں ہدایت خلق کے لیے بھیجے گئے اور سب معصوم تھے۔ اسی طرح صنفِ نازک کے لیے حضرت مریم (سلام اللہ علیھا )اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) تشریف لائیں اور یہ دونوں بیبیاں معصوم تھیں اور دونوں کی عصمت پر قرآن گواہ ہے۔

آپ کی والدہ کی وفات

آپ کی والدہ جنابِ خدیجہ الکبریٰ(سلام اللہ علیھا ) تھیں۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کو پانچ سال ماں کی آغوش میں تربیت نصیب رہی۔ جناب خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کی علالت سے جنابِ سیدہؑکو بے حد رنج ہوا۔ آپؑ ان کی تیمار داری میں شب و روز لگی رہتی تھیں اور ان کے چہرہ پر نظر جمائے انھیں کو دیکھا کرتی تھیں۔ ماں کا چہرہ بحال دیکھا تو خوش ہو گئیں۔ ماں کی شکل پژ مردہ دیکھی رنجیدہ ہو گئیں۔ یہی طرزِ عمل رہا کہ ایک دن خدیجہ(سلام اللہ علیھا ) ؑنے فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) کو اپنے سینے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ بیٹی نے پوچھا اماں جان آج آپ کے رونے کا انداز کچھ نرالا ہے فرمایا۔ بیٹی! میں تجھ سے رخصت ہو رہی ہوں۔ افسوس تجھے دلہن بنے نہ دیکھ سکی۔ ماں بیٹی میں المناک گفتگو جاری تھی کہ ماتھے پر موت کا پسینہ آگیا اور خدیجہؑ۱۰ رمضان ۱۰ ء بعثت کو انتقال فرما گئیں۔ موت کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال کی تھی۔ آپ کو مقبرہ حجون میں دفن کیا گیا۔ خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کے انتقال سے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا )کو انتہائی رنج پہنچا اور آپ سے زیادہ سرورِ کائنات کو صدمہ ہوا۔ اسی وجہ سے آپ نے اس سال کو ”عام الحزن“ کہا ہے۔ صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۴۱۹ میں ہے کہ آنحضرت جنابِ خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کی یاد میں گوسفند ذبح کرکے ان کی سہیلیوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ  نے کہا کہ اس بڈھی عورت کو جس کے منہ میں دانت بھی نہ تھے۔ کب تک یاد کرتے رہو گے۔ یہ سن کر آنحضرت غضب ناک ہو گئے۔ اور فرمایا کہ اس سے بہتر مجھے کوئی عورت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ اس وقت ایمان لائیں جب کہ سب کافر تھے اور اس وقت میری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے اور اس وقت میرے لیے مال صرف کیا۔ جب لوگ مجھے محروم رکھنا چاہتے تھے۔ حیات القلوب میں ہے کہ حضرت ابو طالبؑاور ان کے تین دن بعد حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کا انتقال ہوا تھا۔

ہجرتِ فاطمہ ؑ

۱۰ ء بعثت شب جمعہ یکم ربیع الاول کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے ہجرت فرمائی اور ۱۶ ربیع الاوّل یوم جمعہ کو داخل مدینہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد آپ نے زید بن حارثہ اور ابو رافع کو ۵ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا کہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) ، فاطمہ بنتِ اسد  ام المومنین سودہ اور ام ایمن وغیرہ کو لے آئیں۔ چنانچہ یہ بیبیاں چند دنوں کے بعد مدینہ پہنچ گئیں۔ آپ کے عقد میں اس وقت صرف دو بیبیاں تھیں۔ ایک سودہ اور دوسری عائشہ۔ ۲ ئہجری میں آپ نے امِ سلمہ سے عقد کیا۔ اُمِ سلمہ نے نگہداشتِ فاطمہ زہراؑ کا بیڑا اتھایا اور اس انداز سے خدمت گزاری کی کہ فاطمہ زہراؑ سے ماں کو بھلا دیا۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا )کی شادی

پیغمبرِ اسلام نے علیؑکی ولادت کے وقت علیؑکو زبان دے دی تھی اور بعد میں فرمایا تھا کہ میری بیٹی کا کفو خانہ زادِ خدا کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ (۵) حالات کا تقاضا اور نسلی خاندانی شرافت کا مقتضیٰ یہ تھا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کی خوستگاری کے سلسلہ میں علیؑکے سوا کسی کا تذکرہ تک نہ آتا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا اس اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کے سنِ بلوغ تک پہنچتے ہی لوگوں کے پیغامات آنے لگے۔ سب سے پہلے حضرت ابوبکر نے پھر حضرت عمر نے خواستگاری کی اور ان کے بعد عبد الرحمٰن نے پیغام بھیجا۔ حضرات شیخین کے جواب میں رسولِ اکرم غضبناک ہوئے اور ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔(۶)اور عبد الرحمٰن سے فرمایا کہ فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) کی شادی حکمِ خدا سے ہو گی، تو تم نے جو مہر کی زیادتی کا حوالہ دیا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ تمہاری درخواست قبول نہیں کی جا سکتی(۷)۔ اس کے بعد حضرت علیؑنے درخواست کی تو آپ نے فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کی مرضی دریافت فرمائی۔ وہ چُپ ہو رہیں، یہ ایک طرح کا اظہارِ رضا مندی تھا۔ (۸) بعض علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے خود علیؑسے فرمایا کہ اے علیؑمجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی لختِ جگر کا عقد تم سے کروں، کیا تمہیں منظور ہے؟ عرض کی ”جی ہاں“! اس کے بعد شادی ہو گئی(۹) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ پیغام محمود نامی ایک فرشتہ لے کر آیا تھا(۱۰)بعض علماء نے جبریل کا حوالہ دیا ہے۔غرض کہ حضرت علیؑنے ۵۰۰ درہم میں اپنی زرہ عثمان غنی کے ہاتھوں فروخت کی اور اسی کو مہر قرار دے کر بتاریخ یکم ذی الحجہ ۲ ء ہجری حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا )کے ساتھ عقد کیا۔ مذکورہ رقم آج کل کے لحاظ سے ایک سو سات روپے ہوتی ہے جو ہمارے نزدیک شرعی مہر ہے۔

جنابِ سیّدہ کا جہیز

نکاح کے تھوڑے عرصہ بعد ۲۴ ذی الحجہ کو حضرت سیدہ (سلام اللہ علیھا ) کی رخصتی ہوئی سرورِ کائنات نے اپنی اکلوتی اور چہیتی بیٹی کو جو جہیز دیا اس کی تفصیل یہ ہے:

(۱) ایک قمیض قیمتی سات درہم (۲) ایک مقنع (۳) ایک سیاہ کمبل (۴) ایک بستر کھجور کے پتوں کا بنایا ہوا (۵) دو موٹے ٹاٹ (۶) چمڑے کے چار تکیے (۷) آٹا پیسنے کی چکی (۸) کپڑا دھونے کی لگن۔ (۹) ایک مشک (۱۰) لکڑی کا بادیہ (۱۱) کھجور کے پتوں کا بنا ہوا ایک برتن (۱۲)دو مٹی کے آبخورے (۱۳) ایک مٹی کی صراحی (۱۴) چمڑے کا فرش (۱۵) ایک سفید چادر (۱۶) ایک لوٹا۔

یہ ظاہر ہے کہ رسولِ کریم اعلیٰ درجے کا جہیز دے سکتے تھے۔ مگر اپنی امت کے غربا کے خیال سے اسی پر اکتفا فرمایا۔

جلوسِ رخصتی

کھانے پینے کے بعد جلوس روانہ ہوا۔ اشہب نامی ناقہ پر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) سوار تھیں۔ سلمان ساربان تھے۔ ازواجِ رسول ناقہ کے آگے آگے تھیں۔ بنی ہاشم ننگی تلواریں لیے جلوس میں تھے۔ مسجد کا طواف کرایا اور علیؑکے گھر میں فاطمہؑکو اتار دیا۔ اس کے بعد آنحضرت نے فاطمہؑسے ایک برتن میں پانی منگوایا کچھ دعائیں دم کیں اور اسے فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) اور علیؑکے سر سینے اور بازو پر چھڑکا اور بارگاہِ احدیت میں عرض کی بار اِلٰہا انھیں اور ان کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ (۱۱) اس کے بعد فاطمہ(سلام اللہ علیھا ) سے کہا۔ دیکھو علیؑسے بے جا سوال نہ کرنا۔ یہ دنیا میں سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ لیکن دولتمند نہیں ہے اور علیؑسے کہا کہ یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کرنا کہ اسے ملال ہو۔ تذکرة الخواص سبط ابن جوزی کے صفحہ ۳۶۵ میں ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیھا )کے ساتھ جس وقت علی کی شادی ہوئی ان کے گھر میں ایک چمڑا تھا۔ رات کو بچھاتے تھے اور دن میں اس پر اونٹ کو چارہ دیا جاتا تھا۔

حضرت فاطمہؑکا نظامِ عمل

شوہر کے گھر جانے کے بعد آپؑ نے جس نظامِ زندگی کا نمونہ پیش کیا ہے وہ طبقہٴ نسواں کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں، جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ کاتنا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ سب کام اور اکیلی سیّدہ(سلام اللہ علیھا ) عالم۔ لیکن نہ کبھی تیوری پر بل آئے اور نہ کبھی شوہر سے اپنے لیے مددگار یا خادمہ کی فرمائش کی۔ پھر جب ۷ ء ہجری میں پیغمبر خدا نے ایک خادمہ عطا کی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں، تو رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق سیّدہ عالمؑ فضہ کے ساتھ ایک کنیز کا سا نہیں، بلکہ ایک عزیز رفیق کار جیسا برتاؤ کرتی تھیں اور ایک دن گھر کا کام خود کرتی تھیں اور ایک دن فضہ سے کام لیتی تھیں اور اس طرح خادمہ کو خادمہ نہ ہونے کا تصور پیدا نہ ہونے دیتی تھیں۔ دراصل یہ مساواتِ محمدی کی اعلیٰ مثال ہے۔ (۱۲)

فاطمہ زھراؑاور پردہ

آپ نے عورتوں کی معراج پردہ داری کو بتایا ہے اور خود بھی ہمیشہ اس پر عامل رہی ہیں اور اتنی سختی کے ساتھ کہ مسجد رسول سے بالکل متصل قیام رکھنے اور مسجد کے اندر گھر کا دروازہ ہونے کے باوجود کبھی اپنے والد بزرگوار کے پیچھے نمازجماعت میں شرکت یا آپ کے موعظ کے سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائیں۔ ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش فرما دیا۔ کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز کیا ہے؟ یہ بات سیّدہ تک پہنچی ۔ آپ نے جواب دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر یہ بات ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پرے، اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو آپ نے فرمایا، کیوں نہ ہو، فاطمہؑمیرا ہی ایک جزو ہے۔

جنابِ سیّدہؑکا جہاد

اسلام میں عورت کا جہاد مرد سے مختلف ہے اس لیے سیّدہ نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا۔ مگر رسول کبھی زخمی ہو کر گھر واپس تشریف لاتے تھے تو پیغمبر کے زخموں کو دھلانے والی، اور علیؑجب خون میں ڈوبی ہوئی تلوار لے کر آتے تھے تو ان کی تلوار کو صاف کرنے والی فاطمہ زہراؑ ہی ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ نصرت اسلام کے لیے میدان میں گئیں۔ مگر اس پر امن معاملہ میں جو نصاریٰ کے مقابلہ میں ہوا تھا۔ اور جس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ اس جہاد کا نام مباہلہ ہے۔ اور اس میں پردہ داری کے تمام امکانی تقاضوں کی پابندی کے ساتھ سیّدہ عالم باپ بیٹوں اور شوہر کے درمیان مرکزی حیثیت رکھتی تھی(۱۳)

