|
توضیح المسائل(آقائے سیستانی) |
زکوٰة فطرہ کا مصرف |
(۱۹۷۲)فطرہ احتیاط واجب کی بنا پر فقط ان شیعہ اثنا عشری فقراء کو دینا ضروری ہے جوان شرائط پر پورے اترتے ہوں جن کاذکر زکوٰة کے مستحقین میں ہوچکا ہے اور اگر شہر میں شیعہ اثنا عشری فقراء نہ ملیں تو دوسرے مسلمان فقراء کو فطرہ دے سکتا ہے ۔لیکن ضروری ہے کہ کسی بھی صورت میں ناصبی کو نہ دیا جائے۔ (۱۹۷۳)اگر کوئی شیعہ بچہ فقیر ہو تو انسان یہ کر سکتا ہے کہ فطرہ اس پرخرچ کرے یا اس کے سر پرست کو دے کر اسے بچے کی ملکیت قرار دے۔ (۱۹۷۴)جس فقیر کو فطرہ دیا جائے توضروری نہیں کہ وہ عادل ہولیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ شرابی ،بے نمازی اور جو کھلم کھلا گناہ کرتا ہو اسے فطرہ نہ دیا جائے۔ (۱۹۷۵)جو شخص فطرہ ناجائز کاموں میں خرچ کرتاہو تو اسے فطرہ نہ دیا جائے۔ (۱۹۷۶)احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک فقیر کو ایک صاع سے کم فطرہ نہ دیا جائے۔مگر اس صورت میں دیا جا سکتا ہے کہ سب موجود فقراء کو نہ پہنچ سکے۔البتہ ایک صاع سے زیادہ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ (۱۹۷۷)جب کسی جنس کی قیمت اسی جنس کی معمولی قسم سے دگنی ہو ،مثلاً کسی گیہوں کی قیمت معمولی قسم کی گیہوں کی قیمت سے دگنی ہو تو اگر کوئی شخص اس(بڑھیا جنس)کا آدھا صاع فطرہ دے تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ اگر وہ آدھا صاع فطرہ کی قیمت کی نیت سے بھی دے تو کافی نہیں ہے۔ (۱۹۷۸)انسان آدھا صاع ایک جنس کا مثلاً گیہوں کا اور آدھا صاع کسی دوسری جنس مثلاً جوکا ،بطور فطرہ نہیں دے سکتا بلکہ اگر یہ آدھا آدھاصاع فطرہ کی قیمت کی نیت سے بھی دے تو کافی نہیں ہے۔ (۱۹۷۹)انسان کے لئے مستحب ہے کہ زکوٰة دینے میں اپنے رشتے داروں اور ہمسایوں کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دے۔مناسب یہ ہے کہ اہل علم و فضل اور دیندار لوگوں کو بھی دوسروں پر ترجیح دے۔ (۱۹۸۰)اگر انسان یہ خیال کرتے ہوئے کی ایک شخص فقیر ہے اسے فطرہ دے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ فقیر نہ تھا تو اگر اس نے جو مال فقیر کو دیا تھا وہ ختم نہ ہوگیا ہو توضروری ہے کہ واپس لے لے اور مستحق کو دے دے اور اگر واپس نہ لے سکتا ہو تو ضروری ہے کہ خود اپنے مال سے فطرے کاعوض دے اور اگر اسے یہ علم نہ ہو تو عوض دینا اس پر واجب نہیں ہے اور ضروری ہے کہ فطرہ دینے والے خود فطرے کو عوض دے۔ (۱۹۸۱)اگر کوئی شخص کہے کہ میں فقیر ہوں تو اسے فطرہ نہیں دیا جاسکتا بجز اس صورت کے کہ کسی کے کہنے سے اطمینان ہو جائے یا اسے علم ہو کہ وہ پہلے فقیرتھا۔ |