اے زبردست قوتوں والے اے سخت گرفت کرنے والے
اے غالب اے غالب اے غالب تیری بڑائی کے آگے
تیری ساری |
|
یَا
شَدِیدَ الْقُویٰ وَیَا شَدِیدَ الْمِحالِ یَا عَزِیزُ
یَا عَزِیزُ یَا عَزِیزُ ذَ لَّتْ بِعَظَمَتِکَ
جَمِیعُ خَلْقِکَ |
مخلوق
پست ہے پس اپنی مخلوق کے شر سے بچائے رکھ اے احسان
والے اے نیکی والے اے نعمت والے اے فضل والیاے کہ نہیں
کوئی معبود سوائے تیرے |
|
فَاکْفِنِی شَرَّ خَلْقِکَ، یَا مُحْسِنُ یَا
مُجْمِلُ یَا مُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ یَا لاَ
إِلہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی |
تو
پاک تر ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہوں پس ہم نے اسکی
دعا قبول کی اور اسے نجات دے دی اور ہم مومنوں کو اسی
طرح نجات دیتے ہیں خدا |
|
کُنْتُ
مِنَ الظَّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنا لَہُ وَنَجَّیْناہُ
مِنَ الْغَمِّ وَکَذلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ،
وَصَلَّی اللهُ |
محمد
اور ان کی آل(ع)
پر رحمت نازل کرے جو پاک و پاکیزہ ہیں ۔ |
|
عَلی
مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ ۔ |
سید نے اس مہینے کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک دعا بھی
نقل کی ہے
۳۷ھ
میں اس دن امیرالمؤمنین(ع) اور معاویہ کے درمیان جنگ
صفین لڑی گئی ،ایک قول کے مطابق
۶۱
ھ میں،اس دن امام حسین(ع) کا سر مبارک دمشق پہنچایا
گیا جس سے بنی امیہ کو خوشی ہوئی اور انہوں نے عید
منائی یہی وجہ ہے کہ اس روز رنج و غم تازہ ہو جاتا ہے
،اس دن عراق کے مومنین کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوتی
ہے اور شام میں بنی امیہ اس کو عید قرار دے رہے ہوتے
ہیں اس دن یا ایک قول کے مطابق
۱۲۱ھ
میں تیسری صفر کے دن امام زین العابدین (ع)کے فرزند
زید کو شہید کیا گیا ۔
سید ابن طاؤس ہمارے علماء کی کتابوں سے
نقل کرتے ہیں کہ اس دن دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے اس
کی پہلی رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سورۃ انا فتحنا
اور دوسری رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سورۃ توحید پڑھے
پھر سو مرتبہ صلوات پڑھے اور سو مرتبہ کہے :
اے اللہ!
آل ابو سفیان پر پھٹکار بھیج ۔ |
|
اَللَّھُمَّ الْعَنْ آَلَ اَبِیْ سُفْیَانَ۔ |
اس
کے بعد سو مرتبہ استغفار کرے اور اپنی حاجات طلب کرے ۔
شہید اور کفعمی کے قول کے مطابق
۷
صفر
۱۲۸ھء
کو مکہ مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر حضرت امام
موسیٰ کاظم (ع)کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
یہ امام حسین(ع) کے
چہلم کا دن ہے، بقول شیخین، امام حسین (ع)کے اہل حرم
نے اسی دن شام سے مدینہ کی طرف مراجعت کی، اسی دن جابر
بن عبداللہ انصاری حضرت امام حسین(ع) کی زیارت کیلئے
کربلا معلی پہنچے اور یہ بزرگ حضرت امام حسین(ع) کے
اولین زائر ہیں، آج کے دن حضرت امام حسین(ع) کی زیارت
کرنا مستحب ہے، حضرت امام حسن عسکری (ع) سے روایت ہوئی
ہے کہ مومن کی پانچ علامتیں ہیں:
(۱)رات
دن میں اکاون رکعت نماز فریضہ و نافلہ ادا کرنا
(۲)زیارت
اربعین پڑھنا
(۳)دائیں
ہاتھ میں انگوٹھی پہننا
(۴)سجدے
میں پیشانی خاک پر رکھنا،
(۵)اور
نماز میں بہ آواز بلند
بِسْمِ اللهِ الرَحْمنِ الرَحیمْ
پڑھنا، نیز شیخ نے تہذیب او ر مصباح میں اس دن کی
مخصوص زیارت حضرت امام جعفر صادق (ع)سے نقل کی ہے جسے
ہم انشاء اللہ باب زیارات میں درج کریں گے ۔
۱۱
ھ
۲۸
صفر سوموار کے دن رسول اکرم ﷺکی وفات ہوئی ،جبکہ آپ کی
عمر شریف تریسٹھ
۶۳
سال تھی ۔چالیس سال کی عمر میں آپ تبلیغ رسالت کیلئے