حضرت فاطمہؑاور امور خانہ داری

عورتوں کا جو ہرذاتی شوہروں کی خدمت اور امور خانہ داری میں کمال حاصل کرنا ہے۔ فاطمہ زہرا نے علیؑکی ایسی خدمت کی کہ مشکل سے اس کی مثال ملے گی۔ ہر مصیبت اور تکلیف میں فرمانبرداری پر نظر رکھی۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔ کہ جس طرح جنابِ خدیجہؑنے اسلام اور پیغمبر اسلام کی خدمت کی، اسی طرح بنتِ رسول نے اسلام اور علی کی خدمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح رسول کریم نے خدیجہؑ کی موجودگی میں دوسرا عقد نہ کیا۔(۱۴) حضرت علیؑنے بھی فاطمہؑکی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں کیا۔(۱۴) ۲و مناقب صفحہ ۸۔ حضرت علیؑسے کسی نے پوچھا کہ فاطمہؑآپ کی نظر میں کیسی تھیں۔ فرمایا۔ خدا کی قسم وہ جنت کا پھول تھیں۔ دنیا سے اٹھ جانے کے بعد بھی میرا دماغ ان کی خوشبو سے معطر ہے۔

امور خانہ داری میں جناب سیّدہ آپ ہی اپنی نظیر تھیں۔ ۷ ئہجری تک آپ کے پاس کوئی کنیز نہ تھی۔ کنیز نہ ہونے کی صورت میں گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں۔ جھاڑو دیتیں۔ پانی بھرتیں، چکی پیستیں، آٹا چھانتیں، آٹا گوندھتیں، تنور روشن کرکے روٹی پکاتی تھیں۔ حضرت علیؑسویرے اٹھ کر مسجد چلے جاتے تھے اور وہاں سے مزدوری کی فکر میں نکل جاتے تھے۔ فضہ کے آجانے کے بعد کام تقسیم کر لیا گیا تھا۔ بلکہ باری باندھ لی تھی۔ ایک دفعہ سرورِ عالم خانہ سیّدہ میں تشریف لائے۔ دیکھا کہ سیّدہ گود میں بچے لیے چکی پیس رہی ہیں۔ فرمایا۔ بیٹی ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ عرض کی بابا جان! آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے(۱۵)

حضرت فاطمہؑاور باہم گزاری زوجہ و خاوند

 حضرت امام موسیٰ کاظم - ارشاد فرماتے ہیں کہ ”جہاد المرة حسن التبعل “ عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک ہے(۱۶) ایک حدیث میں ہے کہ ”لا تودی المرٴة حق اللہ حتّٰی تودی حق زوجہا“ عورت اگر خاوند کا حق ادا نہیں کرتی تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتی۔“ (۱۷)

رسولِ کریم فرماتے ہیں کہ اگر خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ (۱۸)

حضرت فاطمہ حقوق خاوند سے جس درجہ واقف تھیں کوئی بھی واقف نہ تھا۔ انھوں نے ہر موقع پر اپنے شوہر حضرت علیؑکا لحاظ و خیال رکھا ہے۔ انھوں نے کبھی ان سے کوئی ایسا سوال نہیں کیا جس کے پورا کرنے سے حضرت علیؑعاجز رہے ہوں۔

کتاب ”ریاحین الشریعة“ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؑبیمار ہوئیں تو حضرت علیؑنے ان سے فرمایا کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ، حضرت سیّدہ (سلام اللہ علیھا ) نے عرض کی کسی چیز کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت علیؑنے اصرار کیا تو عرض کی، میرے پدرِ بزرگوار نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔ ممکن ہے آپ اسے پورا نہ کر سکیں تو آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علیؑنے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔

یہ تاریخ کا مسلمہ امر ہے کہ حضرت علیؑاور حضرت فاطمہؑمیں کبھی کسی بات پر شکر رنجی نہیں ہوئی۔ اور دونوں نے باہم دگر خوشگوار زندگی گزاری ہے۔

ساس بہو کے تعلقات

فاطمہ زہرا کی شادی کے وقت جنابِ فاطمہ بنتِ اسدؑزندہ تھیں۔ ساس بہو کے تعلقات اکثر و بیشتر ناخوشگوار ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن فاطمہ نے ایسا دستور اور رویہ اختیار کیا کہ کبھی بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا نہ ہونے پائی۔ فاطمہ بنتِ اسدؑکے سپردا عزاء و اقرباء کی ملاقات، شادی اور غمی میں شرکت وغیرہ قرار دیا۔ اور اپنے ذمہ امور خانہ داری۔ مثلاً چکی پیسنا، روٹی پکانا وغیرہ رکھ لیا۔ تاریخ میں ان دونوں کی باہمی کشیدگی کا سراغ نہیں ملتا۔

آپؑ کی اولاد

آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ۱۵ رمضان ۳ ہجری کو امام حسنؑاور ۳ شعبان ۴ ہجری کو امام حسینؑاور ۵ جمادی الاول ۶ ہجری حضرت زینبؑاور ۹ ہجری میں جناب امِ کلثومؑاور ۱۱ ہجری میں استقاط محسن ہوا۔ علماء نے لکھا ہے کہ زینب کا عقد عبداللہ بن جعفرؑسے ہوا تھا۔ ابنِ ماجہ ابوداؤد۔ ابنِ حجر اور اسعاف الراغبین برحاشیہ نور الابصار صفحہ ۸۰ طبع مصر۔ بروایت سبط ابنِ جوزی حضرت زینب کے بطن سے عون و عبد اللہ پیدا ہوئے اور امِ کلثومؑلاولد فوت ہوئیں(۱۹)

آپؑ کی عبادت

آپ بے شمار نمازیں شب و روز پڑھا کرتی تھیں۔ آپ نے اپنے پدرِ بزرگوار کے ہمراہ ۱۰ ہجری میں آخری حج فرمایا تھا۔

فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا ) پیغمبر اسلام کی نظر میں

فاطمہ زہراؑکی فضیلت اور ان کے مدارج کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیتیں اور بے شمار حدیثیں موجود ہیں۔ میں اس وقت چند احادیث اور پیغمبر اسلام کے بعض طرزِ عمل پر اکتفا کرتا ہوں۔ آپ کا ارشاد ہے کہ فاطمہؑبہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ تمام جہان کی عورتوں کی سردار ہیں۔ آپؑ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی۔ خدا نے آپ کی بدولت آپؑ کے ماننے والوں کو جہنم سے چھڑا دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مردوں میں بہت لوگ کامل گزرے ہیں لیکن عورتوں میں صرف چار عورتیں کامل گزری ہیں۔ (۱) مریمؑ (۲) آسیہؑ(۳) خدیجہؑ(۴) فاطمہؑاور ان سب میں سب سے بڑا درجہ کمال فاطمہؑکو حاصل ہے۔

 علماء کا بیان ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم آپ سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور کمال عزت بھی کرتے تھے۔ محبت کے مظاہروں میں سے ایک یہ تھا کہ جب کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہؑسے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہؑکو دیکھنے تشریف لے جاتے تھے اور عزت و احترام کا مظاہرہ یہ تھا کہ کانت فاطمة اذا دخلت علی رسول اللہ قام الیھا فقبلھا و اجلسھا فی مجلسہجب حضرت فاطمہؑآتی تھیں تو کھڑے ہو جاتے تھے، اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔(۲۰)مختلف کتب صحاح میں موجود ہے کہ آنحضرت نے فرمایا۔ فاطمہؑمیرا جز ہے جو اسے اذیت پہنچائے گا وہ مجھے اذیت پہنچائے گا۔ مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ نزول آیہ تطہیر کے بعد سرورِ دو عالم درِ فاطمہ پر ۹ ماہ مسلسل بوقت نمازِ صبح جا کر آواز دیا کرتے اور فرطِ مسرت میں فرمایا کرتے کہ خدا نے تمہیں ہر طرح کی گندگی سے پاک و پاکیزہ کیا ہے۔ (۲۱)

حضرت فاطمہ ؑ، ربُّ العزت کی نگاہ میں

محدثین کا بیان ہے کہ حضرت فاطمہؑکو پروردگار عالم اپنی کنیز خاص جانتا ہے اور ان کو بے حد عزیز رکھتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ حضرت سیّدہؑنماز میں مشغول ہوتی تھیں اور فرشتے ان کے بچوں کی گہوارہ جنبائی کیا کرتے تھے اور جب وہ قرآن پڑھنے میں مشغول ہوتی تھیں ور فرشتے ان کی چکی پیسا کرتے تھے۔ حضرت رسولِ کریم نے گہوارہِ جنبانی کرنے والے فرشتے کا نام جبریلؑاور چکی پیسنے والے کا نام ”اوقابیل“ بتایا ہے۔(۲۲)

فاطمہ عہدِ رسالت میں

پیغمبر اسلام کے حین حیات فاطمہؑکی قدر و منزلت، عزت و توقیر کی کوئی حد نہ تھی۔ انسان تو درکنار ملائک کا یہ حال تھا کہ آسمانوں سے اتر کر زمین پر آتے اور فاطمہؑکی خدمت کرتے تھے۔ کبھی جنت کے طبق لائے کبھی حسنینؑکا جھولا جھلا کر فاطمہؑکی اعانت کی۔ اگر ان کے منہ سے عید کے موقعہ پر نکل گیا کہ بچو! تمہارے کپڑے درزی لائے گا تو خازن بہشت کو درزی بن کر آنا پڑا۔ حد ہے کہ ملک الموت بھی آپ کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہ ہوتے تھے۔ علامہ عبد المومن حنفی لکھتے ہیں کہ سرورِ کائنات کے وقتِ اخیر فاطمہؑکے زانو پر سرِ رسالت مآب تھا۔ ملک الموت نے دقُّ الباب کیا اور اذنِ حضوری چاہا، فاطمہؑنے انکار کر دیا۔ ملک الموت دروازے پر رک گئے۔ لیکن مکان میں داخل ہونے پر اصرار کرتے رہے۔ فاطمہؑکے متواتر انکار پر ملک الموت نے قدر لہجہ بدل کر آواز دی۔ فاطمہؑرو پڑیں، آپ کے آنسو رخسارِ رسالت مآب پر گرے۔ پیغمبر نے پوچھا کیا بات ہے؟ آپ نے واقعہ بتایا۔ حکم ہوا اجازت دو۔ یہ ملک الموت ہیں(۲۳) میرے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عزرائیلؑجناب سیّدہؑ کے سامنے بلند آوقاز سے بولیں۔ دوسرا بی بی جانتی تھیں کہ یہ عزرائیلؑہیں۔ لیکن یہ سب کچھ احترام سیّدہؑ میں کیا گیا اور دنیا والوں کو بتلایا گیا کہ اس معظمہ بی بیؑکا درجہ کس قدر بلند ہے کہ ملک الموت بھی جس کے در پہ آکر اجازت مانگتا ہے۔

