ماہ رمضان المبارک..

روزہ کا فلسفہ کیا ہے؟

 

روزہ کے مختلف پہلو ہیں اور انسان کے اندر مادی و معنوی لحاظ سے بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ”اخلاقی پہلو“ اور ”تربیتی فلسفہ“ ہے۔
روزہ کاسب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ انسان کی روح ”لطیف“،اور اس کی ”قوّت ارادی“ مضبوط ہوتی ہے اور خواہشات میں ”اعتدال“ پیدا ہوتا ہے۔
روزہ دار کو چاہئے کہ روزہ کے عالم میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بھی چشم پوشی کرے، اور عملی طور پر یہ ثابت کر دکھائے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کا اسیر نہیںہے، سرکش نفس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے اور ہوا وہوس اور شہوت و خواہشات اس کے کنٹرول میں ہے۔
در اصل روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے، جس انسان کے پاس کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود ہو ں جب اوراس کو بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ فوراً کھاپی لےتا ہے، بالکل ان درختوں کے مانند جو کسی نہر کے قریب ہوتے ہیں اور ہر وقت پانی سے سیراب ہوتے رہتے ہیں وہ نازپرور ہوتے ہیں یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرتے ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اگر انھیں چند دن تک پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہوجاتے ہیں۔
لیکن جنگل،بیابان اورپہاڑوں میں اگنے والے درخت ہمیشہ سخت طوفان، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریباں رہتے ہیں، لہٰذا ایسے درخت بادوام اور مستحکم ہوتے ہیں!!
روزہ بھی انسان کی روح و جان کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے، یہ وقتی پابندیوں کے ذریعہ انسان میں قوت ِدفاع اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلہ میں طاقت عطا کرتا ہے، چونکہ روزہ سرکش خواہشات اور انسانی جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہٰذا اس کے ذریعہ انسان کے دل پر نور و ضیا کی بارش ہوتی ہے، خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جاکر کھڑا کردیتا ہے، <لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ>(1)، (شاید تم پرہیزگار بن جاؤ) اس آیہٴ شر یفہ میںروزہ کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔
اس مشہور و معروف حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”الصُّومُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ“(2) (روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ایک ڈھال ہے)۔
ایک اور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:روزہ؛ شیطان کا منہ کالا کردیتا ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے خدا کے لئے محبت و دوستی نیز عملِ صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور توبہ و استغفار سے اس کے دل کی بھی رگ کٹ جاتی ہے۔(3)
نہج البلاغہ میں عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام روزہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وَالصِّیَامُ إبْتَلاَءُ لإخْلاَصِ الْخَلْقِ“(4) ”خداوندعالم نے روزہ کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں اخلاقی روح کی پرورش ہوسکے“۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لِلْجَنّة بَاباً یُدعی الرَّیَّان لَا یَدخُلُ فِیھَا إلاَّالصَّائِمُونَ“ (بہشت کے ایک دروازے کا نام ”ریان“ (یعنی سیراب کرنے والا) ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔)
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازہ کا انتخاب اس بنا پر ہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔(5)
روزہ کے معاشرتی اثرات
روزہ کا اجتماعی اور معاشرتی اثر کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، روزہ انسانی معاشرہ کے لئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضہ کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور معاشرہ کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکیں گے اور دوسری طرف شب و روز کی غذا میں کمی کرکے ان کی مدد کے لئے جلدی کریں گے۔
البتہ ممکن ہے کہ بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کرکے خداوندعالم صاحبِ قدرت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہواور اگر یہ معاملہ حسّی اور عینی پہلو اختیار کرلے تو اس کاایک دوسرا اثر
ہوتا ہے ،روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے، اس مشہور حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزہ کی علت اور سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے کہ غنی بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کردے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوجاتا ہے خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و غم کااحساس ہو جائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔(6)
روزہ کے طبی اثرات
طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک (کھانے پینے سے پرہیز) بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے، شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مبسوط تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں، اور چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا جس سے خطرناک اور اضافی چربی پیدا ہوتی ہے یا یہ چربی اور خون میں اضافی شوگرکا باعث بنتی ہے، عضلات کا یہ اضافی مواد در حقیقت بدن میں ایک متعفن (بدبودار) بیماری کے جراثیم کی پرورش کے لئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے، ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راہ حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزہ کے ذریعہ ختم کیا جائے، روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلادیتا ہے، در اصل روزہ بدن کو صاف و شفاف مکان بنادیتا ہے۔
ان کے علاوہ روزہ سے معدہ کو اچھا خاصا آرام ملتا ہے جس سے ہاضمہ کا نظام صحیح ہوجاتا ہے، چونکہ یہ بدن انسان کی نازک ترین مشینری ہے جو سال بھر کام کرتی رہتی ہے لہٰذا اس کے لئے اتنا آرام نہایت ضروری ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اسلامی حکم کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے، یہ اس لئے ہے تاکہ اس سے حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جاسکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتیجہ نہ حاصل ہوسکے۔
چنانچہ ”الکسی سوفرین“ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:
روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے: خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ (Appendicitis) اندرونی اور بیرونی قدیم پھوڑے، تپ دق (T.B) اسکلیروز، نقرس، استسقاء،(جلندر کی بیماری جس میں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور پیٹ دن بدن بڑھتا جاتا ہے) جوڑوں کا درد، نور استنی، عرق النساء (چڈوں سے ٹخنوں تک پہنچنے والا درد)، خزاز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض جگر اور دیگر بیماریاں ۔ امساک اور روز ہ کے ذریعہ علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ بیماریاں جو جسمِ انسان کے اصول سے متعلق ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلاً سرطان، سفلیس، سل اور طاعون کے لئے بھی شفا بخش ہے(7)
ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”صُومُوا تَصَحُّوا“،(8) (روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو)۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا: ”المِعْدَةُ بَیْتُ کُلِّ دَاءٍ وَالحَمیةُ رَاسُ کُلِّ دَوَاءٍ“(9) معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک ( روزہ) ہر مرض کی دوا ہے۔(10)

 

(1)سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۳
(2) بحار الانوار ،جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۶
(3) بحا رالانوار، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۵
(4)نہج البلاغہ ،کلمات قصار، کلمہ نمبر ۲۵۲
(5) بحار الانوار ، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۲
(6) وسائل الشیعہ ، جلد ۷، باب اول ،کتاب صوم ، صفحہ ۳
(7) روزہ روش نوین برای درمان بیماریہا، صفحہ ۶۵،طبع اول
(8) بحا رالانوار ، جلد۹۶، صفحہ ۲۵۵
(9) بحار الانوار ، جلد ۱۴ ، طبع قدیم
(10) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۶۲۸

 
 

روزہ کے احکام

 

نام کتاب:   روزہ کے احکام

مولف:    سید مجتبیٰ حسین

مترجم:     سید حیدر عباس رضوی

تصحیح         مولانا محمد باقر رضا

نظرثانی     مولانا شاہوار حیدر سعیدی

کمپوزنگ: منہا ل حسین خیرآبادی

پیشکش:    نور اسلامک مشن

طبعہ         اول رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ

تعداد:      ۵۰۰

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عرض ناشر

الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی محمد وآلہ الطیبین الطاہرین

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ان لکل شی دعامة ودعامة ہذا الدین الفقہ( کنز العمال ۲۸۷۶۸) ہر شے کے لئے ایک ستون و اصل ہے اور اس دین ( دین اسلام ) کی اصل و اساس فقہ ہے ۔

اس نورانی حدیث سے فقہ اور فقہ میں غواصی کرنے والے فقہاء کی اہمیت بخوبی روشن ہے اور تمام فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے ، وہ مسائل جو انسان کی زندگی کے روزمرہ مسائل ہیں ، ان کا جاننا واجب ہے یعنی اگر کسی نے ان مسائل کو نہیں سیکھا اور اس کا عمل خدا کی مرضی کے مخالف ہوا تو قیامت کے دن اسے عقاب کیا جاسکتا ہے

اس اہمیت کے مد نظر نوراسلامک مشن نے ہر سال رمضان المبارک اور محرم الحرام میں اپنے معاشرے ،خصوصا جوانوں کو احکام دین سے آشنا کرانے کے لئے جگہ جگہ مساجد و امام بارگاہوں میں احکام کے پوسٹر اردو اور ہندی میں نشر کرنے کی ایک ادنی سی مہم چلائی ہے، اب اس مہم کی دوسری کڑی، کتاب کی صورت میں اپنے زندہ اور طالب حق معاشرہ کے لئے پیش کر کے بارگاہ پروردگار اور اس کے نائب برحق حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سامنے دست دعا بلند کرتے ہیں ۔

بارالہا! ہم نے جو کام صحیح اور معاشرے کی بہتری کے لئے مناسب سمجھا اپنی تمام کوتاہیوں اور گناہوں کے ساتھ انجام دیا تو اس کو قبول کر اور ہمارے معاشرے کو ایسا بنا جن کو دیکھ کر قرآن کی یہ آیت زبانوں پر جاری ہو:

ان اللہ الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکة (فصلت/۳۰)

وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت کی تو ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔

نور اسلامک مشن

عرض مترجم

عرصہٴ دراز سے اس بات کی دلی تمنا تھی کہ کسی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کروں ۔الحمد للہ یہ تمنا بار آور بھی ہوئی اور متعدد مختصر ومفید کتب کا ترجمہ بھی کیا لیکن گرد زمان طباعت میں مانع قرار پائی۔یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس کا ترجمہ بھی آج سے تقریباً دو سال قبل تمام ہو چکا تھا لیکن بعض مشکلات کی بنا پر اب جا کر یہ اس منزل میں پہنچی کہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔بہر حال اس کتاب کی افادیت سے کسی بھی صاحب خرد کو انکار نہیں ہو سکتا۔اکثر بلکہ یوں کہوں کہ ا س کتاب میں موجود تقریباً سو فیصد سوالات مبتلا بہ ہیں ۔

ترجمہ میں سلاست اور عام فہم ہونے کا خاص خیال رکھا گیا ہے البتہ اس میں کہاں تک میں کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ خود آپ کو کرنا ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ گزارش بھی ہے کہ اگر کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو اس سے مطلع فرما کر آپ بھی ثواب میں ہمارے سہیم ہو سکتے ہیں۔کتاب کے سلسلہ میں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اس کتاب کا بغور مطالعہ کر لے تو یقینا بہت سارے مسائل گھر بیٹھے حل ہو سکتے ہیں,یہ کتاب فقط ماہ مبارک رمضان اور روزہ سے متعلق سوالات پر مشتمل ہے۔

امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہیگا اور اس سلسلہ کی دیگر کتب بھی آپ کی خدمت میں پہنچتی رہیں گی،ساتھ ہی ساتھ ان برادران کی قدردانی نہ کرنا جنہوں نے کسی بھی طرح اس الٰہی کام میں میری مدد فرمائی نا انصافی ہوگی ،میں اپنے تمام کرم فرما احباب ،مخصوصاً برادر عزیز مولانا محمد باقر رضا صاحب اور استادذوی الاحترام حجة الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا شاہوار حیدر صاحب قبلہ کا صمیم قلب سے ممنون و مشکور ہوں جنہوں نے اس ترجمہ کی تمام تر مشغولیات کے باوجود تصحیح اور نظر ثانی فرمائی ۔

رب کریم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ خدایا !تمام خادمان دین و مذہب کو صحت وسلامتی اور طول عمر مرحمت فرما۔آمین بحق آل طہ ویس

سید حیدر عباس رضوی

حوزہ ٴ علمیہ قم المقدسة

۱۰/ربیع الثانی ۱۴۳۱ئھ․ق

مقدمہ

”سوال“ سے انسان کا رابطہ اپنی خلقت کے آغاز سے ہی ہے جب فرشتوں اور شیطان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس نے مقام انسانیت کوسب پر واضح کیا تھا۔ صاحب دعوائے سلونی نے کتنے حسین انداز میں فرمایاہے :”من احسن السوٴال علم“ و ”من علم احسن السوٴال“

جی ہاں !جس کے سوال پاکیزہ اور خوبصورت ہوں گے ، علم و دانش اسکا جواب ہوں گے۔ کسی بھی معاشرے اور ثقافت کی ترقی اور استحکام حقیقت پسندانہ سوالوں اور عاقلانہ جوابوں میں پوشیدہ ہے۔

ایران اسلامی کے افتخارات میں سے ایک بات یہ بھی ہے ایک طرف اسکے پاس وہ پاک دل، ترقی پسند اور سوال کرنے والے جوان موجود ہیں ،تو دوسری جانب اسے خدا نے ایسا غنی مکتب فکر عطا کیا ہے جس کی عظیم تعلیمات ، حقیقت طلب پیاسے دلوں کے لئے آب سرد و شیریں کے مانند ہے۔

مرکزی ثقافتی ادارہ کے شعبہٴ سوال و جواب نے ایک دوستانہ محفل کی بنیاد رکھی ہے تاکہ”زمین اجابت“ سوالوں کے ”ابر رحمت“ کو اپنی آغوش میں جگہ دے کر علم کے ہرے بھرے پودے کو جنم دے۔ اگر ہم ایران کے مایہ ناز صاحب فکر جوانوں کے لئے انکی جولانیوں میں حوصلہ بن جائیں تو اس سے بڑھ کر ہمارے لئے کیا ہوگا؟!

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یونیورسٹیز میں موٴسسہٴ نمایندگی قائد انقلاب اسلامی نے دینی ثقافت کی ترویج کیلئے علمی انجمنوں کی مدد سے دینی افکار، مشورہ، احکام وغیرہ جیسے مختلف موضوعات میں اسٹوڈنٹس کے ۵۰ ہزار سے زیادہ سوالوں کے جواب دئیے ہیں۔

اس ادارہ کے مندرجہ ذیل ۸ علمی گروہ ہیں:

۱۔انجمن قرآن و حدیث

۲۔ انجمن احکام ،گروہ فلسفہ، کلام اور دینی تحقیق

۳۔ انجمن اخلاق و عرفان

۴۔ انجمن تربیت و نفسیات

۵۔ انجمن سیاست

۶۔ انجمن ثقافت و سماج

۷۔ انجمن تاریخ و سیرت

آپ کے ہاتھوں میں جو مجموعہ ہے وہ یونیورسٹیز کے اسٹوڈنٹس کے ذریعہ کئے گئے سوالوں کا ایک حصہ ہے ۔جنکا جواب حجت الاسلام جناب سید مجتبی حسینی مدظلہ نے دیا ہے۔ اس مجموعہ کی خصوصیات اور اسے ترتیب دینے کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے:

الف: سوالوں کے جواب انکے مدارک اور منابع کے ساتھ ہیں۔

ب:مشابہ جوابات، یکساں اور سلیس عبارت میں تحریر کئے گئے ہیں لہٰذا زیادہ تر جواب اقتباس کی صورت میں ہیں۔

ج: مزید یقین و اطمینان کے لئے جوابات کے مدارک ذکر کرنے کے علاوہ، مراجع عظام کے دفاتر سے بھی استفتاء کیا گیا ہے۔

د: کتاب کی ترتیب میں، پہلا فتوا امام خمینی کا ہے اور دوسرے مراجع (کہ جنکے نام حروف تہجی کے اعتبار سے تحریرکئے جارہے ہیں)کے فتاوا انکے بعد مذکور ہیں ۔

۱۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ محمد تقی بہجت (قدس سرہ)

۲۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ مرزا جواد تبریزی (قدس سرہ(

۳۔ حضرت آیت اللہ الحاج سید علی حسینی خامنہ ای (دام ظلہ العالی)

۴۔ حضرت آیت اللہ الحاج سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ العالی)

۵۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی (قدس سرہ)

۶۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ محمد فاضل لنکرانی (قدس سرہ)

۷۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ حسین نوری ہمدانی (دام ظلہ العالی)

۸۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ ناصر مکارم شیرازی (دام ظلہ العالی)

۹۔ حضرت آیت اللہ الحاج شیخ حسین وحید خراسانی (دام ظلہ العالی)

ہم خداوندعالم سے ان تمام مراجع کے درجات کی بلندی کیلئے دعا گو ہیں۔

آپ کے مشورے اور نقد و تبصرے ہمارے لئے انتہائی معاون ثابت ہوں گے۔

آخر میں ہم شعبہ ٴسوال و جواب کے معاونین اور موٴلف محترم کی مخلصانہ کوشسوں، بالخصوص حجج اسلام سید محمد تقی علوی اور صالح قنادی کہ جنہوں نے اس مجموعہ پر نظر ثانی اور اسے آمادہ کرنے میں بہت زحمت اٹھائی ہے، کا شکریہ ادا کرتے ہیں نیز مکتب اہل بیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے اور سماج بالخصوص یونیورسٹیز میں دینی ثقافت کو ترقی عطا کرنے کیلئے ان افراد کی طول عمر کیلئے دعا گو ہیں۔

واللہ ولی التوفیق

صدر مرکزی ثقافتی ادارہ سید محمد رضا فقیھی

روزہ کی اہمیت

روزہ کا فلسفہ

سوال (۱) : روزہ کے فوائد اور اسکے فلسفہ کی وضاحت کریں ۔

جواب :روزہ کی بہت ساری حکمتیں اور فوائد ہیں ۔ ہم یہاں پر ان میں سے کچھ اہم ترین حکمتوں اور فوائد کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱۔ روزہ انسانی روح کو لطیف ، اسکے ارادہ کو قوی اور اسکی خواہشات کو معتدل کرتا ہے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ میں آدمی کی مدد کرتا ہے ۔(۱)

۲۔روزہ فقیر و مالدار کے درمیان برابری پیدا کرنے کے لئے ہے تاکہ لوگ بھوک برداشت کرنے کے ذریعہ فقیروں اور محروموں کو یاد کریں اور انکے حقوق ادا کریں۔ (۲)

۳۔ روزہ دلوں کو آرام و سکون پہچانے کا ذریعہ ہے ۔ (۳)

۱۔”یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون “۔ بقرہ /۱۸۳

۲۔ اس سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں رجوع کریں ،من لا یحضرہ الفقیہ ،ج۲،حدیث ۱۷۶۹- ۱۷۶۶

۳۔ امام محمد باقر فرماتے ہیں : ”الصیام و الحج تسکین القلوب“۔بحار الانوار ،ج۷۸، ص۱۸۳

۴۔ روزہ کے بہت سے طبی فوائد ہیں روزہ کے ذریعہ جسم کو سلامتی اور تندرستی ملتی ہے ۔(۱) الیکسی سوفورین (روسی دانشور ) نے روزہ رکھنے کو بہت سی بیماریوں ( مثلاً خون کی کمی ، آنتوں کی کمزوری ، جوڑوں کے درد ، ورم اور شدید درد ، آنکھوں کی بیماری ،شوگر ، گردے اور جگر کی بیماری ) کا علاج بتایا ہے ۔ (۲)

رمضان کے معنیٰ

سوال( ۲): رمضان کے معانی بتائیں

جواب :لغت میں ”رمضان“ کا مادہ ”رمض “سے ہے اورگرمی کی شدت اور پتھر اور ریت پر سورج کی تپش کو کہا جاتا ہے چونکہ ماہ رمضان بھوک ، پیاس اور سختیوں کو برداشت کرنے کا مہینہ ہے لہذا اسے رمضان کہا جاتا ہے، یہ مہینہ قمری مہینوں میں نواں مہینہ ہے اور ماہ رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن مجید میں آیا ہے (رمضان ، خداوند عالم کے ناموں میں سے ایک نام ہے ) اسی وجہ سے روایات میں صراحتاً یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ رمضان تنہا استعمال نہ کیا جائے بلکہ کلمہ ٴ ”ماہ“ کے ساتھ ملا کر بولا جائے یعنی ”ماہ رمضان “ کہا جائے ، ماہ رمضان ، تمام مہینوں پر فضیلت رکھتا ہے۔

کیونکہ تمام اہم آسمانی کتابیں ( توریت ، انجیل ، زبور، متعدد صحف اور قرآن ) اسی مہینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ شب قدر اور امیر الموٴمنین حضرت علی – کی شہادت اسی مہینہ میں واقع ہیں ۔ شاید انہیں تمام خصوصیات کی بنا پر ماہ رمضان کو روزہ کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔ (۳)

۱۔رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں :” صوموا تصحوا“ روزہ رکھو تاکہ سالم ہو جاوٴ ۔

۲۔ منقول از تفسیر نمونہ ،ج۱ ،ص۶۳۲

۳۔تفسیر نمونہ ،ج۱ ،ص۶۳۴ ؛ لسان العرب ، مجمع البحرین ، فرھنگ اصطلاحات فارسی ؛من لا یحضرہ الفقیہ ،ج۲،باب نوادر ص۱۶۹

روزہ کے معنی

سوال (۳): صوم( روزہ ) کے لغت و اصطلاح میں کیا معانی ہیں ؟

جواب: ”صوم “ (روزہ) لغت میں کسی بھی چیز سے اجتناب اور پرہیز کرنے کو کہا جاتا ہے اور فقہ کی اصطلاح میں اذان صبح سے مغرب تک حکم خداوند عالم کی انجام دہی کی نیت سے ان آٹھ چیزوں سے اجتناب و پرہیز کرنے کو کہا جاتا ہے جن سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ۔ (۱)

گزشتہ اقوام میں روزہ کی تاریخ

سوال (۴): روزہ کی تاریخ کس زمانہ سے متعلق ہے ؟

جواب :بہت سے تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے درمیان روزہ رائج تھا، یہ لوگ غم و اندوہ کے وقت اور توبہ و خوشنودیِ خدا کو حاصل کرنے کے لئے روزہ رکھتے تھے تاکہ اس عمل سے خدا کے حضور میں اپنی عاجزی کا اظہار کریں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں۔ انجیل سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ  نے چالیس دن و رات تک روزہ رکھاتھا (۲) قرآن میں واضح لفظوں میں ذکر ہوا ہے کہ یہ الٰہی فریضہ گذشتہ امتوں پر بھی واجب تھا۔ (۳)

روزہ کے مراتب

سوال (۵):علمائے اخلاق نے روزہ کی روزہ ٴ عوام ، روزہ ٴ خواص ، اور روزہ ٴ خواص الخواص میں درجہ بندی کی ہے کیا اسکی کوئی دینی دلیل بھی ہے؟

۱۔ کھانا پینا ، جماع ، استمناء ، قے کرنا ، کسی سیال چیز سے حقنہ کرانا ، خدا رسول اور ائمہ  کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا ، گرد و غبار کا حلق تک پہنچانا ، پورے سر کو پانی میں ڈبونا ، اذان صبح تک حیض ونفاس یاجنابت پر باقی رہنا۔

۲۔ تفسیر نمونہ ،ج۱، ص۶۳۳                                                    ۳۔ بقرہ /۱۸۳

جواب : علمائے اخلاق نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ د ر حقیقت احادیث میں موجود ان باتوں کا خلاصہ ہے جو اس سلسلہ میں ذکر ہوئی ہیں ۔ امام محمد باقر روزہ ٴ عوام کے بارے میں فرماتے ہیں : اگران چارچیزوں سے روزہ دار پرہیز کرے توجس کام کو بھی انجام دے اس سے اسکے روزہ کو نقصان نہیں پہنچتا ہے کھانا ، پینا ، جماع اور پانی میں سر کو ڈبونا ۔ (۱)

امام جعفر صادق روزہٴ خواص کے بارے میں فرماتے ہیں :جب بھی روزہ رکھو ، تمہارے کانوں اور آنکھوں کو حرام چیزوں کے مقابلہ میں اور اسی طرح تمہارے تمام اعضاء و جوارح کو تمام برے کاموں کے سلسلہ میں روزہ دار ہونا چاہئے ۔ (۲)

حضرت علی روزہ ٴ خواص الخواص کے بارے میں فرماتے ہیں : دل کا روزہ اور گناہ کی فکر سے بھی اجتناب کرنا پیٹ کے روزہ اور کھانے کے پرہیز کرنے سے افضل و برتر ہے ۔ (۳)

واجب روزے

سوال (۶): واجب روزوں کے نام بتائیں ۔

جواب : واجب روزے سات ہیں :

۱۔ ماہ رمضان کے روزے

۲۔ کفارے کا روزہ

۱۔من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص ۱۰۷

۲۔ بحار الانوار ،ج۹۶، ص ۲۹۲

۳۔ غرر الحکم و درر الکلم

۳۔ قضا روزہ

۴۔ نذر ، عہد اور قسم کا روزہ

۵۔اجارے کا روزہ

۶۔ اعتکاف کے تیسرے دن کا روزہ

۷۔ حج تمتع میں قربانی کے بجائے روزہ (۱)

حرام روزے

سوال (۷ ): حرام روزوں کے نام بتائیں ۔

جواب : حرام روزے ( وہ روزے جنہیں نہیں رکھنا چاہئے ) دس ہیں :

۱۔ عید قربان (عید الاضحی) کاروزہ

۲۔ عید فطر کے دن روزہ

۳۔ ایام تشریق (۱۱/۱۲/۱۳ذی الحجہ )میں ان لوگوں کے لئے روزہ رکھنا جو منیٰ میں موجود ہیں

۴۔شک کے دن ( وہ دن جسکے بارے میں معلوم نہ ہو کہ آخر شعبان ہے یا اول ماہ رمضان )کے روزہ کو ماہ رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا

۵۔ خاموشی کا روزہ

۶۔ روزئہ وصال(دو روزہ رکھے اور ان کے درمیان کی شب میں افطار نہ کرے)

۷۔ عورت کا مستحبی روزہ جبکہ اس سے شوہر کی حق تلفی ہو رہی ہو

۸۔ اولاد کیلئے مستحبی روزہ جبکہ ماں اور باپ کی اذیت کا سبب ہو

۱۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲ ،اقسام الصوم

۹۔مریض اورہر اس شخص کا روزہ جس کیلئے روزہ نقصان دہ ہو

۱۰۔مسافروں کا روزہ سوائے ان مقامات کے جو استثناء کئے گئے ہیں(۱)

مستحب روزے

سوال(۸) مستحب روزوں کے نام بتائیں ۔

جواب : سال کے ان تمام دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے جن میں روزہ رکھنا مکروہ یا حرام نہ ہو ، لیکن کچھ دنوں کی زیادہ تاکید کی گئی ہے جو حسب ذیل ہیں :

۱۔ ہر مہینہ کی پہلی اور آخری جمعرات کا روزہ

۲۔ مہینہ کا پہلا بدھ جو کہ دس تاریخ کے بعد آتا ہو

۳۔ ہر مہینہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ

۴۔ مکمل رجب اور شعبان کے مہینہ یا ان دونوں مہینو ں کی کچھ تاریخوں کا روزہ

۵۔عید نوروز کا روزہ

۶۔ ماہ ذی قعدہ کی پچیسویں اور انیسویں کا روزہ

۷۔ ماہ ذی الحجہ میں پہلی سے نویں تک کا روزہ

۸ ۔ عید غدیر (۱۸/ ذی الحجہ ) کا روزہ

۹۔ محرم کی پہلی اور تیسری کا روزہ

۱۰۔ ولادت پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ(۱۷/ ربیع الاول ) کا روزہ

۱۱۔ بعثت پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ (۲۷/ رجب ) کا روزہ ۔(۲)

۱۔ العروة الوثقی،ٰ ج۲، اقسام الصوم؛ توضیح المسائل، مسئلہ ۱۷۳۹، ۱۷۴۵ ۔۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۴۸

مکروہ روزے

سوال( ۹): مکروہ روزوں کے نام بتائیں ۔

جواب : مکروہ روزے چار ہیں :

۱۔ عاشور کا روزہ

۲۔ عرفہ کے دن اس شخص کا روزہ جو روزے کی وجہ سے دعا نہ پڑھ سکے

۳۔میزبان کی اجازت کے بغیر مہمان کا مستحبی روزہ

۴۔ والدین کی اجازت کے بغیر اولاد کا مستحبی روزہ (۱)

روزے سے معاف افراد

سوال (۱۰) : کن لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام کے فتاویٰ کے مطابق ان لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہے :

۱۔ وہ ضعیف العمر افراد جنکے لئے روزہ مشقت اور اذیت کا سبب ہو

۲۔ اس حاملہ عورت کے لئے جسے خود یا اسکے حمل کو روزہ نقصان پہنچائے۔

۳۔ دودھ پلانے والی عورت جبکہ اسے یا اسکے بچے کو روزہ نقصان پہنچائے

۴۔ وہ بیمار کہ جسے روزہ سے نقصان پہنچ رہا ہو

۵۔زیادہ پیاس لگنے کا مریض کہ جو پیاس کو برداشت نہ کر سکتا ہو

۶۔ جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو

۷۔وہ عورت جسے خون حیض یا نفاس آ رہا ہو

۱۔العروة الوثقیٰ ،ج۲، اقسام الصوم ؛ توضیح المسائل ، مسئلہ ۱۷۳۹- ۱۷۴۵

۸۔ سفر پر جانے والا وہ شخص جو دس دن رکنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو

۹۔ اپنے اندر زیادہ کمزوری محسوس کرنے والا وہ شخص جسے روزہ اذیت پہنچائے اور روزہ اسکے لئے قابل برداشت نہ ہو

۱۰۔ وہ شخص جو بے ہوش ہے یا کوما میں ہے

۱۱۔ دیوانوں پر بھی روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ (۱)

روزے کی نیت

سوال ۱۱: روزے کی نیت کا طریقہ کیا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام کا کہنا ہے کہ روزے کی نیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان حکم خداوندی بجا لانے کی غرض سے اذان صبح سے لیکر مغرب کی اذان تک ان افعال کو انجام نہ دینے کاارادہ کرے جو روزے کو باطل کرتے ہیں ۔نیت میں ضروری نہیں ہے کہ دل سے نیت کو گذارے یا زبان پر جاری کرے ۔ (۲)

