صلح حدیبیہ  از     علامہ صادق حسن

دوسراحصہ

پہلا حصہ

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمدللّٰہ الملک الحق المبین والصلٰوة والسلام علی سیدالمرسلین وآلہ والسلام سید المرسلین وآلہ وعترتہ واھلبیة الطیبین الطاھرین ولعنة اللّٰہ علی اعدائم اجمعین

اما بعد فقد قال سبحانہ وتعالی فی محکم کتاب المبین بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

عسی ان تحب شاء فھوکرھالکم وعسی ان تکرہ شیاء وھو خیرالکم وھواعلم بما لا تعلمون

 سیرت پیغمبر اسلام کی نویں اور مجموعی اعتبار سے 106 تقریر ،صلح حدیبیہ کے حالات بیان کر رہے ہیں۔اور کوشش یہ کی جائے گی کہ آج یہ ذکر مکمل ہو جائے کیونکہ آئندہ منگل کو ایک ہفتے کیلئے وقفہ آ جائے گا۔ کوشش یہی ہے کہ کم از کم واقعات تک کے حالات مکمل ہو جائے۔ قرآن کریم کی جس آیت کی تلاوت کی گئی وہ اگرچہ کہ عمومی آیت ہے یعنی خاص صلح حدیبیہ سے اس آیت کا تعلق نہیں ہے ایک عام اصول قرآن بتا رہا ہے کہ انسانی زندگی میں بار بار یاد رکھنے کے قابل ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ صلح حدیبیہ میں قرآن کا یہ اصول بہت نمایاں طور پر ہمارے سامنے آیا اور وہ یہ عسی ان تحب شیا ء فھو کرھا لکم بسا اوقات ایسا ہوتا ہے قرآن کہہ رہا ہے۔ عسی کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ تمہیں ایک چیز بہت پسند آ رہی ہے لیکن وہ چیز تمہارے حق میں نقصان دہ ہے وعسی ان تکرھا شیا فھو خیر لکم اور کبھی یہ ہو گا کہ تم کسی چیز کونا پسند کر رہے ہو تمہارا دل اسے قبول کرنے کو تیار نہیں مگر اسی میں تمہارے لئے خیر ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بما لا تعلمون۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے تمہارے بارے میں تم بھی اپنے بارے میں اتنا علم نہیں رکھتے۔ واللہ اعلم۔ اللہ زیادہ جاننے والا ہے کہ ایک انسان اپنی عام زندگی کے حالات و واقعات بھی مرضی پروردگار پر چھوڑ دے یہی مناسب ہے اس اعتبار سے کہ ہو سکتا ہے کہ جس چیز کیلئے ہم کڑھتے جا رہے ہیں مستقبل میں اسی میں ہمارے لئے برائی ہو اور ہو سکتا ہے کہ ابھی جن حالات سے ہم گھبرا رہے ہیں بعد میں یہی ہمارے لئے بہتر قرار پا رہے ہیں۔ یہ انسانی زندگی کا اہم ترین اصول ہے جسے آدمی یہ سمجھ لے تو گویا وہ مومن کامل ہو گیا اس لئے کہ پیغمبر کی تعلیم ہی تھی اول العلم معرفة الجبار آخر العلم تفویض الامور الیہ علم کا آغاز ہوتا ہے کہ خدا کو پہچانیں اور علم کا اختتام اور انجام ہے کہ اپنے تمام کاموں کو اس کے سپرد کر دیں۔ خدا جس پر ہمیں رکھے ہم اسی پر راضی ہیں۔ یعنی مرضی مولیٰ از ہم اولیٰ جو ہمارے مولیٰ کی مرضی ہے وہ سب سے اولیٰ ہے جو ہمارے مولیٰ اور آقا کی مرضی ہے وہ سب سے بہتر ہے ہماری خواہشات ہماری تمنائیں دیکھیں دعا کی ممانعت نہیں اگر دعا کا نتیجہ نہ نکلے تو اس وقت سامنے آتا ہے کہ انسان مطمئن رہے کہ ہمارے پروردگار نے میری مصلحت کو دیکھ کر دعا کو قبول نہیں کیا۔ سارا لشکر اسلام جن کی تعداد اس وقت ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی ایک مسئلہ پر متفق نظر آ رہا ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر جو حالات و واقعات پیش آئے اور جس انداز سے مسلمانوں کو طاقت اور غلبہ رکھنے کے باوجود جس طرح د ب کرصلح کرنا پڑی تو شاید دو یا تین افراد کے سوفیصدی مطمئن نظر نہ آئے۔ مسلمانوں کو اس میں توہین محسوس ہو رہی تھی احساس ذلت ہو رہا اور یہ خیال ان کے دلوں میں آ رہا ہے کہ ہماری یہ صلح ہمارے مسلمان بھائیوں کیلئے ظلم نہ بن جائے وہ مسلمان کہ جو مکہ کے اندر ہیں مگر وہی چیز جو عالم اسلام کو سب سے ناگوار واقعہ محسوس ہو رہا ہے اس کے بارے میں خدا کہہ رہا کہ انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ یہ کھلی ہوئی کامیابی ہے جو ہم نے آج تمہیں عطا کی اور اسی کے بارے میں کہ تمام مسلمانوں کو سب سے تکلیف دہ عمل محسوس ہو رہا ہے صادق آل محمد حضرت امام حضرت صادق کا ارشاد ہے یہ فرمان میں نے پچھلی مرتبہ بھی دہرایا۔

ما کان قضیة اعظم برکة منھا

اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑا عظمت و برکت والا کوئی واقعہ پیغمبر کی زندگی میں کوئی نہ تھا ما کان فضیة اعظم برکة منھا برکت کے اعتبار سے نہیں اور یہی سبب کہ پھر قرآن سورہ فتح کہ یہ پورا سورہ ایسا ہے کہ ایک ایک آیت کو ذرا تفصیل کے ساتھ پڑھا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ اس وقت مسلمان کتنے بددل نظر آ رہے تھے جیسے معصوم اسلام کا مبارک ترین واقعہ قرار دے جیسے قرآن اسی لڑائیوں میں سے جو پیغمبر کی زندگی میں ہوئیں سب سے بڑی کامیابی قرار دے لیکن اگر سورہ فتح پڑھ لیا جائے اسی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مسلمان بد دل کتنے ہیں ناراض کتنے ہیں اختلاف کتنا زیادہ کر رہے ہیں۔ سورہ فتح آیتوں پر آیتیں ہیں موقع ملا تو اختتام میں اس کا تذکرہ ہو گا لیکن سبھی مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے سبھی مسلمانوں کو امید دلائی جا رہی ہے اس سورہ فتح میں جہاں صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے یہ تذکرہ ہو رہا ہے گھبراؤ نہیں عنقریب ہم تمہیں بہت بڑی کامیابی اور دینے والے ہیں جس میں کثرت کے ساتھ مال غنیمت تمہارے ہاتھ لگے گا یعنی غزوہ خیبر اسی سورہ فتح کے اندر وہ آیت لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق خدا نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ یقیناخدا تمہیں مسجد الحرام میں داخل کرے گا۔ آمنین امن ساتھ محلقین روٴسکم سروں کو منڈوا کر او مقصرین یا تھوڑے سے بال کاٹ کر لاتخافون اس حالت میں کہ تم پر کوئی خوف نہیں ہو گا۔۔فعلم مالم تعلموا بس اتنا ہے کہ اللہ وہ جانتا ہے کہ جو تم نہیں جانتے غزوہ خیبر کا تذکرہ کبھی مال غنیمت کی امید کبھی آئندہ سال مسجد الحرام میں خیروعافیت کے ساتھ آنے کا تذکرہ۔اب اسی سورہ کے اندر وہ آیت بھی جس میں خدا نے صلح حدیبیہ کی ضمنی وجہ بتائی کہ لو لا رجال مومنون اگراس مکہ کے اندر ایسے مرد اور عورتیں نہ ہوتے جو مسلمان ہو چکے تھے تو شاید تمہیں لڑائی کی اجازت مل جاتی لیکن اگر تم جنگ کرو گے تو سب سے بڑا نقصان اس سورہ فتح کے اندر قرآن کہہ رہا ہے سب سے بڑا نقصان ان مردوں اور عورتوں کا ہو گا جو بیچارے اسلام لا کر مکہ میں پھسے ہوئے ہیں نکل نہیں سکتے تمہاری جنگ کے نتیجہ میں تمہیں نقصان ہو یا نہ ہو وہ بے چارے سب کے سب مارے جائیں گے اسی لئے قرآن نے کہا لو تزیلو لعزبنا الذین کفروا منھم عذابا الیما اگر یہ مرد اور عورتیں مسلمان کسی طرح سے مکہ سے نکل آئیں تو پھر تم دیکھنا ہم خود ان کافروں پر کتنا سخت عذاب نازل کرتے ہیں غرض یہ کہ مختلف انداز اور طریقے ہیں قرآن کو اتنا زیادہ مسلمانوں کے سامنے صفائی پیش کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی۔ اس لئے مسلمان دل سے صلح حدیبیہ پر راضی نہیں اور اس سے پہلے اور بعد میں بڑے بڑے واقعات ہو گئے اور جس میں بہت سے مسلمانوں نے اختلاف کیا رسول سے مگر اتنا لمبا صفائی کا بیان قرآن نے کہیں پیش نہیں کیا جیسے صلح حدیبیہ میں نظر آ رہا ہے اور خصوصاً یہ آخری آیت جو میں نے ابھی پڑھی ہے تو یاد رکھو اس لئے ہم جنگ سے روکنا چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح ان مسلمانوں کو نکالا جائے اور اگر وہ نکل آئیں تو تمہارے لڑنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ خدا خود اپنا عذاب نازل کر سکتا ہے یہاں پر ایک اور ضمنی مسئلہ حل ہو رہا ہے۔ کبھی کبھار جہاد اور قتال لازم ہو جانے کے باوجود صرف یہ خیال کرنا پڑ جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری وجہ سے بے گناہ ایسے مسلمان کو نقصان پہنچ جائے جو بغیر اپنی خوشی کے مجبوری کی وجہ سے کافروں کے درمیان پھنسا ہو۔ یہ آیت سورة فتح کی آیت ہے اور بہت ہی اہم اس اعتبار سے کہ آج یہ پتہ چلا کہ صلح حدیبیہ میں پروردگار نے مصالحت کا حکم کیوں دیا جہاں یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے آ گئی کہ مسلمانوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی یہ جو جملہ ہے کہ معصوم جو تلوار چلاتا ہے یہ دیکھ کر تلوار چلاتا ہے کہ جسے قتل کیا جا رہا ہے کہ اس کے صلب میں ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی مومن ہو قیامت تک اگر کوئی مومن پیدا ہونے والا ہے کئی روایتوں کے اندر اس کی تشریح آتی ہے صفین کی لڑائی کا یہ جملہ نہیں ہے کئی مقامات پر بھی معصوم نے یہ جملہ دہرایا کہ ہماری تلوار جب کسی پر چلتی ہے فقط اس کو نہیں دیکھتی کہ یہ خطاکار ہے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان کی نسل میں کسی مومن کا وجود تو نہیں پایا جا رہا اس کی وجہ سے کبھی کبھار اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہاں اس پر بھی بعض مسلمانوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی اور فقہی مسئلے جن کا تعلق ہم سے ہے امام پر لگانے کی کوشش کی کہ جی اگر وہ واجب القتل ہے تو اس کے باپ کو نہیں دیکھنا ہے اگر یہ صلح حدیبیہ کیا آیت جس میں قرآن یہی آواز دے رہا ہے اگرچہ کفار مکہ مستحق عذاب ہیں لعذبنا الذین منھم عذابا الیمااے مسلمانو تم اپنی بات چھوڑو ہم ان پر خود عذاب کر دیں ہمیں تو ان مومن مردوں اور عورتوں کی وجہ سے چھوڑنا پڑ رہا ہے جو ان کے درمیان پائے جا رہے ہیں تو خیر یہ ایک ضمنی مسئلہ حل ہو رہا تھا اس لئے میں نے اس کا ذکر کر دیا۔ آئیے اس تمہید کے بعد جس کی ضرورت ابھی تو نہیں لیکن جب یہ واقعات مکمل ہوں گے تو پھر ایک بار جائزہ لینا پڑے گا۔

اب واقعات کچھ اس طرح سے بیان ہو رہے ہیں۔ ذیقعدہ سن چھ ہجری کی تاریخوں میں حدیبیہ کی سرزمین پر موجود ہیں جو مکہ سے تقریباً 16 میل کے فاصلہ پر ہے۔ پیغمبر کا وہاں پر قیام ہے مکہ والوں کو یہ اطلاع بہت پہلے مل چکی تھی کہ پیغمبر کس انداز سے مدینہ سے نکلے ہیں اور حدیبیہ پہنچنے کے بعد کچھ اور ایسے حالات و واقعات سامنے آئے ہیں کہ مکہ والوں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اللہ کا رسول اس سال مکہ پر حملہ نہیں کرنا چاہا رہا کہ کم ظرف اور چھچھورے انسان کی پہچان ہوتی ہے کہ اگر اسے پتہ چل جائے کہ اس بار یہ حملہ نہیں کریں گے تو وہ اور زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ یہ آدمی دب رہا ہے تو اور زیادہ سے دباتے چلو قریش کا انداز و طریقہ بالکل وہی چھچھوراپن کم ظرفی کی نشانی ہے وہ کس طرح ان حالات کی تصویر بیان کرتا ہے کہ اللہ کے رسول نے کہہ دیا کہ ہمیں جنگ تو نہیں کرنا اس دوران سفیروں کی آمدورفت ہونے لگی۔

قریش مکہ کے تین سفیر پچھلی تقریر تک ان کا بیان ہو گیا پہلا تو اس قبیلے کا آدمی جو اسلام سے پہلے بنی ہاشم کا دوست قبیلہ تھا قبیلہ بنی خزاع کا سردار اس کے بعد پھر قریش حبشی جس کی تشریح ہو چکی ہے کہ اس سے مراد افریقہ والے نہیں مکہ میں بھی ایک پہاڑ کا نام حبشی ہے اس کے پیچھے ان لوگوں کو جگہ دی گئی جنہیں خاص مکہ والے انہیں مدد کیلئے لے کر آئے ان کے سردار اویس کو بھیجا گیا۔ پیغمبر نے اس سے کوئی بات ہی نہیں کہی بلکہ اس کے سامنے ہدیہ پیش کر دیا اونٹوں کا اور پھر آخر عروہ بن مسعود ثقفی جناب ام لیلیٰ کے دادا وہ کسی اور مسئلہ کو سلجھانے کیلئے مکہ میں آئے ہوئے تھے جس کی تفصیل آپ سن چکے ہیں ان کو تیسرا سفیر بنا کر بھیجا اور جب پیغمبر سے ان کی بات چیت مکمل ہوئی اور وہ واپس جانے لگے تو پیغمبر نے اپنی صحابیوں کوحکم دیااور کہا آؤ ہم سب وضو کر کے نماز پڑھیں اور موٴرخین کہتے ہیں کہ یہ وضو کر کے نماز ساتھ اس لئے ادا کی گئی کہ عروہ کو جواب تک آنے والے سفیروں سے سب سے بڑا سب سے اہم اور عزت والا سفیر تھا جس کا مقام و مرتبہ قریش مکہ سرداران عرب ابوسفیان وغیرہ سے کم نہیں تھا اگر یہ مکہ کے سردارتھے تو عروہ طائف کا بے تاج بادشاہ تھا۔ جس کا ذکر ہو چکا پیغمبر زبانی گفتگو کے بعد عملی تصویر بھی پیش کرنا چاہتے تھے اور وہ وہی جس کا جلدی جلدی بیان گزشتہ تقریر میں آیا مگر یہ جملے رہ گئے تھے پیغمبر نے عمداً یہ کہا مسلمانو آؤ ہم اس کے سامنے وضو کر کے نماز پڑھیں فقہ کا ایک مسئلہ اس سال ہمارا طریقہ یہ رہا مسائل الگ بیان نہیں ہوتے دوران تقریر جہاں مناسب مواقع آیا بیان کر دیا۔ اب دو مسئلے آ گئے ریا اسلام میں حرام ہے کم از کم عبادت کی حد تک تو مبطل عبادت ہے یعنی کوئی بھی عمل اگر دنیا دکھاوے کیلئے کیا جائے وہ عمل باطل ہو جاتا ہے چاہے وضو ہو چاہے غسل ہو چاہے تیمم ہو چاہے نماز ہو چاہے روزہ ہو چاہے خمس ہو چاہے حج ہو عبادتوں میں جتنی عبادتیں ہیں ریا حرام ہے اور اس ریا کو ختم کرنے کیلئے نماز اور اس جیسی عبادتوں میں قربة الی اللہ کہا جاتا ے۔ قربة الی اللہ رٹا ہوا جملہ تو ہر ایک کو ہے مطلب کیا حکم خدا کی خاطر یعنی … کیلئے لوگوں کو دکھانے کیلئے یا اپنے کسی نفع و فائدے کیلئے فلاں عبادت انجام نہیں دے رہا بلکہ قربة الی اللہ صرف اور صرف حکم خدا کیلئے دیکھئے مذہب میں اہم ترین چیز یہ ٹکڑا ہے وہ لمبی چوڑی چیز میں وضو کرتا ہوں۔ واسطے دور ہونے حدث کے مباح ہونے نماز کے واجب قربة الی اللہ اس کا اہم ٹکڑا صرف آخری ہے قربة الی اللہہے یہی وجہ کہ جب امام خمینی اور آقا ئے خوئی کی توضیح المسائل میں وضو کے تمام مسائل اٹھا کر پڑھ ڈالئے یہ والی نیت ہی نہیں لکھی جو ہم کو بچپن سے رٹائی جاتی ہے صرف ایک مسئلہ آیا ہے کہ شرائط وضو میں ساتھ ہی شرط یہ ہے کہ وضو قربة کی نیت سے انجام دیا جائے یعنی حکم خدا کی خاطر پھر اب اس کے بعد علماء کہتے ہیں یہ بات طے ہو گئی مجتہدین کا فتویٰ ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لئے ہونا چاہئے تو دو تین مقامات ایسے آئے ہیں کہ جہاں اللہ کے لئے ہی عبادت کی جائے مگر لوگوں کو دکھا کر جنہیں سے ایک ہے مقام ترغیب و تشویق ایسی عبادت کر رہے ہیں کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے لوگوں کے سامنے عبادت کی مگر صرف اس لئے کہ شاید اس سے ایسے لوگوں کو شوق و رغبت پیدا ہو جائے جو عام حالت میں تیار نہیں ہوتے یعنی امر بالمعروف نیکی کا حکم دودوسرا مقام رفع تہمت کیلئے اگر کسی پر الزام لگ جائے کسی عبادت کے بارے تہمت میں کہ یہ آدمی تارک عبادت ہے نماز نہیں پڑھتا خمس نہیں دیتا کنجوس بہت ہے کسی بھی گناہ کا الزام لگ جائے اب اسے اجازت کہ خالی یہ الزام ہٹانے کے لئے لوگوں کے سامنے کوئی کام کرے پھر ایک دو چیزیں بہت مشہور ہیں اس کے علاوہ بھی کسی مصلحت کے ساتھ عبادت کی اجازت مل سکتی ہے جب جو بات میں کہنے جا رہا ہوں کھل کر کہنا بھی نہیں چاہتا اگر اعتراض ہے تو سیرت رسول کا اصل مقصد حال واقعات سنانا نہیں یہ واقعات آج کل جو ہماری زندگی ہے اس سے کس طرح مطابقت کریں کسی نے یہ کہا کہ کیا ضرورت ہے اچھی بھلی عبادت سالوں سے ہو رہی ہے اس کے بیچ میں کبھی یہ رفع تہمت کے دائرہ میں ہوا کرتا ہے کہ اگر کسی فرد پر یہ تہمت لگ جائے کہ یہ نمازی نہیں تو اس پر یہ حکم ہے کہ سب کے سامنے نماز پڑھو اور کبھی کسی گروہ کے بارے میں بھی یہ مسئلہ آ سکتا ہے کہ اگر کسی گروہ پر تہمت لگ جائے کہ یہ نمازی نہیں تو وہ سب کے سامنے نماز پڑھے اس کے علاوہ یہ تیسرے میں بھی آ سکتا ہے کہ پیغمبر حکم دے رہے ہیں کہ اے مسلمانو جلدی جلدی وضو کر کے نماز کیلئے کھڑے ہو جاؤ اس سے پہلے کہ عروہ یہاں سے چلا جائے یہ نماز عروہ کو دکھانا یہ وضو عروہ بن مسعودثقفی کو دکھانا ہے جیسے وضو و نماز اللہ کے لئے ہے مگر خاص اس موقع پر اس کو بھی دکھانا ہے چنانچہ پیغمبر عروہ سے زبانی بات چیت ختم کرنے کے بعد فی الفور وضو کا اہتمام کیا اور وضو کر کے نماز شروع کر دی عروہ اسے اس وقت نہ وضو سے کوئی دلچسپی ہے نہ نماز سے۔ بعد میں تو اسلام لا چکے اور بڑے بلند مقام پر پہنچے اس وقت کوئی دلچسپی نہیں مگر جاتے جاتے یہ منظر دیکھ رہے ہیں اور اس منظر نے اس پر وہی اثر کیا جس کی خاطر رسول نے مجمع عام میں اس عبادت کو انجام دیا اب مکہ پہنچ کر جو وہ رپورٹ دے رہا ہے پیغمبر سے اس کے جو مذاکرات ہوئے وہ بیان کئے اس کے بعد آخر میں اپنی طرف سے جو جملے شامل کر دیئے مگر اسے قریش مکہ میرا مشورہ یہی ہے کبھی محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں سے جنگ کی حماقت نہ کرنا اس لئے کہ ابھی ابھی میں دیکھ کر آیا ہوں اسے ایسے جانثار ساتھی ملے ہیں میں نے روم کے بادشاہ کو بھی دیکھا میں نے ایران کے بادشاہ کو دیکھا میں مصر کے حکمران کے دربار میں گیا میں نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا مگر ایسے اطاعت گزار اور ایسے فرمانبردار مجھے کہیں نظر نہ آئے میری آنکھوں کے سامنے ان کے سردار نے وضو کیا اور اس کے وضو کے پانی کا ایک قطرہ زمین پر نہیں گرا اس لئے کہ بے چین و بے تاب ہو کر اس کے صحابی دوڑ پڑتے تھے اور اس کے وضو کے پانی کا ایک ایک قطرہ ان کیلئے باعث رحمت و برکت ہوتا تھا اور باعث ثواب اور پھر دو تین جملے اور جو پچھلی تقریر میں آ گئے تو پیغمبر نے جو عمداً جلدی جلدی وضو کروایا اور یہ منظر بھی اس کے ذہن میں نقش کرنا تھا اور یہ تاثر بھی اس کے ذہن میں بٹھانا تھا تاکہ وہ مکہ والوں کو رپورٹ دے سکے تو کبھی کبھار کسی پر ہیبت طاری کرنے کیلئے کبھی کبھار کسی کو حقیقت حال آگاہ کرنے کیلئے کوئی عمل جو گھر میں بھی چھپ کر سکتا ہے سے علی الاعلان انجام دیا جا سکتا ہے اس سے زیادہ کی وضاحت اصل موضوع کو نامکمل چھوڑ دے گا۔