فاطمہ زہرا ٪ اور رسولِ اسلام کے بعد

۲۸ صفر ۱۱ ء ہجری کو رسولِ اسلام کا انتقال ہوا۔ آپ کے بعد آپ کے اہلِ بیتؑپر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اور آپ اس قدر ملول ہوئیں کہ اپنی کشتیٴ حیات پچھتر دن سے زیادہ نہ کھینچ سکیں۔ آپ کے سر پر پٹی بندھی رہا کرتی تھی اور آپ شب و روز گریہ و زاری فرمایا کرتی تھیں۔ آپؑکے لیے سرورِ کائنات کی وفات کا ہی صدمہ کیا کم تھا کہ اس پر مستزاد یہ کہ دنیا داروں نے آماجگاہ آلام بنا دیا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ باپ کے انتقال کے بعد کفن و دفن کی مصیبت سے دکھ درد کی ماری بیٹی کو بے نیاز کر دیا جاتا اور سارا نظامِ میت سنبھال کر اس فریضہ تدفین و تکفین کوباحسنِ طریق انجام دیا جاتا۔ لیکن افسوس! اس کے بر عکس دنیا والوں نے رسول کی میت یوں ہی گھر میں چھوڑدی اور خدا اور اس کے رسول کے منشاء کیخلاف اپنی حکومت کی بنیاد قائم کرنے کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے۔ رسول کی میت پڑی رہی۔ بالآخر آلِ محمدؑاور دیگر چند ماننے والوں نے اس فریضہ کو ادا کیا۔ یہ واقعہ بھلانے کے قابل نہیں جبکہ حضرت ابوبکر خلیفہ بن کر حضرت عمر خلیفہ بنا کر واپس لوٹے تو سرورِ کائنات کی لاشِ مطہر سپردِ خاک کی جا چکی تھی۔ ان حضرات نے اس طرف توجہ نہ کی اور کسی ملال کا اظہار نہ کیا اور سب سے پہلے جس چیز کی کوشش شروع کی وہ حضرت علیؑسے بیعت لینے کی تھی۔ حضرت علیؑاور اعیان و اکابر صحابہ جن میں کل بنی ہاشم، زبیر، عتبہ بن ابولہب ، خالد بن سعید مقداد بن عمر سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، برار بن عازب، ابی ابنِ کعب اور ابو سفیان قابلِ ذکر ہیں(۲۴)

 یہ لوگ چونکہ خلافت منصوصہ کے مقابل سقیفائی خلافت کو تسلیم نہ کرتے تھے لہٰذا خانہ فاطمہؑمیں گوشہ نشین ہو گئے۔ اس پر حضرت عمر آگ اور لکڑیاں لے کر آئے اور کہا گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ یہ سن کر فاطمہ دروازہ کے قریب آئیں اور فرمایا کہ اس گھر میں رسول کے نواسے حسنینؑبھی موجود ہیں کہا ہونے دیجئے(۲۵) اس کے بعد برابر شور و غل ہوتا رہا اور علیؑکو گھر سے باہر نکالنے کا مطالبہ ہوتا رہا۔ مگر علیؑنہ نکلے۔ میرے نزدیک علیؑاس وقت گھر پر موجود نہ تھے ورنہ علیؑجیسا بہادر امامؑکبھی اور کسی حالت میں چھپ نہیں سکتا۔ (عابد عسکری) فاطمہؑکے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ جب شعلے بلند ہونے لگے تو فاطمہ دوڑ کر دروازے کے قریب آئیں اور فرمایا۔ ارے میرے باپ کا کفن بھی میلا نہ ہونے پایا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ یہ سن کر فاطمہؑکے اوپر دروازہ گرا دیا گیا۔ جس کے باعث معصومہ کے شکم پر ضرب لگی اور فاطمہؑکے بطن میں محسن نامی بچہ شہید ہو گیا۔(۲۶) علامہ ملامعین کاشفی لکھتے ہیں کہ ”بداں مرض فاطمہ از جہاں رخصت فرمود فاطمہ اسی ضرب حضرت عمر سے رحلت کر گئیں۔ ملاحظہ ہو معارج النبوة رکن چہار م باب ۳ صفحہ ۴۲۔ اس کے بعد یہ لوگ حضرت فاطمہؑکے گھر میں درّانہ داخل ہو گئے اور علیؑکو گرفتار کر کے ان کے گلے میں رسی باندھی (۲۷)اور لے کر دربارِ خلافت میں پہنچے، اور کہا کہ بیعت کرو۔ ورنہ خدا کی قسم تمہاری گردن ماردیں گے (۲۸)۔ حضرت علیؑنے کہا۔ ”تم کیا کر رہے ہو اور کس قاعدہٴ اور کس بنیاد پر مجھ سے بیعت لے رہے ہو۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔(۲۹) بعض موّرخین کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے خانہ سیّدہ میں گھس کر دھماچوکڑی مچا دی۔ بالآخر بروایت ابنِ واضح ”فخرجت فاطمة فقالت واللہ لتجزجن اولا کشفن شعری ولا عجن الی اللہ“۔ فاطمہ بنت رسول صحن خانہ میں نکل آئیں اور کہنے لگیں خدا کی قسم گھر سے نکل جاؤ۔ ورنہ میں اپنے سر کے بال کھول دوں گی۔ اور خدا کی بارگاہ میں سخت فریاد کروں گی۔ (۳۰)۔ ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت علیؑکو گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا تو حضرت فاطمہ بنتِ رسول نے فریاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”خلوا ابا الحسن“ابو الحسنؑکو چھوڑ دو ورنہ اپنے سر کے بال کھول دوں گی۔ طبّری کہتے ہیں کہ اس کہنے پر مسجدِ نبوی کی دیوار قدِ آدم بلند ہو گئی تھی۔ اس کے بعد حضرت فاطمہؑبنت رسول کو اطلاع ملی کہ آپ کی وہ جائیداد جس کا نام فدک تھا۔ جو بحکم خدا بدستِ رسول ہاتھ آئی تھی۔ (۳۱)اور جس کی آمدنی فقراء و مساکین پر ہمیشہ سے خرچ ہوتی آئی جس کا محلِ وقوع مدینہ منورہ سے شمال کی طرف دو سو میل ہے اس پر خلیفہٴ وقت نے قبضہ کر لیا ہے۔(۳۲) ۔ یہ معلوم کرکے آپ حد درجہ غضب ناک ہوئیں (بخاری) اور یہ معلوم کرکے اور زیادہ رنجیدہ ہوئیں کہ ایک فرضی حدیث غصب فدک کے جواز میں گڑھ لی ہے۔ الغرض آپ نے دربارِ خلافت میں اپنا مطالبہ پیش کیا اور انکار ہبہ پر بطور ثبوت حضرت علی ؑ، امام حسن ؑ، امام حسین ؑ، اُمّ ایمن، اور رباح کو گواہی میں پیش کیا۔ لیکن سب کی گواہیاں مسترد کر دی گئیں اور کہا گیا علیؑشوہر ہیں حسنینؑفرزند۔ ام ایمن وغیرہ کنیز و غلام ہیں۔ ان کی گواہی نہیں مانی جا سکتی۔(۳۳) ایک روایت کی بناء پر حضرت ابوبکر نے ہبہ کا تصدیق نامہ لکھ کر فاطمہؑکو دے دیا۔ وہ لے کر جانے ہی والی تھیں کہ ناگاہ حضرت عمر آگئے۔ پوچھا کیا ہے؟ کہا تصدیق ہبہ نامہ آپ نے وہ خط ہاتھ سے لے کر چاک کر ڈالا اور بروایتے زمین پر پھینک کر اس پر تھوک دیا اور پاؤں سے رگڑ ڈالا (۳۴)اور مقدمہ خارج کرا دیا(۳۵)، اسی سلسلہ میں آپ کا ایک خطبہ لمّہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے تھوڑے دن بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر امیر المومنین علیؑکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم نے فاطمہؑکو ناراض کیا ہے۔ ہمارے ساتھ چلئے ہم ان سے معافی مانگ لیں۔ حضرت علی ؑان کو ہمراہ لے کر آئے اور فرمایا اے فاطمہؑیہ دونوں پہلے آئے تھے۔ اور تم نے انھیں اپنے مکان میں گھسنے نہیں دیا۔ اب مجھے لے کر آئے ہیں اجازت دو کہ داخلِ خانہ ہو جائیں۔ حکمِ علیؑسے اجازت تو دے دی۔ لیکن جب یہ دأ۸اخلِ خانہ ہوئے تو فاطمہؑنے دیوار کی طرف منہ پھیر لیا اور سلام کا جواب تک نہ دیا اور فرمایا خدا کی قسم تا زندگی نماز کے بعد تم دونوں پر بد دعا کرتی رہوں گی۔ غرض کہ فاطمہؑنے معاف نہ کیا اور یہ لوگ مایوس واپس آ گئے۔ (۳۶) امام بخاری کہتے ہیں کہ فاطمہؑنے تا حیات ان لوگوں سے کلام نہیں کیا اور غضب ناک ہی دنیا سے رحلت کر گئیں۔

آپ کی علالت

ہم اوپر بحوالہ علامہ شہر ستانی و علامہ معین کاشفی تحریر کر آئے ہیں کہ حضرت عمر نے سیّدة النساء حضرت فاطمہؑپر دروازہ گرا دیا تھا اور شکم مبارک پر ضرب لگائی تھی جس کی وجہ سے اسقاط حمل ہوا تھا اور اسی سبب سے آپ علیل ہوئیں اور بالآخر وفات پا گئیں۔ اب ہم آپ کی خدمت میں ڈپٹی نذیر احمد کی تحریر کا اقتباس پیش کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔

جو شخص (وفات رسول سے) سب سے زیادہ متاذی ہوا وہ فاطمہؑتھیں۔ والدہ پہلے انتقال کر چکی تھیں۔ اب ماں اور باپ دونوں کی جگہ پیغمبر صاحب ہی تھے اور باپ بھی کیسے دین و دنیا کے بادشاہ۔ ایسے باپ کا سایہ سر سے اٹھنا اس پر حضرت علیؑکا خلافت سے محروم رہنا ترکہ پدری فدک کا دعویٰ کرنا اور مقدمہ ہار جانا انھیں رنجوں میں گھل گھل کر انتقال فرما گئیں۔ (۳۷) آپ اس قدر روئیں کہ اہلِ محلہ متاذی ہونے لگے۔ بالآخر حضرت علیؑنے آپ کے رونے کے لیے مدینہ سے باہر ”بیت الاحزان“ بنوا دیا تھا۔(۳۸)

 حالات سے متاثر ہو کر حضرت سیّدہؑنے اپنے والد بزرگوار کا جو مرثیہ کہا ہے اس کا ایک شعر یہ ہے۔

صُبَّتْ عَلَّی مَصَائِبُ لَوْاَنُّھَا

صُبَّتْ عَلَی الْاَیَامِ صِرْنَ لَیَا لِیَا

ترجمہ:ابّا جان آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو مثل شب کے تاریک ہو جاتے۔ (۳۹)

آپؑ کی وصیت

فاطمہ زہراؑ نے اسماء بنتِ عمیس سے فرمایا کہ اے اسماء مجھے مسلمان عورتوں کی میت کے لے جانے کا طریقہ پسند نہیں ہے۔ یہ تختے پر لٹا کر کپڑا ڈال کر لے جاتے ہیں۔ اسماء نے کہا۔کہ میں حبشہ میں بہت اچھا تابوت دیکھ کر آئی ہوں فرمایا۔ اس کی نقل بنا دو۔ اسماء نے تابوت بانس کی قمچیوں سے تیار کیا۔ تو فاطمہؑخوش ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ نے حضرت علیؑکو بلایا اور وصیت کی۔ آپ نے کہا مجھے خود غسل دینا۔ کفن پہنانا۔ میرا جنازہ رات کو اٹھانا، جن لوگوں نے مجھے ستایا ہے ان کو میرے جنازے میں شریک نہ ہونے دینا۔ میرے بعد شادی کرنا تو ایک رات میرے بچوں کے پاس اور ایک رات اپنی بیوی کے پاس گذارنا۔