سوال (۱۲): عام حالات میں روزے کی نیت کا ابتدائی اور انتہائی وقت کیا ہے؟

جواب : تمام مراجع کرام فرماتے ہیں :ماہ رمضان اور نذر ِ معین کے روزے کی نیت ، اول شب سے اذان صبح تک ہے اور غیر معین روزے ( مثلاً قضا روزے یا نذر مطلق کے روزے ) کی نیت اول شب سے اگلے دن کے ظہر تک ہے۔ مستحبی روزے کی نیت اول شب سے دن کے اختتام

۱۔توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۲۹، ۱۷۲۵؛ العروة الوثقیٰ ،ج۲ ،کتاب الصوم ، فصل فی طرق ثبوت الھلال

۲ ۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲ ، نیة الصوم

( اس وقت تک کہ مغرب سے قبل نیت کرنے کا وقت بچا ہو ) تک ہو سکتی ہے ۔ (۱)

سوال ۱۳: رات میں میرا روزہ رکھنے کا ارادہ تھا ،لیکن سحرکے وقت بیدار نہ سکا کہ نیت کر سکوں ، طلوع آفتاب کے قریب آنکھ کھلی ، ایسی صورت میں کیا میرا روزہ صحیح ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر روزہ کو باطل کرنے والی چیزیں انجام نہ دی ہوں تو روزہ صحیح ہے ۔(۲)

آخرشعبان کی نیت

سوال ۱۴: مجھے نہیں معلوم کہ کل ماہ رمضان کی پہلی تاریخ ہے یا ماہ شعبان کی آخری ، کیاایسی صورت میں روزہ رکھنا واجب ہے ؟ روزہ کی کیا نیت کروں ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! اس دن کا روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر روزہ رکھنا چاہیں تو ماہ رمضان کے روزے کی نیت سے روزہ نہیں رکھ سکتے بلکہ ماہ شعبان کے روزے کی نیت یا قضا روزے (اگر قضا ہو ) کی نیت یا اسی طرح کسی اور نیت سے روزہ رکھیں ۔ اس صورت میں اگر بعد میں معلوم ہو جائے کہ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ تھی تو اس روزے کا حساب ماہ رمضان کے روزے میں ہوگا اور اگر دن کے کسی حصہ میں معلوم ہو جائے تو فورا ً ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرلیں۔ (۳)

۱۔ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۶۰،۱۵۶۱،۱۵۶۲،۱۵۶۳؛توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۵۲

۲۔ العروة الوثقی،ج۲ ،نیة الصوم

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۶۸،۱۵۶۹ ؛ توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۷۶،۱۵۷۷

ماہ رمضان کی نیت

سوال (۱۵): ماہ رمضان میں ہر دن کی الگ الگ نیت کی جانی چاہئے یا ماہ رمضان کے شروع میں کی جانے والی نیت کافی ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام :اگر ماہ رمضان کی پہلی رات میں پورے مہینے کے روزے رکھنے کی نیت کر لے تو کافی ہوگی ، لیکن بہتر(احتیاط مستحب ) ہے کہ ماہ رمضان کی ہر رات میں بھی اگلے دن کے روزے کی نیت کی جائے ۔ (۱)

روزے کی نیت کا بھول جانا

سوال ۱۶: اگر ماہ رمضان کی پہلی رات ، روزہ کی نیت بھول جائے اور زوال سے قبل اسے یاد آئے تو اسکے روزے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آیات عظام جواد تبریزی  اور وحید خراسانی کے علاوہ تمام مراجع کرام : اگر مبطلات روزہ کو انجام نہ دیا ہو تو اسے نیت کرنی چاہئے اور اس کا روزہ صحیح ہے ۔ اور اگر مبطلات روزہ میں سے کسی کو انجام دیا ہو تو اسکا روزہ باطل ہے ۔ لیکن ( ماہ رمضان کے احترام کی خاطر ) اذان مغرب تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرے اور ماہ رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا کرے ۔ (۲)

آیة اللہ جواد تبریزی  اور آیة اللہ وحید خراسانی : اگر مبطلات روزہ کو انجام نہ دیا ہو تو اسے نیت کر کے روزہ رکھنا چاہئے اور احتیاط واجب کی بنا پر ماہ رمضان کے بعد قضا بھی کرے اور اگر ان مبطلات میں سے کسی کو انجام دیا ہو تو اسکا روزہ باطل ہے لیکن ( ماہ رمضان کے احترام کی خاطر ) اذان مغرب تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرے اور ماہ رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا کرے ۔ (۳)

۱۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲، نیة الصوم، مسئلہ ۱۵                                     ۲۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۵۶۱

۳۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ جواد تبریزی،  مسئلہ ۱۵۶۱ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۵۶۹

سحری کا وقت

سوال( ۱۷) : جو شخص سحر میں اذان کے اختتام تک کھانا کھائے اسکے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: روزہ کے لئے مبطلات روزہ سے پرہیز کا معیار صبح صادق کا طلوع ہونا ہے لہذا اگر اذان شروع ہوتے ہی اسے طلوع فجر کا اطمینان ہو جائے تو کچھ نہیں کھانا چاہئے اور اگر لقمہ منہ میں ہو تو اسے نہیں نگلنا چاہئے لیکن اگر طلوع فجر کا یقین نہ ہو تو کچھ کھا سکتا ہے ۔ (۱)

سوال (۱۸): اگر شخص اس یقین کے ساتھ کچھ کھانے لگیکہ ابھی صبح کی اذان نہیں کہی گئی پھر اسکے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اذان صبح کا وقت گذر چکا ہے تو اسکے روزے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آیة اللہ بہجت: کے علاوہ تمام مراجع کرام : اگر طلوع فجر کی تحقیق کے بغیر کچھ کھا یا ہو تو اسکا روزہ باطل ہے اور اسے قضا بھی کرنی ہوگی ۔ (۲)

آیة اللہ بہجت : اگر طلوع فجرکے بارے میں تحقیق کے بغیر کچھ کھا لیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسکا روزہ باطل ہے اور اسے اس روزہ کی قضا کرنی چاہئے ۔ (۳)

نکتہ : مذکورہ شخص کا اگر چہ روزہ باطل ہو گیا ہے لیکن پھر بھی اسے افطار کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ اسے اذان مغرب تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا پڑیگا۔

۱۔توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۴۲ اور ۱۵۷۴

۲۔ تعلیقات علی العروة ،آیات عظام امام خمینی  ، نوری ہمدانی ، فاضل لنکرانی  اور ناصر مکارم شیرازی ،ج۳ فصل فیما تعلیق بالقضاء الرابع ؛آیة اللہ سسیتانی ، آیة اللہ جواد تبریزی  ، منھاج الصالحین مسئلہ ۱۰۲۳ ، ھدایة العباد ،آیة اللہ صافی گلپایگانی ،ج۱، مسئلہ ۱۳۳۶ اور دفتر:آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت ، ج۱، مسئلہ ۱۱۳۲

چاندنی راتیں

سوال ۱۹) :چاندنی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب :امام خمینی  : چاندنی راتوں میں نماز صبح پڑھنے کے لئے کچھ دیر انتظار کرنا چاہئے یہاں تک کہ طلوع فجر کی روشنی واضح ہو جائے ۔ (۱)

امام خمینی  کے علاوہ تمام مراجع کرام : چاندنی اور غیر چاندنی راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ نماز صبح کے وقت کامعیار طلوع فجر کا یقین اور وقت نماز کے داخل ہونے کا یقین ہے ۔ (۲)

افطار کا وقت

سوال (۲۰): کیا اذان مغرب کے شرع ہوتے ہی روزہ افطار کرنا جائز ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : اگر اسے یقین ہو کہ وقت ہو چکا ہے تو جائز ہے لیکن اگر وقت داخل ہونے کا شک یا گمان ہو تو روزہ افطار کرنا جائز نہیں ہے ۔ (۳)

افطار کے وقت نماز پڑھنا

سوال (۲۱): اذان مغرب کے وقت، افطار کرنا بہتر ہے یا نماز مغرب و عشاکا پڑھنا ؟

جواب :نماز مغرب و عشاکا پڑھنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسکا منتظر ہو یا زیادہ بھوک لگی ہو کہ

جس سے حضورقلب کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو افطار کرنا بہتر ہے ۔ (۴)

۱۔ استفتاء ات، ج۱، احکام نماز، سوال ۱۹ و ۲۰

۲۔ جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی  ج۱ سوال ۲۳۱۔ استفتاء ات آیة اللہ مکارم شیرازی ج۱ صوال ۱۰۴ ، استفتاء ات آیة اللہ نوری ہمدانی ج۱ سوال ۱۰۳ ، جامع الاحکام، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱ ،ص ۱۹۳ ؛ دفاتر آیات عظام بہجت ، وحید خراسانی ، خامنہ ای ، سیستانی اور جواد تبریزی  ۔

۳۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۷۴۲          ۵۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۵۰ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۷۵۸

سفر میں روزہ

ماہ رمضان میں سفر کرنا

سوال( ۲۲) : کیاماہ رمضان میں روزہ سے بچنے کیلئے سفر کیا جا سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: ماہ رمضان میں سفر کرنے ( اگر چہ روزہ سے بچنے کے لئے ہی کیوں نہ ہو) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ماہ رمضان کی تیئیسویں تاریخ سے قبل اس کام کو انجام دینا مکروہ ہے ۔ (۱)

ظہرسے قبل سفرپرجانا

سوال (۲۳) : ظہر سے قبل سفر کاارادہ رکھنے والے شخص کے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب :آیة اللہ جواد تبریزی  اور آیة اللہ سیستانی کے علاوہ تمام مراجع کرام : اگر ظہر سے قبل سفر کرے تو اس کا روزہ باطل ہے لیکن حد ترخص تک پہونچنے سے قبل روزہ افطار نہیں کر سکتا ہے ۔ (۲)

آیة اللہ جواد تبریزی  : اگر رات سے ہی سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا تھا اور ظہر سے قبل سفر کرے تو اسکا روزہ باطل ہے لیکن حد ترخص تک پہونچنے سے قبل روزہ افطار نہیں کر سکتا ہے اور اگر ظہر سے قبل جانے کا ارادہ کیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے روزہ رکھنا چاہئے ۔ (۳)

آیة اللہ سیستانی : اگر ظہر سے قبل سفر پر جا رہا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر روزہ افطار کر لینا چاہئے لیکن حد ترخص تک پہونچے سے قبل افطار نہیں کر سکتا ہے ۔(۴)

۱۔ العروة الوثقی ،ج۲ ،شرائط وجوب الصوم ،مسئلہ ۴ و ۵

۲ ۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۲۱ ، توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۷۲۹؛ دفتر آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ جواد تبریزی  ،مسئلہ ۱۷۲۱

۴۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ سیستانی، مسئلہ ۱۷۲۱

مسافر کے روزوں کی قضا

سوال (۲۴):کیا ماہ رمضان میں سفر پر جانے والوں کو قضا کے علاوہ کفارہ بھی دینا ہوگا ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! صرف روزہ کی قضا واجب ہے اور کفارہ نہیں دینا ہوگا۔ لیکن اگر روزوں کی قضا کو اگلے سال کے ماہ رمضان تک نہ بجا لائے تو تاخیر کی بناپر ہر دن کے بدلہ ایک مدغلّہ کفارہ کے عنوان سے دینا ہوگا۔ (۱)

سفر میں روزہ

سوال (۲۵): کیا قضا روزوں کا حالت سفر میں رکھنا جائز ہے ؟

تمام مراجع کرام: نہیں جائز نہیں ہے۔ (۲)

روزہ کی نذر کرنا

سوال ۲۶: ماہ رمضان میں سفر پر جانے والا شخص کیا روزہ رکھنے کی نذر کر سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : نہیں جائز نہیں ہے۔ (۳)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۷۰۵ ، توضیح المسائل آیة اللہ وحید خراسانی مسئلہ ۱۷۱۳

۲۔ تعلیقات علی العروة امام خمینی  ، آیة اللہ نوری ہمدانی ، اور آیة اللہ فاضل لنکرانی ج۲شرائط صحة الصوم ، الخامس ، ہدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپایگانی ج۱ مسئلہ ۱۳۵۴، منھاج الصالحین ، شرائط صحة الصوم آیة اللہ جواد تبریزی  ، آیة اللہ سیستانی ، اور آیة اللہ وحید خراسانی ، وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت، ج۱ ،مسئلہ ۱۱۴۳؛، دفتر: آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ العروة الوثقی ، ج ۲، نیة الصوم ۶۴

سوال (۲۷):: حرم امام حسین(ع) میں زیارت سے مشرف ہوا، کیا وہاں پر روزہ کی نذر کرکے روزہ رکھا جا سکتا ہے؟

آیات عظام :امام خمینی، جواد تبریزی، صافی گلپائیگانی، فاضل لنکرانی، نوری ہمدانی اور وحید خراسانی :سفر کے عالم میں روزہ کی نذر کرنا جائز نہیں ہے ۔ (۱)

آیات عظام: بہجت ، خامنہ ای اور سیستانی : ہاں ! سفر کی حالت میں روزہ کی نذر کرنا جائز اور صحیح ہے ۔ (۲)

آیة اللہ مکارم شیرازی : سفر کے دوران روزہ کی نذر میں اشکال ہے لیکن اگر نذر کر لی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنی نذر پر عمل کرے ۔ (۳)

سوال( ۲۸): کیا سفر پر جانے سے قبل اپنے وطن میں ، عالم سفر میں مستحبی روزہ رکھنے کی نذر کی جا سکتی ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: ہا ں! یہ نذر صحیح ہے ۔ (۴)

۱۔استفتاء ات ،آیة اللہ نوری ہمدانی، ج۱، سوال ۲۳۱، جامع المسائل ، آیة اللہ فاضل لنکرانی ،ج۱ ،سوال ۵۸۴ ،دفاتر :آیات عظام وحید خراسانی، جواد تبریزی  ، امام خمینی  اور صافی گلپایگانی

۲۔ دفاتر: آیات عظام: بہجت ، خامنہ ای اور سیستانی

۳۔ استفتاء ات،آیة اللہ مکارم شیرازی ،ج۲ ،سوال ۴۸۲اور ۴۸۵

۴۔ تعلیقات علی العروة ،ج۲ ،شرائط صحة الصوم ، الخامس ، ہدایة العباد ،آیة اللہ صافی، ج۱ ،مسئلہ ۱۳۵۴ ، منھاج الصالحین ، آیات عظام: جواد تبریزی  ، سیستانی اور، وحید خراسانی ، شرائط صحة الصوم ، وسلیة النجاة ،آیة اللہ بہجت ،ج۱ ،مسئلہ ۱۱۴۳ ؛اور دفتر آیة اللہ خامنہ ای

وطن میں روزہ کی نذر

سوال(۲۹): کیا وطن میں رہ کر ماہ رمضان کے روزے یا اسکی قضا کے لئے یہ نذر کی جا سکتی ہے کہ اسے سفر میں رکھا جائے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! یہ نذر صحیح نہیں ہے ۔ (۱)

اساتذہ اور طالب علموں (Students) کے روزے

سوال(۳۰): وہ اساتذہ اور طلباء جو علم کی غرض سے کسی کالج ، یونیورسٹی یا ہاسٹل میں دس دن سے کم رکتے ہیں ، انکی نماز و ں اورروزوں کا کیا حکم ہے ؟

جواب : امام خمینی  : نماز قصر پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔

آیة اللہ بہجت ، آیة اللہ صافی گلپایگانی ، آیة اللہ فاضل لنکرانی  اور آیة اللہ نوری ہمدانی : اساتذہ اور طلباء (Students) اگر دس دنوں کے اند رکم سے کم ایک بار اپنے وطن اور کالج جیسی جگہوں پر رفت وآمد کریں اور انکا یہ عمل ( یعنی رفت و آمد ) کچھ دنوں تک جاری رہے ( اس طرح کہ عرف میں سفر انکا کام سمجھا جائے ) تو راستہ میں اور کالج جیسی جگہوں پر انکی نمازپوری ہوگی اور روزہ بھی صحیح ہوگا۔

نکات : ۱۔ آیة اللہ صافی کے نزدیک سفر کوپیشہ ثابت کرنے کے لئے کم از کم چار مہینے رفت و آمد کرنا ضروری ہے ۔

۲۔ ( پہلا سفر ) : مندرجہ بالا تمام اساتذہ اور طلباء جب کبھی دس دن سے زیادہ اپنے وطن میں رکیں تو درس و تدریس کی جگہ پر پہلی بار سفر کے وقت انہیں نماز قصر پڑھنی چاہئے اور روزہ نہیں رکھنا چاہئے

۱۔ جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی، ج۱، سوال ۵۸۱، استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۱۱۲۳

لیکن درس و تدریس کی جگہ اور وطن کے درمیان ایک بار سفر کر لینے کے بعد اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے کثیر السفر کی طرح عمل کرنا چاہئے یعنی نماز کو مکمل پڑھنا چاہئے اور روزہ بھی رکھنا چاہئے ۔

۳۔ آیة اللہ بہجت :پہلا سفر آٹھ فرسخ کی مسافت طے کرنے کے بعد محقق ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے اگر درس و تدریس کی جگہ وطن سے آٹھ فرسخ کے فاصلہ سے زیادہ پر واقع ہوتو اس پہلے سفر میں ہی درس وتدریس کی جگہ( مثلاً کالج وغیرہ ) پر انکی نماز پوری ہوگی اور انکا روزہ صحیح ہوگا۔

آیة اللہ خامنہ ای : اساتذہ وطلباء جو حصول علم پر مأمورکئے گئے ہیں یا جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر کیا گیا ہے اگر دس دنوں کے اندر کم از کم ایک بار اپنے وطن اور یونیورسٹی کے درمیان رفت و آمد کرتے ہوں تو انکی نماز تمام اور روزہ صحیح ہوگا لیکن اسکے بر خلاف دوسرے طلباء کی نماز ، قصر ہوگی اور انکا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔

نکتہ : اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آیة اللہ خامنہ ای مساوی مرجع کی طرف رجوع کے مسئلہ میں احتیاط واجب کے قائل ہیں، طلباء اس مسئلے میں دوسرے مساوی مرجع تقلید سے رجوع کر سکتے ہیں ( اس شرط پر کہ انکے مرجع تقلید کے نزدیک مساوی مرجع سے رجوع کرنا جائز ہو اور مسافر طلباء کی نماز کو پوری اور انکے روزہ کو صحیح سمجھتا ہو) ( مثلاً آیة اللہ بہجت)

آیة اللہ جواد تبریزی: طالب علم اگر دس روز کے اندر اپنے وطن اور مقام تعلیم مثلاً یونیورسٹی کے درمیان رفت و آمد کر رہا ہو تو اسے احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو تمام بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے اور اگر اس نے روزہ رکھا ہو تو اسکا روزہ صحیح ہے اور اس روزے کی قضا بھی نہیں ہے ۔ استاد اگر ہر ہفتہ تدریس کے لئے مسافت شرعی کی حد تک سفر کر رہا ہو ( اگر اسکی تدریس کی مدت دو مہینے یاا س سے زیادہ ہو ) تو اسے نماز پوری پڑھنا چاہئے اور روزہ رکھنا چاہئے ۔

نکتہ : اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آیة اللہ تبریزی  اس مسئلہ میں احتیاط واجب کے قائل ہیں لہذا انکی تقلید کرنے والے اس مسئلہ میں انکے مساوی مرجع تقلید یاکسی اور دوسرے اعلم سے رجوع کر کے اپنی نماز کو پوری پڑھ سکتے ہیں اور روزہ رکھ سکتے ہیں ۔

آیة اللہ سیستانی ۱ : اگر اساتذہ اور طلباء کی مدت تعلیم و تدریس کم از کم دس سال تک جاری رہے اور وہ لوگ وہیں رہنے لگیں (مثلاً ایک سال میں چھ مہینے یا کچھ تعلیمی سالوں میں کم از کم تین مہینے ) جاری رہے تو انکا شمار کثیر السفر افراد میں ہوگا اور انکی نماز تعلیم کی جگہ پر اور وسط راہ میں مکمل اور انکا روزہ صحیح ہوگا۔

نکتہ ۱: دونوں صورتوں میں اگر پہلے مہینے میں دس دن اقامت کا قصد نہ کریں تو انہیں احتیاط کرنی چاہئے یعنی انہیں اپنی نمازوں کو قصر اور مکمل دونوں طریقوں سے پڑھنی چاہئے اور اسی طرح روزہ بھی رکھنا چاہئے ساتھ ہی ساتھ ان روزوں کی قضا بھی کرنی چاہئے ۔

نکتہ ۲: اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آیة اللہ سیستانی مساوی مرجع تقلید کی طرف رجوع کرنے کو جائز جانتے ہیں انکے مقلدین اس مسئلہ میں دوسرے ان مساوی مرجع تقلید سے رجوع کر سکتے ہیں جو نماز کو مکمل اور روزہ کو صحیح مانتے ہیں ۔

آیة اللہ مکارم شیرازی: (۱) اساتذہ اور طلباء اگر بڑی مدت کے لئے ( مثلاً ایک سال یا اس سے زیادہ ) تعلیم یا تدریس کی جگہ پر رکیں تو وہ جگہ انکے وطن کے حکم میں ہوگی اور نماز وروزہ دونوں وہاں مکمل ہوں گے اورلگاتار دس دنوں تک وہاں پر رکنا انکے لئے شرط نہیں ہوگی ۔

(۲) وہ لوگ جو ہر دن یا ایک ہفتہ میں کم ازکم تین دن تعلیم یا تدریس کی جگہ جاتے ہیں یعنی صبح تعلیم یا تدریس کی جگہ جاتے ہیں اور شام کے وقت واپس آجاتے ہیں اور انکا یہ عمل کچھ دنوں تک جاری رہتا ہے انکا شمار کثیر السفر لوگوں میں ہوگا اور انکے نماز و روزہ اس جگہ پر اور رفت و برگشت کے وقت مکمل ہونگے۔

آیة اللہ وحید خراسانی : اگرایک ہفتہ میں کم ازکم وطن ا ور یونیورسٹی یا کالج کے درمیان چار دن رفت و آمد کریں اور انکا یہ عمل ایک سال یا اس سے زیادہ دنوں تک جاری رہے تو وہ جگہ انکا وطن شمار ہوگی ۔ وہاں پر انکی نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔ اور راستے میں انہیں احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز قصر اور مکمل دونوں طریقے سے پڑھیں اور اسی طرح روزہ بھی رکھیں اور بعد میں روزوں کی قضا بھی کریں اور اگر رفت و آمد تین دن ہو تو ایسے موقع پر بھی احتیاط کرنی چاہئے ۔ (۱)

سوال(۳۱): اساتذہ اور طلباء اگردس دنوں سے زیادہ تعلیم یا تدریس کی جگہ پر رکنے کے ارادہ سے رہیں تو انکی نمازوں اور روزوں کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : اس طرح کے لوگوں کی نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔

نکتہ : اگر شروع سے ہی یقینی طور پر دس دن رکنے کا قصد و ارادہ رکھتے ہوں اور ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد کسی وجہ سے اپنے وطن واپس جانے کا ارادہ کر لیں تو انکی نماز اور روزہ تحصیل کی جگہ پر مکمل ہوگا۔

سوال(۳۲): وہ طلباء جو ہاسٹل میں دس دن یا اس سے زیادہ رکتے ہوں اور ہاسٹل سے کالج یا یونیورسٹی رفت و آمد کر رہے ہوں اور ہاسٹل سے کالج یا یونیورسٹی کا فاصلہ چار شرعی فرسخ (۵/۲۲کلومیٹر) سے کم ہو تو انکی نماز اور روزوں کا حکم کیا ہے ؟

جواب : امام خمینی  : اگر دس دنوں میں صرف ایک بار دو گھنٹے کے لئے ہاسٹل سے یونیورسٹی جائیں تو نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا ورنہ نماز قصر ہوگی اور روزہ صحیح نہیں ہوگا۔ (۲)

۱۔ دفاتر: تمام مراجع

۲۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۳۳۸

ا ٓیت اللہ خامنہ ای : اگر دس دنوں میں ایک یا دو گھنٹے کے لئے ایک دن میں ( یا چند دنوں میں کہ جسے ملا کر دن کا ۳/۱ یا رات کا ۳/۱ حصہ ہو رہا ہو ) ہاسٹل سے یونیورسٹی جائیں تو انکی نماز یں مکمل اور روزے صحیح ہونگے ورنہ نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے ۔ (۱)

آیة اللہ جواد تبریزی : احتیاط واجب کی بنا پر نماز کو قصر اور مکمل کے درمیان جمع کر کے پڑھیں اور اگر روزہ رکھ لیں تو صحیح ہوگا اور اسکی قضا نہیں ہوگی ۔ (۲)

آیات عظام: بہجت ، سیستانی ، فاضل لنکرانی  ، صافی گلپایگانی ، مکارم شیرازی ، نوری ہمدانی ، وحید خراسانی : مذکورہ صورت میں نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔ (۳)

سوال۳۳: اگر استاد یا طلباء اتفاقاً محل تعلیم یا تحصیل کے علاوہ کسی دوسرے شہر سفر پر چلے جائیں تو انکی نماز و روزے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آیة اللہ سیستانی کے علاوہ تمام مراجع کرام : نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے ۔ (۴)

آیة اللہ سیستانی : نماز مکمل اور روزہ صحیح ہے ۔ (۵)

۱۔ اجوبة الاستفتاء ات ،آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۶۵۹

۲۔دفتر :آیة اللہ جواد تبریزی 

۳۔ دفاتر :آیات عظام: نوری ہمدانی ، سیستانی ، مکارم شیرازی ، بہجت ، صافی گلپایگانی ، فاضل لنکرانی  ، وحید خراسانی

۴۔ توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۳۰۷،توضیح المسائل آیة اللہ وحیدخراسانی،مسئلہ۱۳۱۶،آیة اللہ خامنہ ای، اجوبة الاستفتائات،س۶۴۵

۵۔توضیح المسائل مراجع،م۱۳۰۷

سوال۳۴ : وہ اساتذہ جو ایک ہفتہ میں ایک دن یا کچھ دن تدریس کی جگہ ( کہ جس جگہ کا فاصلہ وطن سے شرعی مسافت سے زیادہ ہے ) رفت و آمد کرتے ہیں : مندرجہ ذیل دو صورتوں میں تدریس کی جگہ اور راستے میں انکی نمازوں اور روزوں کاکیا حکم ہے ؟

الف : تدریس کی جگہ ایک شہر ہے ۔

ب: تدریس کی جگہ مختلف شہر ہے ۔

جواب : امام خمینی  : نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے ۔

ٓآیة اللہ وحید خراسانی : اگر ہفتہ میں چار دن تدریس کی جگہ رفت و آمد کریں تو انکی نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا، اگر تین دن سفر میں ہوں تو احتیاط کی بنا پر انہیں نماز قصر اور تمام کو جمع کرنا ہوگا۔ احتیاط کی بنا پر روزہ رکھنا ہوگا اور ان روزوں کی قضا بھی کرنی ہوگی ۔ اور اگر تین دن سے کم ہو تو نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے ۔

آیة اللہ سیستانی : اگر ایک مہینہ میں دس دن یا اس سے زیادہ سفر میں رہیں اور انکا یہ عمل ایک سال میں چھ مہینے اور ایک سال سے زیادہ کی مدت میں تین مہینے تک جاری رہے تو انکی نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔ اگر ایک مہینہ میں آٹھ یا نو دن سفر میں رہیں تو انہیں احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو قصر اور مکمل دونوں طریقوں سے پڑھیں اور روزہ رکھیں اور ان روزوں کی قضا بھی بجا لائیں ۔ (۱)

آیة اللہ جواد تبریزی : اگر ہفتہ میں کم از کم ایک بار تدریس کے لئے وطن اور یونیورسٹی کے درمیان رفت و آمد کرتے ہیں تو نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔ اگر انکی رفت و آمد آٹھ یا نو دنوں میں ایک بار ہو رہی ہو تو انہیں احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو قصر اور مکمل دونوں طریقوں سے پڑھیں اور اگر روزہ رکھ لیں تو صحیح ہوگا قضا کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ (۲)

۱۔ منھاج الصالحین ، آیة اللہ سیستانی، ج۱، صلاة المسافر ، الخامس اور Sistani.org ، نماز مسافر

۲۔ استفتاء ات ، سوال ۴۹۸،۴۷۲

آیة اللہ صافی گلپایگانی : اگر چار مہینے تک رفت و آمد جاری رہے تو نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔ (۱)

آیة اللہ بہجت ، آیة اللہ خامنہ ای ، آیة اللہ فاضل لنکرانی ،آیة اللہ نوری ہمدانی : اگر انکی رفت و آمد کا سلسلہ اتنے دنوں تک جاری رہے کہ عرف انکے اس کام کو انکا مشغلہ کہیں تو انکی نماز مکمل اور روزہ صحیح ہوگا۔ (۲)

تحصیل کی جگہ

سوال (۳۵): کیا تعلیم کی جگہ وطن کے حکم میں شامل ہے ؟

جواب : آیات عظام سیستانی ، مکارم شیرازی ، اور وحید خراسانی کے علاوہ تمام مراجع کرام:نہیں ! وطن کے حکم میں نہیں ہے ۔(۳)

آیة اللہ سیستانی : اگر دو سال یا اس سے زیادہ تک ، ہفتہ میں دو د ن مکمل طریقہ سے رکتا ہے تو وہ اس کا وطن شمار ہوگا ۔ (۴)

آیة اللہ مکارم شیرازی : اگر ایک سال یا اس سے زیادہ تک، ہفتہ میں پورے تین دن رکتا ہے تو وہ اس کا وطن شمار ہوگا۔ (۵)