عروہ تو گیا اس کی رپورٹ بھی پچھلی تقریر میں بیان ہو گئی چونکہ وقت کم تھا اور جملے رہ گئے تھے کہ پیغمبر نے عمداً اس کے سامنے وضو و نماز کا اہتمام کیا اس کی رپورٹ ایسی کہ اب قریش مکہ کو کوئی اور قاصد بھیجنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی اور یہ بھی آپ کو یاد ہو گا وہ جب آ رہا تھا تو قریش کا نمائندہ تھا۔ اور یہ بیان کر کے آیا تھا کہ میرا بھی وہ حشر نہ کرنا جو مجھ سے پہلے دو قاصدوں کا کیا تھا اس وجہ سے اور قریش پریشان تھے کہ کیا کیا جائے ادھر اللہ کے رسول نے دیکھا کہ وقت گزرا جا رہا ہے ایک طرف سے قریش کی جانب سے خاموشی چھا گئی تو پیغمبر اسلام کہ جیسے آج کل کی ڈپلومیسی کی زبان میں کہا جاتا ہے ڈیڈ لاک کو توڑنے کیلئے وہ جو ایک تعطل آ گیا اسے ختم کرنے کیلئے اب اپنا قاصد بھجوایا یہ پیغمبر اسلام کا دوسرا قاصد تھا سب سے پہلا قاصد رسول کا کون تھا وہی جو قریش کا نمائندہ بن کر آیا تھا۔ رسول نے اسی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیا۔ پھر اس کے بعد قریش کے دو اور نمائندے آ گئے اب پیغمبر اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں۔ خراج ابن امیہ بنی خزاعہ وہ قبیلہ جو حدیبیہ کا اصلی قبیلہ تھا ان کی زمین میں حدیبیہ کا کنواں آتا تھا۔ اس کو پیغمبر نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا جا کہ یہ معلوم تو کرو کہ قریش میں اتنی خاموشی کیوں چھا گئی ہے اللہ کا رسول ہر چیز جانتا ہے صرف واقعات کو آگے بڑھانے کیلئے اور پھر پیغمبر فقط اس لئے یہ آدمی میرا نمائندہ مان لیا جائے اپنی خاص سواری کا جانور اپنے خاص اونٹوں میں سے اونٹ پر بیٹھ کر تم جاؤ جس کا نام کتابوں میں درج ہے۔ تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ واقعی یہ نمائندہ رسول ہے۔ اب وہ چلا جس وقت وہ حرم کے قریب پہنچا قریش شروع سے جوش میں آئے ہوئے تھے پچھلی دفعہ یہ بیان ہو گیا ان کے مردوں ان کے بچوں عورتوں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دینا وجہ یہ آ گئی تھی کہ ان کا امیج متاثر ہو جاتا تھا۔ خانہ کعبہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتا تھا ایک مرتبہ جب خراج بن امیہ اونٹ پر بیٹھ کر آیا۔ بیچارہ اس سے پہلے کہ اپنی زبان کھولے اور اپنی بات چیت شروع کرے قریش نے پہچان لیا کہ یہ کس اونٹ پر آ رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کس کا نمائندہ ہے اچھا بہت سی چیزیں ہمارے آپ کیلئے سمجھنا مشکل ہے لیکن یاد رکھیئے اسلام سے پہلے عربوں کی جو چند خصوصیتیں بتائی گئی تھیں۔ حافظہ بڑا طاقتور ہوتا تھا جانوروں کی پہچان بہت زیادہ ہوتی تھی یعنی اپنے بچوں کو اس طرح نہیں پہچانتے تھے اپنے خاندان کو اس طرح نہیں پہچانتے تھے جس طرح ایک گھوڑے کا شجرہ نسب ان کو یاد ہو جاتا تھا اور اس کی نسل کو وہ دیکھ کر پہچان لیتے تھے اونٹ اور اونٹ کی نسل اگر کسی کو یہ تعجب ہو کہ اونٹ دیکھ کر کیسے پتہ چلا کہ یہ رسول کا اونٹ ہے اس لئے تعجب ہو گا کہ آج کے ماحول میں بیٹھ کر 1400 پہلے کے واقعات کو سمجھ رہے ہیں۔ قریش کے ہاں عربوں کے ہاں باقاعدہ اپنی نسل سے زیادہ جانوروں کی نسل کا خیال رکھا جاتا تھا۔تو خیر پہچان لیا کہ یہ کون آیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ قاصد رسول بے چارہ کوئی زبان کھولے اور کوئی بات چیت کرے قریش کے نوجوانوں کا ایک گروہ ٹوٹ پڑا پہلے اسے اونٹ سے اتارا اور اونٹ کی جانب متوجہ ہوئے کیونکہ اونٹ کے بارے میں تو پتہ ہے کہ یہ رسول کا اپنا اونٹ ہے اسی مقام پر اس کو نحر کر دیا ذبح کر دیا اونٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اس وقت یہ جوش و جذبہ کے عالم میں پھر اس کے بعد اس خراج کی جانب متوجہ ہوئے۔ پھر حبشی قبیلہ کے لوگ آگے بڑھ آئے جن کے بارے میں پچھلی دفعہ تفصیل آ چکی ہے ان کا ایک جملہ یہ تھا ہم تمہارا ساتھ صرف ان کے بارے میں دیں گے جو مکہ پر حملہ کریں لیکن جو سفارت کیلئے آ رہا ہے اس وقت ہمارا تمہارا معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔ اس کاسردار ویسے بھی جلا بھنا بیٹھا یہ توہین آمیز انداز میں اسے رد کیا تھا پچھلی تقریر میں تو اب وہ آگے بڑھا اپنے سارے تیر اندازوں کو لے کر کہ اس نوجوان کو کوئی ہاتھ نہ لگائے یہ قاصد ہے ایلچی ہے اس کی جان کی حفاظت واجب ہے ہم حملہ آور کے خلاف تمہارے ساتھی ہیں اور جو مظلوم ہو گا اس کا ساتھ دیں گے اور اس کو بڑی مشکل سے بچا کے لے گئے۔ اللہ کے رسول کو یہ اطلاع پہنچ گئی کیونکہ یہ آدمی واپس پہنچ گیا رہتا تو اسی علاقہ میں ہے جہاں قافلہ اسلامی ٹھہرا ہوا ہے اب اطلاع مل گئی کہ یہ عالم ہے اب کیا کریں۔ پیغمبر اسلام تاریخ کا ایسا حساس حصہ آ رہا ہے۔ واقعات واقعات ہیں اور ساری اسلامی کتابوں میں درج ہیں لیکن ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہیں کہ یہاں لوگ ہوش سے زیادہ جوش اور عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیتے ہیں خصوصاً موجودہ حالات میں تو بہت سرسری مجھے آگے بڑھ جانا پڑے گا دوسرا قاصد جان بچا کے واپس آیا۔ اب اللہ کے رسول کو تلاش ہے کسی ایسے آدمی کو بھیجا جائے کہ جس سے قریش سے حالات بھی ٹھیک ہوں اور یہ جملہ ہے جو میں بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن پیغمبر کا مقصد اور ایسا آدمی جس کے ہاتھ سے آج تک قریش کا کوئی آدمی نہ مارا گیا ہو قاتل اور خون کا بدلہ اور دشمنی نہ پھیل جائے۔ پیغمبر اسلام کو اب ایسا قاصد تیار کرنا ہے مگر اس دوران وہ مکہ کے نوجوان جو پیغمبر کے قاصد پر حملہ کر چکے تھے تو ایک طرح سے ان کو کامیابی ہوئی اونٹ بھی انہوں نے نحر کر دیا اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے پیغمبر کا قاصد ایک طرح سے جان بچا کے بھاگا جوش بڑھ گئے چھوٹی سی کامیابی آ جائے انہوں نے آپس میں ایک منصوبہ بنایا ہم لوگ رات اور صبح کا جو قریب ٹائم ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ گہری نیند کا وقت ہوتا ہے اس وقت اچانک حملہ کریں گے اور یہ قدم وہ اس طرح اٹھانا چاہتے تھے کہ ان کے بڑوں اور بزرگوں کو بھی پتہ نہ چلے چنانچہ 50 یا 80 یا40 یا 30 نوجوان تھے یہ چار روایتیں ہیں زیادہ معتبر 50 کا عدد۔ علما نے سمجھا ہے وہ راتوں رات اپنے گھروں سے نکل تنعیم پہاڑی پر چڑھ گئے اور یہ سارے واقعات ایسے ہیں آج بھی مکہ میں یہ نشانیاں ہیں مگر وہاں جانے والے نہ اتنی باتیں یاد کر کے جاتے ہیں اور نہ اتنی معلومات رکھ کر جاتے ہیں۔تنعیم وہ مقام جو آج حضرت عائشہ کے نام پر ایک چھوٹی سی مسجد بنی ہے ہر وہ آدمی جومکہ میں ایک دفعہ پہنچ جائے پھر اگر وہ مزید عمرے کرنا چاہے تو اسے کہیں دور دراز نہیں جانا پڑتا احرام پہننے کیلئے وہ خانہ کعبہ سے چھ میل دورتنعیم ایک جگہ ہے جسے مسجد شجرہ بھی کہتے ہیں مسجد عائشہ بھی کہتے ہیں میقات بھی کہتے ہیں وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور یہ وہ جگہ ہے جہاں پر یہ تیر انداز چھپ کر بیٹھے تھے یعنی وہ جگہ عمرے کیلئے کیوں مشہور ہے اس لئے کہ مکہ سے باہر ہے۔ اب ان نوجوانوں نے راتوں رات مکہ چھوڑ دیا اپنے بزرگوں کو بھی نہیں بتایا۔اب نوجوانوں نے راتوں رات مکہ چھوڑ دیا اور اپنے والدین کو بھی نہیں بتایااور وہاں جا کے چھپ کر بیٹھ گئے اب صبح کا جو وقت آ رہا تھا ایک دم سے حدیبیہ کی طرف چلے 50 تیر انداز مگر جیسے ہی وہاں پہنچے وہ اندازہ کرنے میں غلطی کر گئے شاید ان کا خیال یہ تھا یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ بالکل غافل سو رہے ہوتے ہیں مگر پیغمبر کا زمانہ وہ عین نماز شب کا افضل ترین وقت اور نماز صبح کی تیاری کا وقت ہے وہ تو سب سے زیادہ مسلمان کی بیداری کا وقت تھا کافر کی غفلت کا وقت ہے وہ دوسری بات ہے یا آجکل کے مومن کی غفلت کا وقت ہو وہ دوسری بات ہے۔ لیکن پیغمبر کے زمانہ میں اس وقت ہر مسلمان جاگ رہا ہوتا تھا وہ اندازہ کر کے آئے ہوں گے اپنے ماحول کا کہ ہمارے ہاں صبح چار بجے تو سب سے گہری نیند آتی ہے اس وقت کوئی نہیں اٹھتا اور مسلمان اسی وقت اٹھتا ہے کیونکہ وہ رحمتوں کا نزول ہے برکتوں کا نزول ہے رزق کا نزول ہے اللہ کی نعمتوں اور اللہ کی نشانیوں کے ظہورکا نزول ہے سب مسلمان اس وقت عبادت کیلئے تیار ہو رہے تھے۔ چنانچہ یہ 50 تیر انداز جیسے ہی اتر کر آئے فوراً ہی پکڑے گئے اور خیموں تک ان کو پہنچا دیا گیا یہ تو ہوا واقعات کا ایک پہلو۔