شمس العلماء مسٹر نذیر احمد دہلوی لکھتے ہیں کہ ”فاطمہؑنے ابوبکر وغیرہ سے بات چیت کرنا چھوڑ دی۔ مرتے وقت وصیت کی کہ مجھے رات کے وقت دفن کرنا اور یہ لوگ میرے جنازے پر مت آنے پائیں“۔ (۴۰)۔ علامہ عبد البر لکھتے ہیں کہ فاطمہؑکی یہ وصیت تھی کہ عائشہ بھی شریکِ جنازہ نہ ہونے پائیں۔ (۴۱) جناب سیّدہؑکی حضرات شیخین سے ناراضگی کے لیے مزید ملاحظہ ہو۔ تیسرالقاری ترجمہ بخاری پ۱۲ صفحہ ۱۸ -۲۱ و پ۱۷ صفحہ ۲۱۔ مشکل الاثار طحاوی جلد۱ صفحہ ۴۸ ترجمہ صحیح مسلم جلد ۵ صفحہ ۲۵۔ روضة الاحباب جلد ۱ صفحہ ۴۳۴۔ ازالة الخفأ جلد ۲ صفحہ ۵۷ براہین قاطعہ ترجمہ صواعق محرقہ صفحہ ۲۱اشعة اللمعات جلد ۳ صفحہ ۴۸۰۔ الزہرا۔ عمر ابو نصر(اردو ترجمہ) صفحہ ۸۹۔ جمع الفوائد جلد ۲ صفحہ ۱۸۔ طبع میرٹھ۔

آپؑ کی وفات

دنیائے اسلام کے قدیم مورخ ابنِ قتیبہ کا بیان ہے کہ حضرت فاطمہ ؑ، حضرت سرورِ کائنات کی وفات کے بعد صرف ۷۵ دن زندہ رہ کر انتقال فرما گئیں۔ (۴۲) علامہ بہائی کا جامع عباسی صفحہ ۷۹ میں بیان ہے کہ سو دن بعد انتقال ہوا ہے۔ آپ کی تاریخ وفات یوم یک شنبہ ۳ جمادی الثانیہ ۱۱ ئہجری ہے (۴۳) آپ کے واقعہ وفات کے متعلق حضرت ابن عباس صحابی رسول کا بیان ہے کہ جب فاطمہ زہراؑکا وقت قریب آیا تو نہ معصومہ کو بخار آیا، اور نہ دردِ سر عارض ہوا۔ بلکہ آپ نے امام حسنؑاور امام حسینؑکے ہاتھ پکڑے اور دونوں کو لے کر قبرِ رسول پر گئیں اور قبر و منبر کے درمیان دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دونوں کو اپنے سینہ سے لگایا اور فرمایا اے میرے بچو! تم دونوں ایک ساعت اپنے باپ کے پاس بیٹھو، امیر المومنینؑاس وقت مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ پھر وہاں سے گھر آئیں اور آنحضرت کی چادر اٹھائی غسل کرکے حضرت کا بچا ہوا کفن یا لباس پہنا۔ بعد ازاں زوجہ حضرت جعفر طیار (اسماء) کو آواز دی، اسما نے عرض کی بی بی حاضر ہوتی ہوں۔ جناب فاطمہؑنے فرمایا، اسماء تم مجھ سے الگ نہ ہونا۔ میں ایک ساعت اس میں لیٹنا چاہتی ہوں جب ایک ساعت گزر جائے اورمیں باہر نہ نکلوں تو مجھ کو تین آوازیں دے دینا اگر میں جواب دوں تواندر چلی آنا ۔ورنہ سمجھ لینا کہ میں رسول خدا سے ملحق ہو چکی ہوں ۔بعدازاں رسول خدا کی جگہ پر کھڑی ہوئیں اوردو رکعت نماز پڑھی ۔پھر لیٹ گئیں اور اپنا منہ چادر سے ڈھانپ لیا ۔بعض علما کا کہنا ہے کہ سیدہ نے سجد ہ ہی میں وفات پائی ۔الغرض جب ایک ساعت گزری تو اسماء نے جناب سیدہ کو آواز دی اے حسن وحسین ! اے رسول کی دختر!مگر کچھ جواب نہ ملا ۔تب اسماء اس حجرہ میں داخل ہوئیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ وہ معصومہ رحلت کر چکی ہیں۔ اسماء نے اپنا گریبان پھاڑ لیا اور گھر سے باہر نکل پڑیں۔ حسنؑو حسینؑآ پہنچے۔ پوچھا اماں اسماء ہماری اماں کہاں ہیں۔ عرض کی حجرہ میں ہیں۔ شاہزادے حجرے میں پہنچے تو دیکھا کہ مادرِ گرامی انتقال فرما چکی ہیں۔ شاہزادے روتے پیٹتے مسجد میں پہنچے۔ حضرت علیؑکو خبر دی۔ آپ صدمہ سے با حال ہو گئے۔ پھر وہاں سے بے حال پریشان گھر پہنچے۔ دیکھا کہ اسماء سرہانے بیٹھی رو رہی ہے۔ آپ نے چہرہٴ انور کھولا۔ سرہانے ایک رقعہ ملا۔ جس میں شہادتین کے بعد وصیت پر عمل کا حوالہ تھا اور تاکید تھی کہ مجھے اپنے ہاتھوں سے غسل دینا۔ حنوط کرنا۔ کفن پہنانا، رات کے وقت دفن کرنا اور دشمنوں کو میرے دفن کی خبر نہ دینا۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں تمہیں خدا کے سپرد کرتی ہوں اور اپنی تمام اولادوں (سادات) کو سلام کرتی ہوں جو قیامت تک پیدا ہوں گی۔

جب رات ہوئی تو حضرت علیؑنے غسل دیا کفن پہنایا۔ نماز پڑھی اور بنا بر روایتِ مشہورہ جنت البقیع میں لے جا کر دفن کر دیا۔ (۴۴) ایک روایت میں ہے کہ آپ کو منبر رسول اور قبرِ رسول کے درمیان دفن کیا گیا۔(۴۵) کتب مقاتل میں ہے کہ غسل کے وقت حضرت علیؑنے پشت و بازوئے فاطمہ پر دُرّہ عمری کا نشان دیکھا تھا اور چیخ مار کر روئے تھے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ حضرت علیؑنے فاطمہؑکورات کے وقت دفن کر دیا۔ولم یوذن بھا ابا بکر وصلی علیھا۔ ابوبکر وغیرہ کو شرکتِ جنازہ کی اجازت نہیں دی۔ نیز دفن کی بھی اطلاع نہیں دی اور نماز خود پڑھی۔ علامہ عینی شارح بخاری لکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ حضرت علیؑنے جنابِ فاطمہؑکی وصیت کے مطابق کیا تھا۔ صحیح بخاری باب الجہاد میں ہے کہ حضرت فاطمہؑحضرت ابوبکر وغیرہ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے ترک تعلق کر لیا اور مرتے دم تک بیزار رہیں۔ امام ابنِ قتیبہ کا بیان ہے کہ خلفاء کو فاطمہؑکی ناراضگی کا علم تھا۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ وہ راضی ہو جائیں۔ ایک دفعہ معافی مانگنے بھی گئے۔ ”فاستاذنا علی فاطمہ فلم تازن“ اور اذنِ حضوری چاہا۔ آپ نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اور ان کے سلام تک کا جواب نہ دیا اور فرمایا تازندگی تم پر بددعا کروں گی اور بابا جان سے تمہاری شکایت کروں گی۔ (۴۶)

آپؑ کا جنازہ

غسل و کفن کے بعد حضرت علیؑاپنی اولاد اور اپنے اعزا سمیت جنازہ لے کر روانہ ہوئے۔ بحار الانوار کتاب الفتن میں ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے ایک شمع ساتھ تھی اور حضرت زینب جو کافی کمسن تھیں، سیاہ لباس میں لپٹی ہوئی اس سایہ میں چل رہی تھیں جو شمع کی وجہ سے تابوت کے نیچے زمین پر پڑ رہا تھا۔ مودة القربیٰ صفحہ ۱۲۹ میں ہے کہ حضرت علیؑجب جنت البقیع میں پہنچے تو ایک سمت سے آواز آئی اور کھدی کھدائی قبر نمایاں ہو گئی۔ حضرت علیؑنے اسی قبر میں حضرت فاطمہؑکی لاش مطہر دفن کی اور اس طرح زمین برابر کر دی کہ نشانِ قبر معلوم نہ ہو سکے۔

کتاب منتھی الآمال شیخ عباس قمی صفحہ ۱۳۹ میں ہے کہ جب جنابِ سیّدہ کی لاش قبر میں اتاری گئی تو رسولِ خدا کے ہاتھوں کی مانند دو ہاتھ برآمد ہوئے اور انھوں نے جسم مطہر سیّدہ کو سنبھال لیا۔ دلائل الامامة میں ہے کہ چونکہ فاطمہؑکے ساتھ بے ادبی کا اندیشہ تھا اس لیے چالیس قبریں بنائی گئیں۔ مناقب ابن شہر آشوب میں ہے کہ چالیس قبریں اس لیے بنائی تھیں کہ صحیح قبر معلوم نہ ہو سکے اور فاطمہؑکو ستانے والا قبر پر بھی نماز نہ پڑھ سکے ورنہ سیّدہؑکو اذیت ہو گی۔ اس کے باوجود لوگوں نے قبر کھود کر نمازِ جنازہ پڑھنے کی سعی کی۔ جس کے ردِ عمل میں حضرت علیؑننگی تلوار لے کر زرد لباس پہنے ہوئے قبر پر جا بیٹھے۔ اس وقت آپ کے منہ سے کف جاری تھا۔ یہ دیکھ کر لوگوں کی ہمتیں پست ہو گئیں اور آگے نہ بڑھ سکے۔(۴۷) وفات کے وقت جنابِ سیّدہ طاہرہ کی عمر ۱۸ سال کی تھی۔

نتیجہ

وفاتِ رسول کے بعد جناب سیّدہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا۔ اس پر شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد ایل ایل بی مترجم قرآن مجید نے اپنی کتاب ”رؤیائے صادقہ“ میں نہایت مفصل اور مکمل تبصرہ فرمایا ہے۔ جس کے آخری جملے یہ ہیں۔

”سخت افسوس ہے کہ اہلِ بیتِؑ نبوی کو پیغمبر صاحب کی وفات کے بعد ہی ایسے نا ملائم اتفاقات پیش آئے کہ ان کا وہ ادب و لحاظ جو ہونا چاہئے تھا اس میں ضعف آگیا اور شدہ شدہ منجر ہوا۔ اس ناقابلِ برداشت واقعہِ کربلا کی طرف جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ایسی نالائق حرکت مسلمانوں سے ہوئی ہے کہ اگر سچ پوچھو تو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے

چہ خوش فرمود شخصے ایں لطیفہ

کہ کُشتہ شد حسینؑاندر سقیفہ

یعنی:کسی نے یہ بات سچ کہی ہے کہ دراصل حسین - کو سقیفہ ہی کے روز ہی شہید کر دیا گیا تھا۔