آیة اللہ وحید خراسانی : اگر ایک یا اس سے زیادہ تک، ہفتہ میں چاردن سفر پر رہے تو وہ اسکا وطن کہلائے گا۔ (۶)

۱۔ جامع الاحکام ، آیة اللہ صافی گلپایگانی ،ج۱ ،نماز مسافر

۲۔ استفتاء ات ، آیة اللہ نوری ہمدانی ،ج۱ و۲، نماز مسافر ،توضیح المسائل، آیة اللہ بہجت ،نماز مسافر ، پانچویں شرط

۳۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۳۲۹ ؛دفاتر:آیات عظام خامنہ ای و بہجت

۴۔ آیة اللہ سیستانی : Sistani.org ، نماز مسافر

۵۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۲۷۲                            ۶۔ دفتر: آیة اللہ وحید خراسانی

پہلا سفر

سوال(۳۶):پہلے سفر میں مسافر طلباء کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : امام خمینی  اور آیة اللہ خامنہ ای : ہر سفر میں اسکی نماز قصر ہوگی ۔

آیة اللہ سیستانی : پہلے مہینے میں اسے احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو قصر اور مکمل دونوں طرح پڑھے اور اگر روزہ رکھا ہو تو بعد میں اسکی قضا بھی کرے ۔ (۱)

آیات عظام فاضل لنکرانی  ، نوری ہمدانی اور صافی گلپایگانی : اسے نماز قصر پڑھنی چاہئے اور اسکا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔ (۲)

آیة اللہ وحید خراسانی : پہلے اور دوسرے مہینہ میں اسے احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو قصر اور مکمل دونوں طرح سے پڑھے اور اگر روزہ رکھ لے تو اسکی قضا کرے ۔ (۳)

آیة اللہ مکارم شیرازی : اسے اپنے شروع کے کچھ سفر میں احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو قصر اور مکمل دنوں طرح سے پڑھے اور اگر روزہ رکھ لے تو اسکی قضا کرے ۔ (۴)

آیة اللہ جواد تبریزی   : اسے احتیاط کرنی چاہئے یعنی نماز کو قصر اور مکمل دونوں طرح سے پڑھے اور اگر روزہ رکھ لے تو اسکا روزہ صحیح ہے اور اس روزے کی قضا نہیں ہے ۔ (۵)

آیة اللہ بہجت : اگر پہلے سفرمیں اس کا سفر آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو تو اسے نماز مکمل پرھنی چاہئے اور اگر آٹھ فرسخ سے کم ہو تو نماز قصر پڑھنی چاہئے ۔

۱۔ منھاج الصالحین ، آیة اللہ سیستانی ،ج۱،صلاة المسافر، الخامس اور Sistani .org ، نماز مسافر

۲۔ جامع الاحکام ، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱ ، نماز مسافر ، دفتر :آیة اللہ فاضل لنکرانی 

۳۔ دفتر: آیة اللہ وحید خراسانی                    ۴۔ استفتاء ات ، آیة اللہ مکارم شیرازی ج۲،۲۸۴

۵۔ استفتاء ات ، آیة اللہ جواد تبریزی ، سوال ۵۰۱

شرعی مسافت

سوال( ۳۷): شرعی مسافت کی مقدار کتنے کلو میٹر ہے ؟

آیات عظام امام خمینی  ، بہجت، خامنہ ای ، فاضل لنکرانی  ، صافی گلپایگانی اور نوری ہمدانی : شرعی مسافت تقریباً ۵/۲۲ کلومیٹر ہے ۔ (۱)

آیة اللہ مکارم شیرازی : شرعی مسافت تقریباً ۵/۲۱ کلومیٹر ہے ۔

آیات عظام جواد تبریزی ، سیستانی اوروحید خراسانی : شرعی مسافت تقریباً ۲۲ کلومیٹر ہے ۔ (۲)

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۲۷۲

۲۔ منھاج الصالحین،آیات عظام جواد تبریزی ، سیستانی اور وحید خراسانی ، مسئلہ ۸۸۴

مبطلات روزہ

کھانا پینا

سوال (۳۸): کیا کھانا چکھنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام :اگر حلق کے اند رنہ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۱)

مسوڑھوں کاخون

سوال (۳۹): مجھے مسوڑھے کی بیماری کی وجہ سے روزانہ بار بار خون آتا ہے لیکن کبھی کبھی بغیر متوجہ ہوئے خون حلق کے نیچے چلا جاتا ہے کیا روزہ باطل ہو جائے گا ؟

جواب : تمام مراجع کرام : اختیار اور توجہ کے بغیر اندر چلا جائے تو روزہ صحیح ہے ۔ (۲)

سوال (۴۰): کبھی کبھی میرے مسوڑھوں سے خون نکلتا ہے جو تھو ک میں مل جاتا ہے اگر اسے نگل جاوٴں تو کیا روزہ باطل ہو جائے گا؟

جواب: آیات عظام جواد تبریزی  ، صافی اور نوری ہمدانی کے علاوہ تمام مراجع کرام:اگر مسوڑھوں کا خون تھوک سے مل جائے تو روزہ کو باطل نہیں کرتا ۔(۳)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۸۲ ، توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۹۰

۲۔امام خمینی، استفتائات،ج۱،روزہ،س۶؛توضیح المسائل مراجع،م۱۵۷۳،،توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۸۱،آیة اللہ خامنہ ای،اجوبةالاستفتائات،س۷۶۵

۳۔آیات عظام امام خمینی،سیستانی، فاضل لنکرانی، مکارم شیرازی،تعلیقات علی العروة، الفصل الرابع، مسئلہ۱،آیة اللہ خامنہ ای،اجوبةالاستفتائات،س۷۶۳،دفتر:آیة اللہ وحید خراسانی و آیة اللہ بہجت

آیات عظام جواد تبریزی  اور صافی : اگر مسوڑھے کاخون تھوک سے مل جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اسے نہ نگلے بلکہ تھوک دے ۔(۱)

آیة اللہ نوری ہمدانی : اسے نگلنا جائز نہیں ہے چاہے تھوک کے ساتھ مل ہی کیوں نہ جائے۔(۲)

دانتوں میں رہ جانے والی غذا

سوال(۴۱):اگرکسی شخص کو اس بات کا علم یا احتمال ہو کہ دانتوں کے درمیان رہ جانے والی غذا دن میں حلق کے اندر جا سکتی ہے توکیا اس کے لئے ضروری ہے کہ سحر کے وقت مسواک کرے یا خلال سے دانتوں کو صاف کرے ؟

جواب:آیات عظام امام خمینی ، خامنہ ای اور نوری ہمدانی : اگر فقط احتمال دے رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ بچی ہوئی یا رہ جانے والی غذا حلق میں چلی جائے گی تو اسے اپنے دانتوں کو خلال یا مسواک کے ذریعہ صاف کرنا چاہئے اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا اور کچھ اندر چلا گیا تواسکا روزہ باطل ہے اور اگر اندر نہ بھی جائے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر اس روزہ کی قضا بجا لائے ۔ (۳)

آیات عظام بہجت ، جواد تبریزی  ، سیستانی ، صافی گلپایگانی اور فاضل لنکرانی  : اگر احتمال پایا جا رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس بات کا یقین ہوکہ دن میں کچھ حلق کے اندر چلا جائے گا تو اسے اپنے دانتوں کو خلال یا مسواک سے صاف کرنا چاہئے اور اگر ایسا نہ کرے تو اسکا روزہ باطل ہے ( اگر چہ کچھ حلق کے اندر نہ گیا ہو )۔(۴)

۱۔آیة اللہ نوری ہمدانی، تعلیقات علی ا لعروة،الفصل الرابع ،مسئلہ۱

۲۔آیة اللہ جواد تبریزی،استفتائا ت ،سوال۶۴۰،ودفتر :آیة اللہ صافی گلپایگانی

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۷۸ ؛ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای، سوال ۷۶۴

۴۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۷۸، تعلیقات علی العروة : آیة اللہ سیستانی، ج۲ ،المفطرات ،مسئلہ ۱

آیة اللہ مکارم شیرازی : اگر فقط احتمال پایا جا رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس بات کا علم ہو کہ دن میں کچھ حلق کے اندر چلا جائے گا تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے اپنے دانتوں کو خلال یا مسواک سے صاف کرنا چاہئے اور اگر صاف نہ کرے اور کچھ حلق کے اندر چلا جائے تو اس روزہ کو پورا کرے اور ماہ رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا کرے ۔ (۱)

آیة اللہ وحید خراسانی : اگر احتمال پایا جا رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ دن مین کچھ اندر جائے گا تواسے دانتوں کو خلال یا مسواک سے صاف کرنا چاہئیے اور اگر ایسا نہ کرے اور کچھ اندر چلا جائے تو اسکا روزہ باطل ہو جائے گا۔ (۲)

سہواً کھانا

سوال ۴۲: اگر کوئی روزہ دار بھولے سے کچھ کھالے تو کیا اسے یاد دلانا واجب ہے ؟

جواب: تمام مراجع کرام: نہیں ! اسے یاد دلانا واجب نہیں ہے ۔ (۳)

غرارہ کرنا

سوال(۴۳): روزہ دار کے لئے غرارہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگرغرارہ کرنے کی صورت میں پانی حلق کے اندر چلا جائے تو اسکا روزہ باطل ہے ۔ (۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،آیة اللہ مکارم شیرازی،مسئلہ ۱۵۷۸

۲۔ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۸۶

۳۔ دفاتر : تمام مراجع

۱۔دفاتر:تمام مراجع کرام؛ استفتاء ات ، آیة اللہ جواد تبریزی  ، سوال ۶۹۹

سوال (۴۴): روزہ دار کے لئے چیونگم  چبانے اور لوبان چوسنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: صحیح نہیں ہے ۔ (۱)

بلغم کا اندر لے جانا, چیونگم چبانا

سوال (۴۵): کیا بلغم کو نگلنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟

جواب:آیات عظام بہجت اور سیستانی کے علاوہ تمام مراجع کرام :اگر بلغم منہ کے اندر نہ آیا ہو بلکہ حلق ہی میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر منہ میں پہنچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے حلق کے اندر نہیں لے جانا چاہئے ۔ (۲)

آیة اللہ سیستانی : بلغم کو نگلنے ( اگر منہ میں نہ ٓایا ہو ) میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگرمنہ میں پہنچ جائے تو احتیاط مستحب ہے کہ اسے نہ نگلا جائے ۔ (۳)

آیة اللہ بہجت : بلغم کو اندر کرنا اگر عام حالت میں ایک عادت کے تحت ہو اور منہ میں بھی نہ آیا ہو تو کوئی حر ج نہیں ہے لیکن اگر منہ میں پہنچ گیا ہو تو احتیاط واجب کی بناپر اسے نگلنا نہیں چاہئے ۔(۴)

نکتہ : منہ اور حلق کی فضا کی حد حرف” خ“ کا مخرج ہوتا ہے ۔

۱۔ استفتاء ات ،آیة اللہ جواد تبریزی  ،سوال ۷۱۴ ؛استفتاء ات، آیة اللہ مکارم شیرازی ،ج۲، سوال ۴۲۶

۲۔توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۵۸۰،توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی،۱۵۸۸، دفتر :آیة اللہ خامنہ ای

۳۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۱۵۸۰

۴۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۸۰

روزے کی حالت میں دانتوں کا علاج

سوال(۴۶): ماہ رمضان میں دانتوں کو بھروانے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام :دانتوں کو بھروانا یاصاف کروانا اور دانتوں کو نکالنا ماہ رمضان میں ڈاکٹروں کے لئے جائز ہے اور روزہ دار کے لئے اس وقت ان کاموں کو انجام دینا جائز ہے جب وہ اس بات سے مطمئن ہو جائے کہ مشینوں کے ذریعہ منہ کی فضا میں پہونچنے والا خون یا پانی حلق کے اندر نہیں جائے گا۔ (۱)

مسواک (برش )کرنا

سوال( ۴۷): کیا ماہ رمضان میں ٹوتھ پیسٹ کے ذریعہ مسواک(برش) کرنا اشکال رکھتاہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! لیکن منہ کے پانی کو حلق کے اندر جانے سے روکنا چاہئے ۔ (۲)

دانتوں کی صفائی کا دھاگہ

سوال۴۸: روزہ کی حالت میں دانتوں کی صفائی کے لئے استعمال ہونے والے دھاگہ کا کیا حکم ہے جسمیں فلورائیڈ اور پودینے کا مزہ ہوتا ہے؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر آب دھان (تھوک) حلق میں نہ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۳)

۱۔ دفاتر: تمام مراجع

۲۔ استفتاء ات ،امام خمینی ، ج۱، روزہ، سوال ۱۱ ؛ استفتاء ات ،آیة اللہ جواد تبریزی ،سوال ۱۲۳ ، جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی ، ج۱، سوال ۵۴۴ ، العروة الوثقیٰ، ج۲ ، المفطرات ، الثانی ۔

۳۔دفاتر:تمام مراجع کرام

انجکشن لگانا

سال (۴۹): ماہ رمضان میں روزہ کی حالت میں انجکشن لگانے کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آیات عظام امام خمینی ، بہجت ، خامنہ ای : اگر انجکشن طاقت اور خوراک والا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر انجکشن سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اگر انجکشن دوا کے طور پر استعمال ہو رہا ہو یا جسم کے کسی عضو کو سُن (بے حس) کرنے کے لئے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۱)

آیة اللہ فاضل لنکرانی : اگر انجکشن طاقت اورخوراک والا ہو تو انجکشن سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اگر دوا کے لئے یا کسی عضو کوسُن (بے حس )کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہو تو اسے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۲)

آیة اللہ مکارم شیرازی : اگر انجکشن طاقت یا خوراک والا یا دوا کے طور پر ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اگر کسی عضو کو سُن یا بے حس کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تواسے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۳)

آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی ، صافی گلپایگانی ، نوری ہمدانی اوروحید خراسانی : انجکشن لگانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے چاہے طاقت اور خوراک کے لئے ہو یا دوا کے طورپر ہو ۔ (۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۷۶ ؛ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۷۶۷

۲۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۵۷۶

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۵۷۶

۴۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۷۶ ؛ توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۸۴

سوال ۵۰:ماہ رمضان کے روزے کی حالت میں گلوکوس چڑھوانے کا کیا حکم ہے؟

آیات عظام امام خمینی،خامنہ ای،مکارم اور وحید:احتیاط واجب کی بنا پر ،گلوکوس چڑھوانے سے پرہیز کرنا چاہئے ؛چاہے وہ غذائی ہو یا تقویتی ،یا پھر وہ دوا یا اس جیسی چیزوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہو۔(۱)

آیات عظام سیستانی،صافی اور نوری:گلوکوس چڑھوانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے؛چاہے وہ غذائی ہو یا تقویتی یا پھر وہ دوا وغیرہ کے لئے استعمال کیا رہا ہو۔(۲)

آیةاللہ فاضل:اگر گلوکوس غذائی یا تقویتی ہو تو اسے چڑھوانے سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن اگر وہ دوا وغیرہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہو تو اس کے چڑھوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۳)

آیة اللہ بہجت:گلوکوس چڑھوانے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔(۴)

(۱)اجوبة الاستفتاء ات،آیةاللہ خامنہ ای،سوال ۷۶۷؛استفتاء ات،آیة اللہ جواد تبریزی،سوال ۶۸۱؛توضیح المسائل مراجع،آیةاللہ مکارم،مسئلہ۱۵۷۶؛دفاتر:امام خمینی و آیة اللہ وحید

(۲)جامع الاحکام،آیةاللہ صافی،ج۱،سوال ۴۷۳؛دفاتر:آیات عظام سیستانی،نوری

(۳)جامع المسائل،آیةاللہ فاضل،ج۲،سوال۴۴۲

(۴)دفتر:آیةاللہ بہجت

آنکھ کی دوا

سوال ۵۱ : کیا آنکھ کی دوا کا استعمال روزے کو باطل کر تا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر دوا حلق تک نہ پہنچے یا حلق تک پہنچے لیکن اندرنہ لے جائے تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔ (۱)

عطر اور شیمپو

سوال ۵۲: کیا شیمپو ، وٹامن کریم ، لپ اسٹک کا استعمال ماہ رمضان میں جائز ہے ؟

جواب تمام مراجع کرام: ان میں سے کسی کا استعمال روزہ کو باطل نہیں کرتا، ہاں لپ اسٹک اگر منہ میں چلی جائے اور حلق سے نیچے اتر جائے تو روزہ باطل ہے ۔ (۲)

سوال ۵۳ : ماہ رمضان میں روزہ دار کے لئے عطر کے استعمال کا کیاحکم ہے ؟

تمام مراجع : روزہ دار کے لئے عطر کا استعمال مستحب ہے لیکن خوشبودار گھاس کا سونگھنا مکروہ ہے ۔ (۳)

خون کا ہدیہ (Blood Donation)

سوال ۵۴: روزہ دار اگر خون ہدیہ کرے تو اسکا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : اگر خون دینے سے روزہ دار میں کمزوری پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں اسکا یہ عمل مکروہ ہے ۔ (۴)

۱۔توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۵۸۰، العروةالوثقی،ج۲،المفطرات، الثانی،مسئلہ۵۔۱

۲۔العروةالوثقی،احکام ا لمفطرات،فصل۴،۵

۳۔العروةالوثقی،ج۲،الفصل الخامس، اللمعةالدمشقیہ،ج۲،ص۱۳۳

۴۔ توضیح المسائل مراجع مسئلہ ۱۶۵۷ ، توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی مسئلہ ۱۶۶۵

پانی میں سر ڈبونا

سوال (۵۵): روزہ کی حالت میں پانی کی ٹوٹی کے نیچے کر کے سر دھونا کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: روزہ پانی میں سر ڈوبنے سے باطل ہوتا ہے اس طرح کہ ایک ساتھ پانی پورے سر کو بھگادے لیکن پانی کی ٹوٹی کے نیچے یا شاور کے نیچے سر دھونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۱)

غوطہ خور افراد کا روزہ

سوال(۵۶): اگر کوئی شخص غوطہ لگانے کی مخصوص ٹوپی پہن کر ( جیسے غوطہ خور ) پانی میں ڈبکی لگائے اسکے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر سر پانی سے محفوظ رکھنے وا لی ٹوپی کے اندر ہے تو روزہ باطل نہیں ہے ۔ (۲)

روزہ دار کا قے کرنا

سوال (۵۷): اگر روزہ دار جی متلانے کی وجہ سے قے کردے تو اسکے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر بے اختیاری صورت میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر عمدا ً ایسا کرے تو اسکا روزہ باطل ہو جاتا ہے ۔ (۳)

دھواں اور بھاپ

سوال۵۸: حمام میں گرم پانی کی بھاپ کا روزہ دار کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب : تمام مراجع کرام: حمام کے پانی کی بھاپ سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے ۔ (۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۰۸، ۱۶۰۹ ، ۱۶۱۰

۲۔العروةالوثقی،ج۲،المفطرا ت ،مسئلہ۳۱

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۴۶، توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۵۴

۱۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲ ،الفصل الخامس؛ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۰۵ ، جامع المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی، ج۱، سوال ۵۵۱

سگریٹ پینا

سوال۵۹: روزہ کی حالت میں سگریٹ اور تنباکو پینا کیسا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : احتیاط واجب کی بنا پر روزہ دار کو سگریٹ اور تنباکوکے دھوئیں سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ (۱)

گاڑیوں کا دھواں

سوال۶۰: کبھی روزہ دار شخص گاڑیوں کے پاس ہوتا ہے اور اسکا دھواں اسکے حلق کے اندر چلا جاتا ہے کیا اس صورت میں اسکا روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر اس بات پر یقین رکھتے ہو ئے کہ گاڑی کا دھواں اس کے حلق تک نہیں پہونچے گا وہ گاڑی کے پاس کھڑا ہو اور اتفاقی طور پر دھواں اسکے حلق میں چلا جائے تو اسکا روزہ صحیح ہے ۔ (۲)

بھاپ لینا

سوال ۶۱: کیا علاج کی غرض سے روزہ کی حا لت میں بھاپ لینے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع ( سوائے آیة اللہ بہجت کے ) : اگر بھاپ بہت گاڑھی ہو تو احتیاط واجب کی

۱۔ اجوبة الاستفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۷۶۰؛ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۰۵ ؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۶۱۳ ؛دفتر: آیة اللہ بہجت 

۲۔ تعلیقات علی العروة ، آیة اللہ سیستانی ، آیة اللہ نوری ہمدانی، ج۲ المفطرات ، السادس ؛ توضیح المسائل ، امام خمینی، آیة اللہ مکارم شیرازی ، آیة اللہ فاضل لنکرانی، آیة اللہ جواد تبریزی  مسئلہ ۱۶۰۵ ؛ وسیلة النجاة ،آیة اللہ بہجت، ج۱ ،مسئلہ ۱۱۰۴ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۶۱۳، دفتر: آیة اللہ خامنہ ای و آیة اللہ صافی گلپایگانی

بنا پر اسے حلق کے اندر نہیں لے جانا چاہئے اور اگر بھاپ پانی کی شکل میں منھ کے اندرآجائے تو اسے اندر نہیں لے جانا چاہئے ۔ (۱)

آیة اللہ بہجت : اگر بھاپ گاڑھی ہو تو اسے حلق کے اندر نہیں لے جانا چاہئے اور اگر بھاپ پانی کی شکل میں منہ کی فضا میں جمع ہو جائے تو اسے نہیں نگلنا چاہئے ۔ (۲)

جنابت

سوال ۶۲: ماہ رمضان کی رات میں ایک شخص مجنب ہوا اور اسے اس بات کا علم ہے کہ اگر سو گیا تو اذان کے بعد جاگے گا ایسی صورت میں اسکا حکم کیاہے ؟

جواب آیة اللہ مکارم شیرازی کیعلاوہ تمام مراجع کرام : ایسے شخص کو سونے سے پہلے غسل کرنا چاہئے اور اگر بغیر غسل کئے ہوئے سو جائے اور اذان صبح کے بعد جاگے تو اسکا روزہ باطل ہے اور اس روزہ کی قضا کے ساتھ ساتھ اسے کفارہ بھی دینا پڑیگا۔ (۳)

آیة اللہ مکارم شیرازی : اگر غسل کئے بغیر سو جائے اور اذان صبح کے بعد جاگے تو اسکا روزہ صحیح نہیں ہوگا اور احتیاط واجب کی بنا پر ماہ رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا کر ے اور کفارہ بھی دے ۔ (۴)

۱۔تعلیقات علی العروة ،آیة اللہ سیتانی ، آیة اللہ نوری ہمدانی ،ج۲ ، المفظرات ، السادس ؛ توضیح المسائل ، امام خمینی ، آیة اللہ مکارم شیرازی ، آیة اللہ فاضل لنکرانی اور آیة اللہ جواد تبریزی ، مسئلہ ۱۶۰۵؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۶۱۳؛ دفتر :آیة اللہ خامنہ ای ، آیة اللہ صافی گلپایگانی

۲۔ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت، ج ۱، مسئلہ ۱۱۰۴

۳۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۲۵؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۳۳

۴۔ توضیح المسائل ،آیة اللہ مکارم شیرازی ،مسئلہ۱۶۲۵

سوال ۶۳:میں ماہ رمضان میں اذان صبح کے بعد محتلم اٹھا ، لیکن مجھے اس بات کا علم ہے کہ اذان سے قبل محتلم ہوا ہوں ایسی صورت میں میرے لئے کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: روزہ صحیح ہے ۔ (۱)

جنابت اور قضا روزہ

سوال ۶۴: ایک شخص ماہ رمضان کے روزہ کی قضا کرنا چاہتا ہے اور وہ اذان صبح کے بعد جاگتا ہے تو خود کو محتلم پاتا ہے ، کیا ایسا شخص اس دن روزہ رکھ سکتا ہے ؟

جواب : امام خمینی، آیة اللہ نوری ہمدانی: اگر اذان صبح کے بعد محتلم ہواہو تو روزہ رکھ سکتا ہے لیکن اگر اذان صبح سے پہلے محتلم ہوا ہو تو اس دن روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ۔ (۲)

آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی ، وحید خراسانی : اس دن روزہ رکھ سکتا ہے ۔

آیة اللہ مکارم شیرازی : اگر قضا روزہ رکھنے کی مدت تنگ نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے کسی دوسرے دن روزہ رکھنا چاہئے لیکن اگر مدت تنگ ہو مثلاً اسے پانچ روزے قضا کی نیت سے رکھنے ہیں اور ماہ رمضان کی آمد میں بھی پانچ ہی دن بچے ہیں تو اسی دن روزہ رکھ لے اور اسکا روزہ صحیح ہے ۔

آیة اللہ صافی گلپایگانی ، اور آیة اللہ فاضل لنکرانی : اگر روزہ کی قضا کے لئے وقت کم نہ ہو تو کسی اور دن روزہ رکھنا چاہئے لیکن اگر وقت کم ہو مثلاً اسے پانچ دن روزہ قضا کرنے ہوں اور ماہ رمضان میں بھی پانچ ہی دن باقی ہوں تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے اس دن روزہ رکھنا چاہئے اور ماہ رمضان کے بعد اسکی قضا بھی کرنی چاہئے اور اگر وقت کم نہ ہو تو اسکا روزہ باطل ہے اور اسے کسی اور دن روزہ رکھنا چاہئے ۔

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۳۳؛توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۶۴۱

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۳۵؛توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۶۴۱

اذان سے قبل جنابت

سوال (۶۵): ماہ رمضان میں اذان صبح سے قبل مجنب ہونے والے شخص کی اگر پانی تک رسائی نہ ہو تو اسکے لئے کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر اذان صبح سے پہلے تک اسے پانی نہ مل رہا ہو تو اسے غسل کے بدلے تیمم کرنا چاہئے اور اسکا روزہ صحیح ہوگا۔ اذان کے بعد پانی ملنے کی صورت میں نماز صبح کے لئے اسے غسل کرنا چاہئے ۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اسی تیمم میں نماز فجر پڑھنی چاہئے ۔ (۱)

سوال(۶۶):ایک شخص ماہ رمضان میں اذان صبح سے قبل محتلم ہوا ،اگر وہ غسل کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس سحری کھانے کا وقت نہیں بچتا ،ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟

تمام مراجع کرام:اگر بغیر سحری کھائے روزہ رکھ سکتا ہو تو اسے غسل کرنا چاہئے اور اگر بغیر اسکے روزہ نہیں رکھ سکتا ہو اور ضرر ونقصان کا اسے خوف ہو تو اسے سحری کھانا چاہئے اور اذان سے قبل تیمم کرنا چاہئے۔(۲)

سوال:(۶۷):جو شخص وقت کی تنگی کی بنا پر ماہ رمضان کی راتوں میں اذان صبح سے قبل جنابت کی بنا پر تیمم کرے ،کیا وہ اس تیمم سے نماز پڑھ سکتا ہے؟یا پھر اسے غسل کرنا پڑیگا ؟

امام خمینی اورآیةاللہ نوری ہمدانی:احتیاط واجب کی بنا پر اسے نماز صبح کے لئے غسل کرنا چاہئے۔(۳)

آیات عظام بہجت،جواد تبریزی،سیستانی،صافی گلپائگانی،فاضل لنکرانی اور وحید خراسانی:نماز صبح کے لئے اسے غسل کرنا چاہئے۔(۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۷۲۶؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۷۳۳ ؛اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۲۰۲، ۲۰۴

۲۔جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی،ج۱،ص۵۴۶؛استفتاء ات،آیة اللہ جواد تبریزی،س۶۸۰؛دفتر: تمام مراجع کرام

۳۔توضیح المسائل ،آیة اللہ نوری ہمدانی،مسئلہ ۷۲۷؛توضیح المسائل مراجع،امام خمینی،مسئلہ ۷۳۳

۴:توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۷۲۶؛توضیح المسائل،آیة اللہ وحید خراسانی،مسئلہ ۷۳۳

آیة اللہ مکارم شیرازی:اگر تیمم اور اسکا عذر باقی ہو تو وہ اسی تیمم سے نماز صبح پڑھ سکتا ہے۔(۱)

سوال(۶۸):اگر ماہ رمضان میں ایک شخص اس یقین کی بنا پر کہ غسل جنابت کے لئے اس کے پاس وقت ہے،غسل کرنے لگے اور غسل کے درمیان ہی اسے معلوم ہو کہ غسل کا کچھ حصہ اذان صبح کے ساتھ انجام پا رہا ہے،تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

تمام مراجع کرام:اس کا روزہ صحیح ہے۔(۲)

سوال(۶۹):جو شخص اذان صبح سے قبل حالت جنابت میں جاگتا ہے ،کیا وہ وقت اذان کے قریب غسل نہ کر کے تیمم کر سکتا ہے؟

تمام مراجع کرام:اگر غسل کرنے میں اتنی تاخیر کرے کہ وقت تنگ ہو جائے تو اس نے گناہ کیا ہے اور ایسی صورت میں اذان صبح سے قبل اسے تیمم کرنا چاہئے اور اسکا روزہ صحیح ہوگا۔(۳)

روزہ دار کا مجنب ہونا

سوال۷۰:ایک ایسا جوان جسکی عادت یہ ہے کہ اگر وہ دن میں سوتا ہے تو مجنب ہو جاتا ہے ،کیا وہ ماہ رمضان میں دن میں سو سکتا ہے؟

تمام مراجع کرام:ہاں!وہ دن میں سو سکتا ہے اگر چہ اسے معلوم ہو کہ سوتے میں وہ مجنب ہو جاتا ہے اور اسکا روزہ بھی صحیح ہوگا۔(۴)

سوال۷۱:اگر ایک شخص نماز صبح کے بعد مجنب ہو جائے اور غروب تک غسل نہ کرے تو کیا اسکے روزہ پر اس کا کوئی اثر پڑیگا؟