علامہ مجلسی نے جابر بن عبداللہ انصاری کے حوالہ سے یہ لکھا بہرحال وہ تیرانداز تھے تلوار چلانے والے تو تھے نہیں کہ تلوار چلانے والوں کا مسئلہ یہ ہو گا جب تک وہ قریب نہ آ جائیں حملہ نہیں کر سکتے یہ تو دور سے بھی مسلمانوں کو اگر جاگتا دیکھ لیں تیر تو چلائے جا سکتے ہیں جابر نے کہا اس وقت پیغمبر نماز شب میں مصروف تھے اور جو پیغمبر کی عمومی دعا تھی کہ خدا کفر کا خاتمہ کرے کافروں کا خاتمہ کرے اسلام کو عزت دے۔ اعزا الاسلام واھلہ وہ دعا پیغمبر مانگ رہے تھے اس کی وجہ سے یہ تیر انداز اندھے ہو گئے ہم یہ دیکھ رہیں حملہ آو رہے ہیں مگر اس طرح کہ کوئی اندھا آدمی آ رہا ہو سامنے دشمن ہیں یعنی ہم لوگ ہم پر حملہ کرنے آ رہے ہیں مگر ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ان کو نظر ہی نہیں آ رہے چنانچہ بہت آسانی کے ساتھ ان کو پکڑ لیا گیا اور ہو سکتا ہے واقعتاً ایسا ہی واقعہ ہوا ہو کیونکہ حدیبیہ میں معجزات بہت کثرت کے ساتھ ملتے ہیں اور معجزات کی وجہ بھی پچھلی تقریر میں آ گئی کہ مسلمانوں کا ایمان مضبوط سے مضبوط ہوتا جائے تاکہ بعد میں کوئی شک نہ کرے تو خیر وہ سب کے سب پکڑے گئے سورہ مبارکہ فتح میں یہ واقعہ موجود ہے کہ یاد کرو وہ وقت جب حملہ کیا تھا مکہ شاید پورے قرآن میں لفظ مکہ ایک ہی جگہ آیا ببطن مکہ جب مکہ کی گھاٹی پر کافروں نے حملہ کیا اور ہم نے تمہیں بچایا یہی 50 تیر انداز ہیں بہرحال اللہ کا رسول جنگ نہیں چاہتا چنانچہ ایسے دشمن جن کو قتل کرنا یا سزا دینا بالکل ممکن تھا یا کم از کم ان کو پکڑ کر جیل میں ڈالا جا سکتا ہے تاکہ جب مذاکرات ہوں تو ان کو استعمال کیا جائے مگر اللہ کے رسول نے کہا ان کو رہا کر دو آزاد کرو ہم جنگ کرنے نہیں آئے ہیں اب اتنی بڑی نشانی اور آ گئی کہ پچاس نوجوان جو پکڑ لئے گئے اور بغیر کسی قسم کے تاوان اور معاوضہ کے پیغمبر نے انہیں چھوڑ دیا پھر بھی قریش مکہ وہی بات کہ کم ظرف اور چھچھورا انسان یہ دیکھتا ہے کہ فلاں آدمی میرے سامنے جھک رہا ہے تو جھکائے چلے جاؤ ادھر اللہ کے رسول نے دیکھا میرے دو قاصد گئے پھر یہ 50 نوجوان بھیجے ہیں مگر قریش ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں نہ حملہ کر رہے ہیں۔ اتنی ہمت نہیں نہ ہی مذاکرات کو آگے بڑھا رہے ہیں اب پیغمبر اپنے سارے قافلے کو دیکھنے کے بعد حضرت عمر کا انتخاب کیا کہ تم میرے قاصد بن کر جاؤ انہوں نے معذرت کر لی اے اللہ کے رسول میرا خاندان مکہ میں نہیں ہے وہاں اگر کوئی وقت آ گیا تو کون مجھے سہارا دے گا۔ بہتر ہے کہ آپ عثمان کو بھیج دیں ان کا خاندان یعنی بنو امیہ ہے وہ ہیں مکہ کے اندر چنانچہ ان کیلئے کوئی خطرہ نہ ہونے پائے پیغمبر اسلام نے یہ تجویز منظور کر لی اور حضرت عثمان غنی وجوہات کی بنا پر کہ ان کا خاندان نے بائیکاٹ نہیں کیا نکالا نہیں وہ مکہ میں موجود ہے ان کو کہا کہ تم جاؤ یہ چلے مکہ کی سرحد پر ابان بن سعید نامی مکہ کا ایک سردار مل گیا یہ وہ سردار ہے جو سب سے پہلے مسلمانوں کو دیکھ کر گیا ہے۔ قاصد بن کر نہیں آیا ویسے ہی وہاں سے گزر رہا تھا اس نے حضرت عثمان کو دیکھا پوچھا کہاں جا رہے ہو جواب دیا کہ مکہ جا رہا ہوں اس لئے کہ رسول معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مکہ کے حالات کیا ہیں لیکن اکیلا ہوں تنہا ہوں اس نے انہیں اپنا رقیب بنا لیا یعنی گھوڑے پر سوار کے پیچھے بیٹھنے والا کہا میرے ساتھ بیٹھ جاؤ اور تم میری پناہ میں ہو۔ عثمان کو لیکر مکہ پہنچا حرم میں جا کر اعلان کیا رسول کا قاصد میری پناہ کے اندر اگر کوئی اس پر ہاتھ اٹھائے گا گویا اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور حضرت عثمان مکہ کے اندر ٹھہر گئے اب ان کو یہاں پر صرف حالات دیکھنا ہیں اور معلوم کرنا ہے کہ قریش چاہتے کیا ہیں۔ پیغمبر اسلام بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ میں ہر صورت میں مصالحت چاہتا ہوں۔ تینوں قاصدوں کو جواب دے چکے ہیں اب بھیجا گیا حضرت عثمان کو کہ وہ اس چیز کو آگے بڑھائیں یہاں پر حضرت عثمان کے آنے سے اب پہلی مرتبہ قریش کوئی مصالحت کی بات سوچنے لگے اس لئے کہ اب تک جو قاصدوں نے جو رپورٹ دی اور تیر اندازوں نے جو اطلاعات دیں وہ بھی ایسی ہی تھیں اور اسی وجہ سے پہلے ہم کوئی جنگ جیت تو نہیں سکے اب پہلی دفعہ مصالحت کی کچھ باتیں ہونے لگیں لیکن پیغمبر کے اندازے سے یا یہ کہیے مسلمانوں کے اندازے سے حضرت عثمان کو صبح جا کے شام کو واپس آ جانا تھا تین دن گزر گئے واپس نہیں آئے اور یہ خبر پھیل گئی کہ شاید قریش مکہ نے بطور انتقام ان کو قتل کر دیا ہے بس اس وقت پیغمبر اسلام نے ایک درخت کے نیچے تمام لشکر اسلامی کو جمع کر کے بیعت لی ہمارے علماء اسلام نے لکھا ہے بیعت صرف ایک جملے پر لی گئی یہ پورا واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا اہم واقعہ ہے ملک کے حالات،کراچی کے حالات اور دشمنان اسلام کی سازشیں روک رہی ہیں کہ میں ان حالات میں نہ جاؤں صرف ایک جملہ پر بیعت ہوئی اگر جہاد کا کوئی وقت آ گیا تو تم میں سے موت کو دیکھ کر کوئی بھاگے گا نہیں یہ جملہ ہی غیرت مند انسانوں کیلئے بہت زیادہ ننگ و عار کا سبب بن سکتا ہے لیکن حکم تھا اللہ کے رسول نے جملے پر بیعت لے لی اور اس وقت قرآن کی آیت نازل ہوئی۔ لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرہ۔ اللہ ان لوگوں سے راضی ہوا جو درخت کے نیچے تمہارے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے صاحبان ایمان سے اللہ راضی ہوا یہ آیت نازل ہو گئی پورا یہ واقعہ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ مکتبہ تعمیر ادب نے ایک کتاب شائع کی ہے اور بہترین کتاب ہے بیعت رضوان اس نے پورے تمام ان پہلوؤں کو لیا ہے جو عالم اسلام میں اختلافات کا سبب بنتے ہیں یہ بیعت رضوان جو ہے اس سے بہت سے مسائل حل ہوئے ہیں۔ اب وقت ایسا نہیں ہے کہ میں اس تفصیل میں جاؤں جن لوگوں کو معلومات حاصل کرنا ہے واقعی اتنی اچھی کتاب ہے واپس آتے ہیں اپنے عنوان پر کہ بیعت لی گئی اور ان میں سے جو صاحبان ایمان تھے اللہ نے اپنی رضامندی کا اعلان کر دیا اور بیعت صرف ایک بات پر ہوئی کہ موت کو دیکھ کر تم موت کو دیکھ کربھاگو گے نہیں بیعت مکمل ہوئی۔ مسلمانوں کا جوش و خروش جاری کہ اتنے میں مکہ کی جانب سے حضرت عثمان آتے نظر آئے انہوں نے آ کر پیغمبر اسلام کو رپورٹ دی کہ اللہ کے رسول قریش مکہ اب مصالحت کیلئے تیار ہیں مگر ان کے صرف دو مسئلے ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ قسم کھائی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اب یہ قسم ان کے راستہ میں رکاوٹ بن رہی ہے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم نے آپ کو آنے دیا تو قریش سارے عرب میں ذلیل ہو کر رہ جائیں گے ان کی ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن تمہارے شہر میں آیا بھی عبادت بھی کی چلا بھی گیا ہمارایہ احترام عزت و وقار ختم ہو کر رہ جائے گا۔ یہ ہے بڑا مسئلہ یہ وہ دو چیزیں ہیں کہ قریش تذبذب کے عالم میں ہیں مگر حضرت عثمان کہتے ہیں میں نے بات کی ہے ان کے نمائندے عنقریب اس مسئلہ پر بات چیت کیلئے آ رہے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد وہ نمائندے آ گئے اب یہاں ضمنی طور پر ایک بات اور نکل آئی۔ اسلام میں فال لینا اسے اچھا نہیں سمجھا گیا فال لینا استخارہ ہوتا ہے وہ تو ٹھیک ہے فال لینا کہ کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو کوئی پریشانی آئے گی یا کوا بولنے لگا یا آنکھ پھڑکنے لگی یا ہتھیلی میں کھجلی ہونے لگی اس قسم کی چیزیں اس فال لینے کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور مذمت بھی کی گئی ہے کہ فال لینا بہت برا ہے قرآن میں کافروں کے بارے میں کئی آیتیں ہیں جب وہ کسی رسول کو آتا دیکھتے تو جو اس سے فال نکالتے یہ آدمی معاذ اللہ ہمارے لئے منحوس ہے یا نہیں ہے اسلام میں ان چیزوں کی مذمت کی گئی ہے اور کہا ہے کہ فال کی کوئی حقیقت نہیں ہے انسان جب کسی پریشانی میں پھنس جاتا ہے تو وہ ذرا سی بات پر اس کے دل میں شگونی و بدشگونی ہونے لگتی ہے وہ خود بخود دل میں آنے والے وسوسے جو آدمی کے کنٹرول میں بھی نہیں ہوتے اس لئے کہا گیا ہے بچو فال لینے سے لیکن یہ خودبخود دل میں آ جاتی ہے اچھی چیز ہے یا بری اور یاد رکھئے یہ مسئلہ خالی ہمارا نہیں ہے ان لوگوں کا ہے جو بہت ہی عقلمند، ہوشیار اور وسیع النظر سمجھتے ہیں یورپ و امریکہ میں ہم سے زیادہ مسئلہ ہے گھوڑے کی نال دروازے پر لٹکائی جائے گی کیونکہ اس سے برکت نازل ہوتی ہے۔ تیرہ نمبر کوئی لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہوائی جہاز میں 13 نمبر کی کوئی سیٹ نہیں ہوتی بلڈنگ میں 13 نمبر کی کوئی منزل نہیں ہوتی ہم سے زیادہ وہ لوگ اس کے اندر پھنسے ہوئے ہیں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہے یہ شیطانی خیال بھی ہے اور انسانی مزاج بھی ایسا ہے کہ انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا چاہتا ہے ایک طرف اسلام نے منع بھی کیا ہے دوسری طرف کہا وسوسہ ہے پیدا ہو کر رہے گا۔ معصوم حدیث ہے اور ایسی حدیث کہ آقائے خوئی نے فتویٰ بھی دیا ہے کچھ تو واجب کفارے ہوتے ہیں روزہ جان بوجھ کر کھول دیا واجب کفارہ منت توڑ دی اس کا کفارہ واجب اسی طرح عورت نے کسی میت پر سر کے بال نوچے اور چہرے سے خون نکالا امام خمینی کے نزدیک کفارہ واجب ہے۔ احتیاط واجب کی بنا پر اور کچھ کفارے مستحب ہیں سنت ہیں ان میں سے ایک کفارہ آقائے خوئی لکھتے ہیں یہ کہ اگر انسان کسی چیز سے فال لے یعنی جس چیز سے انسان کے دل میں وسوسہ پڑ رہا ہے اسی کام کو کر ڈالو خدا پر توکل کر کے اس بدشگونی کا کفارہ بھی یہی ہے دل میں آ گیا کہ اس سے کوئی نقصان ہے تو اب اس کام کو ضرور کرنا ہے۔ اس لئے کہ نقصان اور فائدہ اللہ دینے والا ہے یہ بلی اور کوے اور کتے میں نہ نفع ہے نہ نقصان تو وسوسہ جو پیدا ہوا ہے اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے اب اگر انسان دس پندرہ مرتبہ یہ سلسلہ شروع کرے تو وہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اگر جان بوجھ کر وہی کام کرتا ہے جس سے دل کہتا ہے کہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے بدشگونی آ رہی ہے میں آج نوجوانوں کو علاج بتاتا ہوں ان کے مسئلہ کا کہ جو 15 سے 20 سال سب کو سامنا کرنا پڑتا ہے ایک دم سے بہت سے وسوسے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں بہت دیندار مذہبی گھرانے کا نوجوان دس گیارہ سال کی عمر سے عبادتیں کر رہا مسئلہ مسائل جانتا ہے لیکن سترہ سال کے قریب مسئلہ آتا ہے۔ خدا ہے بھی یا نہیں امامت قیامت توحید پورے عقائد کے بارے میں نماز پڑھنے کھڑا ہوا دنیابھر کے خیالات اور یہاں ایک غلطی کرتے ہیں لوگ بہت زیادہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اور زیادہ ابھر کر یہ چیزیں آ جاتی ہیں۔ اس کا علاج جو بتایا گیا ہے وہ یہی ہے خیال جو آ رہا ہے وسوسہ کی حد تک تو آنے دیں آنے دیں یہاں تک کہ ایک وقت میں خود ہی آنا بند ہو جائیں گے بالکل اسی طرح کہ روزے کے عالم میں جو لوگ بچتے ہیں تھوک پینے سے بار بار تھوکنے سے اور تھوک پیدا ہو گئی نگل لینے سے مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا یہی اسلام نے فال اور بدشگونی کیلئے کفارہ بتایا ہے جس چیز کے بارے میں بدشگونی ہو رہی ہو آپ جان بوجھ کر اس کام کو کر لو اب اللہ گر توکل کر کے یہ خیال دل میں کر کے کہ نفع و نقصان کا مالک خدا ہے اور ساتھ میں امام نے ایک بات اور کہی ہے وہ یہ کہ کبھی بھی کسی چیز سے بری فال لو ہی نہیں ہمیشہ اچھی بات زبان سے نکال جو کہ ہمارے بزرگ سکھاتے تھے۔ یعنی ہمیشہ الٹا سوچو یہ تو کہا جاتا ہے کہ خواب میں موت نظر آئے تو سمجھو زندہ رہنا ہے۔ فال میں بھی الٹا نکالو یعنی بری بات سے اچھے نتیجے نکالو اور فال کا الٹا کام ہی کر ڈالو اللہ پر بھروسہ کر کے دوسرا علاج یہ ہے کہ جس چیز سے بھی بدفالی کا امکان ہو اس کا ہمیشہ اچھا خیال نکالو اور اس میں بھی صلح حدیبیہ کو پیش کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جس وقت حضرت عثمان سے رپورٹ پیش کی کہ قریش مکہ کے یہ دو مسئلے ہیں اور ان کے نمائندے قریب آنے والے ہیں مذاکرات کیلئے تو ایک مرتبہ سامنے سے سہیل بن عمر آتا ہوا نظر آیاان کا لقب خطیب العرب ہے عرب کا بہترین خطیب بہترین خطابت کا مالک اور مزاج میں بڑا سخت اس کے بارے میں مشہور ہے اس کا مزاج بڑا سخت ہے کسی کے بارے میں جھکتا نہیں ہے اپنی بات پیچھے نہیں ہونے دیتا اپنی آن پر اپنی اولاد کو قربان کر دیتا ہے یہ مشہور ہے اس کے بارے میں اور جس زمانے کا یہ واقعہ ہے کہ اس کا سگا بیٹا اسلام لا چکا ہے اور باپ اپنے بیٹے کو قید کر رہا ہے کوڑے مار رہا ہے ظلم و ستم کر رہا ہے یعنی اتنا سخت ہے یہ مزاج کے اندر اولاد بھائی بہن کسی چیز کا خیال نہیں بس جو ہماری بات ہے وہ سب کو ماننا پڑے گی اتنا سخت آدمی آ رہا ہے اس کو بھیجنے کا مقصد بھی یہ آگے کے واقعات میں ابو جندل کے بیٹے کو منع کیا گیا کہ ہم واپس نہیں جائیں گے۔ دیکھیں اس آدمی نے مذاکرات توڑ دے اتنا سخت قریش نے اسے بھیجا ہی اس لئے کہ کسی سخت ترین آدمی کو بھیجو مشہور ہے قریش کے پاس کہ محمد جادوگر ہے عام سے آدمی کو بھیجو گے تو وہ محمد کا ہی کلمہ پڑھتا ہوا آ جائے گا سخت ترین آدمی کو چھانٹ کر بھیجو جو برابر سے مقابلہ کرے رسول سے اسی وجہ سے سہیل کو بھیجا گیا اب سوچو کہ کتنا سخت آدمی آ رہا ہے دور سے مسلمانوں نے دیکھا وہ اس کو جانتے ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ اگر معاملہ بن بھی رہا ہے تو بگڑ جائے گا ایسا ہی آدمی آیا ہے جو مسلمانوں سے خار کھا کر بیٹھا ہے اچھا یہ بدر میں قید بھی ہو چکا ہے وہ بھی اس کو غم ہو گا اس کا بیٹا مسلمان ہو گیا ہے پہلے ہی کافی دشمن تھا اب سے دو اور چیزیں اکٹھی ہو گئیں اب دیکھنے والوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب معاملہ بگڑ جائے گا مگر جب پیغمبر اسلام نے اس کو دیکھا تو کہا سہل امرنا سہیل سے پیغمبر نے فال نکال لیا سہل یعنی سہل یعنی اب ہمارا کام آسان ہو گیا۔ یہ وہی چیز تھی کہ سارے مسلمان پریشان ہو گئے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ بگڑ گیا۔ پیغمبر وہ جو ایک اصول بتا رہے ہیں کہ علماء نے اس کو کوڈ کیا ہے اگر کبھی بھی کوئی خرابی سامنے آ رہی ہے ہمیشہ اچھی فال نکالو کام ٹھیک ہو جائے گا اللہ پر بھروسہ کرو۔ سہیل کو دیکھ کر کہا سہل امرنا آج ہمارا معاملہ حل ہو گیا۔ بہرحال یہ معلوم تھا کہ یہ آدمی اتنا سخت ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سختی پر پہنچ جائے کہ جو قریش بھی کو منظور نہیں دو آدمی بھیجے بطور مددگار یہ تین آدمی پیغمبر کے پاس آئے اب پیغمبر سے بات چیت شروع ہوئی سارے مذاکرات اور ڈائیلاگ بیان کرنا تو بڑا مشکل ہے اور اس کی ضرورت بھی نہیں کوئی خاص محسوس نہیں کر رہا ہوں خلاصہ اس بات چیت کے بعد جو بات طے پا گئی یہ جو قریش کے دو بڑے مسئلے ہیں ہم قسم کھا چکے ہیں کہ اس سال مسلمانوں کو مکہ میں نہیں آنے دیں گے اور ہماری ناک کٹنے کا مسئلہ ہے اس وقت عزت و آبرو کا مسئلہ ہے اب اس کا حل یہی نکالا گیا چلو تمہاری قسم بھی صحیح رہے تمہاری عزت و آبرو بھی ختم نہ ہو ہم اس سال واپس چلے جاتے ہیں آئندہ سال آ جائیں گے تو تمہاری قسم سے اس کا تعلق نہیں اور کہنے کیلئے بھی ہو جائے گا کہ دیکھا ہم نے مسلمانوں کو نہیں آنے دیا سب سے پہلے تو یہ دو مسئلے تھے قریش کے انہیں پیغمبر نے حل کیا اچھا یہ سارے مذاکرات کسی بند کمرے میں نہیں ہو رہے تھے۔ یہ مذاکرات ان مسلمانوں کے سامنے ہو رہے ہیں کہ جواب تک کے واقعات کو پیش آ چکے ہیں آخر قریش نے ہم کو سمجھ کیا رکھا ہے ہم طاقت والے ہم تین دفعہ قریش کو مار چکے ہیں آج ہمارا لشکر اتنا بڑا ہے ہم کیوں دب کر چلے جائیں تو پہلے ہی سے مسلمان غصے میں ہیں ان کے سامنے یہ مذاکرات ہو رہے ہیں جس کی ایک پیکچر یہ تھی کہ پیغمبر جھکتے جا رہے ہیں اور سہیل بن عمر سر پر چڑھتا جا رہا ہے۔مگریہ جو پیغمبر کا مصالحانہ طریقہ ہے۔ جذبات ہمیشہ قابو میں رکھنا جوش کے بدلے ہوش سے کام لینا اور حال سے زیادہ مستقبل کی فکر کرنا تو اس وقت ہم جو قدم اٹھا رہے ہیں فی الحال فائدہ بھی ہو جائے تو آگے چل کر اس کا نقصان کیا ہو گا دیکھنا ہے کیونکہ یہی اصول جو ابھی میں نے کہا صلح حدیبیہ پیغام یہ ہے کہ حال سے زیادہ مستقبل کا خیال رکھو یہی اصول فوج کے بارے میں آتا ہے ہمارے سامنے جو ہمارا دسواں امام حضر ت نقی علیہ السلام اپنے مکان میں قبر کو تیار رکھتے اور جب کسی نے پوچھا قبر کس لئے تو کہتے دنیا میں جو کام کرو پہلے اپنے آپ سے پوچھو کہ اس کا فائدہ قبر میں ہے یا اس کا نقصان ہے۔ یہ نہیں دیکھو دنیا میں اس کا فائدہ ہے یا نقصان قبر اس لئے کہ ہر کام سے پہلے قبر کو چیک کرو اس میں کیا نقصان ہے کیا فائدہ ہے بچے کو سکول میں داخل کرانا ہے بڑا اچھا سکول ہے چار ہزار ماہانہ کا خرچہ تمام سہولیات اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں اس کا فائدہ ہے یا نقصان بہترین نوکری مل رہی ہے سہولت ہی سہولت مگر قبر میں فائدہ ہے یا نقصان جو کام بھی کرنا ہے حال کو نہیں دیکھنا مستقبل کو دیکھنا ہے۔ اپنی مستقبل جو قبر وہی جو فوج کا اصول ہے۔ صلح حدیبیہ کا اصول یہ نہ دیکھو کہ ابھی تمہیں جھکنا پڑ رہا ہے ایسا نہ ہو کہ ابھی تو تم سینہ تان کے چلو اور بعد میں تمہیں جھکنا پڑے اس سے بہتر یہ ہے کہ ابھی جھک جاؤ بعد میں سب کچھ تمہارے ہاتھ میں آ جائے گا جو جو شرطیں قریش نے رکھوائیں وہ آ کر پوری کرتے گئے وہ آج فریقین بڑے تکبر کے ساتھ گھوم رہے تھے ہم کامیاب ہو گئے۔ ہر بات ہم نے مان لی لیکن بعد میں انہوں نے مسلمانوں کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کر رہے ہیں یہ شرط واپس لے لو اب ہمیں نہیں چاہئے۔ حال اور مستقبل دونوں میں بہت فرق ہے۔