حضرت فاطمہؑکے شرکاء جنازہ

علامہ حافظ محمد بن علی شہر آشوب المتوفی ۵۸۸ء ہجری تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کے جنازہ میں امیر المومنین ؑ، امام حسن ؑ، امام حسین ؑ، عقیل، سلمان فارسی، مقداد، عمار اور بریدہ شریک تھے۔ اور انھیں لوگوں نے نمازِ جنازہ پڑھی، ایک روایت میں عباس، فضل، حذیفہ اور ابنِ مسعود کا اضافہ ہے۔ طبری میں ابنِ زبیر کا بھی تذکرہ ہے۔ (۴۸)

حضرت فاطمہؑکا مدفن

جیسا کہ اوپر گزرا ہے، حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کے جائے دفن میں اختلاف ہے۔ کوئی جنة البقیع، کوئی منبرو قبر رسول کے درمیان ، کوئی قبر اور گھر کے درمیان قبر بتاتا ہے۔ مشہور یہی ہے کہ جنة البقیع میں آپ دفن ہوئی ہیں۔ لیکن احمد بن محمد ابی نصر نے ابوالحسن حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں حضرت فاطمہؑاپنے گھر میں مدفون ہوئی ہیں۔ جب بنی امیہ نے مسجد کی توسیع کی تو ان کی قبر روضہِ رسول کے اندر آ گئی۔ (۴۹)

حضرت فاطمہ ؑکی قبر پر حضرت علیؑکا مرثیہ

علامہ ابنِ شہر آشوب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علیؑنے وفاتِ سیّدہ پر بے انتہا رنج و غم کا اظہار فرمایا اور بے پناہ غم و الم کا احساس کیا۔ انھوں نے قبر پر مرثیہ پڑھا وہ یہ ہے

لکل اجتماع من خلیلین فرقة

وکل الذی دون الفراق قلیل

دو دوستوں کے ہر اجتماع کا نتیجہ جدائی ہے اور ہر مصیبت دلبروں کی جدائی کی مصیبت سے کم ہے۔

وان افتقادی فاطم بعد احمد

دلیل علی ان لاید دم خلیل

حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے تشریف لے جانے کے بعد میری رفیقہٴ حیات فاطمہؑکا داغِ فراق دے جانا اس امر کا ثبوت واضح ہے کہ کوئی دوست ہمیشہ نہیں رہے گا۔

علامہ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں کہ حضرت سیّدہؑ کو سپردِ خاک کرنے کے بعد حضرت امیر المومنینؑقبر جنابِ سیّدہؑکے پاس بیٹھ گئے اور بے انتہا روئے۔ ”پس عباس عموی آنحضرت دستش را گرفت و از سرقبرِ او ببرد“۔ یہ دیکھ کر چچا عباس بن عبد المطلب نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں قبر کے پاس سے اٹھایا۔ اور گھر لے گئے۔ (۵۰)

آپؑ کے روضہ کا انہدام

علماء کا بیان ہے کہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد آپ کی قبر مبارک پر روضہ کی تعمیر عمل میں آئی۔ میں کہتا ہوں کہ اب سے تقریباً ۴۳ سال قبل ابنِ سعود امیرِ سعود عربیہ نے آپ کے روضہ مبارک کو جذبہ و ہابیت سے متاثر ہو کر منہدم کر ڈالا۔ شیخ العراقین محمد رضا کا بیان ہے کہ ابنِ سعودی نے مکہ میں ۹ اور مدینہ میں ۱۹ مقدس مقامات کو منہدم کرایا تھا۔ جن میں خانہٴ سیّدہ روضہ سیّدہؑ اور بیت الاحزان بھی تھے۔ ملاحظہ ہو، انور الحسینیہ جلد ۱ صفحہ ۵۴ طبع بمبئی ۱۳۴۶ئھ۔

حضرت فاطمۃ الزھراؑ کی کنیز جنابِ فضہ کے مختصر حالات

جنابِ فضہ کا اصل نام میمونہ تھا۔ حضرت رسولِ کریم نے ان کا نام فضہ رکھا۔ فضہ کے معنی چاندی کے ہیں۔ گویا رسولِ کریم نے ان کے سیّاہ فام ہونے کے باوجود انھیں چاندی بنا دیا اور روشن ضمیر کر دیا۔

جنابِ فضہ حبش کے رہنے والی تھیں۔ علامہ شیخ جعفر بن محمدبن جعفر نزاری لکھتے ہیں۔ ”ھی کانت بنت ملک من ملوک الحبشہ“ وہ حبشہ کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کی دختر نیک اختر تھیں (۵۱) علامہ رجب علی برستی نے کتاب مشارق الانوار میں انھیں ہندوستان کے ایک بادشاہ کی لڑکی لکھا ہے۔ لیکن یہ میرے نزدیک درست نہیں ہے۔ (۵۲)

جنابِ فضہ اور فنِ کیمیا گری

مورخین کا بیان ہے کہ جنابِ فضہ فنِ کیمیا میں ماہر تھیں۔ علامہ رجب علی برستی کتاب مشارق الانوار میں لکھتے ہیں کہ یہ جب حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا ) کے خانہٴ اقدس میں آئیں اور ان کی ظاہری غربت و افلاس کو دیکھا تو اکسیر کا ذخیرہ نکالا اور تانبے کے ٹکڑے پر اس اکسیر کو استعمال کیا جس سے تانبا بہترین سونا بن گیا اور جنابِ فضہ اس کو لے کر حضرت امیر المومنینؑکی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اے فضہ تم نے بہترین سونا بنایا ہے لیکن اگر تم تانبے کو بھی پگھلا دیتیں تو اس سے زیادہ بہتر سونا بن جاتا، فضہ نے ازروئے تعجب کہا کہ مولا آپ اس فن سے بھی واقف ہیں؟ آپ نے امام حسینؑکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ علم تو ہمارا بچہ بھی جانتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے فضہ ہم تمام علوم سے واقف ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اشارہ فرمایا اور زمین کا ایک ٹکڑا بہترین سونے اور قیمتی جواہر میں تبدیل ہو گیا۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”یا فضہ مالھذا خلقنا“ اے فضہ ہم اس کے لیے پیدا نہیں کئے گئے۔ (۵۳)مطلب یہ تھا کہ ہم زر و جواہر اور مال و دولت کے لیے پیدا نہیں کئے گئے۔ ہماری غرض خلقت تبلیغِ دین اور فروغِ انسانیت ہے۔

جنابِ فضّہ کی شادی

جنابِ فضہ جب حضرت فاطمہؑکی خدمت میں آئی تھیں تو غیر شادی شدہ تھیں۔ انھوں نے شاہی ٹھاٹھ باٹھ کو خیر باد کہہ کر حضرت فاطمہ زہراؑ کی خدمت کو اپنا فریضہ بنا لیا تھا۔ وہ پاکیزہ دل کی خاتون تھیں اور پاک گھرانے کی خدمت کو دنیا و آخرت کی عزت سمجھتی تھیں۔ حضرت فاطمہؑجب تک زندہ رہیں انھوں نے اپنی شادی نہیں کی البتہ ان کی وفات کے بعد حضرت علیؑکے اصرار پر شادی پر رضا مندی ظاہر کی۔ چنانچہ ان کی تزویج کر دی گئی۔ حضرت امام جعفرِ صادق ٪ ارشاد فرماتے ہیں۔ ”کانت لفاطمة الزھراء جاریة یقال لھا فضة فصارت بعدھا لعلی فزوجھا من ابی ثعلبة الحبشی فاولدھا ابنا ثم مات عنھا ابو ثعلبة فتزوجھا من بعدہ ابو سلیک الغطفانی۔“ حضرت فاطمة الزہراؑ کی ایک کنیز تھیں جن کو ”فضہ“ کہتے تھے۔ جب بی بی فاطمہ کا انتقال ہو گیا تو وہ حضرت علیؑکی خدمت گذاری کرنے لگیں۔ حضرت علیؑنے ان کی شادی ابو ثعلبہ حبشی کے ساتھ کر دی جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، پھر ابو ثعلبہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت علی  نے ان کا عقد ابو سلیک غطفانی کے ساتھ کر دیا۔ (۵۴)

 جنابِ فضہ اور ضیافت حضرت رسولِ کریم

مورخین کا بیان ہے کہ جنابِ فضہ بظاہر کنیز تھیں۔ لیکن وہ محمد و آلِ محمد کی نگاہ میں بڑی ممتاز تھیں اور ان کے نگاہِ کرم کی وجہ سے نگاہِ قدرت میں بھی باعزت تھیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ”ماہِ رمضان کی ایک شب کو جناب امیر المومنینؑنے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی خدمت میں درخواست کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) جس قدم سے آپ نے عرش معلی کو (شبِ معراج) مشرف فرمایا ہے۔ آج اس قدم کے ذریعہ ہمارے گھر کو شرف بخشیں۔ آنحضرت نے دعوت قبول فرمائی اور خانہ امیر المومنینؑمیں روزہ افطار فرمایا۔ اگلے روز کے لیے حضرت فاطمہؑنے دعوت اور انھوں نے قبول فرما کر روزہ افطار فرمایا۔ پھر امام حسنؑنے دعوت دی اس کے بعد امام حسینؑ نے درخواست کی، آپ نے ان شہزادوں کی خواہش پوری کی۔ یہ دیکھ کر جنابِ فضہ نے بھی دعوتِ دی حضرت نے قبول فرمائی ۔ جب نماز مغربین کے بعد آپ اپنے گھر ہو کر جناب فضہ کے وہاں جانے کا طعام کا ارادہ کیا تو جبریل نے کہا کہ آپ سیدھے فضہ کے گھر تشریف لے جائیں، یہ ربِ جلیل کی خواہش ہے کیونکہ فضہ دروازہ سیّدہؑپر منتظر کھڑی ہے۔ چنانچہ حضور اکرم سیدھے جناب سیّدہؑ کے مکان پر تشریف لے گئے ۔ ان لوگوں نے تعظیم کی اور آداب بجا لائے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں آج فضہ کا مہمان ہوں۔ یہ سن کر امیر المومنینؑنے فضہ سے کہا کہ تم نے ہمیں نہیں بتایا کہ حضور کو مدعو کیا ہے۔ ہمیں بتا دیا ہوتا تو ہم تمہاری مدد کرتے۔ فضہ نے عرض کی مولا میں آپ ہی کی کنیز ہوں۔ سب انتظام ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ اندر گئیں اور مصلّےٰ بچھا کر دو رکعت نماز ادا کی اور بارگاہِ خدا وندی میں عرض کی، مالک اپنے میں حبیب کی دعوت کا بندوبت فرما دے۔ دعا قبول ہوئی اور مائدہ آسمانی نازل ہوا وہ اسے لے کر باہر آئیں اور سب نے طعامِ جنت تناول فرمایا۔ حضرت نے کھانے کے بعد ارشاد کیا۔ ”الحمد للہ“ کہ خدا نے مریم بنت عمران کی طرح میری بیٹی کی کنیز کو بھی جنت سے طعام منگوانے کا شرف بخشا۔ (۵۵)