۱۔توضیح المسائل مراجع،آیةاللہ مکارم شیرازی ،مسئلہ۷۲۶

۲:دفتر :تمام مراجع کرام

۳۔العروة الوثقیٰ،فصل فی المفطرات،مسئلہ ۲۶؛توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۱۶۲۱

۴۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۵۹۰؛توضیح المسائل،آیة اللہ وحید خراسانی،مسئلہ ۱۵۹۸؛دفتر:آیة اللہ خامنہ ای

تمام مراجع کرام:نہیں!فوراً غسل کرنا ضروری نہیں ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا لیکن نماز کے لئے اسے غسل کرنا پڑیگا۔(۱)

جنابت کا نہ جاننا

سوال(۷۲):میں نے چند برس تک جنابت کی حالت میں روزہ رکھا اور نماز پڑھی جبکہ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ مجنب کو غسل کرنا چاہئے ،ایسی صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے؟

آیات عظام امام خمینی،بہجت،جواد تبریزی،خامنہ ای،مکارم شیرازی اور وحید خراسانی:حالت جنابت میں جن نمازوں اور روزوں کو آپ بجا لائے ہیں انکی قضا کریں۔(۲)

آیات عظام سیستانی،صافی گلپائگانی اور فاضل لنکرانی:اگر مسئلہ جاننے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو روزے صحیح ہیں اور انکی قضا نہیں ہے لیکن حالت جنابت میں پڑھی جانے والی نمازوں کی بہر حال قضا واجب ہے۔(۳)

نوری ہمدانی:روزے صحیح ہیں اور انکی قضا نہیں ہے لیکن حالت جنابت میں جن نمازوں کو آپ نے پڑھا ہے انکی قضا ضروری ہے۔(۴)

نکتہ:نماز کے لئے طہارت ایک واقعی اور لازمی شرط ہے لہٰذا عدم اطلاع کی بنا پر اگر بغیر طہارت کے کوئی شخص نماز پڑھے تو اس کی نمازباطل ہے۔

۱۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۱۶۳۲؛توضیح المسائل،آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۴۰

۲۔صراط النجاة ،آیة اللہ جواد تبریزی، ج۱،سوال ۱۰۷؛منہاج الصالحین،ج۱، بعد از مسئلہ ۱۰۰۴؛منہاج الصالحین،آیة اللہ وحید خراسانی ،ج۲،بعد از مسئلہ ۱۰۰۴؛استفتاء ات ،امام خمینی، ج۱،روزہ ،سوال ۳۱؛اجوبة الاستفتاء ات ،آیة اللہ خامنہ ای،سوال ۱۹۴؛دفتر:آیة اللہ مکارم شیرازی وآیة اللہ بہجت

۳۔منہاج الصالحین،آیة اللہ سیستانی،ج۱،بعد از مسئلہ ۱۰۰۴؛جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی ،ج۱،سوال ۵۵۸؛دفتر:آیة اللہ صافی گلپائگانی اورآیة اللہ وحید خراسانی ۴۔استفتاء ات:نوری ہمدانی،ج۲،سوال۶۹

سوال(۷۳):ایک ایسا شخص جس نے کچھ مدت تک روزہ رکھا اور نماز پڑھی اور بعد میں اسے معلوم ہوا کہ وہ مجنب تھا تو اس کی ذمہ داری کیا ہے؟

تمام مراجع کرام:اگر اصل جنابت کی طرف وہ متوجہ نہیں تھا تو اس کے روزے صحیح ہیں لیکن اسے نمازوں کی قضا کرنی ہوگی۔(۱)

غسل جنابت کا بھول جانا

سوال(۷۴):اگر ماہ رمضان میں ہم غسل جنابت بھول جائیں اور کچھ دنوں بعد ہمیں یاد آئے تو اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

تمام مراجع کرام:ان چند دنوں کی نمازوں اور روزوں کی قضا کریں لیکن آپ پر کفارہ واجب نہیں ہے۔(۲)

سوال ۷۵ : اگر کوئی شخص رات میں مجنب ہو جائے لیکن غسل فراموش کر دے اور دن میں اس بات کی طرف متوجہ ہو تو کیا اس صورت میں بھی اس کا روزہ باطل ہے؟

تمام مراجع کرام : ہاں ! اس صورت میں بھی روزہ باطل ہے۔ (۳)

نکتہ : اگرچہ اس شخص کا روزہ باطل ہے لیکن اسے مغرب تک کھانے پینے اور اس جیسی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔

۱۔استفتاء ات،امام خمینی، ج۱،روزہ،سوال۳۱؛اجوبة الاستفتاء ات،آیة اللہ خامنہ ای ،سوال۱۹۵؛استفتا ء ات ،آیة اللہ نوری ہمدانی ، ج ۲ ،سوال۶۹؛صراط النجاة ،آیة اللہ جواد تبریزی،ج۱،سوال۱۰۷؛جامع المسائل،آیة اللہ فاضل لنکرانی، ج۱ ، سوال ۸ ۵ ۵ ؛و سیلة النجاة ،آیةاللہ بہجت ، ج۱،مسئلہ۱۰۸۹؛منہاج الصالحین،آیةاللہ سیستا نی اور آیةاللہ جواد تبریزی،مسئلہ۹۸۵؛دفتر:آیةاللہ وحید خراسانی،آیةاللہ مکارم شیرازی ؛ھدیةالعباد،صافی گلپائگانی،ج۱،مسئلہ ۱۲۸۲

۲۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۱۶۲۲

۳۔دفتر تما م مراجع کرام

غسل جنابت میں تاخیر

سوال (۷۶) : اگر کوئی شخص ماہ رمضان کی رات میں مجنب ہو جائے اور اذان صبح تک غسل میں تاخیر کرے اور پھر اس کے بعد تیمم کر لے تو کیا اس کا روزہ صحیح ہے۔

آیة اللہ صافی اور آیةاللہ وحید خراسانی کیعلاوہ تمام مراجع کرام : اس صورت میں (اگرچہ غسل میں تاخیرکرنا گناہ ہے)پھر بھی اگر اذان صبح سے قبل تیمم کر لے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ (۱)

آیة اللہ صافی اور آیةاللہ وحید خراسانی : اس صورت میں (اگرچہ غسل میں تاخیر گناہ ہے) احتیاط واجب کی بنا پر تیمم کرے اور روزہ رکھے اور قضا بھی انجام دے (۲)

روزہ دار کے غسل کا باطل ہونا

سوال (۷۷)وہ شخص جسے نہیں معلوم تھا کہ پیر کے تلووں کا غسل میں دھونا واجب ہے اور اسی طرح سے ایکعرصہ تک وہ غسل کرتا رہا تو ایسی صورت میں اس کی گذشتہ نمازوں اور روزوں کا کیا حکم ہے۔

تمام مراجع کرام : اگر جانتا ہو کہ پانی پیر کے تلووں تک نہیں پہونچتا تھا تو اسے گذشتہ زمانہ میں پڑھی جانے والی نمازوں کی قضا کرنی چاہئے لیکن روزوں کی قضا اس پرواجب نہیں ہے۔ (۳)

۱۔توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۶۲۱؛ توضیح المسائل ،آیةاللہ مکارم شیرازی مسئلہ ۱۳۷۱؛توضیح المسائل ،آیةاللہ نوری ہمدانی مسئلہ ۱۶۱۸

۲۔توضیح المسائل،آیةاللہ وحید خراسانی ،آیةاللہ صافی ،مسئلہ ۱۶۲۹؛توضیح المسائل مراجع ، ۱۶۲۱

۳۔استفتاء ات، امام خمینی ،جلد ۱ ،سوال ۱۰۱ روزہ ؛جامع المسائل،آیةاللہ فاضل لنکرانی، جلد ۱ ،سوال ۵۶۰؛جامع الاحکام آیةاللہ صافی گلپائیگانی ،جلد ۱ ،سوال ۱۰۸؛استفتاء ات ،آیةاللہ نوری ہمدانی ،جلد ۲ ،سوال ۶۹؛ استفتاء ات،آیةاللہ جواد تبریزی، سوال ۶۸۲؛ دفاتر :آیات عظام سیستانی، بہجت، مکارم اور وحید خراسانی

سوال (۷۸) ایک زمانہ تک میں غسل غلط طریقہ سے انجام دیتا تھا اور اسی غسل سے روزہ رکھتا تھا اور نماز پڑھتا تھا تو کیا اب مجھے ان نمازوں اور روزوں کی قضا کرنی پڑے گی؟

تمام مراجع کرام : روزوں کی قضا نہیں ہے لیکن نمازوں کی قضا کرنی ہوگی۔ (۱)

استمناء

سوال (۷۹) استمنا کسے کہتے ہیں؟

تمام مراجع کرام : استمنا یعنی انسان اپنے ساتھ یا دوسرے کے ساتھ کوئی ایسا کام انجام دے جو منی نکلنے کا سبب بنے۔ یہ کام حرام ہے اور منی نکلنے کی صورت میں اس پر غسل جنابت واجب ہوگا۔ (۲)

روز ہ دار کا استمنا

سوال (۸۰) : اگر کوئی شخص عمداً ماہ مبارک رمضان میں اپنے روزہ کو استمنا کے ذریعہ باطل کر دے تو اس کا کیا حکم ہے؟

آیات عظام خامنہ ای، سیستانی اور صافی کیعلاوہ تمام مراجع کرام : قضا کے علاوہ احتیاط واجب کی بنا پر اسے ”کفارہ جمع“ (۶۰ دن روزہ اور ۶۰ فقیروں کو کھانا کھلانا) ادا کرنا ہوگا۔ (۳)

آیةاللہ صافی گلپایگانی : قضا کے علاوہ اسے کفارہ جمع (۶۰ دن روزہ اور ۶۰ فقیروں کو کھانا کھلانا) بھی ادا کرنا ہوگا (۴)

۱۔ستفتاء ات، امام خمینی، جلد ۱ ،روزہ ،سوال ۱۰۱؛ استفتاء ات ،آیةاللہ جواد تبریزی، سوال ۶۸۲؛اجوبة الاستفتاء ات ،آیةاللہ خامنہ ای، سوال ۱۹۸؛ دفاتر : تمام مراجع کرام

۲۔توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۵۷۳؛ توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید خراسانی مسئلہ ۱۵۸۰؛ دفتر :آیةاللہ خامنہ ای

۳۔توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۶۵؛ توضیح المسائل،آیةاللہ نوری ہمدانی ،مسئلہ ۱۶۶۲؛ توضیح المسائل آیةاللہ وحید خراسانی مسئلہ ۱۶۷۳                   ۴۔توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۶۶۵

آیةاللہ خامنہ ای اور آیةاللہ سیستانی : قضا کے علاوہ کفارہ ادا کرنا ہوگا اور احتیاط مستحب کی بنا پر کفارہٴ جمع (۶۰ دن روزہ اور ۶۰ فقیروں کو کھانا کھلانا) ادا کرنا ہوگا۔ (۱)

سوال (۸۱) جس شخص کو ماہ رمضان میں استمنا کی حرمت کی اطلاع تھی لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ اس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

آیةاللہ سیستانی اورآیةاللہ مکارم کے علاو ہ تمام مراجع کرام: مذکورہ صورت میں جن روزوں میں اس نے استمنا کیا ہو اس کی قضا کرے اور کفارہ بھی ادا کرے۔ (۲)

آیةاللہ مکارم شیرازی : مذکورہ صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر جن روزوں میں اس نے استمنا کیا ہو اس کی قضا کرے اور کفارہ بھی دے۔ (۳)

آیةاللہ سیستانی : کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ہے اور اگر مسئلہ سے ناآگاہی اس حد تک رہی ہو کہ اس صورت میں روزہ باطل ہونے کا احتمال تک نہ رہا ہو تو ان روزوں کی قضا بھی واجب نہیں ہے۔ (۴)

بلوغ کے وقت استمنا

سوال (۸۲):میں ایام جوانی میں کبھی کبھی ماہ رمضان میں استمنا کرتا تھا لیکن مجھے اس کام کے حرام ہونے کی ذرا سی بھی اطلاع نہیں تھی اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے اب میری ذمہ داری کیا ہے؟

آیات عظام امام خمینی ، صافی ، نوری ہمدانی : اگر آپ کی مسئلہ سے ناگاہی اس حد تک رہی ہو کہ آپ روزہ

۱۔ایضاً مسئلہ ۱۶۶۵؛ اجوبة الاستفتاء ات ،آیةاللہ خامنہ ای سوال ۷۸۵

۲۔منہاج الصالحین،آیةاللہ تبریزی، آیةاللہ وحید، کفارہٴ صوم، تتمیم؛ تعلیقات علی العروة ، امام خمینی،آیةاللہ فاضل لنکرانی، آیةاللہ نوری ہمدانی، الفصل الثالث، السادس ؛ دفاتر :آیةاللہ خامنہ ای ،آیةاللہ صافی گلپایگانی اورآیةاللہ بہجت 

۳۔توضیح المسائل مراجع ،آیةاللہ مکارم شیرازی ،مسئلہ ۱۶۵۸، ۱۶۵۹؛علیقات علی العروة، الفصل الثالث والسادس

۴۔منہاج الصالحین ،آیةاللہ سیستانی، جلد ،۱ کفارة الصوم ،تتمیم

کے باطل ہونے کا احتمال تک بھی نہیں دے رہے ہوں تو کفارہ واجب نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر جن روزوں میں آپ نے استمنا کیا ہے ان کی قضا کریں۔ (۱)

آیات عظام جواد تبریزی اور وحید خراسانی : جن روزوں میں آپ نے استمنا کیا ہے ان کی قضا کریں لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔ (۲)

آیةاللہ سیستانی : کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ہے اور اگر آپ کی مسئلہ سے ناآگاہی اس حد تک رہی ہو کہ آپ روزہ کے باطل ہونے کا احتمال بھی دے رہے ہوں تو ان روزوں کی قضا بھی واجب نہیں ہے۔ (۳)

آیات عظام بہجت، خامنہ ای اور فاضل لنکرانی : اگر مسئلہ سے ناآگاہی اس حد تک ہو آپ روزہ کے باطل ہونے کا احتمال تک نہ دے رہے ہوں تو کفارہ واجب نہیں ہے لیکن جن روزوں میں آپ نے استمنا کیا ہے ان کی قضا آپ کو کرنی ہوگی۔ (۴)

آیةاللہ مکارم شیرازی : جن روزوں میںآ پ نے استمنا کیا ہے احتیاط واجب کی بنا پر ان کی قضا کرنی ہوگی لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔ (۵)

۱۔تحریر الوسیلة، امام خمینی، جلد ۱ ،فیما یحب الامساک فیہ ،مسئلہ ۱۸،فیما یترتب علی الافطار،مسئلہ ۱؛ ھدایة العباد ،آیةاللہ صافی گلپایگانی ،جلد ۱، مسئلہ ۱۳۱۱، ۱۳۱۸؛ تعلیقات علی العروة ،آیةاللہ نوری ہمدانی، الفصل الثالث ، السادس

۲۔ منہا ج الصالحین ،آیةاللہ جواد تبریزی،آیةاللہ وحید خراسانی، کفارہ صوم، تتمیم

۳۔ منہاج الصالحین ،آیةاللہ سیستانی، جلد، ۱ کفارہ صوم، تتمیم

۴۔ وسیلة النجاة ،آیةاللہ بہجت ،جلد ۱ ،مسئلہ ۱۱۰۹، ۱۱۱۷؛تعلیقات علی العروة ،آیةاللہ فاضل لنکرانی، الفصل الثالث والسادس ؛ اجوبة الاستفتاء ات،آیةاللہ خامنہ ای، سوال ۸۱۷

۵۔ توضیح المسائل مراجع ،آیةاللہ مکارم شیرازی، مسئلہ ۱۶۵۸

خود ارضائی

سوال (۸۳) جو شخص ماہ رمضان میں بغیر منی نکلنے کے قصد سے اپنے آپ سے کوئی ایسا عمل انجام دے کہ جس سے بغیر قصد کے منی نکل جائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

تمام مراجع َکرام : اگر اس کام سے منی نکلنے کا وہ شخص احتمال دے رہا تھا تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ (۱)

سوال (۸۴): اگر منی نکالنے کی غرض سے کوئی شخص اپنے آپ سے کوئی ایسا عمل انجام دے جبکہ اس کے اس عمل سے منی نہ نکلے تو کیا تب بھی یہ عمل اس کا روزہ باطل کر دیتا ہے؟

آیات عظام امام خمینی، خامنہ ای اور فاضل لنکرانی : اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (۲)

آیات عظام بہجت، صافی گلپایگانی، مکارم شیرازی اور نور ی ہمدانی : اگر منی نکلنے کی نیت سے اس کام کو انجام دے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے اگرچہ منی خارج نہ ہوئی ہو۔ (۳)

آیةاللہ جواد تبریزی : اگر منی خارج ہونے کی نیت سے اس کام کو انجام دے (اگرچہ منی خارج نہ ہو) تو وہ اس روزہ کو مکمل کر ے اور ماہ رمضان کے بعد اس کی قضا کرے۔ (۴)

آیات عظام سیستانی اور وحید خراسانی : اگر منی خارج ہونے کی نیت سے اس کام کو انجام دے (اگرچہ منی خارج نہ بھی ہو) تو احتیاط واجب کی بنا پر روزہ کو تمام کرے اور ما ہ رمضان کے بعد قضا کرے۔(۵)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۹۵؛ توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۰۳؛ العروة الوثقی، جلد ۲ ،المفطرات، الرابع

۲۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۵۹۴؛ اجوبة الاستفتاء ات ،آیةاللہ خامنہ ای، سوال ۷۸۵

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۹۴،دفتر :آیةاللہ بہجت

۴۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۵۹۴

۵۔ توضیح المسائل مراجع،آیةاللہ سیستانی، مسئلہ ۱۵۹۴؛ توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۰۲

شہوانی فکر

سوال ۸۵: اگر ماہ رمضان میں شہوانی فکر و خیال منی کی حرکت کا سبب بنے لیکن اسے خارج ہونے سے روک لیا جائے تو کیا روزہ باطل ہے؟

آیات عظام امام خمینی، خامنہ ای اور فاضل لنکرانی : جب تک منی اس کے بدن سے خارج نہ ہو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔ (۱)

امام خمینی اورآیةاللہ فاضل لنکرانیکے سواتمام مراجع کرام : اگر اس عمل سے منی خارج ہونے کا قصد نہ رکھتا ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔ (۲)

نامحرم کو دیکھنا

سوال ۸۶ : اگر روزہ دار نامحرم کو دیکھے تو کیا اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

تمام مراجع کرام : نہیں اس کا روزہ صحیح ہے۔ (۳)

نکتہ : اس عمل سے روزہ کے ثواب اور اس کی اہمیت میں کمی ہو جاتی ہے لہٰذا بہتر ہے کہ انسان کی آنکھ، کان، زبان، دل اور اس کے تمام اعضاء گناہ اور برے کاموں کو انجام دینے سے محفوظ رہیں۔

بلیو (BLUE) فیلم

سوال( ۸۷) : ماہ رمضان میں غیر اخلاقی فلموں کا دیکھنا کیسا ہے؟ کیا اس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

۱۔ توضیح المسائل مراجع مسئلہ ۱۵۹۴، اجوبة الاستفتاء ات خامنہ ای سوال ۷۵۸

۲۔ توضیح المسائل مراجع مسئلہ ۱۵۹۴، توضیح المسائل وحید خراسانی مسئلہ ۱۶۰۴، دفتر : بہجت ، دفتر : تمام مراجع

۳۔دفتر : تمام مراجع

تمام مراجع کرام : غیر اخلاقی اور شہوت کو بھڑکانے والی فلموں کو دیکھنا حرام ہے۔ چاہے ماہ رمضان میں دیکھی جائیں یا کبھی اور ، اور اگر اس طرح کی فلموں کے دیکھنے سے وہ منی خارج ہونے کا احتمال دے رہا ہو (اور منی خارج بھی ہو جائے) تو اس کا روزہ باطل ہے۔ (۱)

جنسی روابط

سوال( ۸۸) جو شخص کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو کیا وہ اپنی بیوی کے ساتھ نزدیکی کر سکتا ہے؟

تمام مراجع کرام : نہیں جائز نہیں ہے۔ (۲)

سوال (۸۹) کیا روزہ کی حالت میں بیوی کے ساتھ پشت سے بھی نزدیکی کرنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

آیةاللہ مکارم شیرازی کے علاوہ تمام مراجع کرام : ہاں روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ (۳)

مکارم شیرازی : احتیاط واجب کی بنا پر روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ (۴)

(۱) توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۹۵؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۰۳؛العروة الوثقی ،جلد ۲ ، المفطرات الرابع؛ اجوبة الاستفتاء ات ،آیةاللہ خامنہ ای، سوال ۱۱۸۷؛ جامع الاحکام ،آیةاللہ صافی گلپایگانی، جلد ۲ ،سوال ۱۷۱۷، ۱۶۰۵؛جامع المسائل،آیةاللہ فاصل لنکرانی، جلد ۱، سوال ۷۲۹ ۱، ۱۷۳۱؛ استفتاء ات،آیةاللہ مکارم شیرازی ،جلد ۱ ،سوال ۷۷۸ ، ۷۸۲؛آیةاللہ سیستانی،sistani org (فیلم) سوال ۴؛ استفتاء ات،آیةاللہ جواد تبریزی، سوال ۱۶۰۳ ، ۱۶۰۵؛صراط النجاة ،جلد ۵ ،سوال ۱۱۲۹؛ دفاتر : آیات عظام نوری ہمدانی، امام خمینی، بہجت اور وحید خراسانی (۲) توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۸۳؛ توضیح المسائل ؛،آیةاللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۹۱(۳) العروة الوثقی، جلد ۲، المفطرات، الثالث (۴) تعلیقات علی العروة، آیةاللہ مکارم شیرازی ، المفطرات، الثالث

سوال (۹۰) اگر میاں بیوی روزہ کی حالت میں نزدیکی کریں (جبکہ انہیں نہیں معلوم کہ اس کام سے روزہ باطل ہو جاتا ہے) تو اس کا کیا حکم ہے؟

آیات عظام امام خمینی، صافی گلپایگانی اور نوری ہمدانی : اگر مسئلہ سے ناآگاہی اس حد تک ہو کہ وہ روزہ کے باطل ہونے کا احتمال نہ دیتے ہوں تو کفارہ واجب نہیں ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر انہیں روزہ کی قضا کرنی چائیے۔ (۱)

آیات عظام جواد تبریزی، سیستانی اور وحید خراسانی : انہیں روزہ کی قضا کرنی چاہئے لیکن ان پر کفارہ واجب نہیں ہے۔ (۲)

آیات عظام بہجت، خامنہ ای اور فاضل لنکرانی : اگر مسئلہ سے ناآگاہی اس حد تک ہو کہ وہ روزہ کے باطل ہونے کا احتمال نہ دیتے ہوں تو کفارہ واجب نہیں ہے لیکن انہیں روزہ کی قضا کرنی چاہئے۔ (۳)

آیةاللہ مکارم شیرازی : احتیاط واجب کی بنا پر انہیں روزوں کی قضا کرنی چاہئے لیکن کفارہ واجب نہیں ہے۔ (۴)

خوش فعلی

سوال (۹۱): وہ مادہ جو روزہ دار عورتوں کے بدن سے اپنے شوہر کے ساتھ خوش فعلی کے نتیجے میں نکلتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ کیااس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

تمام مراجع کرام : مذکورہ مادہ پاک ہے اور اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔ (۵)

۱۔۱۔تحریر الوسیلة، امام خمینی، جلد ۱ ،فیما یحب الامساک فیہ ،مسئلہ ۱۸،فیما یترتب علی الافطار،مسئلہ ۱؛ ھدایة العباد ،آیةاللہ صافی گلپایگانی ،جلد ۱، مسئلہ ۱۳۱۱، ۱۳۱۸؛ تعلیقات علی العروة ،آیةاللہ نوری ہمدانی، الفصل الثالث ، السادس

۲۔منھاج الصالحین،آیات عظام تبریزی،سیستانی،وحید،کفارةالصوم،تتمیم۔۳۔وسیلةالنجاة،آیةاللہ بہجت،ج۱،مسئلہ۱۱۰۹،۱۱۱۷؛تعلیقات علی ٰالعروة،آیةاللہ فاضل ،الفصل الثالث،السادس؛اجوبةالاستفتائات،س۸۱۷۔۴۔توضیح المسائل مراجع،آیةاللہ مکارم،مسئلہ۱۶۵۸۔۵۔العروةالوثقیٰ،ج۱؛مستحبات غسل الجنابة،مسئلہ۶

سوال (۹۲) : کیا ماہ رمضان میں میاں بیوی کا آپس میں خوش فعلی کرنا جائز ہے؟

تمام مراجع کرام : اگر منی خارج ہونے کے قصد کے بغیر اپنی بیوی کے ساتھ اس عمل کو انجام دے اس طرح کہ اسے یقین ہو کہ منی خارج نہیں ہوگی تو کوئی حرج نہیں ہے اور ان دونوں کا روزہ صحیح ہے اگرچہ اتفاقاً اس کی منی خارج ہو جائے۔ (۱)

ہنی مون

سوال (۹۳): وہ دو جوان (لڑکا لڑکی) جنہوں نے ابھی شادی کی ہے اور وہ ماہ رمضان میں سفر کرتے ہیں کیا وہ اس دن نزدیکی کرسکتے ہیں؟

تمام مراجع کرام : اگر دس دن رہنے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو ماہ رمضان میں جماع کرنا ان کے لئے حرام نہیں ہے لیکن مکروہ ہے۔ (۲)

خواتین کا علاج

سوال (۹۴) : کیا روزہ کی حالت میں حاملہ عورتوں کا معائنہ کرنا کسی  کے ذریعے( جسے مجبوراً ہاتھ کو رحم میں ڈالنا پڑتا ہو) روزہ کو باطل کر دیتا ہے؟

تمام مراجع کرام : نہیں روزہ باطل نہیں ہوتا۔ (۳)

کذب

سوال (۹۵) : کس قسم کا جھوٹ روزہ کو باطل کر دیتا ہے؟

آیات عظام بہجت ، سیستانی اور مکارم شیرازی کے سوا تمام مراجع کرام : خداوند عالم ، پیغمبر اعظم، ائمہ اطہار اور احتیاط واجب کی بنا پر تمام انبیاء ان کے نائبین اور حضرت زہراپر جھوٹ باندھنا۔

۱۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۵۹۵؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید،مسئلہ۱۶۰۳؛دفتر:آیات عظام خامنی ای اور بہجت

۲۔ العروة الوثقی، جلد ۲، فصل فی شرائط وجوب الصوم، مسئلہ ۶ ۳۔ ایضاً جلد ۲، المفطرات، مسئلہ ۸

آیةاللہ مکارم شیرازی : احتیاط واجب کی بنا پر خدا، پیغمبر اعظم ،ائمہ اطہار، انبیاء کرام، ان کے جانشین اور حضرت زہراکی طرف جھوٹ کی نسبت دینا۔

آیةاللہ بہجت : خدا، پیغمبر اعظم، ائمہ اطہار ، انبیاء کرام، ان کے جانشین اور حضرت زہرا کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا۔

آیةاللہ سیستانی : احتیاط واجب کی بنا پر خدا، پیغمبر اعظم اور ائمہ اطہار کی طرح جھوٹ کی نسبت دینا۔

سوال (۹۶): اگر کوئی شخص لکھ کر نبی اکرم یا ائمہ اطہار  کی طرف جھوٹ کی نسبت دے تو کیا اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

تمام مراجع کرام : ہاں اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے اگرچہتحریری صورت میں ہی کیوں نہ ہو (۱)

سوال ۹۷ : اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں سہواً آیہٴ قرآنی یا حدیث معصوم کو غلط قرأت کرے تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

تمام مراجع کرام : اس کا روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اسے قرآن کریم یا حدیث کی صحیح تلاوت کرنے کی سعی و کوشش کرنی چاہئے۔ (۲)

۱۔ العروة الوثقیٰ، جلد ۲، المفطرات، الخامس

۲۔ ایضاً ،جلد ۲، المفطرات، الخامس

جن لوگوں کیلئے روزہ توڑنا جائز ہے

بیمار کا روزہ

سوال (۹۸):اگر روزہ رکھنے کی بنا پر بیماری سے شفا دیرمیں ملے تو حکم کیا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: روزہ نہیں رکھنا چاہئے ۔ (۱)

سوال (۹۹): اگر مریض اس یقین کے ساتھ کہ روزہ اسے نقصان پہنچائے گا روزہ رکھے تو اسکا کیا حکم ہے ؟

جواب: تمام مراجع کرام: اگر روزہ رکھ لے تو اسکا روزہ صحیح نہیں ہوگا اور اسے ماہ رمضان کے بعد اس روزہ کی قضا کرنی چاہئے ۔ (۲)

سوال (۱۰۰): جو شخص روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے معدہ میں زخم یا مثانہ میں پتھری ہونے کا یقین یا احتمال قوی رکھتا ہو ، کیا اس پر روزہ رکھنا واجب ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر وہ معقول وجوہات کے تحت احتمال دے رہا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ۔(۳)

۱۔ العروة الوثقیٰ ،جلد۲ ، شرائط صحة الصوم ، السادس

۲۔ العروة الوثقیٰ ج۲ ، شرائط صحة الصوم ، السادس

۳۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۷۴۳ ، ۱۷۴۴ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۷۵۱، ۱۷۵۲ ؛ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ، ۷۴۶

گردے کے مریض کا روزہ

سوال (۱۰۱): گردے کی بیماری رکھنے والے شخص کو اپنے مرض سے نجات پانے کے لئے دن بھر میں کئی مرتبہ پانی اور دوسری سیال چیزیں استعمال کرنی پڑتی ہیں ایسی صورت میں اسکے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر گردے کی بیماری سے نجات پانی کے لئے اسکے لئے پورے دن پانی یا دوسری سیال چیزیں استعمال کرنا ضروری ہوں تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے ۔ (۱)