آج اللہ کا رسول ایسے مذاکرات کر رہا ہے جس میں تمام مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ فی الحال ہمیں نقصان ہے مگر پیغمبر وعدہ کر رہا ہے آج میری بات مانو مستقبل میں تمہیں فائدہ ہو گا۔ اگر اس اصل کو اپنی پوری زندگی میں لے کر آئیں کہ اللہ ک رسول اور اللہ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے امام ان پر اتنا بھروسہ کرو کہ اگر وہ آپ سے کچھ کہیں جس میں ابھی نقصان ہو رہا ہو اتنا بھروسہ کر لو کہ مستقبل میں ضرور فائدہ ہو گا۔ اور اتنا فائدہ ہو گا کہ آج کا نقصان نقصان ہی نہ رہے گا۔ بس یہی صلح حدیبیہ کا پیغام صلح حدیبیہ کا پیغام یہ نہیں سوچا کہ مسلمانوں پر ہنسی اڑائیں کچھ مسلمانوں پر شک کریں کچھ مسلمانوں کا مذاق اڑائیں پھر وہی طریقہ خود اختیار کر لیں اگر وہاں شک ہو رہا تھا لوگوں کو تو کیسی صلح ہو رہی تھی کیسے بیٹی کا پردہ کرا لیں شادی کیسے ہو گی کیسے داڑھی رکھ لیں… گزارہ کیسے ہو گا کیسے … کی نوکری چھوڑ دیں کیسے اپنے بچوں کو اسے سکول میں داخل نہ کرائیں یہ زندگی کیسے گزرے گی اتنا شک نہ سہی تو تھوڑا سا شک تو ہمارے پاس بھی ہے تو پیغام صلح حدیبیہ یہ ہے رسالت و امامت جو حکم دے دے چاہے اس میں کچھ نقصان ہی ہو مان لیں اگر صلح حدیبیہ کی مثال کو سامنے رکھے اور یقین کے ساتھ اس پر عمل کر لو ہمارا آج کا نقصان بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کا فائدہ آج تم کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کو دیکھنے کا جو پیغمبر پر مطمئن نہیں تھے اور تمہاری اپنی حالت کہ امام کی بات پر اطمینان نہیں آ رہا کہ یہ نقصان ہی نقصان ہے۔ اور ان پر اعتراض کر رہے ہو تو یہ وہی اعتراض ہے جسے مولیٰ نے کہا۔

رب قاری القرآن و القران یلعنہ کتنے ہی تلاوت قرآن کرنے والے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن پلٹ کر انہیں پر لعنت کرتا ہے تو وہ جو کہتے ہیں لعنة اللہ علی الکاذبین وہ مثال ہماری نہ بن جائے میں اطمینان کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ صلح حدیبیہ کو اس حوالہ سے چاہے آپ نے کم سنا اور کم پڑھا ہمارے بزرگ علماء کرام نے ساری باتیں پہنچائیں ہیں میں تو انہیں کی باتوں سے آپ کے سامنے پیش آنے والا مگر یہ بات ضرور یاد رکھئے گا کہ ہماری قوم بعض بڑی بڑی باتوں کو بھول جاتی ہے۔ یعنی جو بھول جاتے ہیں جس پر ہم آج اعتراض کر رہے ہیں وہی چیز آج ہم میں بھی پائی جاتی ہے۔ ابھی شہادت کی راتیں گزری ہیں ساری قوم کوستی رہی کہ وہ لوگ کیسے تھے جنہوں نے رسول کی بیٹی کو ان کا حق نہیں دیا آخر ان کی حالت یہ ہے کہ رسول کی بیٹی کا حق دبا کر بیٹھے ہیں ارے سنا یہ وہ لوگ کیسے تھے۔ پیغمبر صلح کر رہے ہیں وہ ماننے کو تیار نہیں انہوں نے شاید ایک حکم نہیں مانا اور ہم نے چوبیس گھنٹے میں کوئی بھی حکم نہیں مانا اور ان کو کوس رہے ہیں پہلے اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا صلح حدیبیہ کا یہ پیغام ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھئے گا۔ پیغام کیا ہے رسالت کے حکم کے آگے کیوں نہیں ہے ہر نقصان کو برداشت کر کے بھی سر جھکا دے تو یہ پکا مومن ہے حدیبیہ والا اگر رسالت کے حکم کے سننے کے بعد اگر، مگر لیکن یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا بات ٹھیک ہے مگر آج کون عمل کر سکتا ہے اس قسم کے جملوں والا مجرموں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔

اب حالت یہ ہو گئی کہ سہیل بن عمر اعتراض پر اعتراض کر رہا ہے اور پیغمبر اس کی بات کو مانتے جا رہے ہیں تو آخر میں پتہ چلا کہ ان چھ شرطوں میں سے تین شرطیں ایسی نظر آئیں کہ دو شرطیں ایسی ہیں جو سراسر مسلمانوں کے نقصان میں ہیں سب سے پہلی شرط کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اگلے سال آنے کی اجازت ہے۔ مگر وہ بھی دو شرطوں کے ساتھ صرف تین دن کیلئے مکہ میں رہیں گے اس سے زیادہ نہیں اور ان تین دن میں کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لائیں گے سوائے ان ہتھیاروں کے جو مسافر کیلئے لازم ہیں اب مسافر نے جانا ہے اب چور بھی ہیں ڈاکو بھی ہیں سفر میں جو ہتھیار ضروری ہیں ان کے علاوہ کچھ نہیں لائیں گے۔ اور وہ ہتھیار بھی جو سفر کیلئے ضروری ہیں جیسے ہی مکہ کی سرحد میں داخل ہوں گے محلوں میں چھپا دیئے جائیں گے۔ اس سال واپس جاؤ آئندہ سال آؤ مگر دونوں شرطوں کے ساتھ سامان پر بھی پابندی ہے اور ٹائم پر بھی پابندی لگا رہے ہیں تین دن سے زیادہ اجازت نہیں ہے کوئی ہتھیار نہیں لا سکتے مگر سفر کے۔

مسلمانوں کو بڑی کھل رہی ہے بہت اذیت ہو رہی ہے۔ کھلم کھلا یہ شرط بے آبرو اور بے عزتی کا سودا بن رہا ہے۔ سرحد پر آ گئے ہیں اور واپس چلے جائیں۔

دوسری شرط جو مانی گئی کہ اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ چلا جاتا ہے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی مکہ سے مدینہ آ جاتا ہے تو مدینہ والے یعنی رسول کی ذمہ داری ہے کہ اسے واپس کر دے۔ واپس کر دیں یا اس کو لوٹا دیں یہ دو ایک الگ الفاظ میں ان کی وجہ سے بعد کے واقعات میں تبدیلی آئے گی۔ شرط یہ رکھی گئی دیکھئے جب معاہدہ ہوتا ہے تو الفاظ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کوئی مسلمان مکہ جائے گا تو مکہ والے اسے روک لیں گے لیکن مکہ سے کوئی مدینہ آیا تو واجب ہے رسول پر کہ وہ اسے واپس کر دے۔

اچھا اس میں دو چیزیں آ گئیں ایک جولفظ آیا واپس کر دیں یہ نہیں آیا کہ واپس پہنچا دیں۔ اگر آیا مسلم یہ لفظ نہیں آیا مسلمان مسلم مرد کو کہتے ہیں مسلمہ نہیں آیا ان لفظوں کے بعد میں دو بڑے واقعات بن گئے بڑے دلچسپ خیر یہ دو شرطیں اس کے بعد تیسری یہ کہ عرب کے قبیلوں کو اجازت اور اختیار وہ جس کے ساتھ چاہے مل سکتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا چوتھی شرط یہی وہ معاہدہ اب دس کیلئے ہے اب دس سال تک آپس میں کوئی جنگ نہیں ہو گی اگر کسی ایک مقام پر ساری شرطیں موجود نہیں الگ الگ کتابوں میں کسی میں دو ہیں کسی میں تین ہیں کسی میں چار ہیں پانچویں شرط یہ اس کے بعد کافروں کا مال بھی قابل احترام ہو جائے گا اور مسلمانوں کا مال بھی چھٹی شرط یہ بڑی اچھی شرط یہ بڑی اہم شرط اس پر بہت کم توجہ دی لوگوں نے لیکن یہ وہ شرط ہے جس کے بہرحال مسلمانوں کو Favour دی۔ وہ یہ ہے کہ آج کے بعد سے مکہ میں کسی مسلمان کی عبادت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اپنے اسلام کو ظاہر کر دے اس کے جان و مال کو تحفظ حاصل تھا یہی وہ شرط کہ عام طور پر جسے نہ پڑھا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کچھ کتابوں میں ہے اور کچھ میں ہے بھی نہیں ہمارے علماء کرام چاہے وہ شیخ مفید ہوں چاہے علامہ طبرسی ہوں چاہے علامہ مجلسی ہوں سب نے اس چھٹی شرط کو لکھا ہے یہ معاہدہ مکمل ہوا بس جس وقت یہ معاہدہ مکمل ہوا ابھی اس سے پہلے کہ اس پر دستخط کئے جائیں دو واقعات پیش آ گئے جو صلح حدیبیہ کا مشہور ترین واقعہ ہے یعنی کسی کو اور کچھ معلوم ہو یا نہ ہو یہ معلوم ہے ابو جندل کا واقعہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر واقعہ نہ پڑھوں تو بہرحال ایک سو چھ تقاریر میں کمی آ جائے گی اور اگر پڑھوں تو آپ کا سنا ہوا واقعہ ہے۔ اس لئے بس یہی ہو سکتا ہے کہ بس جلدی جلدی پڑھ لیا جائے مگر دو واقعہ سے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ ہے یہ معاہدہ زبانی طور پر طے پا گیا چھ شرطوں کے ساتھ اب اسے کاغذ پر لکھنا ہے۔ کئی مرتبہ میں نے یہ حدیث مختلف مجالس میں پڑھی کہ معصوم بھی کہتے ہیں کہ چھ آدمی ایسے ہیں جن کی دعا خدا قبول نہیں کرتا کون خدا جس کا اپنا وعدہ ہے ادعونی استجب لکم نے وعدہ کیا ہے دعائیں مانگو میں قبول کروں گا۔ مگر بات یہ ہے کہ ان سے خدا وعدہ ہی پورا نہیں کرتا کیونکہ خدا نے ان سے وعدہ ہی نہیں کیا اور پانچ فعل جو کسی کو قرضہ دے اور بغیر کسی تحریر و گواہی اور بعد میں قرضہ نہ ملے اب یہ کہئے کوئی بات نہیں میں نے معاف کیا دوسری بات ہے لیکن یہ کہ وہ اللہ کا دروازہ پکڑ لے غلطی میں نے کی ہے تو میرا قرضہ واپس دلوا دے اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جب میں نے پہلے سے طریقہ کار بتا دیا تو اس کی پابندی کیوں نہیں کی یہ اسلام میں ایک چیز ہے لوگوں پر بھروسہ بہت اچھی چیز ہے لیکن ہر وہ معاملہ جو بعد میں اختلاف کا سبب بن سکتا ہے اسے تحریری صورت دے دو اور گواہوں کے سامنے رکھ دو۔ دیکھیں آج ہمارا یہ معاشرہ بہت بڑے گناہ میں مبتلا ہے مگر ایسا گناہ کہ کسی طرح سے وہ سلجھ بھی نہیں پا رہا۔ وہ ہے میراث کا مسئلہ اس نظام سے ہمارے گھروں کا انتظام چلتا ہے کہ خصوصاً باپ کے انتقال کے بعد پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس طرح مسئلہ حل کیا جائے بیٹے کماتے ہیں تنخواہیں ایک جگہ دے دیتے ہیں بیٹے دکان پر بیٹھتے ہیں اب اس میں پتہ نہیں کہ بیٹوں کا پیسہ لگتا باپ کا پیسہ لگتا ہے اسے پاٹنر مانیں اسے نوکر مانیں اس پر توجہ نہیں کی جاتی جب باپ کا انتقال ہوتا ہے مسئلہ آ جاتا ہے ایک کہتا ہے میں برابر دکان پر بیٹھا ہوں میرا حق زیادہ ہونا چاہئے۔ دوسرا کہتا ہے وہ باپ کی دکان تھی ہر چیز برابر تقسیم ہو گی بات یہ نہیں ہے کہ ایک غلط کہہ رہا ہے یا صحیح کہہ رہا ہے بات یہ ہے واقعتاً مسئلہ حل بھی نہیں ہو پاتا ہو سکتا ہے یہ صحیح کہہ رہا ہو ہو سکتا ہے وہ صحیح کہہ رہا ہو یہ سارے ہمارے جو مسئلے ہیں تو باپ اور بیٹے کے درمیان بھی بہترین راستہ یہی ہے وہ بات جو صلح حدیبیہ کہہ رہی ہے باپ کو برا لگے یا بیٹے کو برا لگے مگر مستقبل میں پرابلم نہ ہو باپ اور بیٹے کے درمیان بھی ساری چیزیں طے کر دی ہیں یا پھر انسان اتنا وسیع القلب ہو کہ وہ کہے مجھے کچھ چاہیے ہی نہیں یہ باپ بیٹے کا مسئلہ ہے ٹھیک ہے مجھے میراث نہیں ملی تو مجھے کچھ نہیں چاہئے اگر قرضہ نہیں ملا مجھے کچھ نہیں چاہئے میرا حق کسی نے دبا لیا کوئی بات نہیں مجھے نہیں چاہئے یا اتنا وسیع القلب ہو تو ٹھیک لیکن اگر لینا ہے اور ملتا بھی نہیں تو یہ وہ مسئلہ ہے جہاں خدا بھی مدد نہیں کرتا۔ اسی لئے صلح حدیبیہ کاغذ پر آیا کاغذ پر بھی اس طرح کہ دو دفعہ لکھا گیا فوٹو کاپی مشین تو تھی نہیں کہ دو کاپیاں نکل آئیں دو مرتبہ لکھا گیا دونوں پر ایک طرف رسول کے دستخط ایک طرف سہیل بن عمر کے دستخط ایک کاپی رسول کے پاس دوسری سہیل بن عمر کو دی گئی اس انداز سے کام ہوا پیغمبر اسلام نے جب یہ باتیں شرط کے طور پر طے پا گئیں اب اسے کاغذ پر لا رہے ہیں اس وقت پیغمبر نے علی کو بلایا اور کہا کہ تمہیں یہ تحریر دے رہا ہوں باقی سب مسلمان تو غم و غصے کی اس کیفیت میں ہیں کہ ان کو ہوش ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے وہ ایک ایک چیز پر رسول سے بحث کر رہے تھے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دونوں میں سے ایک پارٹی کے اپنے آدمی اس پر بحث کر رہے ہیں کتنی پوزیشن نازک اور کمزور ہو جاتی ہے۔

مذاکرات کی جو میز ہوتی ہے اگر سامنے والی پارٹی کو پتہ چل جائے کہ جس سے ہم مذاکرات کر رہے ہیں اس کے اپنے آدمی اس کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں اور مجمع عام میں یہ ساری بحث ہو رہی ہے مگر اللہ کا رسول ان سب کے باوجود شرائط کو نہیں بدل رہا حتیٰ کہ یہ کسی نے کہہ دیا یہ کیا شرط ہے کہ اگر مسلمان مدینہ میں آئے گا تو واپس کر دیا جائے گا اور ہمارا آدمی وہاں جائے گا تو وہ واپس نہیں کریں گے تو پیغمبر اسلام نے اگر اس کا جواب دیا کہ اگر کوئی ہمارے پاس آ گیا مکہ سے ہم اسے واپس کر دیں گے اس لئے کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اس کی حفاظت کرنے والا اللہ ہے یعنی کوئی گارنٹی دے سکتا ہے کہ اگر مدینہ میں آ گیا تو محفوظ ہو گیا وفات آنا ہے تو یہاں بھی آ جائے گی اور اگر ہمارا آدمی مکہ میں چلا گیا ہمیں ضرورت ہی نہیں اس کے پیچھے جانے کی اس نے ہم سے بہتر ان کو سمجھا ہے تو وہاں جانے پر تیار ہو گیا ہے یہ پیغمبر کا جواب بالکل سخت جواب ہے۔ اب کس کس کو کہا ان کے نام تو میں نہیں لیتا بس اس طرح پیغمبر نے سب کو خاموش کرایا مگر لوگ خاموش نہیں ہو رہے۔ جنہیں بولنا ہے بے چین ہیں پریشان ہیں اور مطمئن صرف چند ہی نظر آتے ہیں جو صرف کہ رسول کہہ رہے ہیں ہم نے صرف اس کو سننا ہے اور اطاعت کرنا ہے ان میں جو نمایاں خصوصیات نظر آتی ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں ہر آدمی کا ایک مزاج بن جاتا ہے جسے غصہ آ رہے تو وہ ہر جگہ غصہ کرے گا کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ ہمیں لڑنے بھڑنے والا آدمی درکار ہوتا ہے ہمیں ضرورت پڑ جاتی ہے حج کے قافلوں پر بس ڈرائیور سے لڑنا اب لڑنا بھی ایک طریقہ کار ہے ایسے تو لڑ بھی نہیں سکتے یہ بھی اسلام ہے کہ قوہ غصہ بالکل صفر بھی نہیں ہونی چاہئے اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح جو ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں ان کا مزاج ہی یہ بن جاتا ہے کہ ہر جگہ پر وہ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر اسلام کا دشمن بھی آ جائے تو انہیں نہی عن المنکر کی ہمت نہیں ہوتی کبھی ان کی سخت ترین ضرورت پڑتی ہے جب مذاکرات کرنا ہوں پیار و محبت سے کسی کو سمجھانا ہو میرے مولا کی خصوصیت یہ بتائی گئی علی کی خصوصیت بتائی گئی کہ علی کا اپنا کوئی مزاج ہی نہیں تھا جہاں جو مرضی پروردگار تھی وہاں وہ ہی علی کا عمل تھا ایک طرف بہت مسلمان اتنے ٹھنڈے تھے کہ جب میدان جنگ میں لڑنے کا وقت آتا تھا تو لڑا نہیں جاتا تھا اور کچھ اتنے گرم تھے کہ صلح حدیبیہ کے وقت ٹھنڈے ہونے کا وقت تھا ان سے ٹھنڈا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ ایک طرف علی ہیں جب تلوار چلانے کا وقت آتا ہے تو وہی صاحب ذوالفقار ہیں اور جب صلح کا وقت آتا ہے تو وہی کاتب صلح حدیبیہ ہیں ہر جگہ جہاں مرضی رسول خدا ہے وہ اسی طرح تیار ہیں اور یہ اس طرح کا مزاج ہونا علی کا افتخار ہے کہ جب تلوار کا وقت آیا تو تلوار ملی اور جب قلم کا وقت آیا تو رسول نے قلم دی اور علی کے مزاج میں کوئی فوق نہ پڑا۔