جنابِ فضہ اور امدادِ غیبی

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ جنابِ فضہ اپنی باری کے دن خانگی کاروبار کے سلسلہ میں لکڑیوں کا گٹھر اٹھا کر لانا چاہتی تھیں لیکن زیادہ وزنی ہونے کی وجہ سے وہ ان سے اٹھ نہیں رہا تھا۔ انہوں نے فوراً دعا پڑھی جو انھیں رسولِ کریم نے تعلیم دی تھی۔ جس کی ابتداء یہ ہے۔ ”یا واحد یا احد لیس کمثلہ شیء ٌ الخ“ اس دعا کا پڑھنا تھا کہ ایک اعرابی نمودار ہوا اور اس نے ایندھن اٹھا کر حضرت سیدہ کے دروازے پر لا پھینکا۔ (۵۶)

جنابِ فضہ اور سورہ ھل اتی

سورہ ھل اتٰی، جو اہلِ بیتؑکی مدح و ثنا میں نازل ہواہے۔ اس میں جنابِ فضہ بھی شامل ہیں۔

مفسرین لکھتے ہیں کہ ابنِ عباس کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت حسنینؑبیمار ہوئے تو رسولِ خدا کچھ لوگوں کے ساتھ عیادت کو تشریف لائے اور جنابِ امیرؑسے فرمایا کہ بہتر ہوتا اگر تم اپنے بچوں کی صحت کے واسطے نذر کرتے، یہ سنتے ہی جنابِ امیرؑ، فا طمة الزہرأؑ اور فضہ نے تین تین روزوں کی نذر کی۔ جناب امیر نے شمعون یہودی سے تین صاع جو قرض لئے، جنابِ سیدہ نے ایک صاع جو پیسا اور پانچ روٹیاں پکائیں۔ شام کو کھانا ہی چاہتے تھے کہ ایک سائل نے آواز دی ”السلام علیکم یا اہل بیت محمد“میں ایک مسلمان مسکین ہوں مجھے کھانا دو، خدا تمہیں جنت کے خوان عطا کرے گا۔ یہ سنتے ہی سب نے اپنے اپنے آگے کی روٹیاں دے دیں فقط پانی پی کر سو رہے۔ اور دوسرے دن پھر روزہ رکھا۔ حسبِ سابق دوسرے دن جنابِ سیدہ نے پانچ روٹیاں پکائیں اور کھانے بیٹھے توکہ ایک یتیم نے آواز دی اور سب نے اپنی اپنی روٹیاں اس کو دے دیں اور صرف پانی سے افطار کیا، تیسرے روز پھر روزہ رکھا اور افطار کرنے بیٹھے تھے کہ ایک قیدی نے آواز دی اور تیسرے دن پھر سب بزرگوں نے اپنی اپنی روٹیاں دے دیں۔ چوتھے دن صبح کو جنابِ امیرؑنے اپنے صاحبزادوں کے ہاتھ پکڑے اور حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب رسول اللہ کی نظر پڑی کہ بھوک کی شدت سے کانپ رہے ہیں تو فرمایا کہ میں تم لوگوں کو کس قدر تکلیف کی حالت میں دیکھ رہا ہوں، پھرخود اٹھے اور ان کے ساتھ جنابِ سیدہؑ کے مکان میں آئے تو فاطمہؑکو محرابِ عبادت میں دیکھا کہ ان کا پیٹ پیٹھ سے مل گیا ہے اور آنکھیں دھنس گئی ہیں، یہ دیکھ کر حضرت کو بہت رنج ہوا کہ یکایک جبریلؑنازل ہوئے اور کہا کہ لیجئے یا رسول اللہ آپ کو مبارک ہو خدا نے یہ سورہ آپ کے اہلبیتؑ کی شان میں نازل کیا ہے۔ اورسورہٴ دہر کی تلاوت فرمائی۔(۵۷) امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں یعنی علیاً و فاطمة والحسن والحسین وجاریتھم فضة“ اس آیت ”یوفون بالنذر“ میں جنابِ امیر، جنابِ فاطمہ، جناب حسن ؑ، جناب حسینؑاور ان کی کنیز فضہ کو مراد لیا ہے۔ (۵۸)

 بنتِ رسول کا زخمی ہونا اور فضہ کو پکارنا

تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہؑکے گھر میں آگ لگا دی تھی اور حضرت سیدہؑکے بطن پر دروازہ گرا دیا تھا جس سے ان کے بطن میں جاب محسن شہید ہو گئے تھے۔، (۵۹)علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ ”جب بی بی سیدہ کے پہلو پر دروازہ گرا اور بنتِ رسول زخمی ہو کر زمین پر گریں تو منہ سے بے ساختہ جملے نکلے تھے۔ ”یا رسول اللہ ھکذا یفعل بجیتک و ابنتک، یا فضة الیک مخذینی واما ظھری فندینی فقد واللہ قتل ما فی احشائی۔“ اے رسول خدا کی پیاری بیٹی سے یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ اے فضہ ذرا مجھ کو سنبھالو اور میری پشت کی طرف سے مجھے سہارا دو۔“خدا کی قسم میرے بطن میں میرا بچہ (محسن) شہید ہو گیا ہے۔ (۶۰)

غسل سیدہ میں فضہ کی شرکت

حضرت علی بن ابوطالب ٪ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب کے ضرب سے شدید زخمی ہو کر فاطمہؑبنت رسول علیل ہو گئیں اور انھوں نے سمجھ لیا کہ میں اب نہ بچو ں گی تو مجھے چند وصیتیں کیں۔ ان میں سے ایک وصیت یہ تھی کہ میرے غسل وکفن میں تمہارے اور حسنؑو حسینؑاور زینبؑو کلثومؑاور فضہ و اسماء بنت عمیس کے علاوہ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (۶۱) ایک روایت میں یہ واقعہ اس طرح مرقوم ہے۔حضرت علیؑفرماتے ہیں کہ حضرت سیدہ نے جہاں مجھ سے بہت سے عہد لیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ میری وفات کے بعد مردوں میں عبد اللہ بن عباس، سلمان فارسی، عمار یاسر، مقداد بن اسود، ابوزرغفاری، حذیفہ یمانی اور عورتوں میں ام سلما، اُمِّ ایمن اور فضہ کے علاوہ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور نہ کسی کو خبر دی جائے۔ ایک روایت میں فضل اور ابنِ مسعود کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ حضرت علیؑنے ایسا ہی کیا۔ (۶۲)

حضرت سیدہ(سلام اللہ علیھا ) کا آخری دیدار اور فضہ

حضرت علیؑفرماتے ہیں کہ جب فاطمہؑبنت رسول کا انتقال ہو گیا اور انھیں کفن پہنایا جا چکا تو میں ے چہرہ سیّدہؑ کو بند کرتے ہوئے۔ جہاں زینب امِ کلثوم اور حسن و حسین کو آوز دی تھی وہاں فضہ کو بھی پکارا تھا کہ ”ھلمو اتزر وّدُوْا من امکم“ آؤ اور اپنی ماں کا آخری دیدار کر لو۔ (۶۳)

جناب فضہ حضرت فاطمتہ الزھرا کی شہادت کے بعد

شہادت حضرت فاطمتہ الزھرا کے بعد جناب فضہ اسی گھر میں رہیں اور ان کے بعد حضرت زینبؑ وغیرہ کی خدمت کو اپنا فریضہ قرار دے لیا۔ علامہ مہدی جائر ی لکھتے ہیں۔ ”لماَ مَاتت فَاطِمةہ انضَمت اِلیَ زینبؑ وَکَانِت تَخذ مِھَا فِی بَیتھا وَتَارةفی بیتِ الحَسَن وَتَارة فِی بیتِ الحُسینِ فَلَماَخَرجَت عَقِیلة لقَرَیش مَعَ اَخِیھاالحسَین مِنَ الَمدِینَة اِلیَ العِرَاقِ خَرَجَت فِضتُہ مَعَھَا حتی اَتَت کَربلاَ “حضرت فاطمہؑ کی وفات کے بعد جناب فضہ حضرت زینبؑ کی کنیزی میں آ گئیں اور ان کے خانہ اقدس میں خدمت کے فرائض انجام دینے لگیں اور بعض اوقات زیبؑ کی کنیزی میں آ گئیں اور ان کے خانہ اقدس میں خدمت انجام دینے لگیں اور بعض اوقات امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے گھرمیں بھی خدمت فرائض انجام دیتی تھیں، پھر جب عقیلتہ القریش حضرت زینبؑ اپنے بھائی کے ہمراہ مدینہ سے عراق کی طرف روانہ ہوئیں تو جناب فضہ ان کے ہمراہ چلیں اور کربلا کے میدان میں آئیں۔

کربلا میں حکم فضہ سے شیر کا برآمد ہونا

کتب مقاتل میں ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد جب ان کی لاش اقدس پر گھوڑے د وڑائے جانے کا بندو بست کیا گیاتو حکم جناب زینب کے مطابق فضہ نے ابو الحارث نامی شیر کو آواز دی تھی اور اس نے بر آمد ہو کر نعش مبارک کی حفاظت کی تھی۔(۶۴)تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو ۔”ذکر العباس “طبع لاہور۔

 کربلا میں جناب فضہ کا حضرت زینبؑ کو سوار کرانا

شہادت حضرت امام حسینؑ کے بعد جب گیارہ محرم الحرام کو اہل بیتؑ کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت زینبؑ نے تمام محذرات اور بچوں کو سوار کرا دیا تھا۔ لیکن حضرت زینبؑ کو ناقہ پر سوار کرنے والا کوئی نہ تھا۔ راو ی کہتاہے کہ اس وقت میں نے دیکھا کہ ”اِذَا بِجَار َیتہ مُسِنَةِِ سَوداء اَقبلت اِلیَ زَینبَ فَاَر کَتَبھا فَسَالتُ عَنھَا فَقا لو ھِیَ فِضَةُ جاَرِیتہُ فَاطَمة“۔ ایک سیاہ رنگ کی سن رسیدہ کنیز آگے بڑھی اور اس نے حضرت زینبؑ کو سوارکیا، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ عورت کون ہے انہوں نے کہا یہ فضةہیں جو حضرت فاطمہ الزہراؑ کی کنیز ہیں۔(۶۵)

دربار شام میں پشت جناب فضہ پر تازیانہ

کتب مقاتل میں ہے کہ جناب فضہ واقعہ ہائلہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھیں۔ سید الشہداءؑ جب رخصت آخرکے لیے خیمہ میں آئے تھے او رانھوں نے سب کو سلام آخر کیا تھا۔تو جناب فضہ کو بھی سلام کیا تھااورکہ تھا ۔کہ اے فضہ میری بہن زینبؑ کا خیال رکھنا چنانچہ وہ ہر محل پر اس ارشاد کی طرف متوجہ رہیں۔خصوصاََ اس وقت خاص کردار ادا کیا۔ جبکہ یزید نے بھرے دربار میں حضرت زینبؑ سے کلام کرنا چاہا تھااس وقت فضہ آڑے آئی تھیں اور یزید ملعون کو اس بد تمیزی میں کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔ لیکن اس سلسلہ میں ایک محل ایسا بھی آ گیا تھا جس میں فضہ کو تازیانہ کھانا پڑا علامہ محمد علی کاظمینی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت زینبؑ کو دربار شام میں تیس کنیزیں اپنے حلقے میں لئے ہوئی تھیں ۔ یزید نے اپنے غلام ابو عبیدہ کو حکم دیا کہ ان کنیزوں کو زینبؑ کے سامنے سے ہٹا دے ۔ چنانچہ وہ تازیانہ لے کر آگے بڑھا۔ سب کنیزیں تو ہٹ گئیں ۔لیکن جناب فضہ نے زینبؑ کے سامنے سے ہٹنے سے انکارکر دیا۔”فَغَضبَ اَبو عَبیدہَ وَضَرَبھا ضَربةَ بَالسَوط حَتیَ اِنکبَت عَلی الاَرض“ابو عبیدہ نے غصہ میں آ کر ایک ایسا تازیانہ جناب فضہ کے پشت پر مارا کے وہ زمین پر گر پڑیں، اور چیخ کر کہا۔”وَاویلاہ مَا اَحد مِن قَوم النَوب ھٰھُناَ حَتی فویٰ جَزاَء درَتِک “ہائے مصیبت کیا یہاں کوئی حبشی قوم کا آدمی نہیں ہے جسے غیرت آئے اور تجھ کو اس ظلم کی سزا دے۔ یہ سن کر ساٹھ حبشی غلاموں میں سے جو یزید کے دربارمیں موجود تھے ایک آگے بڑھا اور اس نے ابو عبیدہ کو فی النار کر دیا۔ (۶۶)