دمہ میں مبتلا شخص کا روزہ

سوال (۱۰۲) : جو شخص دمہ کے سخت مرض میں مبتلا ہے اور اسے دن میں اسپرے استعمال کرنا پڑتا ہے اسکے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب :آیات عظام امام خمینی ، فاضل لنکرانی ، مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی : چونکہ اسپرے پر کھانے اور پینے کا اطلاق نہیں ہوتا ، لہذا اسپرے استعمال کرنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ہے ۔ (۲)

آیة اللہ خامنہ ای : اگر دوا ، گیس یا پاوٴڈر کی شکل میں حلق کے اندر جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر یہ دوا کا استعمال روزہ باطل کر دیتا ہے اور اگر اسکے بغیر روزہ رکھنا زحمت و مشقت کا سبب ہو تو اسکا استعمال کرنا جائز ہے اور ماہ رمضان کے بعد اگر بغیر اسپرے استعمال کئے ہوئے روزہ رکھ سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے روزوں کی قضاکرنی چاہئے ۔ (۳)

۱۔ اجوبة الاستفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۷۶۵؛ استفتاء ات ، آیة اللہ جواد تبریزی ، سوال ۶۴۶ ؛ جامع الاحکام ،آیة اللہ صافی، ج۱، سوال ۴۸۵ ؛ دفاتر: تمام مراجع کرام

۲۔ استفتاء ات امام خمینی  ،جلد۱، روزہ، سوال ۶ ؛ جامع المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی  ،جلد۱، سوال ۵۵۱ ، استفتاء ات، آیة اللہ مکارم شیرازی، ج۱ ،سوال ۲۸۵ ؛ استفتاء ا ت، آیة اللہ نوری ہمدانی ،ج۱ ،سوال ۲۱۲

۳۔ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۷۶۲

آیة اللہ صافی گلپایگانی : کسی بھی چیز کے آنتوں میں پہونچنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے اور اگر اس کو استعمال کئے بغیر زحمت و مشقت میں مبتلا ہو رہا ہو اور اسے پورے سال اسپرے استعمال کرنا پڑے تو ماہ رمضان میں روزہ رکھنا چاہئے اور احتیاط واجب کی بنا پر ہر دن کے بدلہ ایک مد غلہ بھی فقیر کو دے اور اسکے روزوں کی قضا نہیں ہے ۔ (۱)

آیة اللہ جواد تبریزی  اور آیة اللہ وحید خراسانی : حلق تک پہونچنے سے پہلے ہوا کی شکل میں تبدیل ہو جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے ۔ (۲)

آنکھ کی کزوری

سوال(۱۰۳):میری بینائی (آنکھ)کمزور ہے اور مجھے روزہ رکھنے سے ضرر کا اندیشہ رہتا ہے،ایسی صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے؟

تمام مراجع کرام:اگر ضرر کا خوف عقلائی ہو تو آپ پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے اور اگر آئندہ سال کے ماہ رمضان کے بعد تک آپ کا مرض باقی رہے تو ان روزوں کی قضا بھی واجب نہیں ہے اور آپ کو صرف ہر دن کے بدلہ ۷۵۰/گرام گیہوں ،جو یا آٹاو․․․کفارہ کے طور پر فقیر کو دینا ہوگا۔(۳)

۱۔ دفتر : آیة اللہ صافی گلپایگانی 

۲۔ استفتاء ات، آیة اللہ جواد تبریزی، سوال ۷۱۱؛ دفتر: آیة اللہ وحید خراسانی

۳۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۱۷۰۳و۱۷۴۴

بدن کی کمزوری

سوال(۱۰۴):لکھنے پڑھنے اور امتحانات کی وجہ سے مجھ میں کمزوری اور سستی پیدا ہو جاتی ہے تو کیا ایسی صورت میں میرے لئے روزہ نہ رکھنا صحیح ہے؟

تمام مراجع کرام:اس طرح کی سستی اور کمزوری کسی حد تک روزے کا لازمہ ہے اور اکثر افراد کو یہ کمزوری لاحق ہوتی ہے ۔صرف اس بنا پر روزہ ترکنہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اگر کمزوری اس حد تک بڑھ جائے کہ اس کا برداشت کرنا بہت سخت اور مشکل ہو تو ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

نوٹ:انسان ان شرائط میں مسافرت کر سکتا ہے (کم از کم ۵/۲۲ کلومیٹر)اور روزہ ترک کر کے اپنے وطن واپس آ جائے ۔ایسی صورت میں ضروری نہیں ہے کہ مغرب تک کھانے پینے سے پرہیز کرے اور ماہ رمضان کے بعد اسکے قضا بجا لائے ۔اوران روزوں کا کفارہ بھی نہیں ہے۔

دوا کا استعمال

سوال۱۰۵:ایک ایسا مریض جسے دن بھر میں چند ٹیبلٹ کھانے پڑتے ہیں جبکہ روزہ رکھنے سے اسے کوئی ضرر نہیں ہو رہا ہو تو کیا ان دواؤں کے کھانے سے اسکا روزہ باطل ہو جاتا ہے؟

تمام مراجع کرام:جی ہاں!اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے۔(۲)

۱۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۵۸۳؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید خراسانی،مسئلہ ۱۵۹۱؛اجوبة الاستفتا ء ات،آیةاللہ خامنہ ای ،سوال ۷۳۲

۲۔ دفتر تمام مراجع

روزہ میں ضرر کا معیار

سوال۱۰۶:کیا صرف ضرر کا احتمال روزہ ترک کرنے کا سبب بن سکتا ہے یا یہ کہ ضرر کا یقین ہونا ضروری ہے؟ضرر کا معیار بیان فرمائیں۔

آیات عظام جواد تبریزی،سیستانی اور وحید خراسانی کے علاوہ تمام مراجع کرام :جو چیز روزہ ترک کرنے کا سبب ہے وہ ایسا خوف ہے جسکا کوئی عقلانی منشأ ہو اور اسکا معیار عرف عام ہے اس طرح کہ وہ روزہ رکھنے کو ضرر سمجھتے ہوں۔(۱)

آیات عظام جواد تبریزی،سیستانی اور وحید خراسانی:جو چیز روزہ ترک کرنے کا سبب ہے وہ ایسا خوف ہے جسکا کوئی عقلانی منشأ ہو اور ضرر کی مقدار بھی قابل توجہ ہو۔(۲)

ڈاکٹر کی رائے

سوال۱۰۷:ضرر کا معیار ڈاکٹر تشخیص دیگا یا خود شخص؟

تمام مراجع کرام:خود مریض کا تشخیص دینا معیار ہے۔ضرر کا خوف صرف عقلانی حد تک ہو ،کافی ہے۔ضرر کا خوف کبھی اسپیشلسٹ کے کہنے اور اس جیسے مریضوں کے تجربوں اور کبھی خود انسان کے تجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔(۳)

سوال(۱۰۸):اگر انسان کو شک ہو کہ آیا اسکا روزہ رکھنا اس کے لئے مضر ہے یا نہیں؟لیکن ڈاکٹر اسے روزہ رکھنے سے منع کرے تو اب اسکی ذمہ داری کیا ہے؟

۱۔توضیح المسائل مراجع:مسئلہ ۱۷۴۳۔۱۷۴۴

۲۔منھاج الصالحین،آیات عظام تبریزی،سیستانی اور وحید ،شرائط صحة الصوم،مسئلہ ۱۰۲۹

۱۔توضیح المسائل مراجع، م۱۷۴۳،۱۷۴۴،؛آیةاللہ خامنہ ای، اجوبة الاستفتا ء ات، س۷۵۳؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید، مسئلہ۱۷۵۱،۱۷۵۲

آیات عظام امام خمینی،خامنہ ای،صافی،فاضل اور نوری:اگر ڈاکٹر کے کہنے سے اس میں خوف پید اہو جائے اور عقلانی احتمال دے کہ روزہ اسکے لئے مضر ہے تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔(۱)

آیات عظام تبریزی اوروحید:مذکورہ صورت میں اگر ڈاکٹر اسپیشلسٹ اور مورد اعتماد ہو تو اس کے کہنے پر عمل کرنا چاہئے۔(۲)

آیةاللہ مکارم:اگر ڈاکٹر کے کہنے سے اس میں خوف پیدا ہو جائے اور عقلانی احتمال دے کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور اگر اسے اپنے تجربہ سے یہ معلوم ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر نہیں تو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔شک کی صورت میں ایک دو دن تجربہ کر سکتا ہے اور پھر مذکورہ قانون کے تحت عمل کرے۔(۳)

آیات عظام بہجت اور سیستانی:اگر ڈاکٹر کے کہنے سے ا س میں خوف پید اہو جائے اور عقلانی احتمال دے کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے تو وہ روزہ ترک کر سکتا ہے۔(۴)

حاملہ عورت

سوال(۱۰۹):ایسی حاملہ عورت جو روزہ نہیں رکھ سکتی اسکی ذمہ داری کیا ہے؟

آیات عظام امام خمینی،خامنہ ای اور نوری ہمدانی:اگر روزہ جنین کے لئے مضر ہو تو اسے ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دینا چاہئے اور اگر روزہ خود اسکے لئے مضر ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ہر روز

۱۔ توضیح المسائل مراجع،م۱۷۴۳،۱۷۴۴؛آیةاللہ خامنہ ای، اجوبة الاستفتائات، سوال۷۵۵

۲۔تبیریزی،توضیح المسائل مراجع،م۱۷۴۳، وحید، منہاج الصالحین، ج۲، م ۱۰۳۲

۳۔ توضیح المسائل مراجع،آیةاللہ مکارم ،م۱۷۴۳

۴۔ منہاج الصالحین، آیةاللہ سیستانی،ج۱، مسئلہ۱۰۳۲؛ توضیح المسائل مراجع،آیةاللہ بہجت،م۱۷۴۳

ایک مد طعام فقیر کو دے اور دونوں صورتوں میں اسے روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔(۱)

آیات عظام بہجت،سیستانی اور فاضل:روزوں کی قضا کے علاوہ ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دے ،چاہے روزہ جنین کے لئے مضر ہو یا خود اسکے لئے۔(۲)

آیات عظام تبریزی،مکارم اور وحید:اگر روزہ جنین کے لئے مضر ہو تو ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دے اور اگر خود اسکے لئے مضر ہو تو کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ہے اور مذکورہ دونوں صورتوں میں روزوں کی قضا واجب ہے۔(۳)

آیةاللہ صافی:اگر روزہ جنین کے لئے مضر ہو احتیاط واجب کی بنا پر اسے ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دینا چاہئے اور اگر خود اسکے لئے مضر ہو تو کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ہے اور ہر صورت میں روزوں کی قضا ضروری ہے۔(۴)

سوال(۱۱۰):ایسی حاملہ عورت کا روزہ رکھنا جسے نہیں معلوم کہ روزہ اسکے جنین کے لئے مضر ہے،کیا حکم رکھتا ہے؟

تمام مراجع کرام:اگر روزہ کی وجہ سے جنین پر ضرر کا خوف ہو تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔(۵)

سوال(۱۱۱) :ایسی حاملہ عورت کہ جو حمل اور دودہ پلانے کی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے اور انکی قضا آئندہ برس تک نہ ادا کر سکی ہو ،کیا اس پر قضا روزے ساقط ہو جاتے ہیں اور کیا اسکا بھی حکم مریض والاحکم ہوگا؟

تمام مراجع کرام:نہیں!جب بھی اس میں طاقت پیدا ہو جائے گی اسے روزوں کی قضا کرنی پڑیگی

۱۔توضیح المسائل مراجع،مسئلہ ۱۷۲۸؛دفتر:آیةاللہ خامنہ ای

۲۔توضیح المسائل مراجع،م۱۷۲۸

۳۔ایضاً،مسئلہ ۱۷۲۸؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید، مسئلہ۱۷۳۶

۴۔ توضیح المسائل،آیةاللہ صافی، مسئلہ۱۷۲۸

۵۔توضیح المسائل مراجع،م۱۷۲۸؛ العروة الوثقی، ج۲، فصل۱۱

اور اسکا حکم مریض کا حکم نہیں ہوگا۔(۱)

دودہ پلانے والی عورت کا روزہ

سوال (۱۱۲):دودہ پلانے والی عورت کی ذمہ داری کیا ہے؟

آیات عظام امام خمینی،خامنہ ای اور نوری:اگر روزہ رکھنے سے اس کے دودہ میں کمی یا پھر بچہ کی پریشانی کا سبب ہو جائے تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے اور پہلی صورت میں(دودہ میں کمی کا سبب ہو تو)ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دے اور دوسری صورت (بچہ کی پریشانی کا سبب ہو تو)میں یہ عمل احتیاط واجب کی بناپر انجام دینا ہوگا اور دونوں صورتوں میں روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔(۲)

آیات عظام بہجت، سیستانی اور فاضل:اگر روزہ رکھنا اسکے دودہ میں کمی،بچہ کی پریشانی یا پھر خود اسکے لئے نقصان کا سبب ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے اور اسے ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دینا ہوگا اور ہر صورت میں اسے روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔(۳)

آیات عظام تبریزی،صافی،مکارم اور وحید:اگر روزہ رکھنا اسکے دودہ میں کمی اور بچہ کی ناراضگی یا پھر خود اس کے لئے ضرر کا سبب ہو تو روزہ اس پر واجب نہیں ہے اور پہلی صورت(دودہ میں کمی)میں ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دے اور ہر صورت میں روزوں کی قضا کرے۔(۴)

۱۔ وسیلة النجاة ،آیةاللہ بہجت، ج۱، مسئلہ۱۱۵۷؛استفتاء ات، آیةاللہ مکارم،ج۲، سوال۴۴۳؛ اجوبة الاستفتاء ات، آیةاللہ خامنہ ای ،مسئلہ۷۴۷، و دفاتر:تمام مراجع کرام

۲۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ۱۷۲۹؛دفتر :آیةاللہ خامنہ ای

۳۔ توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۷۲۹

۴۔ایضاً، مسئلہ ۱۷۲۹؛ توضیح المسائل،آیةاللہ وحید،مسئلہ۱۷۳۷

حائضہ عورت

سوال(۱۱۳):اگر حائضہ ماہ رمضان میں ،اذان صبح سے قبل حیض سے پاک ہوجائے تو اسکی ذمہ داری کیا ہے؟

تمام مراجع کرام:اگر اس کے پاس غسل کرنے کا وقت ہو تو غسل کرے اور اگر وقت کم ہو تو تیمم کرے اور ایسی صورت میں اسکا روزہ صحیح ہوگا۔اگر عمداًغسل یا تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے اور اسے کفارہ ادا کرنا ہوگا۔(۱)

سوال (۱۱۴):اگر ایک روزہ دار عورت دن میں خون حیض دیکھے تو اب ایسی صورت میں اس کے روزہ کا کیا حکم ہے؟

تمام مراجع کرام:اسکا روزہ باطل ہو جاتا ہے اور اسے ماہ رمضان کے بعد قضا کرنی ہوگی۔(۲)

سوال(۱۱۵):اگر حائضہ عورت ،ماہ رمضان میں غسل حیض فراموش کر دے اور ایک یا کچھ دنوں بعد اسکی طرف متوجہ ہو تو کیا اسے اپنے روزوں کی قضا کرنی ہوگی؟

آیةاللہ مکارم کیعلاوہ تمام مراجع کرام:نہیں!اسکے روزے صحیح ہیں اور انکی قضا نہیں ہے۔ (۳)

آیةاللہ مکارم:احتیاط واجب کی بنا پر اسے روزوں کی قضا کرنی چاہئے۔(۴)

آیةاللہ بہجت:اسے روزوں کی قضا کرنی چاہئے۔(۵)

نوٹ:بہتر ہے کہ مذکورہ صورت میں روزوں کی قضا کرے۔

۱۔ توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۶۳۷؛ توضیح المسائل،آیةاللہ وحید، مسئلہ۱۶۴۵؛ العروة الوثقیٰ، ج۲، المفطرات۵۵، الفصل السادس

۲۔ توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۶۴۰؛ توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید، مسئلہ۱۶۴۸

۳۔ توضیح المسائل مراجع،مسئلہ۱۶۴۱؛توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید،مسئلہ۱۶۴۹

۴۔ تعلیفات علیٰ العروة، آیةاللہ مکارم،المفطرات، م۵۰

۵۔دفتر:آیةاللہ بہجت

حائضہ عورت کی روزہ کے لئے نذر

سوال(۱۱۶):ایک خاتون نے ماہ شعبان کے شروع کے چند دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر کی تھی لیکن انہیں دنوں میں اسکی عادت شروع ہو گئی تو ایسی صورت میں اسکی ذمہ داری کیا ہے؟

آیات عظام فاضل،مکارم اور وحیدکے علاوہ تمام مراجع کرام:اگر ا س نے نذر کے لئے شرعی صیغہ پڑھے ہوں تو اسے اپنی عادت کے دنوں میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور بعد میں ان روزوں کی قضا بجا لانی چاہئے۔(۱)

آیات عظام فاضل،مکارم اور وحید:اگر اس نے شرعی صیغہ پڑھا ہو تو اسے عادت کے دنوں میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور احتیاط واجب کی بنا پر بعد میں ان کی قضا انجام دینی چاہئے۔(۲)

عورت کا اپنی عادت روکنا

سوال(۱۱۷):اگر عادت کے دنوں میں اس سے بچنے کے ٹیبلٹ یا انجکشن سے استفادہ کیا جائے تو کیا روزہ صحیح ہوگا؟

تمام مراجع کرام:اگر عادت نہ شروع ہو تو اسکا روزہ صحیح ہوگا۔(۳)

روزہ اور بلوغ

سوال۱۱۸:جسے نہیں معلوم کہ جوانی کے دنوں میں جو روزے اس نے نہیں رکھے ہیں،وہ بلوغ سے قبل تھے یا بعد میں ،تو کیا انکی قضا واجب ہے؟

۱۔ توضیح المسائل مراجع،م۲۶۵۷؛ استفتاء، آیةاللہ خامنہ ای،س ۱۰۹۷

۲۔توضیح المسائل مراجع، م۲۶۵۷؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید، مسئلہ۲۷۲۱

۳۔استفتاء ات ،امام خمینی، ج۱، س۳۹؛ جامع المسائل،آیةاللہفاضل ، ج۱، س ۵۶۳؛جامع الاحکام، آیةاللہ صافی،ج۱، ،س۵۱۲؛ دفاتر: تمام مراجع کرام

تمام مراجع کرام:اگر نہیں جانتا تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔(۱)

کمسن بچیوں کا روزہ

سوال۱۱۹:وہ لڑکی جو بالغ ہو چکی ہے لیکن بدن کی کمزوری کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتی اور انکی قضا بھی آئندہ دو برس تک نہیں انجام دے سکتی تو اسکی ذمہ داری کیا ہے؟

آیات عظام مکارم اور تبریزی کے علاوہ تمام مراجع کرام:اگر روزہ رکھنا اس کے لئے مضر ہو یا یہ کہ اس کا برداشت کرنا ا سکے لئے بہت زیادہ زحمت ومشقت کا سبب ہو تو روزہ اس پر واجب نہیں ہے ۔لیکن ان روزوں کا صرف بعض مشکلات کی بنا پر ترک کرنا جائز نہیں ہے اور جب بھی ممکن ہو اسے ان روزوں کی قضا بجا لانی چاہئے۔(۲)

آیةاللہ مکارم:مذکورہ صورت میں اس پر روزہ واجب نہیں ہے اور ہر دن کے بدلہ اسے ایک مد طعام دینا چاہئے اور ان روزوں کی قضا بھی اس پر واجب نہیں ہے۔(۳)

آیةاللہ تبریزی:اگر روزہ رکھنا اس کے لئے مضر ہو یا پھر اس کا برداشت کرپانا اسکے لئے بہت زیادہ زحمت ومشقت کا سبب ہو تو روزہ واجب نہیں ہے اور اگر آئندہ برس ماہ رمضان تک اس کا عذر ختم ہو جائے تو انکی قضا بجا لائے اور اگر انجام نہ دے سکے تو ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام(تقریباً دس سیر)فقیر کو دے اور روزہ کی قضا ضروری نہیں ہے لیکن اگر فدیہ اس کے لئے ممکن نہ ہو تو جب بھی ممکن ہو تو ان روزوں کی قضا کرے۔(۴)

۱۔استفتاء ات، امام خمینی ،ج۱، روزہ ،س۳۸؛ دفاتر:تمام مراجع کرام

۲۔استفتاء ات، امام خمینی،ج۱، روزہ، س۷۶و۸۸؛اجوبة الاستفتاء ات،آیةاللہ خامنہ ای، س۷۳۱،۷۳۲، جامع المسائل، آیةاللہ فاضل، ج۱،س۵۶۸؛صافی، جامع الاحکام، ج۱، س۴۹۱، ۴۹۸، دفاتر:آیات عظام نوری، بہجتاور وحید

۳۔ استفتاء ات، آیةاللہ مکارم،ج۲، س۴۳۹

۴۔ صراط النجاة ، آیةاللہ تبریزی،ج۲، س۴۵۸و۱۵۱۹

قضا اور کفارہ

روزے کی قضا

سوال (۱۲۰) : کیا ماہ رمضان کے روزے کی قضا اور کفارہ پے درپے انجام دینا چاہئے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: روزوں کی قضا پے در پے بجا لانا ضروری نہیں ہے لیکن کفارہ میں ( دو مہینہ کے روزے رکھنے کو اختیار کرے تو) اسے ایک مہینہ ایک دن مسلسل روزے رکھنے چاہئے ۔ (۱)

نکتہ : آیة اللہ مکارم شیرازی کے نزدیک کفارہ کے روزے کو پے درپے رکھنا احتیاط واجب کی بنا پر ہے ۔

روزے کی قضا میں تاخیر

سوال ۱۲۱ : بیماری کی بنا پر ماہ رمضان کے روزے نہ رکھنے والا شخص اگر اسکی قضا کئی سال تک نہ انجام دے تو کیا حکم ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: اگر وہ وسط سال میں مرض سے شفا پا گیا ہو توا سے ان روزوں کی قضا کرنی چاہئے اور اگر اس نے اس سال قضا نہ کر کے آئندہ برس پر چھوڑ دیا ہو تو اسے روزے کی قضا کے علاوہ ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام (غلہ )فقیر کو دینا ہوگا لیکن اگلے سال تک بیماری باقی رہنے کی صورت میں ( اس طرح کہ وہ روزے کی قضا نہ انجام د ے سکے) اسے ہر دن کے بدلے فقط ایک مد طعام فقیر کو دینا ہوگا۔ (۲)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۶۶۱ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۶۶۹ ؛ العروة الوثقی،ٰ ج۲ ،صوم الکفارة، مسئلہ ۱ ؛ احکام القضاء ، مسئلہ ۲

۲۔ توضیح المسائل مراجع، ۱۷۰۵ ،۱۷۰۹ ؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحیدخر اسانی ، مسئلہ ۱۷۱۳ ، ۱۷۱۷

روزے کی قضا کا بھول جانا

سوال ۱۲۲: میں نے ماہ رمضان کے کچھ روزے نہیں رکھے ہیں لیکن ان روزوں کی تعداد میں بھول گیا ہوں ، اب میری کیا ذمہ داری ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: آپ کم ازکم مقدار پر اکتفا کر سکتے ہیں یعنی روزوں کی وہ تعداد کہ جسکے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اس سے کم نہیں تھی ، اسکی قضا کر یں اور اس سے زیادہ کی قضا ضروری نہیں ہے ۔ (۱)

بیمار کے روزے کی قضا

سال ۱۲۳ : جس شخص نے ماہ رمضان کے روزے کی قضا میں سستی کی ہو اور اب بیماری کی بنا پر وہ اس کی قضا نہیں کر سکتا تو اسکا کیاحکم ہے؟

جواب : آیة اللہ سیستانی کیعلاوہ تما م مراجع کرام : اگر روزوں کی قضا میں سستی کی ہو اور اب آئندہ ماہ رمضان تک ان روزوں کی قضا سے قاصر ہو تو اسے ہر دن کے بدلے ایک مد طعام فقیر کو دینا چاہئے اور جب کبھی بھی روزہ رکھنے کی طاقت اسکے اندر پیدا ہو جائے اسے ان روزو ں کی قضابھی کرنی پڑیگی ۔ (۲)

آیة اللہ سیستانی : اگر روزوں کی قضا میں سستی کی ہو اور اب آئندہ ماہ رمضان تک روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو اسے احتیاط واجب کی بنا پر ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دینا پڑیگا اور بیماری سے افاقہ کے بعد روزوں کی قضا کرنی ہوگی ۔ (۳)

۱۔ العروة الوثقی ٰ ، ج۲ ، احکام القضا ، مسئلہ ۶

۲ ۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۷۰۶ ؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۷۱۴ ؛ وسیلة النجاة، آیة اللہ بہجت، ج۱ مسئلہ ۱۱۷۳ ؛دفتر : آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ توضیح المسائل مراجع ، آیة اللہ سیستانی، مسئلہ ۱۷۰۶

قضاروزے کا توڑنا

سوال( ۱۲۴) : کیا قضا روزہ رکھنے والا انسان کسی بنا پر اپنا روزہ توڑ سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : ظہر سے پہلے اس کام کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ظہر کے بعد اسکا یہ عمل جائز نہیں ہوگا اور ایسا کرنے کی صورت میں اسے کفارہ دینا ہوگا ار اس کفارہ کی مقدار دس مد طعام فقیر کو ( ہر ایک کو ایک مد ) دینا ہوگا۔ (۱)

روزے دار کی نماز کی قضا

سوال (۱۲۵): اگرکسی روزے دار کی نماز قضا ہو جائے تو کیا اسکا روزہ صحیح ہوگا ؟

جواب: تمام مراجع کرام: ہاں ! اسکا روزہ صحیح ہے لیکن اسے اپنی نماز کی قضا کرنی ہوگی ۔ (۲)

ما فی الذمہ روزہ

سوال (۱۲۶): جس شخص کو اپنے بارے میں قضا روزے رکھنے کا علم نہ ہو تو کیا وہ ما فی الذمہ روزہ رکھ سکتا ہے؟ یعنی وہ نیت کر ے کہ اگر قضا روزہ اسکے ذمہ تھا اسے بجا لا تا ہے اور اگر قضا اسکے ذمہ نہ تھی تو یہ روزہ اسکا مستحبی روزہ شمار ہو؟

جواب : تمام مراجع کرام: ہاں ! اس نیت سے روزہ رکھ سکتا ہے ۔ (۳)

باپ کے قضا روزے

سوال (۱۲۷): اگر کسی شخص کا باپ خد اکی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ رکھے اور مر جائے تو اسکے بیٹے کی ذمہ داری کیا ہے ؟

۱۔ العروة الوثقی، ج۲ ، الفصل السادس ، فیما یوجب القضا و الکفارة، مسئلہ ۱؛ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۶۸۷

۲۔ دفاتر:تمام مراجع کرام

۳۔ العروة الوثقی ،ج۲، نیة الصوم

امام خمینی ، آیة اللہ نوری ہمدانی : اگر اسکا باپ ان روزوں کی قضا کر سکتا تھا تو اسکے بڑے بیٹے پر انکی بجا آوری واجب ہے یا یہ کہ اپنے باپ کی طرف سے کسی دوسرے کو وہ اجیر بنائے ۔ (۱)

آیة اللہ سیستانی اور آیت للہ وحید خراسانی : اگر اسکا باپ ان روزوں کی قضا کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی بنا پر اسکے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ انکی قضا کرے یا کسی کو اسکے لئے اجیر بنائے ۔ (۲)

آیات عظام بہجت ، خامنہ ای ، فاضل لنکرانی ، صافی گلپایگانی : احتیاط واجب کی بنا پر اسکے بڑے بیٹے پر اسکی بجا آوری واجب ہے یا یہ کہ ا سکی طرف سے کسی کو اجیر بنائے گر چہ اسکا باپ روزوں کی قضا نہیں کر سکتا تھا ۔ (۳)

آیة اللہ مکارم شیرازی : بڑے بیٹے پر انکی بجا آوری واجب نہیں ہے لیکن اگر اسکا باپ ان روزوں کی قضا کر سکتا تھا تو احتیاط مستحب کی بنا پر وہ اپنے والد کے قضا روزے رکھے یا یہ کہ انکی طرف سے کسی کو اجیر بنائے ۔(۴)

آیة اللہ جواد تبریزی : اگر اسکا باپ روزوں کی قضا کر سکتا تھا تو احتیاط واجب کی نبا پر بڑے بیٹے پر ( جب تک اسکے لئے زحمت و مشقت کا سبب نہ ہو ) اسکی بجا آوری واجب ہے یا یہ کہ اسکے لئے کسی کو اجیر بنائے ۔ (۵)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۳۹۰، ۱۷۱۲

۲۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۳۹۰،۱۷۱۲ ؛توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۳۹۸ ،۱۷۲۰

۳۔ توضیح المسائل مراجع ، آیة اللہ صافی گلپایگانی ، آیة اللہ فاضل لنکرانی، مسئلہ ۱۳۹۰، ۱۷۱۲ ؛ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت، ج۱، مسئلہ ۹۱۶، ۱۱۷۷؛ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۵۴۷

۴۔ توضیح المسائل مراجع ، آیة اللہ مکارم شیرازی ، مسئلہ ۱۳۹۰، ۱۷۱۲

۵۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ جواد تبریزی، مسئلہ ۱۳۹۰، ۱۷۱۲