اسی لئے پتہ چلتا ہے کہ صلح حدیبیہ میں مذاکرات کی میز پر صرف علی و نبی نظر آ رہے ہیں باقی سب نیچے بیٹھے ہیں خواہ صدموں غصہ یا جوش یعنی مزاج کے تابع ہیں۔ پیغمبر لکھواتے جا رہے ہیں علی لکھتے جا رہے ہیں یہ بھی بہت مشہور واقعہ ہے کہ اس وقت لکھنا شروع کیا گیا شروع میں ہی دو رکاوٹیں آ گئی۔ مولا نے خود کچھ نہیں لکھا کہا کہ رسول جو خود زبان سے بولیں گے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہذا ما قال علیہ رسول اللہ … من القریش۔ یہ وہ ہے کہ جس پر صلح کی ہے رسول نے اور قریش کے سرداروں نے اب جب بسم اللہ کی ہوئی تو مسئلہ آ گیا۔ سہیل بن عمر نے کہا یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا ہوتا ہے ہم اللہ کو تو جانتے ہیں یہ رحمن و رحیم کون ہے اس کو ہم نہیں جانتے وہی لکھو جس کو ہم جانتے ہیں باقی کاٹ دو پیغمبر مان گئے ادھر مسلمانوں کو غصہ آ گیا کہ آج رسول کو معاذ اللہ ہو کیا گیا ہے۔ اتنا جھکتے جا رہے ہیں کہ بسم اللہ کی آیت کو بدل دیا علی سے کہا چلو کاٹ دو جو سہیل کہہ رہا وہی لکھ دو مگر ایک بات یاد رکھئے کہ اگر سہیل کہتا کہ اللہ کا نام نہ لاؤ بسم لات لکھو بسم منات لکھو وہ بات عقائد کی تھی وہاں پیغمبر اصرار کرتے اور کبھی اس بات کو قبول نہ کرتے لیکن یہاں پر ابھی جو بات ہے وہ صرف لفظ کی ہے۔ تو یہاں یہ رسول نے بتا دیا کہ جب مصالحت کئے جاؤ کبھی کاروبار کی ضرورت پڑتی ہے کبھی میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آتی ہے تو اگر اصولوں پر جھگڑا ہو تو قبول نہ کریں لیکن اگر لفظی جھگڑا ہو تو مومن کی نشانی یہی ہے کہ وہ لفظی جھگڑے میں نہیں پڑتا۔ چلو اللہ ہی کا نام ہے تم کہتے ہو تو تمہارے طریقہ سے لکھ دیا اس کے بعد دوسرا مسئلہ آیا جس کو ہر ایک جانتا ہے ہذا ما صلح محمد رسول اللہ و صلح من القریش پھر وہی اعتراض اے عبداللہ کے بیٹے یہ رسول اللہ کیا چیز اگر ہم تمہیں رسول مان ہی لیں تو پھر اس ساری جنگ کا کیا فائدہ یہ سب رکاوٹ یہ صلح حدیبیہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ آخر تمہیں اپنے باپ کا نام لکھنے پر کیوں اعتراض ہے محمد بن عبداللہ اب یہ مسئلہ کہ پیغمبر کی ذمہ داری اور ہے اور علی کی ذمہ داری اور ہے یاد رکھیں یہ بہت اہم اسلامی مسئلہ ہے کبھی ہماری ذمہ داری کچھ اور ہوتی ہے لیڈر کی ذمہ داری کچھ اور ہوتی ہے آپ کو چاہے معلوم ہو کہ سلمان رشدی کا مسئلہ جب کھڑا ہوا تھا تو امام خمینی کے فتویٰ کے بعد یہ کوئی نیا فتویٰ نہیں تھا۔ چودہ سو سال سے عام شیعہ سنی حنفی حنبلی سب اس پر متفق تھے۔ نبی کی توہین کرنے والا واجب القتل ہے۔ اور نبی کی توہین کرنے والا ایسا واجب القتل ہے ہمارے اعتبار سے کہ اس کیلئے عدالت مجتبہ سے نہیں پوچھنا باقی اگر کوئی گناہ کر چکا ہے مثلا زنا واجب القتل ہو گا ہمیں اختیار نہیں کہ اس کو سزا دیں ہم پکڑ کر لے جائیں گے ہمیں سزا دی جائے گی لیکن شاتم نبی کو برا کہنے والا کو حکم ہے جس کو موقع ملے اس کو مار دو اتنا پکا مسئلہ ہے مگر یورپ میں بعض ایسے علماء ہیں جنہیں سعودی عرب کی جانب سے تنخواہ ملتی ہے ٹیلی ویژن پر آ کر کہا یہ فتویٰ غلط ہے اور دلیل یہ پیش کی کہ دو چار رسول کے زمانے کے مجرم خود رسول کے سامنے آئے تو رسول نے انہیں قتل نہیں کیا اب نبی کے سامنے آئیے تو نبی اس کو معاف کر دے یہ اور مسئلہ ہے اور ہمارے سامنے آئے تو ہم اس کو معاف نہیں کر سکتے ہماری ذمہ داری الگ نبی کی ذمہ داری الگ علی اکبر کا قاتل سید سجاد کے سامنے آئے تو سید سجاد چھوڑ بھی سکتے ہیں قتل بھی کر سکتے ہیں ہمارے سامنے آئے ہمیں یہ اختیار نہیں ہم کو تو اسے قتل کرنا ہی ہے۔ یہ معاملہ ہر جگہ ہے جب جس کا اپنا کوئی معاملہ ہو تو شریعت اسے اجازت دیتی ہے۔ دوسروں کی ذمہ داری بدل جاتی ہے۔ رسول خود رسول اللہ کٹوا سکتے ہیں مگر علی کی ذمہ داری ہے کہ وہ رسول اللہ نہیں کاٹ سکتے اسی وجہ سے رسول نے علی کی معاذ اللہ مذمت نہیں کی۔

اس کے مقابلے میں کچھ اور واقعات ہیں کہ کچھ اور لوگوں نے پیغمبر کا حکم نہیں مانا تو پیغمبر کتنے ناراض ہوئے کیسے اٹھا دیا کیسے غیض و غضب میں آ گئے یہ وہ مسئلہ ہے فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ جس میں نبی کی ذمہ داری الگ تھی علی کی ذمہ داری الگ تھی۔ سلمان رشدی علی کے سامنے آئے تو علی قتل کرنا پڑے گا اور نبی کے سامنے آئے تو نبی کی مرضی یہ ان کا اپنا مجرم ہے چاہیں تو قتل کریں چاہے تو قتل نہ کریں لیکن ہمارے ہاتھ میں اختیار نہیں ہے۔ خیر میرے مولا نے قلم رکھ دیا۔ رسول نے اعتراض نہیں کیا کاغذ اٹھایا جہاں رسول اللہ لکھا تھا کاٹ کر اپنے والد کا نام لکھ دیا ضمنی طور پر یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ رسول نے وہ لفظ کاٹا بھی اور لکھا بھی کاٹنے کا مطلب ہے کہ رسول نے پڑھا ہو گا اور لکھنے کا مطلب ہے کہ رسول پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ ایک مثال دیتا ہوں چینی اخبار کا ایک ورق آ جائے تو اس میں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا نام کیا ہے۔ بس نبی کا کاٹنا اور لکھنا یہ دلیل ہے اس بات کی کتاب کو پڑھنا لکھنا آتا تھا۔ سن لیں نبی کا ایک جملہ اے علی مجھ پر جو گزری ہے آپ پر نہیں جو میں نے کیا ہے وہ ہمیں کرنا ہو گا آؤ کامل بن … کی تاریخ میں دونوں متفق کہ وہ وقت آ گیا جب صین کی لڑائی نیزوں پر قرآن بلند ہونا ہے پر ختم ہوئی اور دومة الجندل کے مقام پر حاکم شام اور مولا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا حاکم شام کی جانب سے عمر بن عاص اور مولا کی جانب سے عبداللہ بن علی راقم تھے وہاں پر جو معاہدہ لکھا گیا پہلا جملہ تو جو تھا ٹھیک بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا گیا

ہذا ما تحکم ما علیہ علی امیر المومنین یہ وہ فیصلہ جو علی امیر المومنین ہیں ان کے درمیان اور حاکم شام کے درمیان پھر بالکل یہی اعتراض عمر بن عاص نے کیا امیر المومنین کیا چیز اگر ہم اس کو امیر المومنین مان لیں تو ہمارا جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا پھر ہمیں جھگڑا کرنے کا اختیار ہی نہیں۔ امیر المومنین سے مصالحت نہیں ہوتی امیر المومنین کی اطاعت کی جاتی ہے تو جناب ہم اس لفظ کو نہیں مانیں گے اس وقت عبداللہ بن رافع نے کہا یا امیر المومنین میرے لئے کیسے ممکن ہے کہ جو آپ کو اپنا امیر مانتا ہوں آپ کو امیر کاٹ دوں علی نے کہا لاؤ یہ کاغذ مجھے دو وہاں پر اس کو برا نہیں کہا تم میرے کاتب ہو اور خاص میرے نہیں بیت المال کے کاتب ہو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ کاغذ لاؤ اور علی بن ابو طالب کو دیا اور پھر ایک مرتبہ کہا اللہ اکبر ہذا السنة سنة رسول اللہ آج میں رسول کی سنت پر چلا اور یہ وہی چیز ہے جس کی خبر مجھے خدا کے رسول نے دی تھی۔ بس ایک بات کہہ کر اپنے موضوع پر آتا ہوں بظاہر یہ دونوں آدمی ہمیں پسند نہیں آ سکتے جو علی کو امیر المومنین نہ مانے جو رسول اللہ کو رسول اللہ نہ مانے سہیل بن عمر بھی غلطی کر رہا حاکم شام کا نمائندہ بھی غلطی کر رہا ہے لیکن ایک حد تک انہیں شاباش دینے کو دل چاہتا ہے کہ رسول نہیں مانا تو نہیں مانا کہہ دیا اگر رسول مانیں تو ان کا حکم ماننا پڑتا ہے۔ عمر بن عاص نے کہہ دیا اس لئے امیر المومنین کٹوا رہا ہوں اگر علی کو امیر المومنین مان لیا جو مصالحت نہیں اطاعت کی ضرورت ہے۔ تعجب ہے آج کے مومن پر امیر المومنین بھی مانتا ہے اور پھر علی پر اپنا حکم بھی چلاتا ہے رسول کو رسول اللہ مانتا ہے پھر رسول کے آگے اپنی مرضی چلاتا ہے کہا کہ کون جی شریعت کی پابندی کر سکتا ہے یہ کوئی کرنے کی باتیں ہیں شادی بیاہ میں تو وہی جو رسمیں ہیں دودھ پلایا جا رہا ہے تو … جاتا رہے گا۔ چاول پھیکے جاتے ہیں تو پھیکے جاتے رہیں گے رسول رسول اللہ بھی ہے علی امیر المومنین بھی ہے لیکن حکم ان کا نہیں چلے گا۔ ان مسلمانوں سے تو وہ بہتر بات تو صحیح کی کہ اگر علی کو امیر المومنین مانیں رسول کو رسول اللہ مانیں تو ان کی بات ہی مانتا ہوں اعتراض کا حق ختم۔

یہ نکتہ ذہن میں رکھیں ان کا یہ اعتراض صحیح اعتراض ہے کہ اگر ان کو امیر المومنین مانتا تو سمعنا و اطعنا کی منزل پر آنا پڑے گا۔ فائدہ ہو نقصان ہو۔ اولاد کو قربان کرنا پڑے گا شاید ہمارے ہاں بات اتنی واضح نہیں ہے امام خمینی جب آئے تو کتنی باتیں چل رہی ہیں امام خمینی کو یہ کرنا چاہئے یہ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کرنا چاہئے۔

ایک پیغام یہ ہے اگر امیر المومنین کسی کو مانتا ہے تو پورا ماننا پڑے گا رسول اللہ ماننا ہے تو صلح نہیں ہو سکتی۔ بغاوت نہیں ہو سکتی مشورہ نہیں ہو سکتا۔

ابھی دستخط ہونا باقی تھے ابو جندل آ گئے اب اتنا وقت نہیں کہ ابو جندل حالات بتائے جائیں یہ پھر بیان کئے جائیں گے لیکن بس اتنی سی بات معاہدہ ہو گیا ہے لیکن دستخط نہیں ہوئے۔ پیغمبر نے ابو جندل سے کہا چلے جاؤ پھر ایک جملہ کہا میں نے سارے مسلمانوں کا ایک فائدہ اور خیال کیا کبھی اجتماع کے فائدہ کیلئے فرد کو قربانی دینا پڑتی ہے پورے ماحول کو بچانے کیلئے دو چار آدمیوں کو قربان ہونا پڑتا ہے لیکن عام مسلمان جو تھے تو ڑے غصہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مسئلہ پر ان کا غصہ اور بڑھ گیا۔ محمد رسول اللہ کے مسئلہ پر تو غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا کتنا ہم کو دبایا جائے کتنا ہم کو معاذ اللہ ذلیل و بے عزت کیا جائے۔ یہ جملے تھے مسلمانوں میں اور ابو جندل کو دیکھ کر رسول بھی روئے اور مسلمان بھی روئے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے پاس آ کر برقعہ اٹھایا اور اپنے زخم دکھائے کہا میرے جسم پر جتنے زخم ہیں ہر روز میرا باپ مجھے مارتا ہے اور اپنے غلاموں سے پٹوا رہا ہے۔ کیا تم ایک مظلوم مسلمان کی مدد کو تیار نہیں اور جملہ ہر مسلمان تو مسلمان اللہ کا رسول زارو قطار رو رہا ہے ابو جندل کو دیکھ کر مگر کہہ رہا ہے۔ تمہارے ایک کی وجہ سے سارے مسلمانوں کا فائدہ ہو رہا ہے۔ پس یہی وہ اصول ہے جس کی بنا پر رسول کی بیٹیاں کوڑے کھاتی رہیں رسول چپ رہے اور علی کی بیٹیاں قید بنا لی جاتی رہیں اور علی خاموش رہے۔۔۔ مصائب

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمدللّٰہ الملک الحق المبین والصلٰوة والسلام سیدالمرسلین وآلہ والسلام سید المرسلین وآلہ وعترتہ واھلبیة الطیبین الطاھرین ولعنة اللّٰہ علی اعدائم اجمعین

اما بعد فقد قال سبحانہ وتعالی فی محکم کتاب المبین بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لتدخلن المسجد الحرام آمنین ان شاء اللہ

عددی اعتبار سے تقریر نمبر 107 موجودہ سال کی دسویں تقریر اور ذکر ہو رہا تھا صلح حدیبیہ کے نتائج کا اس بات پر یقیناً مجھے معذرت طلب کرنا چاہئے ہماری ماہ دسمبر کی پہلی گفتگو ہوئی تھی اس کے بعد۔ تقریر کے اعلان کے بغیر مسلسل تین ہفتوں کا وقفہ آ گیا بہرحال اس کی وجوہات جو بھی ہوں اس کے نتیجے میں یہ نقصان تو ہوا ہوگا بہت سی وہ باتیں جن کا آج کے موضوع سے براہ راست تعلق ہے ذہن سے نکل گئی ہوں گی اس لئے ابتداء میں تین یا چار منٹ سرسری طور پر واقعات کو دہرانا پڑے گا۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ سن چھ ہجری میں اللہ کے رسول نے خواب دیکھا کہ پیغمبر اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل ہو رہے ہیں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور بعض روایتوں کے مطابق صفا اور مروہ کے درمیان دو پہاڑیوں کے درمیان سعی یعنی سات مرتبہ دوڑنے کا عمل انجام دے رہے ہیں اور اس اختتامی عمل یعنی سعی اور سر منڈوانے کا واجب عمل انجام دیاجارہاہے جیسے ہی یہ خواب مسلمانوں کو پتہ چلا وہ تمام مسلمان جن کا تعلق مکہ سے تھا اور جنہیں اپنے وطن کو چھوڑے چھ سال گزر گئے تھے ان کی بے چینی اور تڑپ بڑھ گئی کسی نہ کسی طرح ہمیں مکہ جانا ہے 1400 مسلمانوں کا لشکر پیغمبر اسلام کے ساتھ چلا مگر حدیبیہ کے مقام سے آگے اس لشکر کو بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کثرت کے ساتھ پیغمبر اسلام کی ذات سے معجزات لوگوں کے سامنے آئے حدیبیہ کے مقام پر روکے جانے کے بعد دونوں طرف سے قاصدوں کا تبادلہ شروع ہوایہاں کاپیغام وہاں اور وہاں کا پیغام یہاں لیکر آتے ہیں۔ اسی اثنا میں پیغمبر اسلام پر 50 تیر اندازوں نے حملہ بھی کرنا چاہا اور ان تمام واقعات کا اختتام یہاں پر ہوا قریش نے اپنے انتہائی سخت مزاج اور پختہ عمر کے سہیل بن عمر کو بھیجا اور مکمل اختیار دے کر بھیجا جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا اب یہ وہ معاہدہ جسے تقریباً تمام مسلمان جانتے ہیں ابتدا ہی سے اس کی شکل و صورت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس پر خوشی سے راضی نہیں ہے۔