فضہ کی دعا اور بیان واقعہ شہادت فاطمہؑ

 علامہ مجلسی علیہ الرحمتہ ، ورقہ بن عبد اللہ ازدی سے روایت کرتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایک مرتبہ حج کو گیا۔عالم طواف میں ایک عورت کو دیکھا جس کا رنگ گہرا گندمی اورچہرہ نورانی تھا۔ اس کی گفتگونہایت فصیح تھی ا ور وہ یہ دعا مانگ رہی تھی۔”اَللھُم رَب الکعَبة الحَرام “الخ، ا ے کعبہ محترم کے رب ، اے کرام الکاتبین کے رب ۔ اے زمزم و مشاعر حرام کے رب۔ اے محمد خیر الانام کے رب۔ مجھ کو میرے مطہر ومعصوم سادات اور ان کے مبارک چہروں والے بیٹوں کے ساتھ محشور فرما۔ میں نے دعا سن کر یہ سمجھ لیا کہ یہ کوئی محب اہل بیتؑ ہے، اس کے بعد میں اس کے قریب گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تو محبانِ آلِ محمد میں سے کون ہے ؟اس نے جواب دیا کہ میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی کنیز ”فضہ “ہوں۔ میں نے کہا، اے فضہ میں عرصہ سے تمہارا کلام سننے کا شائق ہوں۔ اے بی بی میں تم سے ایک اہم سوال کرنا چاہتا ہو ں تم مہربانی کر کے طواف کے بعد فلاں مقام پر آجا نا میں وہیں حاضر ہو کر سوال کروں گا، چنانچہ وہ آ گئیں اور میں بھی حاضر ہو گیا“۔ میں نے عرض کی۔”یَا فِضَة اَخِبرینی عَن مَولاَ تِکِ فَاطِمَةُ الزَھراءِ وَماَ الذَی رَاَئتِ مِنھَا عِندَوَفَا تِھَا بعدَ مَوتِ اَبیھاَ “اے فضہ مجھے بتاؤکہ وفات رسول کے بعد ان کی بیٹی فاطمہ زہراؑ پر کیا گزری “۔یہ سننا تھا کہ ”تَغَرَرت عَیناَ بالِدُ موُعِ “فضہ کی آنکھیںآ نسوؤں سے چھلک اٹھیں اور وہ چیخ مار کر روئیں اور کہنے لگیں اے ورقہ تم نے ہمارے غم کو تازہ کر دیا اوروہ مارے دل کو زخموں سے بھر دیا، اے ورقہ تم کو کیا بتاؤں کہ سیدہ پر کیا گذری، اچھا سنو، یہ کہہ کر انہوں نے تمام داستان غم دھرا دی۔(۶۷)

حضرت عمر کا علمیت فضہ کا اعتراف کرنا

علامہ شیخ جعفر نزاری تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جناب فضة کا عمر بن خطاب سے کسی مسئلہ فقہ میں اختلاف

ہو گیا اور فضہ نے اپنی علمیت کی قوت سے انہیں محجوح کر دیا تو انہوں نے از روئے تعجب کہا کہ”شَعرةُ امن ال ابی طالب مِن جَمیع آَلِ خَطاب “آل ابو طالب کا ایک معمولی سا بال بھی تمام آل خطاب سے زیادہ فقہ جاننے والا ہے۔(۶۸)

جناب فضہ او ر قرآن مجید

 ان کے حالات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی حافظہ تھیں کیونکہ ان کے لیے یہ مسلم ہے کہ انہوں نے بیس سال تک قرآن مجید کی آیات میں کلام کیا تھا۔ علامہ مجلسی بحار الانوار میں اور شیخ عباس قمی سفینتہ البحار میں لکھتے ہیں کہ ”ماَ تُکلمَت عِشرِینُ سنةا الاَ بالقرآنِ“یہ بیس سال تک قرآن مجید کے علاوہ وہ کچھ بولیں ہی نہیں یعنی جو گفتگو کرتی تھیں وہ قرآن مجید کی آیات میں کرتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ جو سوال و جواب اور اپنی نجی زندگی کے مقامات تکلم میں بلکہ حیات کی ہر منزل میں صرف قرآن مجیدسے گفتگو کرے اس کے حافظ قرآ ن ہونے میں کیونکر شبہ کیا جا سکتا ہے۔ میں مثال کے طور پر ان کے قرآن مجید کی آیات میں کلام کرنے کا ایک واقعہ لکھتا ہوں۔ علامہ حافظ محمد بن علی شہر آشوب المتوفی ۵۸۸ء بحوالہ ابو القاسم قشیری تحریر کرتے ہیں کہ ایک شخص عبد اللہ بن مبارک نے بیان کیا کہ میں سفر میں تھا اتفاقاََ اپنے قافلہ سے رہ گیا اور جنگل کی طرف نکل گیا۔ میں نے اس جنگل میں ایک عورت کو پریشان حال دیکھا تو میں یہ سمجھا کہ یہ بھی ہماری طرح گم کردہ راہ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔

(۱)تم کون ہو؟اس نے جواب دیا، قُل سَلَامُ فَسَوفَ تَعلمونَ “تم سلام کہو عنقریب جان لو گے ، میں نے سلام کیا۔

(۲)اب اس جنگل میں پھر کیوں رہی ہو ؟اس نے کہا ،مَن یَھدِی اللہُ فَلاَ مضلَِ لَہ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، میں سمجھا کہ یہ راہ بھٹکی ہوئی ہے۔

(۳)تم جنوں میں سے ہو یا انسانوں سے میں ، اس نے کہا ”یَا بُنِی آَدمَ خُذاا وازِ ینَتَکُم “اے بنی آدم اپنی زینت کو سنبھالو ۔ میں سمجھا کہ اپنا انسان ہونا بتا رہی ہے۔

(۴)تم کہاں سے آئی ہو ؟اس نے کہا ۔”تُنا دُونَ مِن مَکانِ بَعِید“وہ دو ر دو رسے پکار رہے ہیں میں سمجھا کہ بہت دور سے آئی ہیں۔

ْ(۵)کہاں جانے کا ارادہ ہے ، اس نے کہا۔”وَلِلہ عَلَی النَاسِ حجُ البَیتِ “اللہ کے لیے لوگوں پر حج واجب ہے ، میں سمجھا کہ حج کو جاری ہیں۔

(۶)تم قافلہ سے کب جدا ہوئی ہو۔”وَلَقد خَلقنَا السَمٰوَتِ وَِالارضَ فِی سِتَہِ اَیام “ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ہے، میں سمجھ گیا کہ چھ دن سے بھٹکی ہوئی ہے۔

(۷)تم کچھ کھانا چاہتی ہو، اس نے کہا۔ ”وَماَ جَعلناَ ھُمَ جَسَداََ یاَ کُلونَ الطَعَامَ “۔ہم نے ان کو جسم قرار دیا وہ کھانا کھاتے ہیں، میں سمجھ گیا کہ کھانا مطلوب ہے۔

(۸)کھانا کھلا کر میں نے کہا جلد سوار ہو جاؤ، اس نے کہا ۔”لاَ یِکلِفُ اللہُ نفساََ اِلاَ وُسعَھاَ “اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، میں سمجھا کہ وہ ایک جانور پر زیادہ بار پسند نہیں کرتی۔

(۹)تم میرے ساتھ ایک ہی اونٹ پر بیٹھ جاؤ، اس نے کہا۔”لوَ کانَ فِیھمَا الٰھة اِلاَ اللہ لَفَسَدَتا“اگر زمین و آسمان میں اللہ واحد سے زیادہ خدا ہوتے تو دونوں تباہ ہو جاتے ، میں سمجھا کہ ایک ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتی ۔

(۱۰)میں نے اپنی سواری سے اتر کر کہا تم سوار ہو جاؤ۔ چنانچہ سوار ہو کر اس نے کہا۔”سُبحَان الذِ ی“پاک ہے وہ خدا جس نے ہمیں اس پر سوار ہونے کا موقع دیا اور اسے ہمارے قابو میں کیا۔

(۱۱)جب ہم قافلہ میں مل گئے یعنی اس کا قافلہ مل گیا تو میں نے پوچھا کہ اس قافلہ میں تمہارا کوئی اپنا بھی ہے تو نے اس کہا،یاَ دَاودُ اِنا جَعَلناَکَ خَلِیفة فِی الارضِ ، وَماَ مُحمدََ اِلاَرُسول یایَحییٰ خُذِ الکِتَابَ ، یاَمُوسیٰ اِنیِ اَناَ اللہُ“میں سمجھ گیا کہ اسکے چار ساتھی ہیں داؤد اور محمد اور یحییٰ اور موسی، چنانچہ میں نے ان کو زور سے پکارا، سب حاضر ہو گئے۔

(۱۲)پھر میں نے پوچھا یہ چاروں تمہارے کون ہیں ؟اس نے کہا ،‘اَلماَ لُ وَالبنُونُ زِینُتہ الحَیاَتِ الدُنیا‘۔مال اور اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ چاروں اس کے بیٹے ہیں۔

 پھر اس عورت نے یہ آیت پڑھی، ”یاَ اَبتِ اسَتاجِرہُ اَنِ خَیر مَن استَاجَرَ ت الِقَریُ الامین“یعنی اس نے ان سے کہا کہ اس شخص کو کچھ اجرت دے دو، چنانچہ انہو ں نے مجھے کچھ مال دیا۔ پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ عورت کون ہے ؟اور اس کا کیا نام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ بنت رسول کی آزاد کنیز ہے، اس کا نام ”فضہ “اور یہ ہماری ماں ہے۔ یہ بیس سال سے آیات قرآنی کے ذریعہ سے بات چیت کرتی ہے۔(۶۹)

جناب فضہ کی وفات اور ان کا مدفن

 جناب فضہ کے حضرت فاطمہؑ کی خدمت میں حاضری کا واقعہ اور ان کا سن ولادت و وفات نیز ان کے مدفن کا تاریخ سے سراغ نہیں ملتا تاہم بروایت ”خلاصتہ المصائب “یہ ہے کہ انہوں نے حضرت زینب کبریٰ کی وفات کے تھوڑے عرصہ بعد انتقال کیا تھااور انھیں کے قریب شام میں دفن ہوئی تھیں۔

جناب فضہ کی ایک نواسی کا واقعہ

 جناب فضہ کے چار لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ لڑکوں کے نام یہ ہیں۔ داؤد ، محمد یحییٰ اور موسیَ لڑکی کا نام ”مسکہ “تھا۔ اس لڑکی کی ایک دُختر تھی جس کا نام ”شہرت “تھا۔