سوال(۱۲۸): اگر بڑے بیٹے کو اس بارے میں شک ہو کہ اسکے باپ کے قضا روزے بچے ہیں یا نہیں تو اسکی ذمہ داری کیا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : مذکورہ صورت میں بڑے بیٹے پر کچھ بھی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔ (۱)

سوال (۱۲۹) : میرے والد کے چند برس کے قضا روزے تھے ، مجھے نہیں معلوم انہوں نے ان روزوں کی قضا کی تھی یا نہیں ،انھوں نے اس بارے میں وصیت بھی نہیں کی ہے ایسی صورت میں اس گھر کے بڑے بیٹے کی ذمہ داری کیا ہے ؟

جواب : آیة اللہ فاضل لنکرانی  اور آیة اللہ مکارم شیرازی کیعلاوہ تمام مراجع کرام : اگر بڑے بیٹے کو اس بات کا یقین تھا کہ اسکے باپ کے ذمہ قضا روزے تھے تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے انہیں انجام دینا چاہئے ۔ (۲)

آیة اللہ فاضل لنکرانی : اگر بڑے بیٹے کو اس بات کا یقین تھا کہ اسکے باپ کے ذمہ قضا روزے تھے تو اسے ان روزوں کی قضا کرنی چاہئے ۔ (۳)

آیة اللہ مکارم شیرازی : بڑے بیٹے پر کچھ بھی واجب نہیں ہے ۔ صحت پر بنا رکھتے ہوئے کہنا چاہئے کہ اسکے باپ نے روزوں کو رکھا ہے ۔ (۴)

سوال ۱۳۰: اگر باپ کے انتقال کے بعد بڑا بیٹا بھی مر جائے تو کیا باپ کے قضا روزے دوسرے بیٹوں پر واجب ہو جاتے ہیں ؟

۱۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۳۹۱ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۳۹۹

۲۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۳۹۲؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۴۰۰ ؛ دفتر :آیة اللہ بہجت و آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ سیستانی، مسئلہ ۱۳۹۳؛ تعلیقات علیٰ العروة ،ج۲ ،احکام القضا ،مسئلہ ۲۵

۴۔ تعلیقات علیٰ العروة ، آیة اللہ مکارم شیرازی ، احکام القضا ، مسئلہ ۲۵ ؛ استفتاء ات ، ج۳، سوال ۲۶۱

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! باقی بیٹوں پر کچھ بھی ذمہ داری نہیں ہے ۔ (۱)

سوال ۱۳۱: اگر بڑ ابیٹا باپ کے قضا روزوں کو نہیں رکھتا تو کیا تمام بیٹوں کی کچھ ذمہ داری ہے ؟

جواب :تمام مراجع کرام: نہیں ! باقی بیٹوں پر کچھ بھی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔(۲)

سوال ۱۳۲: کیا بڑا بیٹا اپنے والد کے انتقال کے بعد انکے قضا روزوں کے لئے کسی کو اجیر بنانے کی صورت میں خود انکے ترکہ سے پیسہ خرچ کر سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! بڑے بیٹے کو خود انکے قضا روزے رکھنے چاہئیں یا پھر اپنے مال سے کسی کو اجیر بنانا چاہئے ۔ اسے میت کے ترکہ سے خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر یہ کہ خود میت نے اس سلسلہ میں وصیت کی ہو ۔ (۳)

سوال(۱۳۳): باپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اگر بیٹوں کو اس بات کا علم نہ ہو کہ انکے والد کے ذمہ قضا روزے تھے یا نہیں تو انکی ذمہ داری کیا ہے ؟

جواب : تمام مراجع: مذکورہ صورت میں ان پر کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے ۔ (۴)

۱۔ تعلیقات علیٰ العروة ، آیات عظام امام خمینی ، نوری ہمدانی ، مکارم شیرازی ج۲ ، قضا ء الولی ، مسئلہ ۳ ؛ اجوبة الاستفتاء ات آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۵۴۶؛منھاج الصالحین، آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی ، وحید خراسانی ، مسئلہ ۷۴۳ ؛ تعلیقات علیٰ العروة ، آیة اللہ فاضل لنکرانی ، ج۱ ،قضا ء الولی ،مسئلہ ۳ ؛توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۳۹۸؛ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت ج۱ ،مسئلہ ۹۱۷ ؛ ہدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱، مسئلہ ۹۹۲

۲۔ تعلیقات علیٰ العروة ،آیات عظام امام خمینی ، نوری ہمدانی ، مکارم شیرازی ،ج۲ ،قضا ء الولی ، مسئلہ ۳ ؛ اجوبة الاستفتاء ات سوال ۵۴۶ ؛ منھاج الصالحین ، آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی وحید خراسانی، مسئلہ ۷۴۳؛ تعلیقات علیٰ العروة،آیة اللہ فاضل لنکرانی  ، ج۱، قضا ء الولی، مسئلہ ۳؛، توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۳۹۸؛ وسیلة النجاة، آیة اللہ بہجت ، ج۱ ،مسئلہ ۹۱۷ ،؛ہدایة العباد ، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱، مسئلہ ۹۹۲

۳۔ العروة الوثقیٰ ،ج۱، قضاء الولی ،مسئلہ ۱۰ ؛ دفتر :تمام مراجع کرام  ۴۔ العروة الوثقی ٰ، ج۲ ،احکام القضاء ،مسئلہ ۲۳

سوال ۱۳۴: ایک ایسا شخص جسے خود اپنے بھ ی قضا روزے رکھنے ہوں اور اپنے مرحوم باپ کے بھی تو ان میں سے کس کو پہلے انجام دینا واجب ہے ؟

جواب : تمام مراج عکرام : اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دونوں واجب ہیں لہذا ان دونوں کے درمیان کوئی ترتیب نہیں ہے ۔ (۱)

باپ کا روزہ اور بیٹی

سوال (۱۳۵): اگر باپ کی اولاد میں صرف بیٹیاں ہوں تو کیا اسکی وفات کے بعد اسکے قضا روزے بڑی بیٹی پر واجب ہونگے ؟

جواب : آیة اللہ صافی گلپایگانی کے علاوہ تمام مراجع کرام: نہیں ! واجب نہیں ہے ۔ (۲)

آیة اللہ صافی گلپایگانی : اگر اولاد میں بیٹے نہ ہوں تو احتیاط واجب کی بنا پر میت کے وارثین میں سے اس مرد کو اسکے روزوں کی قضا کرنی ہوگی جو سب سے بڑا ہو اور مرد نہ ہونے کی صورت میں اس عورت پر ان روزوں کی قضا واجب ہے جو ان میں سب سے بڑی ہے ۔ (۳)

ماں کے قضا روزے

سوال (۱۳۶): کیا ماں کے قضا روزے بھی بڑے بیٹے پر واجب ہوتے ہیں ؟

جواب: آیات عظام امام خمینی  ، جواد تبریزی ، سیستانی اور وحید خراسانی : نہیں!

۱۔ العروة الوثقیٰ، ج۱، احکام القضا، مسئلہ ۱۰

۲۔ تعلیقات علیٰ العروة ،آیات عظام امام خمینی  ، نوری ہمدانی ، مکارم شیرازی ، فاضل لنکرانی، ج۲، قضاء الولی ؛ منھاج الصالحین، آیات عظام سیستانی ، وحید خراسانی ، جواد تبریزی  ، مسئلہ ۱۷۳۷ ؛ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت، ج۱ ،مسئلہ ۹۱۷؛ دفاتر: آیة اللہ نوری ہمدانی و آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ ہدایة العباد،آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱، مسئلہ ۹۹۱

واجب نہیں ہیں ۔ (۱)

آیات عظام بہجت ، صافی گلپایگانی ، فاضل لنکرانی  ، نوری ہمدانی : احتیاط واجب کی بنا پر انجام دینا چاہئے ۔ (۲)

آیة اللہ مکارم شیرازی : اگر خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے روزے قضا نہیں ہوئے تھے اور وہ انکی قضا کرنے پر قادر بھی تھیں، تو بڑے بیٹے پر ان روزوں کی بجا آوری واجب ہے ۔ لیکن اگر نافرمانی کی بناپر تھے ،تو واجب نہیں ہے ۔ (۳)

آیة اللہ خامنہ ای : ہاں ! واجب ہے ۔ (۴)

اجارہ کا روزہ

سوال (۱۳۷) : ایک شخص کے کچھ روزے قضا ہوئے ہیں اور وہ انکی قضا کرنے پر قادرنہیں ہے تو کیاا س صورت میں وہ کسی کو اجیر بنا سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! روزہ رکھنے کے لئے کسی دوسرے کو اپنی زندگی میں ہی اجیر بنانا جائز نہیں ہے اور جب بھی وہ روزہ رکھنے کے قابل ہو اسے رکھنے چاہئے ۔ (۵)

سوال (۱۳۸): جس شخص کے ذمہ قضا روزے ہوں کیا وہ اجرت پر دوسروں کے روزے رکھ سکتا ہے ؟

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۳۹۰ ، ۱۷۱۲ ؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۳۹۸، ۱۷۲۰

۲۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۱۳۹۰ ، ۱۷۱۲ ؛ وسیلة النجاة، آیة اللہ بہجت، ج۱ ، مسئلہ ۹۱۶ ، ۱۱۷۷

۳۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۳۹۰، ۱۷۱۲

۴۔ اجوبة الاستفتاء ات ،آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۵۴۲

۵۔ العروة الوثقیٰ، ج۱، صلاة الاستیجار

جواب : تمام مراجع کرام: ہاں ! کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۱)

سوال (۱۳۹): کیامریض کے اورجان بوجھ کر روزہ باطل کرنے والے کے کفارہ میں کوئی فرق ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: ہاں ! دو جگہ پر ان دونوں میں فرق ہے (۱) مقدار میں (۲) مصرف میں ۔ جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے کی صورت میں ہر دن کے بدلے ساٹھ فقیروں کو سیر کرے ( یا ہر ایک کو ایک مد طعام دے ) یا یہ کہ دو مہینہ روزہ رکھے لیکن مریض کا مرض آئندہ ماہ رمضان تک جاری رہنے کی صورت میں اسے ہر دن کے بدلہ ایک مد طعام دینا ہوگا۔

جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی صورت میں اگر وہ ساٹھ فقیروں تک رسائی رکھتا ہے تو ان میں سے ہر ایک کو ایک مد طعام سے زیادہ نہیں دے سکتا ہے لیکن مریض کے کفارہ میں یہ ضروری نہیں ہے ۔ (۲)

کفارہ میں تاخیر

سوال (۱۴۰): جو شخص روزہ کا کفارہ ادا کرنے میں چند برس تاخیر کرے تو کیا اسکی مقدار میں کچھ اضافہ ہو جائیگا ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! اس میں کچھ اضافہ نہیں ہوگا ۔(۳)

سوال(۱۴۱): کسی کے ذمہ روزہ کا کفارہ ہے ، کیا وہ اسکی ادائیگی میں تاخیر کر سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : ہاں! کفارہ کا اداکرنا فوراً واجب نہیں ہے لیکن اسکی ادائیگی میں سستی اور کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔ (۵)

۱۔ تعلیقات علی العروة ،آیات عظام امام خمینی  ، نوری ہمدانی، مکارم شیرازی،ج۲، احکام القضا ء ، مسئلہ ۱۰ ؛ منھاج الصالحین ،آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی ، وحید خراسانی، ۱۰۳۵ ؛ دفاتر: آیات عظام خامنہ ای ، بہجت اور صافی گلپایگانی

۲۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۶۰، ۱۷۰۳، ۱۷۰۳،۱۷۰۸

۳۔ العروة الوثقیٰ ، ج۲ ، الصوم ، الفصل السادس ،مسئلہ ۲۱

۵۔ العروة الوثقیٰ ج۲ ، الصوم ، الفصل السادس ،فی ماتعلیق بالکفارة ، مسئلہ۲۲

کفارہ کا مصرف

سوال( ۱۴۲):کیا واجب النفقة افراد کو روزے کا کفارہ دیا جا سکتا ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! روزہ کا کفارہ واجب النفقة افراد کو نہیں دیا جا سکتا ہے لیکن اعزاء و اقرباء کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۲)

کفارہ کی رقم

سوال (۱۴۳): کیا کفارہ کی رقم بھی فقیر کو دی جا سکتی ہے ؟

جواب : تمام مراجع : کفارہ کی رقم فقیر کو دینا کافی نہیں ہے ( چاہے مریض کا کفارہ ہو یا جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے کا کفارہ ہو ) لیکن اگر اس بات کا یقین ہو کہ فقیر اس کی طرف سے کھانا کھائے گا اور وہ اسے کفارہ کے عنوان سے قبول کر لے گا تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۳)

۲۔ تحریر الوسیلة، امام خمینی، ج۲، الکفارات، مسئلہ ۱۸ ؛ ہدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۲ ،الکفارات ،مسئلہ ۱۸ ؛ استفتاء ات،آیة اللہ مکارم شیرازی،ج۱ ،سوال ۲۹۶ ؛ منھاج الصالحین ،آیة اللہ جواد تبریزی  ،آیة اللہ وحید خراسانی ،الکفارات، ۱۵۸۰؛ منھاج الصالحین ، آیة اللہ سیستانی، ج۳، مسئلہ ۷۷۳ ؛ دفاتر :آیات عظام خامنہ ای ، نوری ہمدانی ، بہجت اور فاضل لنکرانی

۳۔ منھاج الصالحین ، آیة اللہ سیستانی، ج۳ ، مسئلہ ۷۷۶؛ ہدایة العباد ، آیة اللہ صافی گلپائیگانی،ج۲، الکفارات ، مسئلہ ۲۰ ؛ تحریر الوسیلة، امام خمینی، ج۲، الکفارات، مسئلہ ۲۰ ؛ اجوبة الاستفتاء ات ،آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۰۱؛استفتاء ات،آیة اللہ مکارم شیرازی ،ج۱ ،سوال ۲۹۱؛دفاتر: آیات عظام فاضل لنکرانی  ، وحید خراسانی ، جواد تبریزی  ، بہجت 

امدادی کمیٹی اور خیراتی ادارے

سوال( ۱۴۴): کیا کفارہ کی رقم امدادی کمیٹیوں کو دینا کافی ہے ؟

جواب : تمام مراجع: اگر اس بات کا یقین ہو کہ اس قسم کی کمیٹیاں کفارہ کی رقم شرعی شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے فقیروں کے کھانے کے لئے خرچ کریں گی، تو کافی ہوگا۔ (۱)

سادات اور کفارہ

سوال(۱۴۵): کیا غیر سید روزے کا کفارہ سید کو دے سکتا ہے ؟

جواب: آیة اللہ صافی گلپایگانی کے علاوہ تمام مراجع کرام :ہاں ! اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر ( احتیاط مستحب کی بنا پر ) ہے کہ سید کو نہ دے ۔ (۲)

آیة اللہ صافی گلپایگانی : احتیاط واجب کی بنا پر غیر سید روزہ کاکفارہ سیدکو نہیں دے سکتا ہے ۔ (۳)

کفارہ اور سماجی امور

سوال ۱۴۶: کیا روزہ کا کفارہ سماجی امور ،مثلاً شادی کے جشن یا اس طرح کے دیگر امور میں خرچ کیا جا سکتا ہے ؟

۱۔ منھاج الصالحین، آیة اللہ سیستانی، ج۳ ،مسئلہ ۷۶۶ ؛ ھدایة العباد ، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۲، الکفارات ،مسئلہ ۲۰ ؛ تحریر الوسیلة ، امام خمینی  ،ج۲ ،الکفارات ،مسئلہ ۲۰ ؛اجوبة الاستفتاء ات،آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۸۰۱ ، استفتاء ات ، آیة اللہ مکارم شیرازی، ج۱ ،سوال ۲۹۱؛ دفاتر :آیات عظام فاضل لنکرانی  ، وحید خراسانی ، نوری ہمدانی، جواد تبریزی  ، بہجت 

۲۔ تحریر الوسیلة ، امام خمینی ،ج۲، الصدقة ،مسئلہ ۳ ؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ جواد تبریزی  ، آیة اللہ وحید خراسانی ، الصدقة، مسئلہ ۱۲۲۳ ؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ سیستانی، ج۲ ،مسئلہ ۱۶۰۴ ؛ جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی ، ج۱ ،سوال ۶۰۲

۳۔ ھدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۲، الصدقة ،مسئلہ ۳

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! کفارہ کا ان امور میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کفارہ سے فقیروں کو کھانا کھلانا چاہئے ۔ (۱)

کفارہ کی ادائیگی سے عاجزی

سوال( ۱۴۷): جس شخص نے جان بوجھ کر روزہ باطل کیا ہے اگر اس کے لئے اسکا کفارہ ادا کرنا ممکن نہ ہو ( یعنی بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا اورمالی اعتبار سے بھی اتنا مضبوط نہیں ہے ) تو اسکی ذمہ داری کیا ہے ؟

جواب:آیات عظام جواد تبریزی  ، خامنہ ای ، صافی گلپایگانی اور وحیدر خراسانی کے علاوہ تمام مراجع کرام: جس مقدار میں بھی اسکے اندر استطاعت ہو ، فقیر کو مد طعام دے اور اگر اس مقدار کو دینا بھی اسکے لئے ممکن نہ ہو تو اسے کم ازکم ایک با ر ” استغفر اللہ “ کہہ کر استغفار کرناچاہئے ۔ (۲)

آیة اللہ صافی گلپایگانی : استطاعت بھر فقیر کو مد طعام دے اور استغفار کرے اور اگر اس مقدار کو دینا بھی اسکے لئے ممکن نہ ہو توکم ازکم ایک با ر ” استغفر اللہ “ کہہ کر استغفار کرنا چاہئے ۔ (۳)

آیة اللہ جواد تبریزی  ، آیة اللہ وحید خراسانی: احتیاط واجب کی بنا پر استطاعت بھر فقیر کو مد طعام دے اور استغفار کرے اور اگر اس مقدار کو بھی دینے سے عاجز ہو تو کم ازکم ایک با ر ” استغفر اللہ “ کہہ کر استغفار کرے ۔ (۴)

۱۔العروة الوثقیٰ، ج۲، فیما یتعلق بالکفارة ، مسئلہ ۲۴

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۶۰

۳۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ صافی گلپایگانی ، مسئلہ ۱۶۶۰

۴۔ توضیح المسائل مراجع ، آیة اللہ جواد تبریزی  ، مسئلہ ۱۶۶۰؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ ۱۶۶۸

آیة اللہ خامنہ ای : استطاعت بھر فقیر کو مد طعام دے اور احتیاط کی بنا پر استغفار بھی کرے اور اگر اس مقدار کو بھی دینے سے عاجز ہو تو ایک با ر ” استغفر اللہ “ کہہ کر استغفار کرے ۔(۱)

سوال ۱۴۸ : ایک شخص اس وقت جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے کا کفارہ نہیں ادا کر سکتا ہے تو آئندہ زمانہ میں استطاعت ہونے پر کیا اسے کفارہ ادا کرنا پڑیگا؟

جواب :آیة اللہ خامنہ ای اور آیة اللہ مکارم شیرازی کیعلاوہ تمام مراجع کرام: احتیاط واجب کی بنا پر استطاعت ہونے پر اسے کفارہ ادا کرنا چاہئے ۔ (۲)

آیة اللہ خامنہ ای اور آیة اللہ مکارم شیرازی : اسکے ذمہ اب کچھ نہیں ہے اور کفارہ اداکرنا اسکے لئے واجب نہیں ہے ۔ (۳)

بیوی کے روزہ کا کفارہ

سوال ۱۴۹: عورت کے روزے کا کفارہ شوہر پر واجب ہوگا یا خود عورت پر؟

جواب: تمام مراجع کرام: عورت کے روزہ کا کفارہ خود اسے ادا کرنا ہوگا ۔(۴)

اولاد کے روزے کاکفارہ

سوال ۱۵۰: جان بوجھ کر روزہ باطل کرنے والے شخص کے ذمہ کفارہ ہے ، لیکن کوئی ذریعہٴ معاش نہیں ہے اور باپ کی کفالت میں ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا کس پر واجب ہے ؟

۱۔اجوبة الاستفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۸۱۱

۱۔توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۶۰؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۶۶۸

۲۔ توضیح المسائل مراجع، آیة اللہ مکارم شیرازی ، مسئلہ ۱۶۶۰؛ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۸۱۲

۳۔ جامع المسائل ،آیة اللہ فاضل لنکرانی،  ج۲ ،سوال ۱۳۱۳؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ سیستانی ،ج۳ ،مسئلہ ۴۳۸ اور دفاتر: تمام مراجع

جواب:آیة اللہ خامنہ ای اور آیة اللہ مکارم شیرازی کے علاوہ تمام مراجع کرام: احتیاط واجب کی بنا پر استطاعت ہونے پر خود اسے کفارہ ادا کرنا چاہئے ۔ کفارہ ادا کرنا اسکے باپ کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ (۱)

آیة اللہ خامنہ ای اور آیة اللہ مکارم شیرازی : اس سے ذمہ داری ساقط ہے اور کفارہ کی ادائیگی اس پر واجب نہیں ہے اور اسکے باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے ۔ (۲)

جان بوجھ کر روزہ چھوڑنا

سوال۱۵۱: جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے والے والے کا کیا حکم ہے ؟

جواب: جتنے روزے نہ رکھے ہوں ، انکی قضا کرے اوراسکے علاوہ ہر دن کے بدلہ کفارہ بھی دے یعنی دو مہینہ روزہ رکھے ، یا ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے یا ہر ایک کو ایک مد(تقریباً دس سیر ) طعام (گیہوں ، جو یا اسی قسم کی دوسری چیز ) دے ۔ (۳)

سوال۱۵۲: کیا جان بوجھ کر (ماہ رمضان میں )بر سر عام کھانے پینے والے شخص کو تعزیر کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب: تمام مراجع کرام: قضا اور کفارہ کے علاوہ تعزیر بھی اسکے لئے ہے ۔ پہلی اور دوسری بار میں ۲۵ تازیانہ ہیں اور بعض فقہاء کے اعتبار سے اسکی کوئی مقدار معین نہیں ہے بلکہ حاکم شرع کی صلاحدید سے معین کی جائیگی ۔ پہلی اور دوسری بار حد جاری ہونے کے بعد اگر تیسری بار اس عمل کا مرتکب ہو تو اسکا حکم قتل ہے ۔ (۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۶۰؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۶۶۸

۲۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۶۶۰؛ اجوبة الاستفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۸۱۲

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۶۰؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۶۶۸

۴۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲،نیة الصوم ،استفتاء ات ، آیة اللہ جواد تبریزی،  سوال ۶۵۹

بالغ ہوتے وقت روزہ نہ رکھنا

سوال۱۵۳: بالغ ہونے کے بعد شروع کے دنوں میں جن روزوں کو نہیں رکھا ہے کیا انکی قضا کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرنا پڑیگا ؟

جواب : تمام مراجع کرام : جتنے روزے نہ رکھے ہوں انکی قضا کریں اور اسکے علاوہ ہر دن کے بدلہ کفارہ بھی دیں یعنی دو مہینہ روزہ رکھیں یا ساٹھ فقیروں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائیں یا پھر ہر ایک کو ایک مد (تقریبا ً دس سیر ) طعام ( گیہوں ، جو یا اسی قسم کی دوسری چیز یں)دیں۔ (۱)

ٍمستحبی روزہ

سوال۱۵۴: کیا مسافر مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ؟

جواب: آیات عظام امام خمینی  ،خامنہ ای اور نوری ہمدانی : نہیں ! سفر میں مستحبی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن مدینہٴ منورہ میں حاجت پوری ہونے کے لئے تین دن ،مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ان تین روزوں کے لئے اسے بدھ ، جمعرات اورجمعہ کا دن اختیار کرنا ضروری ہے ۔ (۲)

آیات عظام بہجت ، صافی گلپایگانی اور فاضل لنکرانی : نہیں ! سفر میں مستحبی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے لیکن مدینہٴ منورہ میں حاجت پوری ہونے کے لئے تین دن مستحبی روزے رکھ سکتا ہے ان تین روزوں کے لئے بہتر ہے کہ بدھ ، جمعرات اور جمعہ کا دن اختیار کرے ۔ (۳)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۶۰؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۶۶۸

ٍ۲۔ تعلیقات علیٰ العروة ، امام خمینی ، آیة اللہ نوری ہمدانی ،ج۲،شرائط الصوم، الخامس؛دفتر :آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ تعیلقات علی العروة ، آیة اللہ فاضل لنکرانی، ج۲،شرائط الصوم ،الخامس ؛وسیلة النجاة ،آیة اللہ بہجت ،ج۱،مسئلہ ۱۱۴۱؛ توضیح المسائل مراجع ،آیة اللہ صافی گلپایگانی ،مسئلہ ۱۷۱۸

آیات عظام جواد تبریزی ، مکارم شیرازی اور وحید خراسانی : نہیں ! سفر میں مستحبی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے لیکن مدینہٴ منورہ میں حاجت پوری ہونے کی غرض سے تین دن مستحبی روزے رکھ سکتا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اسے بدھ ، جمعرات اور جمعہ کا دن اختیار کرنا ہوگا۔(۱)

سوال۱۵۵:جس شخص کے ذمہ قضا روزے ہوں کیا وہ مستحبی روزہ رکہ سکتا ہے؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! قضاروزے اپنے ذمہ رکھنے والے شخص کے لئے مستحبی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔ (۲)

سوال۱۵۶: روزہ کا کفارہ اپنے ذمہ رکھنے والا شخص کیا مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ؟

جواب:آیات عظام امام خمینی،جواد تبریزی ،خامنہ ای اور نوری ہمدانی ؛ نہیں ! روزہ کا کفارہ اپنے ذمہ رکھنے والے شخص کے لئے مستحبی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔ (۳)

آیات عظام صافی گلپایگانی ، فاضل لنکرانی ، مکارم شیرازی اور وحید خراسانی : احتیاط واجب کی بنا پر اس شخص کے لئے مستحبی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے جسکے ذمہ روزہ کا کفارہ ہو ۔ (۴)

۱۔ منھاج الصالحین ، آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی اور وحید خراسانی ،الصوم ،مسئلہ ۱۰۲۶؛ تعلیقات علی ٰالعروة ، آیة اللہ مکارم شیرازی، شرائط صحة الصوم ، الخامس

۲۔ تعلیقات علی العروة ،آیات عظام امام خمینی  ، نوری ہمدانی ، مکارم شیرازی ،ج۲، شرائط صحة الصوم ،مسئلہ ۳ ؛ منھاج الصالحین، آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی، وحید خراسانی ،۱۰۳۵؛ ھدایة العباد ، آیة اللہ صافی گلپایگانی ،ج۱،مسئلہ ۱۳۵۵ ؛وسیلة النجاة ،آیة اللہ بہجت، ج۱ ،مسئلہ ۱۱۴۹؛ دفتر :آیة اللہ خامنہ ای

۳۔ تعلیقات علی العروة ، امام خمینی ، آیة اللہ نوری ہمدانی، ج۲ ،شرائط صحة الصوم ،مسئلہ ۳ ؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ جواد تبریزی ، ۱۰۳۵ ؛دفتر:آیةاللہ خامنہ ای

۴۔ تعلیقات علیٰ العروة، آیة اللہ مکارم شیرازی ، آیة اللہ فاضل لنکرانی ، ج۲،شرائط الصوم ،مسئلہ ۳؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ وحید خراسانی ، ۱۰۳۵ ؛ ھدایة العباد ، آیة اللہ صافی گلپایگانی ،ج۱،مسئلہ ۱۳۵۵

آیات عظام بہجت اور سیستانی : ہاں ! روزہ کا کفارہ اپنے ذمہ رکھنے والے شخص کے لئے مستحبی روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۱)

مستحبی روزہ اور جنابت

سوال ۱۵۷: کیا مجنب شخص اذان صبح کے بعد غسل کر کے مستحبی روزہ رکھ سکتا ہے ؟

جواب: تمام مراجع کرام :روزہ مستحبی میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسکا روزہ صحیح ہوگا۔ (۲)

سوال ۱۵۸:میں نے مستحبی روزہ رکھا ہے ، میرا دوست کچھ کھانے کی دعوت دے رہا ہے تو اب میری کیا ذمہ داری ہے ؟

جواب : تمام مراجع : مستحب ہے کہ اپنے روزے کو افطار کر لیں ۔ (۳)

مستحبی روزہ توڑنا

سوال۱۵۹: کیا مستحبی روزہ باطل کرنا جائز ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام : ہاں ! کوئی حرج نہیں ہے لیکن ظہر کے بعد اس عمل کو انجام دینا مکروہ ہے ۔ (۴)

۱۔ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت، ج۱،مسئلہ ۱۱۳۹؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ سیستانی، ۱۰۳۵

۲۔ تعلیقات علی ٰالعروة ، آیات عظام امام خمینی  ، نوری ہمدانی ، فاضل لنکرانی ، مکارم شیرازی ،ج۲،المفطرات ، الثامن، منھاج الصالحین، آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی ، وحید خراسانی ، ھدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱،مسئلہ ۱۲۸۲، وسیلة النجاة، آیة اللہ بہجت ،ج۱،مسئلہ ۱۰۸۹

۳۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲، اقسام الصوم ،مسئلہ۲

۴۔ العروة الوثقی،ٰ ج۲ ، اقسام الصوم، مسئلہ ۱

روزہ میں شوہر کی اجازت

سوال ۱۶۰: کیا مستحبی روزہ رکھنے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے؟

جواب:آیات عظام بہجت، صافی گلپایگانی اور مکارم شیرازی کے علاوہ تمام مراجع کرام: اگر شوہر کے جنسی حقوق سے منافات رکھتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اجازت لینی چاہئے ۔ اگر شوہر اسے روزہ رکھنے سے روکے تو اطاعت کرنی چاہئے، اگر چہ اسکا روزہ شوہر کے جنسی حقوق سے منافات نہ بھی رکھتا ہو۔ (۱)