ادھر سہیل بن عمر دو چیزوں کو محسوس کر چکا تھا نمبر1 اللہ کا رسول آج کے دن ہرصورت میں صلح چاہتا ہے اور کسی حالت میں بھی جنگ پر تیار نہیں نمبر2 بہرحال سہیل بن عمر کوئی عام آدمی نہیں ہے بہت ہی پرانا ڈپلومیٹ ہے مدبر ہے قریش کا مانا ہوا سردار ہے تو وہ یہ دوسری چیز کا بھی اندازہ کر چکا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات منتشر ہیں مسلمان غم و غصہ کی حالت ہیں ہیں اور وہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ اگر میں چاہوں تو قائد اور عوام کے درمیان اختلاف پیدا کر سکتا ہوں عام مسلمان راضی نہیں ان کے چہرے یہ بتا رہے ہیں کہ حدیبیہ کے مقام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ دل سے اس سے متفق نہیں اور دوسری جانب سہیل بن عمر کو یہ معلوم ہے آج دن وجہ کچھ بھی ہو یہ پیغمبر ہر صورت میں مصالحت چاہتا ہے جس کی تفصیلات گزشتہ تقریر میں بیان ہو چکی ہیں اور پوری کارروائی میں یہ نظر آ رہا ہے کہ ہر ہر مرحلہ پر سہیل بن عمر پیغمبر اور مسلمانوں کو دبانا چاہتا ہے اور ایسا دبانا چاہتا ہے کہ کوئی تعجب نہیں کہ مسلمانوں کی تلواریں خود رسول کے خلاف نکل آئیں۔

چنانچہ ہم نے دیکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے لکھے جانے پر اس کو اعتراض ہے اور اگر یہ اعتراض ایک لفظی اعتراض تھا۔ ان کے اس کے بدلے میں دو لفظ تجویز کیا باسم کلھم لفظ اللہ اس کے اندر بھی ہے صرف الفاظ کی ترتیب کا فرق ہے مقصد پیغمبر اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش ہے اس کے بعد ہم نے دیکھا پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ اختلاف پھر آپ نے دیکھا کہ ایک ایک شرط ایسی کہ ہر شرط پڑھنے کے بعد مسلمانوں کا خون کھولا جا رہا ہے وہ تمام شرائط بیان کی جا چکی ہیں مگر اس میں خصوصیت اس شرط کی ہے جیسے عام طور پر نظر انداز کر دیا جانا ہے۔ یہ والی شرط کہ آج کے بعد مکہ میں جتنے مسلمان ہیں انہیں کھل کر عبادتیں انجام دینے کا موقع دیا جائے گا صلح حدیبیہ کی باقی پانچ شرطیں مسلمانوں کے خلاف تھیں یہ ایک اہم ترین شرط تھی جو مسلمانوں کے حق میں تھی مگر چونکہ مخالف شرطوں کی تعداد زیادہ تھی اس لئے اس شرط پر عام طور پر لوگ توجہ نہیں دیتے پیغمبر اسلام کا ایک بڑا مقصد اس شرط سے حل ہو رہا ہے فی الحال سہیل بن عمر کا رویہ ہے اب جو پانچ شرطیں وہ رکھوا رہا ہے ایک کے بعد ایک سخت ہو تاکہ مسلمانوں کو یہ محسوس ہو کہ کوئی انہیں کوڑے مار رہا ہے اگر صلح کا معاہدہ ہجرت کی رات لکھا جاتا تو بات سمجھ میں آ جاتی کیونکہ مسلمان کمزور ہیں پھر اگر دب کر صلح کریں تو عقل تسلیم کرتی ہے مگر یہ معاہدہ لکھا گیا بدر کی فتح کے بعد احد کی فتح کے بعد خندق کی عظیم ترین کامیابیوں کے بعد اور اتنے بڑے لشکر اسلام کی موجودگی میں کہ اس سے پہلے کفار مکہ کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا وہ مسلمانوں کی چھوٹی فوج کا مقابلہ کرتے رہے ہیں وہی کافر مسلمانوں کے اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر اتنا ضد پر اترے ہوئے ہیں یقیناً اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت اور بظاہر ہمیں یہی چیز نظر آتی ہے سہیل بن عمر یہ دیکھ رہا ہے کہ پیغمبر اسلام کی مجبوری ہے کہ معاذ اللہ میں یہ لفظ بہت ہی ناقابل شائستہ استعمال کر رہا ہوں سہیل بن عمر یہ دیکھ رہا ہے کہ رسول کی مجبوری یہ ہے کہ رسول نے صلح کرنا ہے اور مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رسول کی مجبوری کو نہیں سمجھ رہے وہ اپنی طاقت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کا غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

یہاں تک کہ یہ معاہدہ مکمل ہوااہم اہم باتوں کو پھر دہرا لیا جائے دس سال تک یہ معاہدہ چلے گا اس دوران مسلمان اور کافر آپس میں جنگ نہیں کریں گے اس سال مسلمان اپنا عمرہ نامکمل چھوڑ کر چلے جائیں اگلے سال آ کر اپنا عمرہ مکمل کریں بغیر ہتھیار کے عرب میں ہتھیار کم ہیں مرد کا زیور زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہ آئے گا۔ عرب کے تمام قبیلوں کو یہ اجازت دی جاتی البتہ یہ والی شرط بھی مسلمانوں کے حق کی شرط ہے عرب کے تمام قبیلوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ جس فریق کا ساتھ دینا چاہیں دیں مکہ کا رہنے والا مسلمان اگر مدینہ چلا گیا تو اسے واپس کیا جائے گا لیکن مدینہ کا رہنے والا اگر مکہ چلا گیا تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ یہ تمام شرطیں مکمل ہو گئیں اور اس کے بعد وہ مشہور واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں گزشتہ تقریر میں بھی میں نے عرض کیا تھا اسے بیان کروں تو مناسب محسوس نہیں ہو رہا کیونکہ اتنا مشہور واقعہ ہے اگر بیان نہ کروں تو واقعات کے درمیان خلا ہو جائے گا۔ ابھی تک سہیل بن عمر مسلمانوں کو پورا جوش اور غصہ دلانا چاہتا ہے اب لفظ کی بات نہ رہی عمل کی بات ہوگئی پھر وہ واقعہ ہو گیاابو جندل کی واپسی جب سارا ڈرافٹ تیار ہو گیا معاہدہ کی تحریر مکمل اہم ترین مرحلہ باقی ہے ہر معاہدہ بے کار ہے جب تک اس پر دستخط نہ ہوں ابھی پیغمبر اور سہیل بن عمر کو دستخط کرنا ہے زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ایک ایسا مسلمان جو سر سے پیر تک زخموں سے چور اپنے آپ کو آ کے پیغمبر کے قدموں میں گرا دیتا ہے اورایک مرتبہ چونک کر مسلمانوں نے دیکھا کہ کون آیا ہے؟ تمام مسلمانوں نے دیکھ لیاکہ ابوجندل ہے عین اس وقت پہنچا کہ ابھی دستخط نہیں ہوئے تو سب نے پہچان لیا کہ ابو جدل ہے اس کا اصل نام عاص ہے عاص بن سہیل بن جندل اسی امیراور امیر قریش کا بیٹا ابو جدل ہے جو چند مہینے پہلے اسلام قبول کر چکا ہے اس کا باپ اتنا بڑا دشمن اسلام تھا کہ آج قریش اسے اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہے ہیں اپنے بیٹے کے اسلام کو کیسے برداشت کر سکتا ہے اس دوران اس نے اپنے بیٹے پر دل کھول کر ظلم کئے زنجیروں اور بیڑیوں میں اس کو جکڑ کر رکھا اور گھر کے کمرے میں بطور قیدخانے محبوس کر دیا لیکن بعد میں حدیبیہ سے آ جانے کا موقع ملا اسی طرح واقعہ بڑا مشہور جلدی جلدی سے اسے مکمل کر دیا جائے ابھی تک اس کے جسموں پر زخموں کے نشانات باقی ہیں اور یہ نشانات کسی دشمن نے نہیں کسی گیر نے نہیں کسی غلام نے نہیں بلکہ حقیقی باپ اپنے بیٹے پر فقط دین اسلام دشمنی میں لگائے ہیں۔

وہ ایک مرتبہ اپنے آپ کو پیغمبر کے قدموں میں گرا دیتا ہے خوش رہے وہ جس نے مجھے کافروں کی قید سے رہائی دلوائی اور آپ تک پہنچایا آنے والا بڑی امیدیں لیکر آیا آنے والا اس یقین سے آیا کہ آج کے بعد میری تمام زحمتیں مکمل ہو گئیں اس کے پاس پہنچا ہوں جو ہر مخلوق کا ملجا اور جائے پناہ ہے مگر ایک پیغام یہاں ہمارے سامنے آ رہا ہے بعض اوقات معاشرے کے سوسائٹی کے اجتماع کے فائدے کیلئے افراد کو قربانی دینا پڑتی ہے۔ بعض اوقات اپنے جائز حق کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ تاکہ سارا معاشرہ سکون کے ساتھ رہے۔ چھوٹے پیمانے پر اس کی مثال بے گناہ اور بے قصور بچہ جس کے والدین نے گناہ کیا لیکن فقط اس لئے کہ معاشرہ زنا جیسی خرابیوں سے محفوظ رہے اور اس بے گناہ بچے کو بھی اپنے چند مسلمہ حقوق سے دستبرداری اختیار کرنا پڑے گی۔ یہ پیش امام نہیں بن سکتا یہ مرجع تقلید نہیں بن سکتا اور بڑے پیمانے میں اس کی مثال انقلاب ایران اور اس سے پہلے صلح حدیبیہ میں ہمارے سامنے کہ معاشرے کی بہتری کے لئے دین کی خاطر فرد کے حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ابو جندل کا مسئلہ بھی یہ تھا کہ اب اس سے ایک اجتماع کی خاطر مزید قربانی دینا ہے۔ کیونکہ ایک طرف اسلام کہتا ہے کہ مظلوم کو پناہ دو مظلوم کی حمایت کرو مظلوموں کا ساتھ دو مظلوم کے معاملے میں خاموش رہنے والا غیر جانبدار نہیں ہے بلکہ ظالم کا دوست ہے تو اب صلح حدیبیہ کے واقعات کو دہرا لیا جائے۔ اللہ کا رسول ابو جندل کو دیکھتا ہے اور وہ ابو جندل جو درخواست کر رہا ہے التماس کر رہا ہے پیغمبر اسلام کے قدموں میں گرا ہوا ہے سہیل بن عمر فوراً اپنے بیٹے کو پہچان لیتا ہے پیغمبر اسلام مسلمانوں سے مخاطب ہیں یہ جملے ساری تاریخوں میں نہیں کچھ تاریخوں میں ہیں مسلمانوں کا بھائی آیا ہے ابو جندل جو دستخط کیلئے ہاتھ میں قلم پکڑ چکا ہے قلم کو واپس رکھتا ہے اور کہتا ہے خبردار میرا بیٹے کے بارے میں کوئی نہ بولے۔ پیغمبر اسلام نے اسے کہا کہ یہ مسلمان ہے ہمارا اسلامی بھائی ہے اس کو پناہ دینا ہمارا فرض ہے۔ سہیل بن عمر نے کہا اے محمد یہ وقت ہے دیکھنے کا کہ معاہدے کے بارے میں تم کتنے سنجیدہ ہو ابھی ابھی یہ معاہدہ طے پایا ہے کہ مکہ کا کوئی آدمی آئے تو مدینہ میں اسے پناہ نہیں دی جائے گی اللہ کے رسول نے بالکل صحیح بات کی کہا اگر معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے دستخط ہو جاتے تو تمہاری بات صحیح تھی مگر ابھی دستخط نہیں ہوئے۔ سہیل بن عمر کہتا ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ معاہدہ اپنے پاس رکھو ہم کوئی معاہدہ کرنے کو تیار نہیں کون سہیل بن عمر اتنا سخت اور اکڑ کر بول رہا ہے لیکن اسے پتہ ہے کہ مکہ اتنا طاقتور نہیں کہ 1500 مسلمانوں کا مقابلہ کر سکے جو کہ 313 مسلمانوں کے سامنے شکست کھا چکا ہے تو 1500 کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے کہ پھر اس کا بڑھ بڑھ کر یہ بولنا کہ اگر میرے بیٹے کی واپسی پر دخل اندازی کی جائے گی اور قانونی نکتہ پیش کیا جائے گا تو رکھو یہ معاہدہ میں اس پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ وہ محسوس کر چکا ہے وہ بھانپ چکا ہے کہ اللہ کا رسول ہر صورت میں صلح نامہ چاہتا ہے جنگ کیلئے قطعاً تیار نہیں ہے ورنہ سہیل بن عمر کا یہ انداز نہ ہوتا جب پیغمبر اسلام نے اس کو سنا تو روایت یہ ہے کہ اس طرح سے اس سے درخواست کی نہ اس کے ساتھ قریش مکہ نے دو اور آدمی بھیجے ان سب کو رحم آ گیا ان سب کے دل میں ہمدردی پیدا ہو گئی انہوں نے اپنے ہاتھ سے ابو جندل کو پکڑا اور مسلمانوں کے حصہ میں لے گئے کہ رکھو مسلمانوں تم اسے اپنے پاس ہم لوگ آپس میں یہ معاملہ طے کر لیں گے کہ سہیل بن عمر اپنے دو ساتھیوں سے لڑ پڑا میں لیڈر بنا کر بھیجا گیا ہوں تم بھی واپس چلے جاؤ یہ معاہدہ نہیں ہو گا اگر میرا بیٹا میرے حوالے نہیں کیا گیا پیغمبر اسلام ظاہری اعتبار سے جتنی کوشش کر سکتے تھے تو کر لی تو آخر میں پیغمبر نے سہیل بن عمر کو دیکھا ابو جندل کو دیکھا اور کہا اے ابو جندل جیسا تمہارا باپ کہہ رہا ہے اس کو مان لو اور واپس چلے جاؤ تو ایک مرتبہ اس نے ان زنجیروں اور بیڑیوں کو کھول کھول کر اپنے زخم اور نمایاں کرنا شروع کر دیئے مسلمانوں کا غصہ جو شروع سے ہی بڑھتا چلا آ رہا تھا جب سے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے یہ شروع ہوا ہے اب تو یہ عروج پر پہنچ چکا ہے مگر پیغمبر اسلام یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے پھر بھی اس کے بعد کہتے ہیں اے سہیل پھر بھی چلے جاؤ اس لئے کہ اللہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تمہارے بچنے کا کوئی راستہ نکال دے گا تو پیغمبر اسلام نے اتنی خوشخبری اس کو سنائی اور ایک مرتبہ ابو جندل بڑھا اور اپنے باپ کی جانب بڑھنے لگا۔ اب یہ بھی تاریخوں میں لکھا ہے اس وقت مسلمانوں میں سے ایک دو آگے بڑھے اور ابو جندل کے پاس پہنچ کر اسے اکسانا چاہا کہ وہ پیغمبر اسلام کی مخالفت کرے اور کہا تم اس وقت آزاد ہو کیوں پیغمبر کی بات مانتے ہو تلوار اٹھاؤ کسی کی اور اپنے باپ کو قتل کر دو تو ابو جندل جواب دینے لگے گو کہ پیغمبر مجھے جواب دے چکے ہیں اب مجھے قید گوارا ہے اب مجھے زخم کھانا گوارا ہے اب مجھے اپنے باپ کے ہاتھوں سے یہ مارپیٹ برداشت ہے۔ لیکن میں رسول کی مخالفت نہیں کر سکتا یہ کہ بیٹے نے اپنے آپ کو باپ کے حوالے کیا اور آج کی تقریر کا یہ نکتہ جو شروع سے میں بار بار دہرا رہا ہوں۔ سہیل بن عمر تمام مسلمانوں کے سامنے یہ دیکھ رہا ہے کہ مسلمان ابو جندل کی کتنی حمایت کر رہے ہیں اب سارے مسلمانوں کے سامنے ابو جندل اس طرح سے مارنا شروع کرتا ہے کہ زخموں سے دوبارہ خون جاری ہو جاتا ہے مگر پیغمبر اسلام بالکل خاموش ہیں یہ ظلم ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں مظلوم کو ظالم کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ رہے ہیں اور یہ درس دے رہے ہیں کہ جب دین اور اسلام کی مصلحت اسی میں ہوتی ہے کبھی ظالم کے سامنے خاموشی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ابو جندل کا واقعہ مکمل ہوا جیسے بھی سہیل بن عمر نے اسے پکڑا پکڑ کر اپنے غلام کے حوالے کیا واپس آیا معاہدے کے دونوں کاغذوں پر دستخط کئے اس معاہدے کی دو کاپیاں تیار کی گئیں ایک پیغمبر اسلام کے حوالے کی گئی ایک ابو جندل اپنے ساتھ لے گیا۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ مکمل ہو گیا لیکن آگے فقہی اور شرعی مسئلہ سامنے آ گیا۔ یہ مسلمان عام کپڑوں میں نہیں احرام میں آئے ہیں اور احرام کا مطلب ہے کہ عبادت شروع ہو گئی اور عبادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان عبادت شروع کر دے تو اپنی مرضی سے ختم نہیں کر سکتا ایک دفعہ عبادت شروع ہو جائے تو اس کے ختم کرنے کا ایک طریقہ کار ہے ہم نے واجب نماز شروع کر دی ایک دفعہ اللہ اکبر کہہ دیں ویسے ہم بااختیار رہیں۔ ظہرین کی نماز کا وقت مثلاً 12-30 بجے آتا ہے 5-45 بجغے قضا ہو جاتی ہے چاہے 2-45 یا 3-45 بجے جب چاہیں تکبیرة الاحرام مگر جب ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ دیا نماز واجب شروع کر دی اب اپنی مرضی سے اس کو نہیں توڑ سکتے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ واجب عبادتوں کو شروع کرنے کے بعد بیچ میں چھوڑنے کی اجازت نہیں جب تک کہ کوئی شرعی جواز نہ آ جائے جان کو خطرہ ہو جائے گھر میں آگ لگ جائے یا کوئی ایسا مسئلہ اب مسلمان احرام پہن کے عمرہ کیلئے نکل چکے ہیں احرام پہننے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت شروع ہو گئی لیکن عبادت کو مکمل نہیں کرنے دیا جا رہا ہو سکتا ہے کہ کون صاحب ایک فقہی مسئلہ کو میرے سامنے پیش کر دے اور کہہ دے مولانا آپ نے غلط مثال دی ہے واقعہ تو ٹھیک ہے مثال غلط دی ہے۔ واجبات کے اندر بیچ میں عمل توڑنے کو حرام قرار دیا ہے لیکن سنت عبادتوں میں تو اجازت ہے سنت نماز ایک رکعت پڑھی چھوڑ سکتے آپ سنت روزہ کو رکھنے کے بعد توڑ سکتے ہیں تو بات ٹھیک ہے کہ سنت عبادتوں میں بیچ میں توڑا جا سکتا ہے اور عمرہ واجب نہیں ہے عمرہ مستحب ہے تو جواب یہ ہے کہ کچھ منت عبادتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کا حکم واجب جیسا ہے نمبر1 اعتکاف مسجد میں بیٹھ کر تین دن عبادت کرنا اعتکاف سنت عبادت ہے جب تک کہ کوئی منت نہ مانی جائے اب اگر سنت اعتکاف کر لیا تو اس کو مکمل کرنا پڑے گا بیچ میں نہیں چھوڑ سکتے عمرہ میں بھی گو کہ سنت عبادت ہے ایک دفعہ احرام پہن لیں اب اسے مکمل کرنا واجب ہو جائے گا تمام سنتوں عبادتوں سے ہٹ کر اعتکاف اور عمرہ کا مسئلہ الگ ہے اعتکاف میں بھی دو دن کے بعد عمرہ میں تو شروع سے ہی ایک مرتبہ شروع ہو گئے تو بیچ میں چھوڑنے کا حق نہیں عمرہ احرام سے شروع ہوتا ہے ان کے بعد تین واجب اور ہوتے ہیں خانہ کعبہ کا طواف دو رکعت نماز صفا و مروہ کے درمیان سعی اور پھر آخر میں سر کو منڈوا کر احرام اتارا جاتا ہے عین اس وقت قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں اور قیامت تک مسئلہ حل ہوا کہ اگر کوئی آدمی عمرہ شروع کر دے مگر بیماری کی وجہ سے مکمل نہ کر پائے یا حکومت کی سختی کی وجہ سے عمرہ نہ کر پائے۔ ادھر پیغمبر سہیل بن عمر کو رخصت کر کے مسلمانوں کی طرف آئے لشکر اسلامی انتہائی غصہ کے عالم میں بیٹھا ہے۔ پیغمبر نے ابو جندل کے واقعہ کے بعد کہا اے مسلمانو عمرہ تو ہم نہیں کر سکتے چنانچہ اپنا سر منڈوا لو اور اپنا احرام اتار دو مسلمان ٹس سے مس نہیں اتنا شاک پہنچا ہے مسلمانوں کو جیسے آدمی بیہوشی کے عالم میں ہو جیسے آدمی شدید غفلت کے عالم میں ہو آنکھیں کھلی ہیں مگر دماغ کسی چیز کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں دوبارہ پیغمبر نے یہی حکم دہرایا پھر بھی کسی پر اثر نہیں ہوا۔ اور تیسری مرتبہ پیغمبر انتہائی غم کے عالم میں اپنے خیمے میں داخل ہوئے۔ پیغمبر اسلام کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب کسی سفر پر جاتے ہیں تو اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کو لیکر جاتے ہیں اس سفر میں پیغمبر اسلام کی وہ بیوی پیغمبر کے ساتھ تھی ایمان و تقدس میں حضرت خدیجہ کے بعد سب سے عظیم ہیں حضرت ام سلمیٰ پیغمبر اپنے خیمے میں داخل ہوئے حضرت ام سلمیٰ نے محسوس کیا کہ پیغمبر کے چہرے پر اس وقت غم کے آثار ہیں۔ اللہ کے رسول کیا بات ہے خیریت تو ہے کہا اے ام سلمیٰ یہ مسئلہ پیش آ گیا ہے اس وقت ام سلمیٰ نے ایک مشورہ دیا جسے اکثر میں دروس میں بیان کرتا رہتا ہوں کہ تمام مورخین اسلام متفق ہیں کہ کسی عورت کی جانب سے سیرت رسول میں آنے والا یہ بہترین مشورہ ہے سارے مسلمان آپ کے مخالف نہیں اس وقت غم کی وجہ سے یہ لوگ کوئی چیز سمجھنے کے قابل نہیں ہیں آپ زبان سے انہیں کچھ نہ کہیں آپ عملاً اپنا سر منڈوائیے جانور کو ذبح کریں اور احرام اتار دیں۔ بہرحال یہ عبادت گزار ہیں آپ کو دیکھ کر یہ آپ کی نقل کریں گے پیغمبر اسلام کو یہ مشورہ پسند آیا خیمے سے نکل کر اسی ڈیڑھ ہزار مسلمانوں کے درمیان گئے حجام کو بلوایا گیا اور سر منڈوانے کا حکم دیا پیغمبر اسلام کے سر کے بال اتارے گئے اور پھر جب پیغمبر قربانی کا جانور ساتھ لے کر آئے ہیں ذبح کیا گیا اور پیغمبر احرام اتار کر لباس پہن لیا یہ منظر جو دیکھا جا رہا ہے اب ڈیڑھ ہزار کے مجمع میں حرکت کے آثار پیدا ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اسلام کی سنت کی نقل کی یہاں پر چھوٹی چھوٹی باتوں کی وضاحت ہے پہلی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پر پیغمبر اسلام کا موئے مبارک ہے اور محفوظ ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ جہاں جہاں شہرت ہے کہ پیغمبر کے بال ہیں تو وہ صحیح ہے بعض جگہیں غلط بھی ہیں لیکن بعض لوگ جو اس بات پر اعتراض کرتے ہیں وہ اعتراض غلط ہے کہ پیغمبر یا امام کا جسم بالکل محفوظ رہتا ہے۔ تو کوئی دانت، بال یا ہڈی کا کہیں پہنچنا ہی ناممکن یہ اعتراض کر کے ان تمام زیارتوں کو رد کیا جاتا ہے یہ اعتراض غلط ہے اس لئے کہ پیغمبر نے جو عمرہ اور حج کے دوران سر منڈوایا وہ بال مسلمانوں نے بطور تبرک آپس میں تقسیم کئے ہیں اور نسل بعد از نسل یہ بال مختلف علاقوں تک پہنچ گئے ہیں یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں پیغمبر کے موئے مبارک کی زیارت کا دعویٰ کرتے ہیں ہماری مسجد یا درگاہ میں موئے مبارک ہے۔ ممکن ہے صحیح نہ ہو لیکن یہ دعویٰ کہ پیغمبر کا موئے مبارک کسی کو مل ہی نہیں سکتا تاریخ بتاتی ہے کہ واقعتاً حج و عمرہ کے بعد بال تقسیم ہوئے سب سے پہلے صلح حدیبیہ کا واقعہ سب سے آخری حج الوداع کا واقعہ کہ جہاں پیغمبر نے سر منڈوایا اس کی وضاحت آ گئی تو میں نے کر دی اور دوسری بات اسی سلسلہ میں ایک اور دوسری بات ایک اور یہ بھی ایک فقہی مسئلہ ہے حج اور عمرہ ایک عظیم عبادت ہے جس نے خود حج و عمرہ نہ کیا ہو اس کی سمجھ میں یہ مسئلہ نہیں آتا اور اسے یہ مشکل ترین عبادت محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کے مسائل بوجھل ترین مسئلے لگتے ہیں اور جو کوئی حج و عمرہ کر کے آ گیا البتہ صحیح طریقہ سے تو اسے اتنی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے ان عبادتوں سے تو ایسے بعض اوقات نماز و روزہ سے آسان یہ مسائل محسوس ہوتے ہیں تو ایسا ہی ایک مسئلہ کہ جب کوئی آدمی عمرہ پر جاتا ہے تو مردوں کو اسلام نے اجازت دی ہے کہ چاہے تو پورا سر منڈواؤ اور چاہے تو تھوڑے سے بال کاٹ لو۔ برادران اہل سنت کے ہاں سر منڈوانا لازم ہے اسی لئے وہ اس آدمی کو حیرت سے دیکھتے ہیں جو عمرہ پر گیا ہو اور بغیر سر منڈوائے آ گیا ہو تو یقین نہیں آتا ہے اس نے عمرہ کیا ہے ہماری فقہ میں دونوں چیزوں کی اجازت ہے یا پورا سر منڈواؤ اسے حلق کہتے ہیں یا تھوڑے سے بال منڈواؤ جسے تقصیر کہتے ہیں وہی تقصیر جو غلطی اور گناہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے البتہ یہ مردوں کیلئے ہے۔ خواتین کیلئے تو بہرحال سر منڈوانا حرام ہے انہیں تو تھوڑے سے بال ہی کٹوانا پڑتے ہیں۔ عام حالات میں بالکل یہ اجازت ہے چاہے سر منڈواوٴ چاہے بال کٹواوٴ حج ہے جس سر مندوانا پڑتا ہے اس میں بھی آقای خوئی کہتے ہیں وہا ں بھی اجازت ہے چاہے سر منڈواوٴ یا بال کٹواوٴ خیر اس میں بھی شک نہیں عمرہ کے دوران البتہ سر منڈوانے کا ثواب زیادہ ہے لیکن صلح حدیبیہ میں یہ مسئلہ ثو اب کا نہیں بلکہ ایمان کا بن گیا اس طرح سے کہ پیغمبر نے سر منڈوایا یہ خاص صلح حدیبیہ کی بات ہے اور وہ مسلمان جو پیغمبر پر پورا یقین رکھتے ہیں فقط اس غم کی وجہ سے خاموش تھے انہوں نے پیغمبر کی پوری نقل کی پورا سر منڈوایا لیکن وہ مسلمان جو اس مسئلہ پر اختلاف رکھتے تھے تو وہ سر منڈوانے پر تیار نہیں تھے اب اگر صاف انکار کر دیتے تو صاف الگ ہو جاتے اور نمایاں ہو جاتے تو انہوں نے فقہی مسئلہ سے فائدہ اٹھایا کہ تھوڑے سے بال بھی کاٹے جا سکتے ہیں تو انہوں نے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام اتار دیا یعنی کہنے کو ہو گیا کہ جیسا باقی مسلمانوں نے کیا وہ ہم نے بھی کیا یہی وجہ کہ جب سارے مسلمان احرام اتار دیئے۔

