توضیح المسائل آقائے سیستانی
زکوٰة فطرہ

زکوٰة فطرہ

(۱۹۵۲)عید الفطر کی رات غروب آفتاب کے وقت جو شخص بالغ اور عاقل ہو اور نہ تو بے ہوش ہو اور نہ فقیر اور نہ کسی دوسرے کا غلام ہو توضروری ہے کہ اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس کے ہاں کھانا کھاتے ہوں فی کس ایک صاع جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تقریباً تین کلو ہوتا ہے ان غذاؤں میں سے جو اس کے شہر (یا علاقے)میں استعمال ہوتی ہوں،مثلاً گیہوں یا جو کھجوریاکشمش یا چاول یاجوار مستحق شخص کودے اور اگر ان کے بجائے ان کی قیمت نقدی کی شکل میں دے تب بھی کافی ہے۔احتیاط لازم یہ ہے کہ جو غذا اس کے شہر میں عام طور پر استعمال نہ ہوتی ہو چاہیے وہ گیہوں ،جو،کھجور یا کشمش ہو،نہ دے۔

(۱۹۵۳)جس شخص کے پاس اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے سال بھرکے اخراجات نہ ہوں اور اس کا کوئی روزگار بھی نہ ہو جس کے ذریعے وہ اپنے اہل وعیال کا سال بھر کاخرچہ پورا کر سکے وہ فقیر ہے اور اس پر فطرہ دینا واجب نہیں ہے۔

(۱۹۵۴)جو لوگ عید الفطر کی رات غروب کے وقت کسی کے ہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ صاحب خانہ ان کا فطرہ دے ،قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان ہوں یا کافر ،ان کاخرچہ اس پر واجب ہو یا نہ ہو اور وہ اس کے شہر میں ہوں یا کسی دوسرے شہر میں ہوں۔

(۱۹۵۵)اگر کوئی شخص ایک ایسے شخص کو جو اس کے ہاں کھانا کھانے والا گردانا جائے ،اور دوسرے شہر میں ہو، اپنا نمائندہ مقرر کرے کہ اس کے(یعنی صاحب خانہ کے)مال سے اپنا فطرہ دے دے اور اسے اطمینان ہو کہ وہ شخص فطرہ دے دے گا تو خود صاحب خانہ کے لئے اس کا فطرہ دینا ضروری نہیں۔

(۱۹۵۶)جو مہمان عید الفطر کی رات غروب سے پہلے صاحب خانہ کی رضامندی سے اس کے گھر آئے، رات اس کے ہاں گزارے اور اس کے ہاں کھانا کھانے والوں میں اگرچہ وقتی طور پر شمار ہو اس کا فطرہ بھی صاحب خانہ پر واجب ہے۔

(۱۹۵۷)جو مہمان عید الفطر کی رات غروب کے بعد وارد ہو اگر وہ صاحب خانہ کے ہاں کھانا کھانے والا شمار ہو تو اس کا فطرہ صاحب خانہ پراحتیاط کی بنا پر واجب ہے اور کھانا کھانے والا شمار نہ ہو تو واجب نہیں ہے اور جس شخص کو انسان نے عید کی شب میں اپنے گھر افطار پر بلایا ہو،وہ اس کے ہاں کھانا کھانا والاشمار نہیں ہوتا اور صاحب خانہ پر اس کا فطرہ واجب نہیں ہے۔

(۱۹۵۸)اگر کوئی شخص عید الفطر کی رات غروب کے وقت دیوانہ ہو اور اس کی دیوانگی عید الفطر کے دن ظہر کے وقت تک باقی رہے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے ورنہ احتیاط واجب کی بنا لازم ہے کہ فطرہ دے۔

(۱۹۵۹)غروب آفتاب سے پہلے اگر کوئی بچہ بالغ ہو جائے یا کوئی دیوانہ عاقل ہو جائے یا کوئی فقیر غنی ہو جائے تو اگر وہ فطرہ واجب ہونیکی شرائط پوری کرتا ہو توضروری ہے کہ فطرہ دے۔

(۱۹۶۰)اگر عید الفطر کی رات غروب کے وقت فطرہ واجب ہونیکی شرائط نہ ہوں،لیکن اگر عید کے دن ظہر کے وقت سے پہلے تک فطرہ واجب ہونے کی شرائط اس میں موجود ہوجائیں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ فطرہ دے۔

(۱۹۶۱)اگر کوئی کافر عید الفطر کی رات غروب آفتاب کے بعد مسلمان ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔لیکن اگر ایک ایسا مسلمان جو شیعہ نہ ہو وہ عید کا چاند دیکھنے کے بعد شیعہ ہو جائے توضروری ہے کہ فطرہ دے۔

