اربعین چالیس کو کہتے ہیں لہذا 20 صفر کو امام حسین(ع) کی شہادت کا
چالیسواں دن ہونے کی وجہ سے اربعین حسینی کہا جاتا ہے۔ اس دن کے اہم واقعات
میں جابر بن عبداللہ انصاری اور اسیران کربلا کا اسی دن امام حسین علیہ
السلام کی قبر اطہر پر پہنچنا ہے۔امام حسن عسکری علیہ السلام نے ایک حدیث
میں "مومن" کےلئے پاںچ علامتوں کا ذکر کیا ہے : اکاون رکعت نماز ادا کرنا ،
زیارت اربعین، انگوٹھی کو دائیں ہاتھ میں پہںنا ، نماز میں پیشانی کو خاک
پر رکھںا ، اور نماز میں "بسم اللہ" کو بلند آواز میں پڑھنا۔ [١] اس کے
علاوہ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری ، عطیہ عوفی کے
ھمراہ، عاشورا کے بعد امام حسین علیہ السلام کے پھلے اربعین پر امام کی
زیارت کیلئے تشریف لے آئے۔[٢]سید ابن طاووس نقل کرتے ہیں کہ: جب امام حسین
(ع )کے اھل بیت علیھم السلام قید سے رھائی کے بعد شام سے واپس لوٹے، تو
عراق پہںچے انہوں نے اپنے راھنما سے کہا، : ہمیں کربلا کے راستے سے لے چلو،
جب وہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے مقتل میں پہنچے ، تو جابر
ابن عبد اللہ انصاری کو بنی ھاشم کے بعض لوگوں کے ساتھ ، اور آل رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے ایک مرد کو دیکھا جو امام حسین (ع) کی
زیارت کےلئے آئے تھے، وہ سب ایک ہی وقت میں مقتل پر پھنچے اور سب نے ایک
دوسرے کو دیکھ کر گریہ اور اظہار حزن کیا اور سروں اور چہروں کو پیٹنا
شروع کیا اور ایک ایسی مجلس عزا برپا کی جو دلخراش اور جگرسوز تھی۔ اس
علاقے کی عورتیں بھی ان سے ملحق ہوئیں، اور کئی دنوں تک انہوں نے عزاداری
کی۔ [٣]سب سے پہلے جس نے حسینی قافلہ کی (چہلم کے دن )کی زیارت کا ذکر کیا
ہے وہ ابوریحان بیرونی (م 340ق)ہے ۔ وہ اپنی کتاب "الآثار الباقیہ " میں
لکھتا ہے کہ پہلی صفر کو آپ کا سرمبارک شام لایا گیا اور 20صفر کو واپس آپ
کے بدن اقدس کی طرف پلٹایا گیا اور وہ دن زیارت اربعین کا دن ہے ۔ [٤]20صفر
کو امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بدن اقدس کی طرف لایاگیا تاکہ بدن کے
ساتھ دفن ہو سکے اور وہ (دن) زیارت اربعین کا دن ہے کہ اھل بیت کا قافلہ
شام سے نکلنے کے بعد ان کی زیارت کو پہنچا ۔قرطبی(م 678ق) اپنی کتاب تذکرہ
میں نقل کرتا ہے کہ امامیہ کہتے ہیں سرمبارک امام حسین علیہ السلام ان کی
شہادت کے 40دن بعد کربلا لوٹایا گیا ۔ "و ھو یوم معروف عندھم یسمون الزیارۃ
فیہ زیارۃ الاربعین " اور وہ دن شیعہ کے نزدیک زیارت اربعین کے دن سے مشہور
ہے ۔[٥]زکریا بن محمد بن محمود قزوینی (م 682 ق) نے اسی مطلب کو نقل کیا ہے
کہ پہلی صفر بنی امیہ کے لیے عید کا دن ہے کیونکہ اسی دن امام حسین علیہ
السلام کے سر مبارک کو شام میں داخل کیا گیا ۔"و العشرون منہ ردت راس
الحسین علیہ السلام الی جثتہ "؛ بیس صفر المظفر کو آپ کے سرمطھر کو ان کے
جسم کی طرف لوٹایا گیا ۔[٦]شیخ بھائی(م 1030 ق) کتاب توضیح المقاصد میں اس
بارے میں کہتے ہیں :و فی ھذا الیوم و ھو یوم الاربعین من شھادتہ کان قدوم
جابر انصاری لزیارتہ و اتفق فی ذلک الیوم ورود حرمہ من الشام الی
کربلا،قاصدین المدینۃ علی ساکنہ السلام و التحیۃ ؛ [٧]چہلم کا دن جابر کا
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کےلیے آنے کا دن ہے اور اسی دن اھل بیت کا
قافلہ بھی شام سے کربلا پہنچا ،تاکہ یہاں سے مدینہ جائیں ۔مناوی (م 1031ق )
نے فیض القدیر میں نقل کیا ہے :"والامامیۃ یقولون : الراس اعید الی الجثۃ و
دفن بکربلاء بعد اربعین یوما من القتل "[٨]؛شیعہ کہتے ہیں کہ سر مبارک واپس
کربلا پلٹایا گیا اور شہادت کے چالیس دن بعد بدن مبارک کے ساتھ دفن ہوا ۔علامہ
مجلسی (م 1110 ق)چہلم کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے مستحب ہونے
کی دلیل کے طور پر فرماتے ہیں :والمشھور بین الاصحاب ان العلۃ فی ذلک رجوع
حرم الحسین صلوات اللہ علیہ فی مثل ذلک الیوم الی کربلا عند رجوعھم من
الشام ، و الحاق علی بن الحسین صلوات اللہ علیہ الرووس بالاجساد ۔[٩]علما
کے درمیان مشہور ہے کہ زیارت کے مستحب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ امام حسین