اب کچھ لوگوں کے سر منڈھے ہوئے ہیں اور کچھ کے بال کٹے ہوئے ہیں جب اس حالت میں یہ لشکر پلٹا تو پیغمبر اسلام نے پورے لشکر کو دیکھ کر یہ کہا رحم اللہ علی المحلقین اللہ رحمت نازل کرے جنہوں نے سر منڈوایا ہے کسی کونے سے آواز آئی اللہ کے رسول جنہوں نے تھوڑے سے بال کاٹے ہیں ان کے بارے میں پیغمبر نے بھی اسی بات کو دہرایا رحم اللہ علی المحلقین خدا رحمت نازل کرے سر منڈوانے والوں پر اب جنہوں نے تھوڑے سے بال کاٹے ہیں پھر ذرا بے چین اللہ کے رسول اور بال کاٹنے والے پیغمبر نے پھر وہی اپنا جملہ دہرایا تو تھوڑے سے بال کاٹنے والے تڑپ کے آگے بڑھے تو پھر پیغمبر نے کہا اور بال کاٹنے والوں پر بھی پھر کسی نے پوچھا اللہ کے رسول آپ نے بال منڈوانے کا اتنا زیادہ اور بال کٹوانے والوں کا اتنا کم تذکرہ اور وہ بھی ایسے جیسے کسی کا دل رکھنے کیلئے بات کی جا رہی ہے تو پیغمبر کا جواب یہی تھا کہ سر انہوں نے منڈوایا جنہیں میری نبوت و رسالت میں ذرا بھی شک نہیں اور بال انہوں نے کٹوائے جنہیں نبوت و رسالت پر شک ہے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کی خاطر بال کٹوائے ہیں یہ صلح حدیبیہ کا بہت خاص واقعہ ہے لیکن اس کا اطلاق آج کل نہیں ہوتا وہ خاص حکم تھا اب اختیار ہے تھوڑے سے بال کٹوائے یا سر منڈوائے۔ خیر ہم واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے اس عمل کے پیچھے حضرت ام سلمیٰ کا مشورہ ہے تمام مسلمانوں کو عام کپڑوں میں لے آیا۔ اب پیغمبر نے کہا کہ ہمیں واپس جانا ہے اس موقع پر میں وہ جملہ دھرا دوں کہ جو میں گزشتہ تقریر میں کہہ چکا ہوں عین اس وقت ایک شخص آگے بڑھا اے اللہ کے رسول کیا آپ نے مدینہ میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم لوگ خانہ کعبہ میں گئے طواف کیا سعی کی پیغمبر نے کہا ہاں یہ میں نے کہا تھا کہ اللہ کے رسول وہ بات پوری نہیں ہوئی۔ پیغمبر نے کہا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اس سال ہم طواف کریں گے یاد رکھو پروردگار اپنے وعدہ پورا کرے گا اور اب یہ قافلہ کچھ دور چلا کہ جبرائیل امین قرآن کریم کا سورہ نمبر 48 سورہ فتح لیکر نازل ہو گئے جس کا پہلا ہی جملہ یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ اے مسلمانوں یہ واپسی پر سورہ نازل ہوا ہے اے مسلمانو آج ہم نے تمہیں کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے پھر آگے چل کر وہ آیت جو ہماری آج کی تقریر کا سرنامہ کلام بنی ہے لقد صدق اللہ رسولہ رویة بالحق یاد رکھو اللہ اپنے رسول کے خواب کو سچا دکھائے گا۔ لتد خلن فی المسجد الحرام امنین انشاء اللہ اور تم امن سے خانہ کعبہ میں داخل ہو گے اب یہ دو وعدے قرآن کر رہا ہے اب یہ وعدہ کسی طرح پورے ہوئے آگے چل کر آئے گا پھر ایک مرتبہ اس جملے کو دہرا دیا جائے کہ قرآن واپسی کے سفر پر پہلی آیت یہ نازل کر رہا ہے کہ انا فتحنا لک فتحا مبینا خالی یہ نہیں کہا کہ ہم نے تمہیں فتح دی فتح مبین دی کھلی ہوئی فتح۔ بدر کی لڑائی کے بعد یہ لفظ نہیں آیا احد کی لڑائی کے بعد یہ لفظ نہیں آیا خندق کی لڑائی کے بعد یہ لفظ نہیں آیا۔ خیر کے معرکہ کے بعد یہ لفظ نہیں آئے گا مگر صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ لفظ آیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ما کان قصیة ما اعظمھا ببرکة منہا ہاں اسلام میں صلح حدیبیہ سے زیادہ برکت والا کوئی واقعہ نہیں ہے برکتیں ہی برکتیں اس واقعہ میں اُن سب سے کچھ کا تذکرہ ضروری ہے مگر اس سے پہلے صرف اتنی سی بات ایک مرتبہ مسلمانوں کا لشکر مدینہ پہنچ گیا اور شیخ طوسی شیخ طبرسی سید قطب الدین راوندی اور ابن شہر آشوب اور اس کے علاوہ شیعہ سنی تقریبا تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ صرف اور صرف 20 دن پیغمبر مدینہ میں رہے اکیسواں دن آیا صلح حدیبیہ سے لشکر واپس آیا۔ صرف بیس دن قیام رہا اکیسویں دن پیغمبر مدینہ سے خیبر کی جانب چلے اور خیبر کے حالات آ گئے اسی لئے صلح حدیبیہ کا ایک بڑا تعلق خیبر کے واقعہ سے بھی ہے میں نے پہلے بھی عرض کیا آج پھر بھی دہراؤں گا اسی دوران ایک واقعہ اور پیش آیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں الفاظ کی کتنی اہمیت ہے۔ چاہے وہ فقہی مسائل ہوں یا سیاسی چاہے وہ آپس میں معاہدے ہوں تو جب پیغمبر مدینہ واپس پہنچے تو عقبہ بن ابی معید مکہ میں بہت بڑا دشمن اسلام اور کافر اس کی بیٹی ام کلثوم جو مسلمان ہو چکی تھی مگر اپنے آپ کو بوسیدہ کئے ہوئے موقع پا کر وہ مکہ سے مدینہ آئی اور پیغمبر اسلام کی خدمت میں آ کر پناہ طلب کی اور پیغمبر نے اسے پناہ دے دی اِسی دوران اس کے دونوں بھائی ولید اور عمار مدینہ پہنچ گئے اور پیغمبر اسلام سے اس حوالہ سے گفتگو شروع کی اے عبداللہ کے بیٹے ہمیں یہ پتہ ہے کہ آپ کبھی دھوکہ نہیں کرتے غدر نہیں کرتے معاہدے کو توڑتے نہیں ہیں وعدہ خلافی نہیں کرتے یہ رسول ہی کا تو واقعہ ہے کہ اگر مکہ میں کسی نے وعدہ لیا ہے یہاں انتظار کرو میں آتا ہوں اور وہ بھول گیا اور تین دن کے بعد وہاں سے گزرا تو دیکھا کہ پیغمبر وہیں پر تشریف فرما ہیں اور اس سے کہا کہ مرتے دم تک میں یہیں بیٹھا رہتا اتنا وعدے کا خیال رکھنے والے جیسے مکہ والے صادق و امین کہا کرتے اس حوالہ سے بات کی کہ ہماری بہن آپ کے پاس آتی ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان معاہدہ ہوا ہے مکہ سے جو بھی آئے گا اسے واپس کیا جائے گا۔ پیغمبر نے جواب دیا کہ معاہدے میں مرد کا لفظ آیا ہے مومن جو مومن ہو گا وہ واپس کیا جائے گا۔ یہ مومن نہیں ہے مومنہ ہے اور عورت کا تذکرہ معاہدے میں نہیں ہے اس وقت بعض مسلمان بھی ذرا پریشان ہوئے جسے آجکل بھی جب کوئی فقہی مسئلہ بیان کرتے ہیں تو لوگ یہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو الفاظ سے کھیلنا ہے اگر آپ بنک میں پیسہ رکھیں کہ اگر نیت یہ کہ آپ نہیں مانگیں گے تو وہ نہیں دیتے اگر دے دیں گے تو لے لیں گے کی نیت ہو تو حلال ہے اور اگر یہ نیت نہ ہو تو حرام ہے۔ اس لئے آقائی خوئی نے کہا انعامی بانڈ اس نیت سے خریدا تو حرام اور اگر اس نیت سے خریداکہ انعام نکل آیا دے دیں گے تو لے لیں گے نہیں دیں گے تو ہم جھگڑا نہیں کریں گے اس صورت میں پرائز بانڈ کا خریدنا حلال ہے عام لوگ یہ کہتے ہیں یہ کیا بات ہوئی سود ہے تو ہر صورت میں حرام ہونا چاہئے یہ کیا کہ یہ نیت کر لیں تو حلال وہ نیت کر لیں تو حرام یہ سب معاذاللہ مولویوں کے چکر ہیں۔ اللہ کے رسول کی زندگی میں بھی یہ واقعہ پیش آ چکا ہے کہ پیغمبر نے کہا معاہدے میں لفظ مومن آ چکا ہے مومنہ نہیں آیامسلم لکھا ہے مسلمہ نہیں لکھا یعنی مرد کیلئے آیا ہے عورت کیلئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔ عورتوں کو واپس کرنے کے بعد ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ وہ کفار مکہ تو چلے گئے لیکن بعض مسلمانوں کے دلوں میں شک پیدا ہو گیا یہ پیغمبر نے کہا ارشاد فرما دیا معاہدے کے اندر لفظ کوئی بھی تھا مقصد کو یہی تھا کہ مکہ والے کو واپس کیا جائے گا۔ یہ مرد و عورت کا کیا چکر ہے قرآن مجید کا سورہ ممتحنہ نازل ہوا بسم اللہ الرحمن الرحیم یا ایھا الذین آمنو اذا جاء کم المومنات المہاجراتجب تمہارے پاس مومنہ عورتیں آئیں چار لفظوں کے بعد قرآن کہہ رہا ہے لا ترجو ھن الی الکفار خبردار انہیں کافروں کے پاس واپس نہ کرنا پیغمبر کے عمل کی قرآن کریم نے تصدیق کر دی اور اس تصدیق کے بعد اس مسئلے کو بھی واضح کر دیا کہ احکام دین میں الفاظ کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لفظ ضرور توجہ کے ساتھ سنا کریں ورنہ مسئلہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے گا۔