(۱۹۶۲)جس شخص کے پاس صرف اندازاً ایک صاع گیہوں یا اس جیسی کوئی جنس ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ فطرہ دے اور اگر اس کے اہل وعیال بھی ہوں اور وہ ان کا فطرہ بھی دینا چاہتا ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے کہ فطرے کی نیت سے ایک صاع گیہوں وغیرہ اپنے اہل و عیال میں سے کسی ایک کو دے دے اور وہ بھی اسی نیت سے دوسرے کو دے دے اور وہ اسی طرح دیتے رہیں حتیٰ کہ وہ جنس خاندان کے آخری فرد تک پہنچ جائے اور بہتر ہے کہ جوچیز آخری فرد کے ملے وہ کسی ایسے شخص کو دے جو خود ان لوگوں میں سے نہ ہو جنہوں نے فطرہ ایک دوسرے کودیا ہے اور اگر ان لوگوں میں کوئی نابالغ یا دیوانہ ہو تو اس کا سر پرست اس کی بجائے فطرہ لے سکتا ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ چیز اس کی نیت سے نہ لے بلکہ خود کے لئے لے۔

(۱۹۶۳)اگر عید الفطر کی رات غروب کے بعد کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کا فطرہ دینا واجب نہیں ہے لیکن اگر غروب سے پہلے صاحب اولاد ہو جائے یا شادی کرلے،اگر وہ اس کے ہاں کھانا کھانے والے شمار ہوں تو ان کا فطرہ دینا ضروری ہے اوراگر وہ کسی اور کے ہاں کھانا کھانے والے شمار ہوں تو اس پر(یعنی باپ یا شوہر پر)ان کا فطرہ واجب نہیں اور اگر کسی کے ہاں کھانا کھانے والے نہ سمجھے جائیں تو عورت کافطرہ خود پر واجب ہے اور بچے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔

(۱۹۶۴)اگر کوئی شخص کسی کے ہاں کھانا کھاتا ہو اور غروب سے پہلے کسی دوسرے کے ہاں کھانا کھانے والا ہوجائے تو اس کافطرہ اسی شخص پر واجب ہے جس کے ہاں وہ کھانا کھانے والابن جائے۔مثلاً اگر عورت غروب سے پہلے شوہر کے گھر چلی جائے توضروری ہے کہ شوہر اس کا فطرہ دے۔

(۱۹۶۵)جس شخص کا فطرہ کسی دوسرے شخص پر واجب ہو اس پر اپنا فطر ہ دینا واجب نہیں ہے۔لیکن اگر وہ اس کا فطرہ نہ دے یا نہ دے سکتا ہو تو احتیاط کی بنا پر خود اس شخص پر واجب ہے کہ مسئلہ ۱۹۵۲میں ذکر شدہ شرائط اگر اس میں موجود ہوں توخود اپنا فطرہ دے۔

(۱۹۶۶)جس شخص کا فطرہ کسی دوسرے شخص پر واجب ہو،اگر وہ خود اپنا فطرہ دے دے تو جس شخص پر اس کا فطرہ واجب ہو اس پر سے اس کی ادائیگی کاوجوب ساقط نہیں ہوتا۔

(۱۹۶۷)غیر سید،کسی سید کو فطرہ نہیں دے سکتا حتیٰ کہ اگر سید اس کے ہاں کھانا کھاتا ہو تب بھی اس کا فطرہ وہ کسی دوسرے سید کو نہیں دے سکتا۔

(۱۹۶۸)جو بچہ ماں یا دایہ کادودھ پیتا ہو اس کافطرہ اس شخص پر واجب ہے جو ماں یا دایہ کے اخراجات برداشت کرتا ہو،لیکن اگر ماں یا دایہ اپنا خرچہ بچے کے مال سے پورا کرتی ہو توبچے کا فطرہ کسی پر واجب نہیں۔

(۱۹۶۹)انسان اگرچہ اپنے اہل و عیال کا خرچ حرام مال سے دیتا ہو ،ضروری ہے کہ ان کا فطرہ حلال مال سے دے۔

(۱۹۷۰)اگر انسان کسی شخص کو اجرت پر رکھے جیسے مستری،بڑھئی یا خدمتگار اور اس کاخرچ اس طرح دے کہ وہ اس کا کھاناکھانے والوں میں شمار ہو توضروری ہے کہ اس کا فطرہ بھی دے۔لیکن اگر اسے صرف کام کی مزدوری دے تو اس(اجیر)کا فطرہ ادا کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔

(۱۹۷۱)اگرکوئی شخص عیدا لفطرکی رات غروب سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کا اور اس کے اہل وعیال کا فطرہ اس کے مال سے دیا جاناضروری نہیں۔لیکن اگر غروب کے بعد فوت ہو تو علماء میں مشہور یہ ہے کہ اس کا اور اس کے اہل وعیال کا فطرہ اس کے مال سے دیا جائے۔لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں اوراحتیاط کے تقاضوں کو ترک نہ کیا جائے۔