مبعوث ہوئے ،اس کے بعد تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں
لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتے رہے ترپن برس کی عمر
میں آپ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت
فرمائی اور پھر ان کے دس سال بعد آپ نے اس دنیاء فانی
سے رحلت فرمائی امیرالمؤمنین(ع) نے بنفس نفیس آپ کو
غسل و کفن دیا حنوط کیا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھی پھر
دوسرے لوگوں نے بغیر کسی امام کے گروہ در گروہ آپ کا
جنازہ پڑھا، بعد میں امیرالمؤمنین(ع) نے آنحضرت ﷺکو
اسی حجرے میں دفن کیا، جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی
۔انس ابن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے دفن کے
بعد جناب سیدہ (سلام اللہ علیھا) میرے قریب آئیں اور
فرمایا اے انس ! تمہارے دلوں نے یہ کس طرح گوارا کیا
کہ آنحضرت کے جسد مبارک پر مٹی ڈالی جائے ۔پھر آپ نے
روتے ہوئے فرمایا
یٰا
اَبَتَاہُ اَجٰابَ رَبّاً دَعٰاہُ یَا
اَبَتَاہُ مِنْ رَبِہِ مَا اَدْنٰاہُ
بابا جان
نے رب کی آواز پر لبیک کہا
بابا جان
آپ اپنے رب کے کتنے قریب
ہیں
ایک معتبر روایت کے مطابق بی بی (سلام
اللہ علیھا) نے آنحضرت کی قبر مبارک کی تھوڑی سی مٹی
لے کر آنکھوں سے لگائی اور فرمایا:
مَاذا
عَلَی الْمُشْتَمِّ تُرْبَةَ أَحْمَدٍ
أَنْ لاَ یَشَمَّ مَدَی الزَّمانِ غَوالِیا
جو احمد مجتبی کی تربت
کی خوشبو سونگھے وہ تا زندگی
دوسری خوشبو نہ سونگھے گا
صُبَّتْ
عَلَیَّ مَصائِبٌ لَوْ أَنَّھا صُبَّتْ
عَلَی الْاَیّامِ صِرْنَ لَیالِیا
مجھ پر
وہ مصیبتیں پڑی ہیں اگر وہ
دنوں پر
آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے
شیخ یوسف شامی نے درالنظیم میں نقل
کیا ہے کہ جناب سیدہ (سلام اللہ علیھا)نے اپنے والد
بزرگوار پر یہ مرثیہ پڑھا :
قُلْ
لِلْمُغَیِّبِ تَحْتَ أَطْباقِ الثَّریٰ إِنْ کُنْتَ
تَسْمَعُ صَرْخَتِی وَنِدائِیا صُبَّتْ عَلَیَّ
مَصائِبٌ لَوْ أَنَّھا
خاک
پردوں میں غائب ہونے والے سے کہو
اگر تو میری فریاد اور پکار سن رہا ہے
مجھ
پر وہ مصیبتیں پڑی ہیں کہ اگر وہ
صُبَّتْ عَلَی الْاََیَّامِ صِرْنَ
لَیالِیا قَدْکُنْتُ ذاتَ حِمیً
بِظِلِّ مُحَمَّدٍ لاَأَخْشَی مِنْ
ضَیْمٍ وَکانَ حِمیً لِیا
دنوں پر
آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے
میں محمد کی حمایت کے سائے میں تھی
مجھے کسی کے ظلم کا ڈر نہ تھا ان کی پناہ میں
فَالْیَوْمَ أَخْضَعُ لِلذَّلِیلِ وَأَتَّقِی
ضَیْمِی وَأَدْفَعُ ظالِمِی
بِرِدائِیا فَإِذا بَکَتْ قُمْرِیَّةٌ فِی لَیْلِھا
لیکن آج
پست لوگوں کے سامنے حاضر ہوں
ظلم کا خوف ہے اپنی چادر سے ظالم کو ہٹاتی ہوں
رات کی تاریکی میں جب قمری شاخ پر روئے
شَجَناً
عَلی غُصْنٍ بَکَیْتُ صَباحِیا فَلَاَجْعَلَنَّ
الْحُزْنَ بَعْدَکَ مُؤنِسِی وَلَاَجْعَلَنَّ
الدَّمْعَ فِیکَ وِشاحِیا
میں شاخ
پر صبح کے وقت روتی ہوں
بابا آپ
کے بعد میں نے غم کو اپنا ہمدم بنا لیا
آپ کے غم میں اشکوں کے ہار پروتی ہوں
شہید اور کفعمی کے بقول
۵۰ھ
میں اٹھائیسویں صفر کو امام حسن(ع) کی شہادت ہوئی جبکہ
جعدہ بنت اشعث نے معاویہ کے اشارے پر آپ کو زہر دیا
تھا ۔
شیخ طبرسی وابن اثیر کے بقول
۲۰۳ھ
میں اسی دن امام علی رضا (ع)کی شہادت اس زہر سے ہوئی
جو آپ کو انگور میں دیا گیا ۔جب کہ آپ کی عمر
۵۵
برس تھی آپ کا روضہ مبارک سناباد نامی بستی میں حمید
بن قحطبہ کے مکان میں ہے ،جو طوس کا علاقہ ہے اب وہ
مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے جہاں لاکھوں افراد زیارت
کو آتے ہیں ،ہارون الرشید عباسی کی قبر بھی وہیں ہے ۔
|