اچھا آپ کو یاد ہو گا ایسے دو واقعات پیش آئے ایک صلح حدیبیہ کے مقام پر اور دوسرا مدینہ پہنچنے پر پیش آیا جس کی وجہ سے میں نے اسے دہرا دیا۔ اب اللہ کا رسول خیبر کیلئے روانہ ہوا خیبر کے حالات واقعات آئندہ کی تقریر میں۔

اب پیغمبر مدینہ سے چلے اور مدینہ واپس آ گئے صلح حدیبیہ پر دستخط کر کے واپس آئے واپسی کے سفر پر قرآن یہ بھی سنا چکا ہے کہ یہ فتح مبین ہے اب سرسری طور پر دیکھنا ہے کہ صلح حدیبیہ کے کیا فوائد حاصل ہوئے ویسے تو علما نے پوری پوری کتابیں لکھ دی ہیں لیکن مختصراً تین چار باتیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں مکہ میں جو مسلمان اب تک تھے ان کیلئے کھل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرنا اور اپنے اعمال کو انجام دینا ممکن ہو گیا مکہ کے مسلمانوں کیلئے صلح حدیبیہ اتنی بڑی برکت بن کر آ گیا کہ خود قرآن کے سورہ فتح کے آخر میں مکہ کے بوڑھے مرد و عورتیں جو مسلمان ہیں ان کا بھی خیال کرو۔ فقط اپنے آپ کو نہ دیکھو طاقتور ہیں کافروں کو شکست دے سکتے ہیں ان کمزوروں کا بھی خیال کرنا ہے کمزوروں کیلئے کہ واقعہ اور آیت بہت بڑی رحمت بن کر آیا دوسرا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا جسے آج ہم روس میں دیکھ رہے ہیں ایک آئرن کرٹن یا آئینی پردہ پڑا ہے اسلام پر کفر مکہ نے تمام کافروں کو مسلمانوں سے قریب ہونے سے روکا ہوا ہے۔ خصوصاً یہ کہہ کر کہ جو وہاں گیا ہمارا دشمن ہے اور عرب کے لوگ قریش کی دشمنی مول لینے کو تیار نہیں ایک خانہ کعبہ کی وجہ سے اور ایک یہ کہ قریش ایک بڑی طاقت بنتے جاتے ہیں۔

اب اس معاہدے کی نتیجہ میں فرق یہ پڑا کہ جو چاہے جس کا ساتھ دے سکتا ہے چنانچہ کثرت کے ساتھ قبائل کو پیغمبر کے پاس آنے کا موقع ملا یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے حدیبیہ کی سرزمین پر جو قبیلہ رہتا تھا بنی خزاع جن کے تعلقات پیغمبر کے پڑدادا بنی ہاشم سے تھے ان کی ہمدردی مسلمانوں کے ساتھ تھی آج تک وہ مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے پائے لیکن جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوئے کھڑے کھڑے ہی انہوں نے کھل کر اعلان کیا کہ آج سے ہم مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ بالکل مکہ کے پڑوس میں رہتے ہیں ایسے بہت سے قبائل تھے جو مسلمانوں کی طاقت بنے۔ تیسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس معاہدے کے بعد مکہ سے جو مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں بہرحال ان کا پورا خاندان تو ہے مکہ میں آپس میں ملنے کیلئے وہ تڑپ تو رہے ہیں اب آمدورفت کا موقع مل گیا مکہ کے لوگ مدینہ جاتے ہیں مدینہ کے لوگ مکہ جاتے ہیں ایک دوسرے کو تحفے بھجواتے ہیں بہرحال ایک دوسرے کے قریب تو آئے ورنہ اس سے پہلے تک قریش والوں نے کسی کافر کو مسلمانوں کے قریب نہیں آنے دیا۔ یہ جادوگر ہیں یہ شاعر ہیں ان کے پاس جن آتے ہیں اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔ اب قریب تو آئے آنے جانے کا اثر تو ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کی شرافت دیکھی تقدس دیکھا تقویٰ دیکھا چوتھا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام کو اسلام پھیلانے کا موقع مل گیا اب تک قریش یکے بعد دیگرے حملوں پہ حملے کر کے اتنا موقع ہی نہ دیا تھا کہ پیغمبر دنیا کے دوسرے علاقوں کی جانب متوجہ ہوتے اس صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں بڑا فائدہ یہ ہو گیا چنانچہ اس کے بعد مصر حبشہ ایران روم سارے خطوط جا رہے ہیں۔ پانچواں بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قریش کے بعد اسلام کا دوسرا بڑا دشمن یہودیت کا مذہب تھا ابھی تک قریش اور یہودی ہر جگہ ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے۔ صلح حدیبیہ تک آ کے پیغمبر نے اس اتحاد کو توڑ دیا اب ان کا مقابلہ کرنا آسان ہوا اسی لئے پیغمبر نے 20 دن انتظار کیا اور فوراً خیبر پر حملہ کر دیا یعنی پیغمبر کو تو معلوم تھا کہ معاہدہ دو سال چلے گا کیونکہ یہ خطرہ تو رہتا ہے کہ دوسرا فریق اسی کو توڑ دے۔ اس لئے پیغمبر یہ چاہتے تھے کہ معاہدہ ٹوٹنے سے پہلے کم از کم یہودیت کا تو خاتمہ ہو جائے اور یہ چوتھا اور پانچواں فائدہ بہت بڑا ہے، تبلیغ کا موقع ملا یہودیت کی کمر توڑنے کا موقع ملا اس لئے پیغمبر نے جتنا جلد ممکن ہو خیبر پر حملہ کر دیا اور یہ 20 دن بھی جو ٹھہرے تھے اس لئے کہ جو لوگ صلح حدیبیہ میں نہیں گئے تھے انہیں بھی ساتھ ملایا جائے ایک بڑا لشکر تیار کر کے حملہ کیا جائے یہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ تھا۔ اس کے بعد ایک اور اہم بات سامنے آئی جیسے آپ چھٹا فائدہ بھی کہہ سکتے ہیں اور قرآن کے اس وعدے کی تکمیل میں اردو میں ایک شعر مشہور ہے عموماً شعر و شاعری کا سہارا نہیں لیتا مگر اسی موقع پر یہ مصرعہ بہت ٹھیک ہے کہ لو آپ اپنے دام میں صیار آ گیا یہ شق جو مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ سخت تھی کہ مکہ میں جو مسلمان آ گیا واپس نہ ہو گا۔ وہی شرط قریش کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک گیا قریش بہت زیادہ پریشان ہوئے اور یہ وہ شرط ہے جس پر مسلمان بہت زیادہ ناراض ہوئے کہ اللہ کے رسول یہ کیسی شرط کہ ہمارا مظلوم بھائی مکہ سے ہمارے پاس پناہ لینے آئے اور ہم کہہ دیں واپس چلے جاؤ یہی شرط بظاہر اسلام کی ذلت اور قریش کی فتح تھی یہی شرط قریش کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک گئی اس شرط پر آ کر درخواست کی اللہ کے رسول باقی معاہدہ رکھیں اسی شرط کو کاٹ دیں۔

اسی میں ایک بہت اہم درس ہمارے لئے ہے اسلام ہمارے لئے ذمہ داری قرار دیتا ہے تبلیغ امر بالمعروف نہی عن المنکر اللہ کا پیغام پہنچانا یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب ایک آدمی کے پاس سہولتیں اور وسائل ہوں تو وہ تبلیغ کر سکتا ہے لیکن ایک مجبور اور بے کس آدمی کیا تبلیغ کرے گا صلح حدیبیہ نے بتایا کہ یہ بات غلط ہے یہی صلح حدیبیہ کا ایک قیدی جسے اس کا باپ لے گیا تھا جا کر اپنے قیدخانے میں بند کیا اب اس کیلئے باہر کا ایک آدمی نگران رکھا کیونکہ اپنوں کو رکھ کر وہ گھبرا گیا تھا کہ سارے ہی مسلمان نہ ہو جائیں اور باہر کا آدمی زیادہ سخت ہو گا نرمی کم کرے گا۔اب ابو جندل پر مظالم ہوتے غیر اس لئے مقرر کئے کہ نرمی نہ ہو ابو جندل بھی اس طرح نہیں کہ رسول نے ہماری مدد نہیں کی اب قید کا زمانہ ہے ہم صبر کرتے ہیں ایسا صبر اسلام کو نہیں چاہئے جس میں تحرک نہ ہو اب اسی قیدخانہ میں تبلیغ شروع کر دی البتہ آہستہ آہستہ نتیجہ کیا ہوا کہ وہ محافظ خود مسلمان ہو گیا یہ خبر جیسے ہی سہیل بن عمر کو ملی اس نے خود کو ایک مرتبہ قید میں ڈال دیا یہ سردار مکہ ہے دوسرا آدمی لیکر آیا ہے پہلے ایک مبلغ تھا اب مبلغ دو ہیں وہ ایک ہے پھر ایک اور آدمی لایا گیا اس طرح انہوں نے قید میں ستر آدمیوں کو مسلمان کر دیا ستر آدمی ایک مظلوم قیدی ابو جندل کی تبلیغ سے مسلمان ہو گئے جو مکہ کے سخت ترین کافر تھے اور پھر ایک دن موقع پا کر رات کی تاریکی میں قیدخانہ توڑ کر نکل پڑے یہ تو ان کو پتہ ہے کہ مدینہ تو یہ جا نہیں سکتے اللہ کا رسول جو مدینہ جاتا ہے اسے واپس پلٹادیتا ہے ان کوطلاع ملی کہ سمندر کے کنارے ایسے ہی مسلمانوں کی ایک بستی بنی ہے جو بھی مکہ سے نکلتا ہے ذوالمرہ کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے وہیں پناہ لیتا ہے وہ بھی کیسے بنا صلح حدیبیہ کے بعد یہ تو ابو جندل کا واقعہ ہے ایک مسلمان ہے عتوہ بن عمیر وہ اپنی کنیت سے زیادہ مشہور ہے۔ ابو عمیرہ وہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گیا یہ صلح حدیبیہ کے فوراً بعد کا واقعہ ہے اسے یہ بھی علم تھا کہ مکہ سے عورتیں مدینہ گئیں انہیں نہیں بھیجا گیا یہ پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا مگر اس کے ساتھ ساتھ قریش کے دو نمائندے بھی آ گئے کیونکہ اس کے فرار کی اطلاع مکہ والوں کو مل گئی تھی ایک غلام اور ایک بنی عامر کا نوجوان اور خط لکھ کر بھیجا جاؤ اور رسول کو یہ خط دے دینا۔ پیغمبر نے خط کو پڑھا لکھا تھا کہ معاہدے کے مطابق ہمارے بندے کو ان نمائندوں کے ساتھ بھیج دیں ابو عمیر کہنے لگا یا رسول اللہ وہ مجھ پر بڑا ظلم کریں گے۔ پیغمبر نے کہا معاہدہ کے مطابق تمہیں جانا خدا کوئی سبب بنا دے گا اس پر توکل کرو یہ کہہ کر وہ ان کے ساتھ چل پڑا ابھی دو کوس ہی گئے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے جیسے تمام حج و عمرہ پر جانے والے افراد جانتے ہیں یہ ایک گڑھا تھا جہاں پر آج کل مسجد شجرہ بنا دی گئی ہے۔

وہاں پر باتوں ہی باتوں میں اس نے اس قریش جوان کی تعریف کی کیسی تلوار ہے عربوں میں یہ ایسے ہے جیسے کسی عورت کے زیورات کی تعریف کر دی جائے وہ نوجوان بھی اپنی تلوار کی خصوصیات بتانے لگا اتنے میں ابو عمیر نے کہا ذرا اتنی صفات کی حامی تلوار کو مجھے دکھا اب باتوں ہی باتوں میں جب اس نے یہ تلوار دکھائی تو اگلے ہی لمحے اس کی گردن اڑ گئی۔مکہ کا کافر ہے ویسے ہی واجب القتل ہے اب دیکھیں ایسا ماحول او عمیر نے بنا دیا کہ کون مجھ سے کیا کہہ رہا ہے تلوار دی تو مارا گیابڑی تیزی کے ساتھ بھاگ کر مدینہ آیا وآتے ہی شکوہ کیا وہ آدمی ہمارے ساتھ مکہ نہیں گیا راستہ میں میرے سردار کو قتل کردیا ہے اب مجھے بھی مارنا چاہتا ہے اتنے میں ابو عمیر بھی آ گئے اور کہنے لگا یا رسول اللہ آپ نے معاہدے کی پاسداری کی ہے۔ آپ نے مجھے روانہ کیا اوراب یہ ان کی کمزوری ہے کہ وہ مجھ پر قابو نہیں پا سکے میں اپنی طاقت پر ان سے جان چھڑا سکا اب میں آزاد ہوں معاہدے میں یہ نہیں ہے کہ آپ مکہ پہنچا کر آئیں آزادی میں نے خود حا صل کی ہے اب میں آزاد ہوں آپ مجھے مکہ نہ بھیجیں لیکن پیغمبر نے کہا کہ میں تمہیں مدینہ میں نہیں رکھ سکتااب اس نے کہا کہ میں جارہا ہوں مکہ جا نہیں سکتا مدینہ والے اس کو رکھنے کو تیا ر نہیں آخر مجبوری کے عالم میں ساحل سمندر کے قریب جا کر رہنے لگا ادھر مکہ میں بہت سے مسلمان تھے چوبیس گھنٹے تو کوئی کسی کی نگرانی نہیں کر سکتا اب جب انہیں اطلاع ملتی کہ ابو عمیر نے سمندر کے کنارے قیام کیا ہے اب اصل مسئلہ کیا تھا کہ مکہ کے مسلمان کہاں جائیں مکہ میں رہ نہیں سکتے مدینہ قبول نہیں کرتا۔ اب ایک تیسری جگہ بنی رفتہ رفتہ یہ اس تیسری جگہ پہنچنے لگے اور عموماً اس جگہ جانے والے مرد ہوں گے عورتوں کو تو مدینہ میں پناہ مل جاتی۔بوڑھے مردوہاں تک جانے کاتصور نہیں کرسکتے خلاصہ سارے طاقتور مرد وہاں پر جمع ہوگئے ابو جندل نے جب قید کو توڑا تو وہ بھی اپنے ستر آدامیوں کو لیکر وہاں پہنچ گئے سب طاقتور نوجوان اور یہ وہ راستہ تھا جہاں سے تجارتی قافلے گزرتے تھے یہ بات اس سے پہلے کئی مرتبہ بیان ہوئی قریش چونکہ کعبہ کے متولی ہیں اس لئے عرب کے ڈاکو بھی ان پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ یہ بہت بڑا ان پر فضل تھا جیسے قرآن نے ان کیلئے بیان کیا ہے رحلة الشتاة السیف ہم نے گرمی و سردی میں تمہارے قافلوں کو بچایا۔ لیکن یہ جو نئے مسلمان ہوئے ہیں انہیں تو پتہ ہے کہ قریش کا کوئی احترام نہیں ہے چنانچہ وہ لوگ قریش کے قافلوں پر حملہ کرنے لگے قریش جناب اسماعیل سے لیکر آج تک کبھی بھی اس امتحان میں نہیں پڑے کہ کوئی ان کے تجارتی قافلوں پر حملہ کر دے اب کے قافلے لٹنے لگے یہ ان کیلئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا کہ ان پر حملہ کیسے کریں کیونکہ وہ روایتی فوج نہیں ہے بہتر یہ ہے کہ یہ مدینہ چلے جائیں کیونکہ یہ ابھی آزاد ہیں اللہ کا رسول کبھی ڈاکہ زنی کو پسند نہیں کرے گا یہ مدینہ پہنچ جائیں ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چنانچہ پیغمبر کے پاس قریش کا ایک وفد ہاتھ جوڑتا ہوا گیا اے عبداللہ کے بیٹے وہ جو صلح حدیبیہ کی ایک شرط ہے اسے ہم حذف کرتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کو آپ مدینہ میں رکھیں اور بیشک باندھ کر رکھیں ہمارا مسئلہ حل ہوجائے گااب قریش کو پورا معاہدہ قبول ہے سوائے اس شرط کے سب سے مشکل شرط جو مسلمانوں کو لگی وہی شرط اچھی بن گئی پیغمبر نے کہا اگر تمہاری خوشی ہے تو میں راضی ہوں پھر پیغمبر نے خط لکھ کر اس بستی کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ تم اپنے سارے ساتھیوں کو لے کر مدینہ میں آ جائیں اب یہ یاد رکھیں کہ وہ جو تین سو آدمی ہیں اپنی خوشی سے نہیں ہیں کون ایسا مسلمان ہو گا کہ پیغمبر کا زمانہ اور اپنے آپ کو پیغمبر کی زیارت سے محروم رکھے وہ مجبوری سے رہ رہے ہیں کہ رسول ہمیں لینے کو تیار نہیں اب جیسے ہی خط وہاں پہنچا وہاں تو گویا عید ہو گئی ابو عصیر جو سردار ہیں اس بستی کے جو سب سے پہلے آنے والے ہیں حالت نزاع میں ہیں ابو جندل ان کے نائب ہیں ابو عصیر کے پاس آئے اور کہا مبارک ہو اللہ کے رسول نے خود خط لکھ کر ہمیں بلوایا ہے ابو عصیرنے یہ سنا آنکھیں کھولیں سبحان اللہ ،الحمد للہ ساری زندگی کی محنتیں آج مبارک ہو پروردگار نے میری محنتوں کو قبول کیاپیغمبر کا خط میرے نام آرہا ہے اب ابو جندل مجھ میں تو اتنی سکت نہیں کہ پیغمبر تک پہنچ سکوں میرا سلام پہنچا دینا بس کم از کم اتنی سعادت مجھے د ے دو اتنا کرو کہ یہ خط میرے سینے پر رکھو تاکہ جب آنکھیں بند ہوں تو پیغمبر کا دعوت نامہ میرے ساتھ ہو ابو جندل نے جھک کر سینے پر رکھا جونہی خط سینے پر رکھا روح پرواز کر گئی ابو جندل نے وہیں دفن کیا اور ایک چھوٹی سی مسجد وہاں پر بنا دی جس کے بعد ابو جندل ان مسلمانوں کو لیکر مدینہ آئے اور پیغمبر اسلام کو سارا واقعہ سنایا یہ چھٹا بہت بڑا فائدہ مکمل ہو گیا