آیة اللہ بہجت اور آیة اللہ مکارم شیرازی: احتیاط واجب کی بنا پر شوہر سے اجازت لینی چاہئے اگر چہ شوہر کے جنسی مسائل سے منافات نہ بھی رکھتا ہو ۔ (۲)

آیة اللہ صافی گلپایگانی : اگر شوہر کے حق سے منافات رکھتا ہو تو شوہر سے اجازت لینی چاہئے اوراگر منافات نہ رکھتا ہو توبھی احتیاط واجب کی بنا پر اجازت لینی چاہئے ۔ اگر شوہر اسے روزہ رکھنے سے روکتا ہے تو اسے اپنے شوہر کی اطاعت کرنی چاہئے اگر چہ شوہر کے جنسی مسائل سے منافات نہ بھی رکھتا ہو ۔ (۳)

نذر کا روزہ

سوال ۱۶۱: ایسا شخص جسکے ذمہ ماہ رمضان کے قضا روزے ہوں کیا وہ روزہ کی نذر کر سکتا ہے ؟

۱۔ تعلیقات علی العروة؛: امام خمینی ، آیة اللہ سیستانی اور آیة اللہ نوری ہمدانی ،اقسام الصوم ، السابع؛ منھاج الصالحین ، آیة اللہ جواد تبریزی  ،ج۱،مسئلہ ۱۰۶۷ ؛ منھاج الصالحین ، آیة اللہ وحید خراسانی ، ج۲ ،مسئلہ ۱۰۶۷؛ دفتر :آیة اللہ خامنہ ای

۲۔ تعلیقات علیٰ العروة ، آیة اللہ مکار م شیر ازی ،اقسام الصوم ،السابع ، وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت ،ج۱ ،مسئلہ ۱۱۸۶

۳۔ ھدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپایگانی ، ج۱ ،مسئلہ ۱۳۹۹

جواب :آیات عظام امام خمینی  ، سیستانی اور مکارم شیرازی : نہیں ! روزے کی نذر نہیں کر سکتا ہے ۔ (۱)

آیات عظام جواد تبریزی  ، آیة اللہ بہجت ، صافی گلپایگانی ، نوری ہمدانی اور وحید خراسانی : ہاں ! روزے کی نذر کر سکتا ہے ۔(۲)

آیة اللہ فاضل لنکرانی  : اگر کسی معین دن کی نذر کرے ( کہ جسکے پہلے ماہ رمضان کے قضا روزے رکھ سکتا ہو) تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۳)

سوال۱۶۲: اگر عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنے کی نذر کر ے تو کیا اسکا روزہ صحیح ہوگا ؟

جواب :آیات عظام امام خمینی  ، خامنہ ای ، نوری ہمدانی : نہیں ! اسکا روزہ باطل ہوگا۔ (۴)

آیات عظام جواد تبریزی  ، سیستانی، فاضل لنکرانی ،صافی گلپایگانی ، مکارم شیرازی ، وحید خراسانی: اگر شوہر کے جنسی حقوق سے منافات رکھتا ہو تو اسکی اجازت کے بغیر روزہ باطل ہوگا۔ (۵)

۱۔ استفتاء ات ،امام خمینی،  ج۱، روزہ ، سوال ۹۷؛ استفتاء ات ، آیة اللہ مکارم شیرازی ،ج۲ ،سوال ۴۳۱؛ منھاج الصالحین، آیة اللہ سیستانی ،ج۱ ،مسئلہ ۱۰۴۸

۲۔ تعلیقات علیٰ العروة ، آیة اللہ فاضل لنکرانی  ، آیة اللہ نوری ہمدانی ،ج۲ ،شرائط صحة الصوم ،مسئلہ ۳ ؛ جامع الاحکام، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱ ،سوال ۴۹۵؛ منھاج الصالحین، آیات عظام وحید خراسانی ، جواد تبریزی  ،ج۲، مسئلہ ۱۰۴۸ ؛ دفتر :آیة اللہ بہجت 

۳۔ جامع المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی ،ج۱ ،سوال ۵۸۵

۴۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۲۶۴۴ ؛ توضیح المسائل، آیة اللہ نوری ہمدانی ،مسئلہ ۲۶۴۲؛ استفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای ، سوال ۱۰۹۳

۵۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ ۲۶۴۴؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۲۷۰۸؛، منھاج الصالحین، آیة اللہ جواد تبریزی ،ج۲ ،مسئلہ ۱۵۵۱

آیة اللہ بہجت: احتیاط واجب کی بنا پر شوہر کی اجازت کے بغیر اسکا روزہ باطل ہے ۔ (۱)

مہینے کی پہلی تاریخ کے ثابت ہونے کا طریقہ ”رویت ہلال“

سوال ۱۶۳: مہینے کی پہلی تاریخ کے ثابت ہونے کے طریقوں کی مختصر وضاحت فرمائیں ۔

جواب: مہینے کی پہلی تاریخ مندرجہ ذیل چند طریقوں سے ثات ہوتی ہے :

۱۔ خود انسان چاند دیکھے ۔

۲۔ دو عاد ل مرد گواہی دیں کہ خود انہوں نے چاند دیکھا ہے ۔

۳۔ ایک گروہ کہے کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے اور انکے کہنے سے اطمینان حاصل ہو جائے ۔

۴۔ ماہ شعبان کی پہلی تاریخ سے پورے تیس دن گذر جائیں ۔

۵۔ حاکم شرع ( مجتہد جامع الشرائط ) حکم کرے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے ۔

نکتہ : آیات عظام سیستانی اوروحید خراسانی کے نزدیک حاکم شرع کے حکم سے مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی ہے ۔

مراجع تقلید کے نظریات میں اختلاف

سوال۱۶۴: مراجع تقلید کے یہاں ماہ رمضان کی پہلی تاریخ اور عید فطر کے لئے اعلان میں اختلاف نظر کی وجہ کیا ہے ؟ کیا ماضی میں بھی اس قسم کا اختلاف پیا جاتا تھا ؟

جواب : مراجع تقلید کے یہاں مہینہ کی پہلی تاریخ کے ثبوت کے سلسلہ میں پایا جانے والا اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی یہ مسئلہ مراجع تقلید کے یہاں غور و فکر کا محور رہا ہے ۔

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۲۶۴۴

اس اختلاف کے متعدد اسباب ہیں جنمیں سے بعض اہم اسباب کی طرف ہم یہاں پر اشارہ کریں گے :

۱۔ اتحاد افق کو معتبر سمجھنا : بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اگر مہینہ کا چاند زمین کے کسی حصہ میں دیکھا جائے ( کہ جہاں کا افق دوسری جگہوں سے مختلف ہو لیکن رات میں مشترک ہوں ) مہینہ کی پہلی تاریخ ان جگہوں پر ثابت ہو جاتی ہے ۔ ان علماء کے مقابلہ میں کچھ ایسے بھی فقہاء ہیں کہ جنکے نزدیک افق میں اتحاد ہونا معتبر ہے اور ان کاماننا یہ ہے کہ اگر مہینہ کا چاند کسی ایسے شہر میں دیکھا جائے جہاں کا افق دوسرے شہر یا ملک سے مختلف ہو تو شرعی لحاظ سے پہلی تاریخ دوسرے شہر کے لئے ثابت نہیں ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ پہلے والے نظریہ کے مطابق عمومی طور پرمہینہ کی پہلی تاریخ ایک دن پہلے ہی ثابت ہو جاتی ہے ۔

۲۔ حاکم شرع کے حکم کومعتبر سمجھنا : فقہاء کے نزدیک حاکم شرع کے حکم کی اہمیت اور حجیت ثابت اور مشہور ہے لیکن ان فقہاء میں سے بعض کے نزدیک حاکم شرع کا حکم رویت ہلال کے سلسلہ میں معتبر نہیں ہے۔

۳۔ حاکم شرع کے نزدیک گواہوں کی گواہی : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مجتہد جامع الشرائط چاند دیکھنے والوں کی گواہی سے اطمینان پیدا کر لیتا ہے اور اسی گواہی کی بنیا پر چاند ہونے کا اعلان کر دیتا ہے ۔ گرچہ ممکن ہے کہ بعض شرائط کے نہ ہونے کی بنا پر دوسرے مجہتد کو اطمینان حاصل نہ ہوا ہو۔

مندرجہ بالا امور میں فقہاء کے نزدیک پایاجانے والا اختلاف در واقع بعض نظریات اور فکری اصول میں اختلاف کی بنا پر ہے کہ جسکی بنا پر متعدد اور مختلف نظریا ت پائے جاتے ہیں ۔ ادبیات اور اصول فقہ میں مختلف نظریات ، آیات اور روایات سے مختلف استفادہ کی بنا پراور سند احادیث اور راویوں کی شناخت میں اختلاف نظر فطری طور پر بعض فتاویٰ میں اختلاف کا سبب ہوتا ہے ۔

سوال ۱۶۵: آپ کا کہنا ہے کہ دو عادل مرد چاند کے بارے میں گواہی دیں تو کافی ہے ، کیا چند مراجع تقلید کا عید کے بارے میں اعلان کرنا دو عاد ل مرد کی گواہی کے برابر نہیں ہے ؟

جواب : ہم میں سے کوئی بھی مراجع تقلید کی عدالت کا منکر نہیں ہے جو کچھ کہا گیا وہ یہ ہے کہ دو عادل مرد گواہی دیں کہ انھوں نے خود چاند دیکھا ہے لیکن مراجع عظام تقلید خود چاند نہیں دیکھتے ہیں بلکہ دوسروں کے کہنے سے رویت ہلال پر یقین پیدا کر لیتے ہیں ۔ یہ دونوں باتیں آپس میں مختلف اور الگ نہیں اور اس سلسلہ میں گواہی پر گواہی ( جسے علمی گواہی کہا جا تا ہے ) شرعی لحاظ سے معتبر نہیں ہے ۔ (۱)

سوال ۱۶۶: اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہم ہر سال ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کے سلسلہ میں اختلافات سے روبروہوتے ہیں ، شب قدر کا کیا حکم ہے ؟

جواب : شب قدر کے اعمال کی بجا آوری کے لئے ہر شخص کا رویت ہلال کے مسئلہ میں اپنے مرجع تقلید کے نظریہ ، یا حاکم شرع کے حکم یا پھر اپنے ذاتی اطمینان پر عمل کرنا کافی ہے ۔ اور تین راتوں کو عبادت خدا میں جاگ کر بسر کرے ۔ ایسی صورت میں یقینی طور پر خدا وند عالم اسے تعیین شدہ ثواب سے محروم نہیں کرے گا اور قوی احتمال کی بنا پر وہ شب قدر کو بھی درک کرے گا۔ شب قدر اور اسکی برکات و فیوضات سے بہرہ مند ہونے کے لئے بہتر ہے کہ چھ راتوں میں جاگے تاکہ وہ با عظمت اور پر برکت شب درک کر سکے ۔ اس بات پر دلیل کے عنوان سے معصوم علیہ السلام سے روایت موجود ہے ۔ (۲)

سوال ۱۶۷: عید فطر کے چاند کے سلسلہ میں مراجع تقلید کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں مکلف کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا ہر مکلف کو اپنے مرجع تقلید کے نظریہ کے مطابق عمل کرنا ہوگا ؟

۱۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲، الصوم ، طرق ثبوت الہلال، مسئلہ ۱

۲۔ من لا یحضرہ الفقیہ ،ج۲ ،باب الغسل فی اللیالی المخصوصة، ص۱۵۹

جواب : تمام مراجع کرام : مہینے کی پہلی تاریخ کے ثابت ہونے میں تقلید کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ اگر انسان مرجع تقلید کے نظریہ کی بنا پر رویت ہلال پر اطمینان حاصل کر لے تو اسے اپنا روزہ افطار کر لینا چاہئے اور اگر شک ہو تو اس دن کا روزہ رکھنا چاہئے ۔ (۱)

ماہ رمضان کا ثابت ہونا

سوال ۱۶۸: اگر ظہر سے قبل ماہ رمضان کی پہلی تاریخ ہونے کا اعلان کیا جائے تواس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آیات عظام جواد تبریزی  اور وحید خراسانی کے علاوہ تمام مراجع کرام : اگر مبطلات روزہ کو انجام نہ دیا ہو تو اسے نیت کرنی چاہئے اور ایسی صورت میں اسکا روزہ صحیح ہے اور اگر مبطلات روزہ میں سے کسی ایک کوبھی انجام دیا ہو تو اسکا روزہ باطل ہے لیکن ( ماہ رمضان کا احترام کرتے ہوئے ) اذان مغرب تک اسے مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا چاہئے اور ماہ رمضان کے بعد اس دن کے روزہ کی قضاکرنی چاہئے ۔ (۲)

آیات عظام جواد تبریزی اور وحید خراسانی : اگر مبطلات روزہ کو انجام نہ دیا ہو تو اسے نیت کر کے اس دن کا روزہ رکھنا چاہئے اور احتیاط واجب کی بنا پر رمضان کے بعد اس دن کے روزہ کی قضا کرنی چاہئے اور اگر ان مبطلات میں سے کسی ایک کوا نجام دے دیا ہو تو اسکا روزہ باطل ہے ، ( ماہ رمضان کا احترام کرتے ہوئے ) اذان مغرب تک اسے مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا چاہئے اور ماہ رمضان کے بعد اس دن کے روزہ کی قضا کرنی چاہئے ۔(۳)

۱۔ العروة الوثقیٰ،ج۲، الصوم،طرق ثبوت الہلال، مسئلہ ۱

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۶۱

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،آیة اللہ جواد تبریزی  ،مسئلہ ۱۵۶۱؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۵۶۹

جنتری اور کلنڈر کا نظام

سوال ۱۶۹: کیا نجومیوں کے اندازے کے مطابق جنتری کے ذریعہ مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے ؟

جواب : تمام مراجع کرام: نہیں ! ثابت نہیں ہوتی ،لیکن اگر انسان کو انکی بیان کردہ تاریخ پر یقین و اطمینان حاصل ہو جائے تو ثابت ہو جاتی ہے ۔ (۱)

سفر میں رویت ہلال

سوال ۱۷۰ : اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خلیجی ممالک میں چاند کا اعلان ایک دن پہلے ہوجاتا ہے جو لوگ ذریعہٴ معاش کی تلاش میں ان ممالک کا سفر کرتے ہیں انکے لئے رمضان کے روزے اور عید فطر کا حکم کس جگہ سے ملحق ہوگا؟

جواب : تمام مراجع کرام: شرعی اور معتبر ذرائع سے مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کی صورت میں انہیں اس جگہ کے مطابق عمل کرنا چاہئے جہاں چاند دیکھا گیا ہے ۔ (۲)

افق کا اختلاف

سوال ۱۷۱ : اگر مہینہ کا چاند عربستان میں دیکھا جائے تو کیا ایران میں بھی مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہو جاتی ہے ؟

جواب : آیات عظام جواد تبریزی ، صافی گلپایگانی اور نوری ہمدانی کے علاوہ تمام مراجع کرام : نہیں ! ایران کے لئے پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی ۔ (۳)

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۷۳۲؛ توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۷۴۰

۲۔ العروة الوثقی،ٰ ج۲ ،فصل فی طرق ثبوت الہلال

۳۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۷۳۵ ؛اجوبة الاستفتاء ات ،آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۳۷ ، ۸۳۹

آیات عظام جواد تبریزی ، صافی گلپایگانی ، فاضل لنکرانی، نوری ہمدانی اور وحید خراسانی : اگر شرعی اور معتبر ذرائع سے ثابت ہو تو ایران کے لئے بھی پہلی تاریخ ثابت ہو جاتی ہے ۔ (۱)

نکتہ : آیات عظام جواد تبریزی ، صافی گلپائیگانی، نوری ہمدانی اوروحید خراسانی کے اعتبار سے مختلف جگہوں کا رات میں مشترک ہونا مہینے کی پہلی تاریخ ثابت ہونے کے لئے کافی ہوتا ہے اور افق کا ایک ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

سوال ۱۷۲: اگر ماہ رمضان یا شوال کا چاند کسی ایسے ملک میں دیکھا جائے کہ جسکا افق ہمارے شہر سے ایک یا دو گھنٹہ مختلف ہو تو کیا ہمارے لئے بھی مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہو جاتی ہے ؟

جواب :آیات عظام امام خمینی ، بہجت ، خامنہ ای ، صافی گلپایگانی ، مکارم شیرازی اور فاضل لنکرانی :جس شہر یا ملک میں چاند دیکھا جا رہا ہے اگروہ مشرقی ممالک میں ہو تو مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہو جاتی ہے اور اگر مشرقی ممالک میں اسکا شمار نہ ہو ( مثلاً ایران کیلئے عربستان) تو مہینہ کہ پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی ہے ۔ (۲)

آیات عظام جواد تبریزی  ، صافی گلپایگانی ، نوری ہمدانی اور وحید خراسانی : اگر رات میں دونوں مشترک ہوں تو مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہے اگر چہ افق کے اعتبار سے ایک نہ ہوں اور مشرقی ممالک میں انکا شمار نہ ہوتا ہو ۔ (۳)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۵ ؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۱۷۴۳ ؛ دفتر: آیة اللہ فاضل لنکرانی 

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۵؛ اجوبة الاستفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۳۷ ، ۸۳۹

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۵ ؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۷۴۳

نکات : ۱۔ مثال کے طور پر افغانستان ، ایران کیلئے مشرق میں واقع ہے ، اگر چاند وہاں دیکھا جائے تو ایران کے لئے بھی ثابت ہے یا اگر چاند مشہد میں دیکھا گیا تو تہران کے لئے بھی چاند ثابت ہے ۔

۲۔ ان جگہوں پر چاند شرعی اور معتبر ذرائع سے ثابت ہوتا کہ ہمارے ملک کے لئے بھی مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہو سکے ۔

سوال۱۷۳: اگر چاند عراق میں دیکھا جائے تو کیا تہران میں رہنے والے لوگوں کے لئے بھی مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت ہے ؟

جواب:آیات عظام امام خمینی  ،بہجت ، سیستانی ، خامنہ ای ، مکارم شیرازی : چونکہ ان دونوں جگہوں کے افق میں اختلاف بہت ہی کم ( تقریباً دس منٹ ) ہے لہذا مہینہ کی تاریخ تہران میں رہنے والوں کے لئے بھی ثابت ہے ۔ (۱)

آیات عظام جواد تبریزی ، صافی گلپایگانی ، نوری ہمدانی ، وحید خراسانی : ہاں ! مہینہ کی پہلی تاریخ ان کیلئے بھی ثابت ہے ۔ (۲)

حاکم شرع کا حکم

سوال ۱۷۴: مہینہ کی پہلی تاریخ ہونے کے بارے میں حاکم شرع کا حکم کیا اسکی تقلید نہ کرنے والوں کو بھی ماننا ہوگا؟

جواب: آیات عظام سیستانی اور وحید خراسانی کیعلاوہ تمام مراجع کرام: ہاں ! مہینہ کی پہلی تاریخ کے بارے میں حاکم شرع کا حکم سب کے لئے حجت ہے اور اسی کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۹،۱۷۳۵؛ اجوبة الاستفتاء ات ،آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۳۷ ، ۸۳۹

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۵ ؛ توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۷۴۳

یہ الگ بات ہے کہ خود حاکم شرع کی غلطی کا علم ہو جائے ۔ (۱)

آیة اللہ سیستانی : حاکم شرع کے حکم سے مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی ہے ۔ (۲)

آیت للہ وحید خراسانی : احتیاط واجب کی بنا پر ، حاکم شرع کے حکم سے مہینہ کی پہلی تاریخ ثابت نہیں ہوتی ہے ۔ (۳)

عادل کی گواہی

سوال۱۷۵: اگر کچھ عادل افراد اس بات کی گواہی دیں کہ دو عادل افراد نے چاند کو دیکھا ہے تو کیا ماہ رمضان یا شوال کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے ؟

جواب: تمام مراجع کرام: نہیں ! ان دو افراد کو خود اس کی گواہی دینی چاہئے کہ انہوں نے خود چاند دیکھا ہے اور اگر رویت ہلال کو واسطوں کے ذریعہ بیان کیا جائے کافی نہیں ہے، لیکن اگر انکے کہنے سے اطمینان و یقین حاصل ہو رہا ہو تو رویت ہلال ثابت ہو جاتی ہے ۔ (۴)

جدید ٹیکنالوجی

سوال۱۷۶: کیا رویت ہلال جدید ٹکنالوجی مثلاً نجومی کیمرے  یا اسی کے مثل دیگر ذرائع سے ثابت ہو سکتی ہے ؟

جواب: آیات عظام خامنہ ای اور فاضل لنکرانی کے سوا تمام مراجع کرام: نہیں ! لیکن اگر انسان کو ان ذرائع سے مہینہ کی پہلی تاریخ ہونے کا یقین پیدا ہو جائے تو رویت ثابت ہے ۔ (۵)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۱؛ اجوبة الاستفتاء ات ، آیة اللہ خامنہ ای، سوال، ۸۴۲ ، ۸۴۳؛ وسیلة النجاة ، آیة اللہ بہجت، ج۱ ،مسئلہ ۱۱۶۲

۲۔ توضیح المسائل ، آیة اللہ سیستانی، مسئلہ ۱۷۳۱              ۳۔ توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی مسئلہ ۱۷۳۹

۱۔ العروة الوثقی،ٰ ج۳ ، الصوم ، طرق ثبوت الھلال ،مسئلہ ۱                                             ۲۔ دفاتر: تمام مراجع کرام

آیات عظام خامنہ ای اور فاضل لنکرانی : ہا ں! جدید ٹیکنالوجی اور Telescope وغیرہ سے بھی رویت ہلال ثابت ہو جاتی ہے ۔ (۱)

اندازہ اور گمان

سوال ۱۷۷ : اگر بعض افراد کے کہنے سے اس بات کا اندازہ یا گمان ہو جائے کہ کل عید فطر ہے تو کیاروزہ رکھ سکتے ہیں ؟

جواب : تمام مراجع کرام : جب تک اس بات کا یقین پیدا نہ ہو جائے کہ کل عید فطر یعنی شوال کی پہلی تاریخ ہے، روزہ افطار نہیں کیاجا سکتا ہے ۔ (۲)

۱۔ دفاتر:آیات عظام خامنہ ای ، فاضل لنکرانی 

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۳۰ ؛ توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۷۳۸

زکاة فطرہ

فطرہ کا فلسفہ

سوال( ۱۷۸): فطرہ کی ادائیگی کا فلسفہ اور فوائد کیا ہیں ؟

جواب :زکاة فطرہ اہل تشیع اوراہل سنت دونوں کے یہاں اجماعی طور پر واجب ہے دینی کتابوں میں اسکے بہت سے فوائد اور فلسفہ ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے اہم ترین مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ زکاة فطرہ کے ذریعہ روزہ پایہٴ تکمیل تک پہونچتا ہے جس طرح ،پیغمبر اسلام پر درود صلوات بھیجنے سے نماز مکمل ہوتی ہے (۱)

۲۔ زکاة فطرہ کے ذریعہ ماہ مبارک رمضان کے روزے قبولیت کا شرف حاصل کرتے ہیں (۲)

۳۔ زکاة فطرہ انسان کے لئے پورے سال میں موت سے حفاظت کا موجب بنتی ہے(۳)

۴۔ زکاة فطرہ ،انسان کے جسم کی سلامتی اور روح کی پاکیزگی کا باعث بنتی ہے (۴)

۵۔ زکاة فطرہ ،مال کی زکاة کو تکمیل کرتی ہے (۵)

۱۔ من لا یحضر الفقیہ ،ج۲، باب الفطرة ، سوال ۱۸۳

۲۔ ایضاً،ج۲، باب الفطرة، سوال ۱۸۳

۳۔کافی، ج۴، باب الفطرة،سوال ۱۷۴

۴۔ایک روایت میں آیہٴ” قد افلح من زکّٰھا “ کی تفسیر میں آیا ہے کہ تزکیہ سے مراد زکات فطرہ ہے۔

مستدرک الوسائل الشیعہ ،ج۷، ابواب زکاة الفطرة، ص ۱۳۷

۵ وسائل الشیعہ، ج۹، ابواب زکاة الفطرة، ص ۳۱۸

فطرہ کا مطلب

سوال ( ۱۷۹): زکات فطرہ میں لفظ فطر ہ کس وجہ سے استعمال ہوا ہے ؟

جواب:لغوی اعتبار سے فطرہ کے بہت سے معنی ہیں جن میں اہم،خلقت اور اسلام ہیں اور اصطلاحی معنی میں فطرہ ایسی زکات کو کہا جاتا ہے جسے ہر مسلمان اپنے اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے مستحق کو ادا کرتا ہے اور اسکی ادائیگی کا وقت ماہ رمضان کے آخری دن کی مغرب سے لیکر عید فطر کے ظہر تک ہے ۔چونکہ اس کی ادائیگی انسان کے جسم وروح کی سلامتی کا باعث بنتی ہے لہذا اس وجہ سے اسے زکات بدن یا فطرہ کہا جاتا ہے اسلام سے اس کی نسبت کی وجہ شاید یہ ہے کہ زکات فطرہ در اصل اسلام کے مقتضیات میں سے ہے اسی وجہ سے وہ آدمی جو عید فطر کی شب غروب سے پہلے مسلمان ہو جائے اس سے تکلیف ساقط نہیں ہے۔

اسٹوڈینٹس( students) کا فطرہ

سوال (۱۸۰): کیا ہاسٹل میں رہنے والے اسٹوڈینٹ پر زکات فطرہ واجب ہے ؟

جواب :تمام مراجع کرام : اگر اسکے مخارج والدین ادا کرتے ہیں تو ان کے ذمہ ہے اور اگروہ خود مستقل ہے تو خود اس پر واجب ہے کہ زکات فطرہ ادا کرے ۔(۱)

سوال(۱۸۱):ان متعلمین کا فطرہ کس پر واجب ہے جو ہاسٹل میں رہ رہے ہوں لیکن بغیر پیسہ دیئے کھانا کھاتے ہوں ؟

جواب:آیات عظام صافی ،مکارم اور نوری ہمدانی کے علاوہ تمام مراجع کرام:ایسے متعلم کا فطرہ خود اس پر واجب ہے اور اگر مالی توان نہ ہو تو تو اسکا فطرہ ساقط ہے ۔(۲)

۱۔ العروة الوثقی ،ج۲ ،زکاة الفطرہ ،فصل ۲،م۲

۲۔ استفتاء ات ،امام خمینی ،ج۱، زکات ،سوال ۱۷؛استفتاء؛آیةاللہ خامنہ ای ، ص ۸۵۹ ، ۸۶۰ و ۸۶۳؛جامع المسائل،آیة اللہ فاضل لنکرانی، ج۱، سوال ۸۷۶ ؛ استفتاء ات، جواد تبریزی ص ۷۸۰ ، ۷۸۱ و ۷۹۲ ؛دفتر: آیات عظام وحید خراسانی ،بہجت و سیستانی

آیةاللہنوری ہمدانی: مذکورہ صورت میں کسی پر بھی فطرہ واجب نہیں ہے۔(۱)

آیةاللہ مکارم شیرازی : اگر اسکے پاس مالی توان ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر خود ادا کرے ۔(۲)

آیةاللہ صافی گلپایگانی : جو کوئی بھی ادائیگی کر سکتا ہو احتیاط کی بنا پر خود ادا کرے ۔(۳)

تبصرہ : وہ افراد جنہوں نے کہا ہے کہ زکات فطرہ اسٹوڈینٹ کے ذمہ نہیں ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر ادا کر سکتا ہے تو احتیاط مستحب ہے کہ خود ادا کرے ۔

شرعی منگیتر کا فطرہ

سوال ( ۱۸۲): جس لڑکی کا (صرف) عقد نکاح ہوا ہے اسکا فطرہ کس پر ہے؟

جواب :تمام مراجع کرام : اپنے باپ کے نان نفقہ سے کھا رہی ہے تو اس کا فطرہ باپ پر واجب ہے ۔(۴)

ناشزہ(نا فرمان بیوی )کا فطرہ

سوال( ۱۸۳):وہ خاتون جو اپنے شوہر کی اطاعت ( حقوق جنسی کے سلسلہ میں)نہ کرے اسکی زکات فطرہ شوہر کے ذمہ ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام : اسکی زکات فطرہ شوہر پر واجب ہے لیکن اگر کسی دوسرے شخص نے اسکے نان ونفقہ کی ذمہ داری لی ہو تو شوہر پر واجب نہیں ہے۔ (۵)

۱۔ استفتاء ات،آیةاللہ نوری ہمدانی، ج ۲، سوال ۳۰۲

۲۔استفتاء ات،آیةاللہ مکارم شیرازی، ج ۱ ،سوال ۳۶۹

۳۔ جامع الاحکام، ج ۱ ، سوال ۳

۱۔ توضیح المسائل مراجع ، م ۲۰۰۸

۲۔ العروة الوثقی،ٰ ج۲ ،زکاة الفطر ہ ، الفصل الثانی ، مسئلہ ۳،

جنین کا فطرہ

سوال ( ۱۸۴):وہ بچہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا اسکی زکات فطرہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام : وہ بچہ جو شکم مادر میں ہے اسکی زکات فطرہ واجب نہیں لیکن اگر عید فطر کی شب غروب سے پہلے پیدا ہو جائے تو اسکی زکات فطرہ واجب ہے۔ (۱)

زوجہ اور بیٹے کا فطرہ

سوال (۱۸۵) وہ باپ جو زکات فطرہ ادا نہ کرے اسکی بیوی ،بچوں کا کیا حکم ہے ؟

جواب:آیات عظام سیستانی و مکارم شیرازی کے علاو ہ تمام مراجع کرام : بیوی ،بچوں پر کوئی تکلیف عائد نہیں اور ضروری نہیں کہ وہ فطرہ ادا کریں۔(۲)