علیہ السلام کے اھل بیت شام سے واپسی پر کربلا آئے اور امام علی بن الحسین
علیہ السلام کے توسط سے سروں کو ان کے جسموں سے ملایا گیا ۔شبراوی الاتحاف
بحب الاشراف میں لکھتا ہے :" و قیل اعید الی الجثۃ بکربلاء بعد اربعین یوما
من مقتلہ "[١٠]؛ کہا گیا ہے چالیس دن کے بعد سروں کو جسموں کی طرف پلٹایا
گیا ۔شبلنجی (متوفای 1322 ق)کہتا ہے : " وذھبت الامامیۃ الی انہ اعید الی
الجثۃ و دفن بکربلاء بعد اربعین یوما من المقتل "[١١] امامیہ کہتے ہیں :
سروں کو جسموں کی طرف پلٹایا گیا اور شہادت کے چالیس دن بعد کربلا میں دفن
کیا گیا ۔شیخ صدوق امالی میں فاطمہ بنت علی علیھا السلام سے روایت نقل کرتے
ہوئے کہتے ہیں : " الی ان خرج علی الحسین بالنسوۃ و رد راس الحسین الی
کربلاء "[١٢]؛ حضرت علی بن الحسین اھل بیت کے قافلے اور اباعبداللہ الحسین
علیہ السلام کے سر مبارک کو کربلا واپس لائے ۔بعض روایات کے مطابق۲۰ صفر
۶۱ ہجری امام حسین علیه السلام کا چہلم منانے کیلئے امام کے سب سے پہلے
زائر جابربن عبداللہ انصاری جو رسول خدا کے صحابی ہیں مدینہ منوّرہ سے امام
حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے کربلا آئے ہیں ، جابر فرات کے پانی سے
غسل کرنے کے بعدغم و اندوہ کی حالت میں امام حسین علیه السلام کی زیارت
کیلئے روانہ ہوئے ۔شیخ طوسی کتاب مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں :صفر کا
بیسواں دن وہ دن ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں مدینہ سے امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے آپ
امام کی قبر کے پہلے زائر ہیں ،اس دن میں امام حسین علیه السلام کی زیارت
مستحب ہے [١٣] ۔مرحوم شیخ طوسی کی عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جابر
امام حسین علیه السلام کی زیارت کے قصد ہی سےمدینہ سے نکلے اور ۲۰ صفر کو
کربلا پہنچے ہیں لیکن یہ کہ مدینہ والے کس طرح اور کیسے امام کی شہادت سے
مطلع ہوئے کہ جابر نے اپنے آپ کو کربلا پہنچایا؟ تاریخی شواھد کے مطابق
ابن زیاد نے اہلبیت کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی عبدالملک بن ابی الحارث سلمی
کو حجاز روانہ کر دیا تھا تا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے حاکم مدینہ ، امام
حسین علیه السلام اور انکے ساتھیوں کی شہادت سے با خبر ہو جائے۔اھلبیت کے
کوفہ پہنچنے کےچند دن بعدہی شہر کے لوگ من جملہ مدینہ والے فرزند پیغمبر کی
شہادت سے آگاہ ہو گئےتھے۔ اس صورت میں ممکن ہےکہ جابر اس بات سے با خبر ہو
گئے ہوں اور اپنے آپ کو کربلا پہنچایا ہو۔ جس وقت آپ مدینہ سے کربلا کیلئے
روانہ ہوئے ہیں ضعیفی اور ناتوانی نے انکو پریشان کر رکھا تھا اور بعض
روایات کے مطابق آپ نا بینا بھی تھے ۔ لیکن جابر نےلوگوں کو غفلت کی نیند
سے بیدار کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیا۔ اس زیارت میں جابر کے ہمراہ
عطیّہ بھی تھے جو کہ اسلام کی بڑی شخصیتوں، اور مفسر قرآن کے عنوان سے
پہچانے جاتے تھے۔ اس دن میں زیارت کے سلسلہ میں نزدیک یا دور سے بہت ساری
روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ [١] مجلسی ، بحار الانوار ، ج ۹۸ ، ص ۳۲۹ ، بیروت
، "علامات المومن خمس: صلاۃ احدی و خمسین ، و زیارۃ الاربعین۔۔۔۔۔"[٢]
طبری ، محمد بن علی، بشارۃ المصطفی، ص ۱۲۶ ، قم موسسہ النشر الاسلامی، چھاپ
اول ، ۱۴۲۰ ھ۔[٣] بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ج ۴۵ س
۱۴۶۔[٤] : ابوریحان بیرونی ، الآثار الباقیہ ،ص 422۔[٥] :ابن عبدالبر قرطبی
، التذکرہ الخواص ،ج2ص 668۔[٦] : زکریا بن محمد قزوینی، عجائب المخلوقات و
غرائب الموجودات ، ص 45۔[٧] : شیخ بھائی ، توضیح القاصد ، ص6۔[٨] :محمد بن
علی مناوی ،فیض القدیر ،ج1،ص205۔[٩] :بحارالانوار ،ج101،ص334۔[١٠] :عبداللہ
بن محمد شبراوی ، الاتحاف بحب الاشراف ،ص70۔[١١] :سید مومن بن حسن شبلنجی ،نورالابصار،
ص121۔[١٢] :شیخ صدوق، امالی، ص232،ح243۔[١٣] : شیخ طوسی، مصباح المتہجد ،
بررسی تاریخ عاشورہ۔ ص۴۴۲اربعین امام حسین |