شہرت ایک دن حج کو جار ہی تھی راستے میں اُس کی سواری تھک کر بیٹھ گئی ۔ اس نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا۔”خدایا !“تو نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ اب نہ گھر واپس جا سکتی ہوں نہ مکہ پہنچ سکتی ہوں ، راوی مالک بن دینار کہتا ہے کہ اس کہنے کے فوراََ بعد جنگل کے درختوں سے ایک شخص ایک اونٹنی کی مہار پکڑے ہوے بر آمد ہوا، اور اسے بٹھا کرمکہ لے گیا۔(۷۰)

جناب فضہ کے وطن افریقہ سے انبیاء، آئمہ اور اسلام کا علاقہ

 تواریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بر اعظم افریقہ کا انبیاء آئمہؑ اور اسلام سے بہت گہرا اور قدیمی تعلق ہے، حضرت یوسفؑ اور حضرت موسیٰ جیسے بڑے پیغمبروں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ افریقہ ہی میں بسر کیا ہے۔ہمارے نبی کی جدہ عالیہ حضرت ہاجرہ افریقہ کے ملک مصر کی شاہزادی تھیں۔

 جب ہمارے نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اسلام کی تبلیغ شروع کی تو کافروں نے آپ کو اور آپ کے ماننے والے مسلمانوں کو ستانا شروع کیا۔آپ نے یہ دیکھ کر بعض مسلمانوں کو حضرت جعفر طیار - کے ساتھ حبش (افریقہ )بھیج دیا۔ وہاں کے بادشاہ نے ان مظلوم مسلمانوں کو پناہ دی اور ان دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کو مسترد کیا جو مکہ سے جا کر شاہ حبش کو مسلمانوں سے بد ظن کرنا چاہتے تھے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی ایک زوجہ ”ماریہ قبطیہ “افریقہ کی رہنے والی تھیں ، آپ افریقہ کے مشہور قبیلہ ”نوبہ “سے تھیں اور رسول اللہ گود میں کھلانے والی ”ام ایمن“(برکت )افریقہ ہی کی رہنے والی تھیں، ان کے ایک بیٹے ایمن، جنگ خیبر میں شہید ہوئے۔ ان کے دوسرے بیٹے اسامہ بن زید تھے جن کو رسول اللہ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ایک ایسے لشکر کا سپہ سالار بنایا تھا جس میں بڑے بڑے صحابی شامل تھے ۔اورآپ کے ایک خاص صحابی اور موذن حضرت بلال بھی افریقہ کے باشندے تھے۔ بلال، اسلام کے پہلے موذن ہیں۔ آج بھی افریقہ میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔ شمالی افریقہ میں مصر، سوڈان، طرابلس ، تیونس الجزائر اور مراکش ، خاص اسلامی ملک ہیں۔ مغربی افریقہ میں گنی اور نائجریامیں مسلمانوں کی حکومت ہے مشرقی افریقہ میں صومالیہ اور زنجبار میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں، مشرقی افریقہ کے ممالک ، زنجبار یوگنڈا ، کینیا اور ٹانگا نیکا میں کافی شیعہ اثنا عشری بھی آباد ہیں۔شمالی افریقہ کا سب سے اہم اسلامی ملک ”مصر “ہے ۔ آج سے ہزاروں سال پہلے مصر کے باد شاہوں کو ”فرعون “کہتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے ایک فرعون ہی کے گھر میں پرورش پائی تھی۔مصر کی راجد ہانی قاہرہ ہے۔ یہ اسلامی دنیا کا بہت بڑا شہر ہے۔ یہاں کی سب پرانی یونیورسٹی ”الازھر “موجود ہے جو ایک ہزار سال سے علم کا گہوارہ بنی ہوئی ہے۔قاہرہ میں ”راس الحسینؑ“نا م کی ایک عمارت ہے جہاں ہزاروں مصری روزانہ جمع ہو کر امام حسین علیہ السلام سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔مصر کے جنوب میں ”سوڈان “ہے۔ یہ بھی ایک آزاد اسلامی ملک ہے۔ مصر اور سوڈان میں دریائے نیل بہتا ہے۔ یہ وہی دریا ہے جس پر حضرت موسیؑ نے عصا مارا تھا تو دریا کا پانی پھٹ گیا تھا ور حضرت موسیؑ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل گئے تھے۔ اسلامی تاریخ میں اس کا ذکر باربار آتا ہے۔ مصر کے مغرب میں ”لیبیا “ہے۔ جہاں سنوسی عربوں کی حکومت ہے۔ لیبیا سے مغربی سمت میں تیونس ہے۔ یہ بڑا زرخیز علاقہ ہے اور اب وہاں بھی ایک  آزاد اسلامی حکومت قائم ہے۔ تیونس کے مغرب میں الجزائر ہے جو اپنی پیدا وار اور معدنیات کے لیے بہت مشہور ہے۔الجزائر کے مغرب میں مراکش ہے جہاں ایک آزاد مسلما ن سلطان کی حکومت ہے۔ مراکش سے ہی مسلمانوں نے پہلی مرتبہ یورپ پر حملہ کیا تھا اور ”اسپین “پر قبضہ کر لیا تھا جہاں صدیوں تک مسلمان حکومت کرتے رہے ۔شمالی افریقہ کی طرح مغربی اور وسطی افریقہ کے علاقوں میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔مغربی افریقہ میں نائیجریا اور گنی کی آزاد مسلمان حکومتیں قائم ہیں۔ صحارا، مالی اور کانگو کے علاقوں میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

 حوالاجات حضرت فاطمۃالزہراء (سلام اللہ علیھا )

۱۔تاریخ خمیس جلد ۱ ص ۳۱۳، دمعة ساکبہ ص ۵۳

۲۔سوانح حیات سیدہ ص ۳۴

۳۔تاریخ اسلام جلد ۲ ص۲۰

۴۔مدارج النبوة ص۱۹۲،اعلام الوری ص۹۱

۵۔نورالانوار، شرح صحیفیہ سجادیہ

۶۔کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۱۳

۷۔بحار الانوار ج ۱۰ ص ۱۴

۸۔سیرة النبی ج ۱ ص ۲۶۱

۹۔ریاض النضرة ج ۲ ص ۱۸۴طبع مصر

۱۰۔بحارالانوار ج ۱ ص ۳۵

۱۱۔صواعق محرقہ ص ۸۴

۱۲۔سیدہ کی عظمت از مولانا کوثر نیازی ص ۵

۱۳۔وسائل الشیعہ ج ۳ ص ۶۱

۱۴۔صواعق محرقہ ص۸۵،مناقب ص ۸

۱۵۔مناقب ص ۱۴

۱۶۔وسائل الشیعہ ج ۱۲ص ۱۱۶

۱۷۔مکارم الاخلاق ص ۲۴۷

۱۸۔وسائل الشیعہ ج ۱۴ ص ۱۱۵

۱۹۔تذکرة الخواص ص۔ص

۲۰۔ترمذی۲۸۰ ج ۲ ص۲۴۹،مطالب السئول ص ۲۲طبع لکھنوء

۲۱۔زاد العقبی ترجمہ مودة القربی ج۱۱ ص۱۰۰

۲۲۔مناقب شہر ابن شہر آشوب م۲ س ۲۸

۲۳۔عجائب القصص ص ۲۸۲

۲۴۔تاریخ ابوالفداء ج ۱ ص ۳۷۵

۲۵۔تاریخ طبری، الامامت والسیاست ج ۱ ص ۱۲

۲۶۔کتاب الملل والنحل شہرستانی ص ۲۰

۲۷۔ابن ابی الحدید

۲۸۔(روضة الاحباب)

۲۹۔الامامت والسیاست ج ا ۱۳

 

۳۰۔ (تاریخ الیعقوبی جلد ۲ صفحہ ۱۱۶)

۳۱۔ فتاویلی عزیزی

۳۲۔معجم البدان صحیح بخاری الفاروق جلد ۲ صفحہ ۲۸۸

۳۳۔ کتاب الاکشفاء انسان العیون صواعق صفحہ ۳۲

۳۴۔سیرت حلبیہ صفحہ ۱۸۵

۳۵۔انسان العیون جلد ۳ صفحہ ۴۰۰ طبع مصر

۳۶۔الامامت و السیاست، ابن ابی قتیبہ متونی ۲۷۶ ئھ جلد ۱ صفحہ ۱۴

۳۷۔رویائے صادقہ فصل ۱۴

۳۸۔انوار الحسینیہ صفحة ۲۴ طبع بمبئی

۳۹۔نور الابصار صفحہ ۴۶ و مدارج جلد ۲ صفحہ ۵۲۴

۴۰۔امہات الامة صفحہ۹۹

۴۱۔استیعاب جلد ۲ صفحہ ۷۷۲

۴۲۔الامامت و السیاست جلد ۱ صفحہ ۱۴

۴۳۔انوار الحسینیہ جلد ۳ صفحة ۳۹ طبع نجف

۴۴۔زادالعقبیٰ ترجمہ مودة القربیٰ علی ہمدانی شافعی صفحہ ۱۲۵ تا ۱۲۹ طبع لاہور

۴۵۔انور الحسینیہ جلد ۳ صفحہ ۳۹

۴۶۔الامامت و السیاست جلد ۱ صفحہ ۱۴ طبع مصر

۴۷۔ناسخ التواریخ

۴۸۔عمدة المطالب ترجمہ مناقب ج ۲ صفحہ ۶۵ طبع ملتان

۴۹(ترجمہ مناقب ابنِ شہر آشوب ج۲ صفحہ ۶۹

۵۰۔منتھی الآمال جلد ۱ صفحہ ۱۴۰ طبع نجفِ اشرف

۵۱۔الانوار العلویہ صفحہ ۱۰۶ طبع نجفِ اشرف

۵۲۔رسالہ حضرت فضہ صفحہ ۴ طبع لاہور

۵۳۔انوار علویہ و ومعہ ساکبہ صفحہ ۱۳۰

۵۴۔انوار علویہ صفحہ ۵۹

۵۵۔مصابیح القلوب، ریاض القدس جلد ۲ صفحہ ۲۶۱ طبع ایران)۔

 

۵۶۔معانی السبطین جلد ۲ صفحہ ۱۳۶

۵۷۔تفسیر کشاف ج ۳ ص۲۳۹، تفسیر بیضاوی

۵۸۔تفسیر برھان ج ۴ ص ۱۶۴

۵۹۔الملل والنحل

۶۰۔بحارالانوار ج ۸ طبع ایران

۶۱۔معالی السبطین ج ۲ ص۱۳۶

۶۲۔سفینة البحار ج ۲ ص ۳۶۰

۶۳۔سفینة البحار ج ۲ ص ۳۶۵

۶۴۔سفینة البحار ج ۲ ص ۳۶۵

۶۵۔معالی السبطین ج۲ صفحہ رسالہ فضہ ص ۱۳طبع لاہور

۶۶۔کتاب لسان الواعظین ص ۶۹۸

۶۷۔بحارالانوار ج ۱۰ ص ۵۳،سفینة البحار ج ۲ ص ۳۶۵

۶۸۔انوار علویہ ص ۵۸

۶۹۔مناقب ابن شہر آشوب ج۲ ص ۴۰

۷۰۔سفینة البحار ج ۲ ص ۳۶۵،بحارالانوار،مناقب ج ۲ ص ۳۰