آیات عظام سیستانی و مکارم شیرازی: اگر بیوی ،بچے فطرہ ادا کر سکتے ہیں ہو تو احتیاط واجب ہے کہ فطرہ ادا کریں ۔(۳)

زوجہ کا فطرہ

سوال( ۱۸۶):اگر بیوی مخارج زندگی میں شوہر کی مدد کرے تو زکات فطرہ کون ادا کرے گا؟

جواب:تمام مراجع کرام : اگر بیوی شوہر کے نان ونفقہ سے کھانے والی شمار ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں اگر شوہر استطاعت رکھتا ہے تو اس پر دونوں کی زکات فطرہ واجب ہے اور اگر بیوی شوہر یا کسی اور کے نفقہ سے نہ کھا ئے تو خود اس پر زکات فطرہ ادا کرنا واجب ہے ۔(۴)

۱۔ العروة الوثقیٰ، ج۲ ،زکاة الفطر ة ، فصل ۲،مسئلہ۱۲

۲۔توضیح المسائل مراجع ، م ۲۰۰۶؛توضیح المسائل ،آیةاللہوحید خراسانی ،مسئلہ ۲۰۲۳

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،م ۲۰۰۶                               ۴۔ العروة الوثقیٰ ،ج۲،زکاة الفطرة ،الفصل الثانی ، مسئلہ۳

مہمان کا فطرہ

سوال(۱۸۷): وہ مہمان جو عید فطر کی شب اذان مغرب کے بعد کسی انسان کے گھر آئے، اسکے فطرہ کا کیا حکم ہے ؟

جواب:آیة اللہ سیستانی کے علاوہ تمام مراجع کرام: اسکا فطرہ میزبان کے ذمہ نہیں ہے۔ (۱)

آیةاللہ سیستانی : اگر میزبان کا نان خور شمار ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسکا فطرہ میزبان کے ذمہ ہے (۲)

سوال( ۱۸۸): اگر مہمان اپنا فطرہ ادا کر دے تو کیا میزبان سے اسکا فطرہ ساقط ہو جاتا ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام : اگر میزبان کی اجازت سے اپنا فطرہ ادا کر دے تو میزبان سے ا س کا فطرہ ساقط ہو جاتا ہے (۳)

سوال( ۱۸۹): اگر عید فطر کی شب کسی کے یہاں مہمان ہوں اور میزبان کوصبح پتہ چلے کہ عید کا دن ہے کیا انکا فطرہ میزبان پر واجب ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام: چاند کی لاعلمی فطرہ کی ادائیگی کے حکم میں اثر انداز نہیں ہے یعنی ان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے(۴)

سوال( ۱۹۰): کیا مہمان کا روزہ افطار کرنا زکات فطرہ کے وجوب کا باعث بنتا ہے ؟

جواب:آ یات عظام بہجت و صافی گلپایگانی کیعلاوہ تمام مراجع کرام: روزہ کی افطاری،وجوب

۱۔توضیح المسائل مراجع م۱۹۹۸،توضیح المسائل ا ٓیت اللہ وحید خراسانی م ،۲۰۱۴ دفتر: آیة اللہ خامنہ ای

۲۔ توضیح المسائل مراجع،آیة اللہ سیستانی، مسئلہ ۱۹۹۷

۳۔ استفتاء ات ،آیة اللہ جواد تبریزی ،سوال ۷۸۲؛جامع المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی، ج۱، سوال ۶۳۷؛توضیح المسائل مراجع، آیات عظام مکارم و بہجت: ،مسئلہ ۲۰۰۶ ؛دفاتر :تمام مراجع کرام

۴۔مراجعہ فرمائیں:منابع پرشش ۱۸۷

کا باعث نہیں بنتی بلکہ مہمان کا نان خور شمارہونا شرط ہے ۔(۱)

آیةاللہ صافی گلپایگانی : اگر مہمان میزبان کانان خورشمار ہو یا اس کی افطاری استعمال کرے (اگرچہ نان خور شمار نہ ہو) تو ایسی صورت میں اسکی زکات فطرہ میزبان پر واجب ہے۔ (۲)

آیة اللہ بہجت : اگر مہمان میزبان کا نان خور شمار ہو اور افطاری کے قصد سے آیا ہو تو اسکی زکات فطرہ میزبان پر واجب ہے (اگر چہ وہ کسی مانع کی وجہ سے کھانااستعمال نہ کر پائے) ۔(۳)

چند گھنٹوں کا مہمان

سوال ( ۱۹۱): ایسا مہمان جو عید فطر کی شب غروب سے پہلے میزبان کے گھر میں داخل ہو اور افطاری صرف کرنے کے بعد چلا جائے اسکی زکات فطرہ کس پر واجب ہے ؟

جواب:آیات عظام صافی گلپایگانی اور نوری ہمدانی کے علاوہ تمام مراجع کرام : مذکورہ صورت میں مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب نہیں ۔(۴)

آیات عظام صافی گلپائیگانی و نوری ہمدانی :مذکورہ صورت میں بھی مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے۔ (۵)

۱۔ تعلیقات علی العروة ،زکاة الفطرة ،الفصل الثانی ؛استفتاء ات، آیة اللہ جواد تبریزی، سوال ۷۸۳؛استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای، سوال ۸۸۸ ؛ منھاج الصا لحین،آیات عظام سیستانی و وحید خراسانی ،زکات الفطرة،مسئلہ ۱۱۷۲۷۲؛وسیلة النجاة،

آیت اللہ بہجت ،ج۱ ،مسئلہ ۱۳۴۸؛جامع المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی،  ج۲ ، سوال ۴۷۲

۲۔ ھدایة العباد،آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱، مسئلہ۱۵۸۰                ۳۔ وسیلة النجاة ،آیة اللہ بہجت ج۱، مسئلہ ۱۳۴۸

۴۔دفاتر : تمام مراجع کرام؛استفتاء ات، آیة اللہ جواد تبریزی ،سوال ۷۸۳؛استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۸۸؛منھاج الصالحین، آیات عظام، سیستانی و وحید خراسان،زکات الفطرة، مسئلہ ۱۱۷۲۷۲؛وسیلة النجاة ،آیة اللہ بہجت ج۱، مسئلہ۱۳۴۸؛جامع المسائل، آیة اللہ فاضل لنکرانی ،ج۲ ،سوال ۴۷۲

۵۔ ھدایة العباد، آیة اللہ صافی گلپائیگانی، ج۱، مسئلہ ۱۵۸۰؛تعلیقات علیٰ العروة ،آیة اللہ نوری ہمدانی ،زکات الفطرہ فصل۲

فقیر کا فطرہ

سوال (۱۹۲): کیا ایسے شخص پرزکات فطرہ ادا کرنا واجب ہے جو زکات فطرہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو ؟

جواب:تمام مراجع کرام: فقیر پر زکات فطرہ واجب نہیں لیکن اگر تین کلو گندم یا اسکے مانند کوئی چیز ہوتومستحب ہے کہ اسے زکات کے عنوان سے ادا کرے اور اگر کچھ لوگوں کی سرپرستی اسکے ذمہ ہے تو فطرہ کی نیت سے باری باری اسے ان کے درمیان دست بدست گھما سکتا ہے اوربہتر یہ ہے کہ آخری آدمی اس گندم کو اپنے اقرباء کے علاوہ کسی دوسرے کو پہہنچا دے ۔(۱)

مستحق فطرہ

سوال(۱۹۳):کیا ایسے شخص کو زکات فطرہ دی جا سکتی ہے جسکے مخارج والدین کے ذمہ ہیں ؟

جواب:امام خمینی  : اگر محتاج ہو تو دوسرے اسکو زکات فطرہ دے سکتے ہیں۔ (۲)

امام خمینی  کے علاوہ تمام مراجع کرام: اگر محتاج ہو اور والدین اسکے مخارج ادا نہ کرتے ہوں تو ایسی صورت میں اسے زکات فطرہ دی جا سکتی ہے ۔(۳)

سوال ( ۱۹۴): کیا زکات فطرہ والدین کو دی جا سکتی ہے، اگر وہ مستحق ہوں ؟

جواب:تمام مراجع کرام: اگر والدین فقیر ہوں تو بیٹوں پر واجب ہے کہ انکی زندگی کے ضروری خرچے

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ۲۰۰۲؛ العروة الوثقیٰ، ج۲، زکات الفطرة ، الفصل الاول

۱۔ توضیح المسائل مراجع ، مسئلہ، ۱۹۴۸؛ تعلیقات علیٰ العروة، ج۳؛ اوصاف المستحقین الزکاة ،مسئلہ ۱۱

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۹۴۸؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ، مسئلہ۱۹۶۵

ادا کریں اور زکات فطرہ انھیں نہیں دی جاسکتی۔ (۱)

سوال ( ۱۹۵): آیا زکات فطرہ ایسے افراد کو دی جا سکتی ہے جو دیندار نہیں ہیں ؟

جواب:آیة اللہ بہجت کے علاوہ تمام مراجع کرام: زکات فطرہ میں زکات لینے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں ہے لیکن ایسے آدمی کو زکات فطرہ نہیں دی جا سکتی جو کھلے عام گناہ کبیرہ انجام دیتا ہو۔ (۲)

آیة اللہ بہجت :زکات فطرہ میں زکات لینے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں لیکن ایسے شخص کو زکات فطرہ نہیں دینی چاہئے جو کھلے عام گناہ کبیرہ انجام دیتا ہو ،البتہ اسکی اور اسکے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دی جا سکتی ہے۔ (۳)

سوال(۱۹۶):کیا باپ اپنے بیٹے کو زکات فطرہ دے سکتا ہے جو اسٹوڈینٹ ہو اور محتاج بھی ہو ؟

جواب:تمام مراجع کرام : اگر بچے فقیرہیں تو انکے مخارج والدین پر واجب ہیں اور وہ زکات فطرہ انھیں نہیں دے سکتے۔(۴)

فطرہ اور رشتہ دار

سوال(۱۹۷): کیا زکات فطرہ ہدیہ کے عنوان سے اپنے رشتہ داروں کو دی جا سکتی ہے جنکا شمار مستحقین میں سے ہو رہا ہو؟

جواب:تمام مراجع کرام: زکات فطرہ ہدیہ کے عنوان سے دی جا سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ اس

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۹۴۸؛ توضیح المسائل، آیة اللہ نو ری ہمدانی ،مسئلہ ۹۴۴

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۲۰۱۶،۱۹۴۶؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ۲۰۳۳

۳۔ توضیح المسائل مراجع ، آیة اللہ بہجت، مسئلہ ۱۹۴۶،۲۰۱۴، ۲۰۱۶

۴۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ، ۱۹۴۸ ؛ استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای، سوال ۸۸۰

سے کہے کہ زکات فطرہ ہے لیکن نیت میں قصد زکات ضروری ہے۔ (۱)

فطرہ اور مقروض

سوال ( ۱۹۸): کیا زکات فطرہ مقروض کو دی جا سکتی ہے ؟

آیات عظام امام خمینی  ، جواد تبریزی  ،بہجت ،فاضل لنکرانی  اور نوری ہمدانی : اگر مقروض، قرض ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے فطرہ دیا جا سکتا ہے ۔(۲)

آیات عظام سیستانی ،صافی گلپایگانی ،مکارم شیرازی اور وحید خراسانی : احتیاط واجب کی بنا پر فطرہ فقیر کو دینا چاہئے لہذا اگر مقروض آدمی فقیر بھی ہو تو اسے فطرہ دینا جائز ہے ۔(۳)

فطرہ اور ثقافتی امور

سوال ( ۱۹۹): آیا زکات فطرہ ایسے ثقافتی اور مذہبی امور میں صرف کی جا سکتی ہے جو معارف دین کی نشر کا باعث ہیں ؟

جواب:آیات عظام امام خمینی ،بہجت ،جواد تبریزی  ،خامنہ ای،فاضل لنکرانی  اور نوری ہمدانی : زکات فطرہ کو معارف دین کی نشرواشاعت کے لئے صرف کیاجا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ فقیر کو دیا جائے۔ (۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ۱۹۳۵ ؛ توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۱۹۵۲ و ردفتر: آیة اللہ خامنہ ای

۲۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۹۲۵ ، ۲۰۱۴ ؛ استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۹۳

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۹۲۵ ،۲۰۱۴ ؛توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۲۰۳۱ ، ۱۹۴۲

۴۔ استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای، سوال ۸۹۳ ؛ توضیح المسائل مراجع ،م ۱۹۲۵ ،۲۰۱۴

آیات عظام سیستانی ،مکارم شیرازی و وحید خراسانی : احتیاط واجب کی بنا پر فطرہ فقیر کو دینا ضروری ہے ۔(۱)

فطرہ و سادات

سوال (۲۰۰): کیا غیر سید ،سید کو فطرہ فطرہ دے سکتا ہے ؟

جواب:تمام مراجع کے نزدیک غیر سید کافطرہ سید کو دینا جائز نہیں ہے۔ (۲)

فطرہ کی ادائیگی

سوال( ۲۰۱) : کیا متعدد فطرے ایک فقیر کو دیئے جا سکتے ہیں ؟

آیات عظام امام خمینی  ،فاضل لنکرانی  ،مکارم شیرازی و نوری ہمدانی کے نزدیک احتیاط واجب کی بنا پر ایک فقیر کو سالانہ مخارج سے زیادہ فطرہ نہیں دینا چا ہئے۔ (۳)

آیة اللہ بہجت : ایک فقیر کو سالانہ مخارج سے زیادہ فطرہ نہیں دینا چاہئے ۔(۴)

آیات عظام جواد تبریزی  ،سیستانی ،صافی گلپائیگانی و وحید خراسانی کے نزدیک فطرہ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ (۵)

فطرہ کو الگ رکھنا

سوال( ۲۰۲): اگر کوئی شخص فطرہ نکال کر اپنے پاس رکھ لے تو کیا اس فطرہ کواستعمال کر کے اسکی جگہ کوئی دوسرا مال رکھ سکتا ہے؟

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۹۲۵ ،۲۰۱۴؛ توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۲۰۳۱ ،۱۹۴۲

۲۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۲۰۰۹؛،توضیح المسائل،آیةاللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۲۰۲۶

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۲۰۱۸                            ۴۔توضیح المسائل مراجع ،آیة االلہبہجت، مسئلہ ،۲۰۱۸

۵۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۲۰۱۸ ؛توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۲۰۳۵

جواب :تمام مراجع کرام: جسے الگ نکالا ہے اسے ہی ادا کردے ۔(۱ )

سوال(۲۰۳): اگر کوئی شخص فطرہ ادا نہ کرے اور فطرہ الگ کرکے بھی نہ رکھا ہوتو اسکا کیاحکم ہے ؟

جواب:آیا ت عظام بہجت ،جواد تبریزی  اور خامنہ ای کے علاوہ تمام مراجع کرام : ایسا شخص گناہگار ہے اور احتیاط واجب ہے کہ آئندہ ادا وقضا کی نیت کے بغیر فطرہ ادا کرے۔ (۲)

آیا ت عظام جواد تبریزی  و خامنہ ای : ایساشخص گناہگار ہے اور اسکوآئندہ ( ادا و قضا کی نیت کے بغیر ) فطرہ ادا کرناچاہئے ۔(۳)

آیة اللہ بہجت : مذکورہ شخص گناہکار ہے احتیاط مستحب کی بنا پر آئندہ اس عمل کی قضا بجا لائے ۔(۴)

فطرہ کی ادائیگی کا وقت

سوال(۲۰۴): فطرہ کو الگ کرنے اور اس کی ادائیگی کا وقت کب ہوتا ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام: اگر وہ شخص نماز عید فطر پڑھتا ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر نماز عید سے پہلے ہی فطرہ ادا کرے (یا الگ کر دے ) اور اگر نہیں پڑھتا تو عید فطر کے دن ظہرتک مہلت ہے۔ (۵)

وقت سے پہلے فطرہ دینا

سوال( ۲۰۵): کیا ماہ مبارک رمضان سے پہلے فطرہ ،فقیر کو دیا جا سکتاہے ؟

۱۔توضیح المسائل مراجع ،۲۰۳۲؛، توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۲۰۴۹ ؛استفتاء ات، آیةاللہ خامنہ ای، سوال ۸۸۵

۲۔توضیح المسائل مراجع, مسئلہ ۲۰۳۱؛ توضیح المسائل، آیة اللہ وحید خراسانی ،مسئلہ ۲۰۴۸

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،آیةاللہ جواد تبریزی،  مسئلہ ۲۰۳۱ ؛استفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۱۴۳

۴۔توضیح المسائل مراجع ،آیة اللہبہجت، ۲۰۳۱

۵۔توضیح المسائل مراجع، ۲۰۲۹ ؛توضیح المسائل، آیةاللہ وحید خراسانی مسئلہ ۲۰۴۶؛،دفتر: آیةاللہ خامنہ ای

جواب:تمام مراجع کرام:مذکورہ عمل درست نہیں ہے البتہ قرض کے عنوان سے فقیر کو دے سکتا ہے اور عید فطر کے دن اسے فطرہ میں حساب کر لے ۔(۱)

فطرہ کی جنس

سوال ( ۲۰۶):زکات فطرہ روز کے استعمال کی جنس سے دی جائے یا شرعی جنس سے ؟

جواب :تمام مراجع کرام: اگر گندم ،جو ،خرما ،چاول اور انکی مانند جنس سے ہو تو کافی ہے روز کے استعمال کی جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے (۲)

فطرہ کی مقدار

سوال ( ۲۰۷): فطرہ کی مقدار کتنی ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام:وہ شخص جسکے ذمہ اہل خانہ کی سرپرستی ہے اپنے اور اپنے نان خور افراد کا معمول کی غذا (گندم ،جو ، خرما ،کشمش ،چاول ،مکاوغیرہ ) میں سے تین کلو فطرہ نکالے یا کسی مستحق کو اس کی قیمت دے ۔(۳)

فطرہ کی دوسری جگہ منتقلی

سوال ( ۲۰۸): کیا فطرہ کا دوسرے شہر میں منتقل کرنا جائز ہے ؟

جواب:آیة اللہ بہجت کے علاوہ تمام مراجع : اگر اپنے شہر میں کوئی مستحق نہ ہو تو اسصورت میں دوسرے شہر میں منتقل کر سکتے ہیں۔ (۴)

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۲۰۲۵؛توضیح المسائل، آیةاللہ وحید خراسانی مسئلہ ۲۰۴۲؛ دفتر :آیةاللہ خامنہ ای

۲۔ استفتا ء ات ،آیة اللہ خامنہ ای، سوال ۸۸۵؛العروة الوثقیٰ ،ج۲ ،زکات الفطرة،الفصل السادس

۳۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۱۹۹۱ ؛توضیح المسائل ، آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ ۲۰۰۸

۴۔ توضیح المسائل مراجع، مسئلہ ۲۰۳۵؛استفتا ء ات ،آیة اللہ خامنہ ای ،سوال ۸۵۷ ؛توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی، مسئلہ۲۰۵۲

آیة اللہ بہجت : فطرہ کو دوسرے شہر میں منتقل کرنے میں کوئی اشکال نہیں گر چہ اپنے شہر میں مستحق پایا جا رہا ہو۔ (۱)

مریض کے روزے کی قضا

سوال ( ۲۰۹): وہ شخص جو کئی سالوں سے مریض رہاہو جسکی وجہ سے ماہ رمضان کے روزے نہ رکھ پایا ہو اور نہ ہی قضا بجا لا سکے اسکا کیا حکم ہے ؟

جواب:تمام مراجع کرام: جس سال مرض سے شفا پائے اگر آئندہ رمضان تک قضا بجا لانے کا وقت ہو تواس سال کی قضا بجا لائے لیکن گذشتہ سالوں کی قضا بجا لانا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر روز کے بدلہ ایک مد طعام فقیر کو دے ۔(۲)

مد وطعام :

سوال ( ۲۱۰) : روزے کے کفارے میں مدّ و طعام سے مراد کیا ہے ؟

جواب:طعام سے مراد گندم ،آٹا ،روٹی ،جو،خرما ،وغیرہ ہے اور مدّ سے مراد ۷۵۰/ گرام ہے۔(۳)

کفارہ

سوال (۲۱۱): کفّارہ کسے کہتے ہیں ؟

جواب:کفّارہ ،کفر سے مشتق ہوا ہے جسکے معنیٰ چھپانے کے ہیں اور دین کی اصطلاح میں گناہ کے

سبب صدقہ نکالنے، قربانی کرنے اور شرعی عمل انجام دینے وغیرہ کے معنیٰ میں ہے اورچونکہ وہ گناہ کے آثار کو محو کر دیتا ہے اور انسان کے گناہ چھپا دیتا ہے اس لئے اسے کفارہ کہا جاتا ہے کافر انسان کو

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،آیة اللہ بہجت، مسئلہ ۲۰۳۵

۲۔توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۷۰۳ ،۱۷۰۷؛توضیح المسائل ،آیة اللہ وحید خراسانی م ۱۷۱۱،۱۷۱۵

۱۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۶۶۰؛توضیح المسائل،آیةاللہ وحید خراسانی،م ۱۶۶۸؛العروة الوثقیٰ ،ج۲، الصوم ،الفصل السادس، م۲۶

کو بھی کافر اس لئے کہا جاتا ہے چونکہ وہ خداوند عالم ،قیامت ،نبوت جیسے حقائق کا انکار کرتا ہے اور انھیں چھپانے کی کوشش کرتا ہے کفارہ تمام ادیان ا ور شریعتوں میں اعمال شرعی اور غیر اخلاقی و اجتماعی اصول کے مخالف امور کے برے نتائج کی خاطر انجام دیا جاتا ہے۔ رضائے ا لہی کا حصول اور غضب الہی کو ختم کرنا اسکے اہم آثارمیں ہے۔ کفارہ کی بہت سی اقسام ہیں مثلاََ:معین ،مخیر ،مرتب ومخیر اور کفارہ جمع۔ مذکورہ تمام کفارات کے موارد اپنی اپنی جگہوں پر بیان ہوئے ہیں ۔(۱)

کفارہ ٴجمع

سوال (۲۱۲): کفارہٴجمع کسے کہتے ہیں ؟

کفارئہ جمع یعنی ایک غلام کو آزاد کرنے، دو مہینے کے روزے رکھنے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ایک ساتھ عمل کرنا، کفارئہ جمع دو مقام پر متحقق ہوتا ہے :

۱۔ جب انسان اپنے روزے کو حرام چیزوں سے باطل کرے ۔

۲۔ جب انسان بے گناہ مسلمان کو عمداََ قتل کر ڈالے۔(۲)

تبصرہ : چونکہ موجودہ دور میں غلام کی آزادی ممکن نہیں ہے لہٰذا دوسرے دو مورد کو ایک ساتھ انجام دینا ضروری ہے

کفارہٴ روزہ کی قسمیں

سوال(۲۱۳): روزے کے کفارے کی کتنی قسمیں ہیں ؟

۱۔ لسان العرب ،مادہٴ کفر،مجمع البحرین،مادہٴ کفر ،فرہنگ اصطلاحات فارسی ، اللمعة الدمشقیة

۲۔ توضیح المسا ئل مراجع ،تمام مراجع کرام،مسئلہ ۱۶۶۵؛تحریرالوسیلة ،امام خمینی ،ج۲ ،الکفارات؛ھدایة العباد،آیةاللہ صافی گلپایگانی،ج۲، الکفارات؛ منھاج الصالحین،آیة اللہ سیستانی،ج۳، الکفارات؛منھاج الصالحین،آیات عظام جواد تبریزی و وحید خراسانی، الکفارات، مسئلہ۱۵۶۵

جواب:روزے کے کفارے کی چار قسمیں ہیں :

۱۔ماہ رمضان میں عمداََ روزہ نہ رکھنا اسکا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دو مہینے روزہ رکھنا یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا ہے۔

۲۔ ماہ رمضان کے قضا روزے کو ظہر کے بعد جان بوجھ کر توڑنا،اسکا کفارہ دس فقیر کو کھانا کھلانا ہے اور اگر دس فقیر کو کھانا کھلانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو تین دن روزہ رکھے ۔

۳۔ معین نذر کے روزے کا کفارہ : اسکا کفارہ وہی ماہ مبارک رمضان کا روزہ عمداََ نہ رکھنے کا کفارہ ہے۔ (۱ )

اعتکاف کے روزے کا کفارہ : اسکا کفارہ بھی ماہ رمضان المبارک کا روزہ عمداََ نہ رکھنے کا کفارہ ہے ۔

یوم شک کا روزہ :

سوال ( ۲۱۴): یوم شک کا روزہ کسے کہتے ہیں ؟

جواب:ایسا دن جسکے بارے میں انسان کو شک ہو کہ ماہ شعبان کا آخری دن ہے یا ماہ رمضان کا پہلا دن ہے اسے یوم شک کہتے ہیں ،چونکہ اس روز کی شب لوگوں میں چاند دیکھنے کے بارے میں بات چیت ہوتی ہے یا وہ لوگ جو چاند دیکھنے کی گواہی دیتے ہیں ضروری شرائط نہ رکھتے ہوئے باعث شک و تردید بن جاتے ہیں لہٰذا اس وجہ سے اس روز کو یوم شک کہتے ہیں ۔یوم شک کا روزہ واجب نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص اس دن ما ہ رمضان کا روزہ سمجھتے ہوئے رکھ لے تو حرام کام کا مرتکب کہلائے گا ۔البتہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس دن روزہ رکھے تو ایسی صورت میں ماہ شعبان

۱۔آیات عظام جواد تبریزی و وحید خراسانی کے نزدیک اس کاکفارہ، کفارہ قسم ہے اور وہ ایک غلام آزاد کرنا یا دس فقیر کو کھانا کھلانا یا دس فقیر کو لباس عطا کرنا ہے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو تین دن روزہ رکھے ۔

کے روزے یا (اگر قضا روزے اسکے ذمہ ہو)توقضا روزے کی نیت سے رکھ سکتا ہے ۔(۱)

خاموشی کا روزہ

سوال( ۲۱۵): خاموشی کے روزے سے مراد کیا ہے ؟

جواب:خاموشی کے روزے سے مراد آٹھ قسم کے مفطرات سے پرہیز اور بات چیت سے دوری اختیار کرنا ہے خاموشی کا روزہ حضرت موسیٰ کی شریعت میں بنی اسرائیل میں رائج تھا ۔ حضرت مریم کو خداوند عالم نے مصلحت کی خاطر حکم دیاکہ معین مدت میں بات چیت سے اجتناب کریں لیکن اسلام میں ایسا روزہ محرمات میں شمار ہوتا ہے۔ (۲)

فقیر شرعی

سوال ( ۲۱۶): شریعت کے اعتبار سے فقیر کسے کہتے ہیں ؟

جواب:تمام مراجع کرام: اس شخص کو فقیر کہا جاتا ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سالانہ خرچے کا انتظام نہ کرسکتا ہو ۔(۳)

افق کا اتحاد :

سوال ( ۲۱۷): اتحاد افق کا مطلب بتائیں ؟

جواب :تمام وہ شہر جو علم ہیئت کے اعتبار سے افق کی ایک لائن پر ہوں ہوں انہیں ہم افق کہا جاتا ہے لہٰذااگر ان شہروں میں سے کسی ایک میں چاند دکھائی دے اور کوئی رکاوٹ مثلاًبادل بھی نہ ہو تو

۱۔ اللمعة الدمشقیہ، العروة الوثقیٰ،ج۲، نیة الصوم ؛توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۱۵۶۸

۲۔ العروة الوثقی،ٰ ج۲ ،کتاب الصوم ؛تفسیر نمونہ ،ج۱۳،ص ۴۵

۳۔ توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ۱۹۹۲؛توضیح المسائل ،آیةاللہ وحید خراسانی ،مسئلہ۲۰۰۹؛استفتاء ،آیةاللہ خامنہ ای،سوال۸۶۵

اس لائن پر واقع تمام شہروں میں چاند دیکھا جاتا ہے۔ (۱)

حکم اور حاکم

سوال ( ۲۱۸):رویت ہلال کے سلسلہ میں حاکم اور اسکے حکم سے مراد کیا ہے ؟

جواب:”حکم “ سے مراد جامع الشرائط مجتہد کا جزئی موضوعات میں شرعی معیار پر اپنانظر یہ بیان کرنا ہے مثلاََ مہینہ کی پہلی تاریخ ،ولی وسرپرست کاتعین ، لوگوں میں فساد کوختم کرناوغیرہ ۔یہ حکم تمام مکلفین پر (یہاں تک کہ خود مجتہدین پر بھی)حجت ہوتا ہے ۔ہر ایک کو اس حکم کی پیروی کرنا چاہئے اور کسی بھی مجتہد کو حاکم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا اختیار نہیں ہے مگر یہ کہ خود حاکم کے حکم میں مجتہدین کیلئے غلطی ثابت ہو جائے ۔حکم سے مراد فقط خبر دینا اور اعلان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے حکم میں ”حکمت“ جیسا کلمہ استعمال ہونا چاہئے۔ توضیح المسائل میں حاکم سے مراد وہی جامع الشرائط مجتہدہوتا ہے۔ (۲)

۱۔اجوبة الاستفتاء ات، آیة اللہ خامنہ ای، سوال ۸۳۸؛توضیح المسائل، مراجع، مسئلہ ۱۷۳۵

۲۔ مبانی تکملة المنھاج، کتاب القضاء،ص ۳ ؛التفتیح فی شرح العروة الوثقیٰ، کتاب الاجتھاد و التقلید،مسئلہ ۵۷،۶۸؛ العروة الوثقیٰ ،مسئلہ ۵۷؛توضیح المسائل مراجع ،مسئلہ ۷

مراجع سے رابطہ

www.imam-khomeini.com

www.amam-khomeini.org

www.khamenei.ir

www.khamenei.de